donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Seemiyaye Sukhan


سیمیائے سُخن


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


کائناتِ علم و ادب کا ایک ستارہ، بزم گلشن کے ہزاروں غنچوں میں ایک منفرد مہکتا ہوا انوکھا پھول ،جس کی خوشبو ہر کس و ناکس کو اپنا گرویدہ بنالیتی ہے۔ سنجیدگی و سادگی کا ایک طلسمی مجسمہ، سنگلاخ وادیوں میں پھوٹتا ہوا ایک علم کا چشمہ جس سے ادبی روح سیراب ہوتی ہے، اے لوح و قلم کے فدوی، اے ماہتابِ اردو ادب، اے اقبال خسروؔ قادری تجھے اردو زبان جھُک کر سلام کرتی ہے کہ تو نے فکر و فن کے دریا میں علم و ہنر کی کشتی بہا کر اپنے بادباں کے اشارے سے یہ ثابت کردیا ہے کہ اردو کے مستقبل سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔

استادِ فن، ماہر سخن، تاج دارِ دکن ڈاکٹر ساغرؔ جیدی اپنی تاثراتی نظم میں یوں رقم طراز ہیں ’’نبراس اردو کی لو لرزیدہ ہے گل نہیں ہوئی‘‘ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اپنے شاگرد ِ خاص کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے خسروؔ کے فن سے بے انتہا خوش ہوئے ہیں۔

جناب اقبال خسروؔ نے اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں عصرِ حاضر کے اردو ادب پر جو برا وقت گزر رہا ہے ،اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصلحت پرستوں میں نہ سچ کو برداشت کرنے کی قوت ہے ، نہ جھوٹ کو ہضم کرنے کی صلاحیت اور کنایتاً یہ کہا ہے کہ ’’زمین سچ کے لہو میں نہا نہا گئی‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سچائی کو بے تحاشہ قتل کیا جارہا ہے اور اس کے لہوسے زمین تر ہوچکی ہے اور آگے فرمایا کہ ’’کلام کرو! تاکہ پہچانے جائو‘‘ فارسی کا ایک شعر ہے، ’’تامردِ سخن نگفتہ باشد، عیب و ہنرش نہفتہ باشد‘ ‘سے اعتراف کرتے ہوئے اپنے دل کو اطمنان دلاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’نگاہِ انصاف دو چار محاسن کی نشاندہی تو کرے گی‘‘۔

’’حمد و مناجات‘‘ سے اپنے سخن کے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ کائنات کے ذرے ذرے سے خدا کی خدائی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے وجود کی کمتری کو حکمت کی دہلیز تک رسائی حاصل کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ نعتِ رسول پاکؐ میں آقا کی تعریف میں مگن اقبال خسروؔ رحمتِ ذوالمنن سے امید رکھتے ہیں کہ خسرو پر ان کی نظرِ خاص ضرور رہے گی، کیوں کہ ’’قسیم کوثر بہت سخی ہے‘‘۔  بعد ازیں اچھی تجویز(صوابدید) کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے انسانوں کو نیک صلاح دیتے ہو ئے کہتے ہیں کہ گناہوں سے استغفار کرتے ہوئے رب کی یاد میں رونے والوں کے آنسو قطرۂ نیساں کے مانند ہے، جنت و جہنم انسان کے اعمال پر منحصر ہے۔

قنوطیت کے سائے میں امید کے دئے جلانے کے ہنر سے اقبال خسرو بخوبی واقف ہیں وہ امید کے ’’نصف قطرہ‘‘ کا انتظار کرتے ہیں۔  ’’پائے طاوس‘‘ کے ذریعہ قاری کو یہ احساس دلایا ہے کہ کچھ لوگ بازی ہار کر بھی سب کے دلوں کو جیت لیتے ہیں اور کچھ لوگ وہ ہیں جو ظاہری طور پر کئی تمغے جیتنے کے باوجود بھی ہر کسی کی نظر سے گر جاتے ہیں۔ انگریزی عنوان ’’ایٹی کیٹ‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے شہرت عام و بقائے دوام سے اعتراف کرتے ہیں اور آدابِ مجلس کی قدر کرتے ہیں۔

نظم ’’وعید‘‘ میں اپنی غیر معمولی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے منظر نگاری کی عکاسی کی ہے ۔جو ایک شمشان فضائوں میں گونجتی ہوئی آوازوں سے ایک بوڑھا پیپل کا درخت مکالمہ کرتا نظر آتا ہے۔ جھوٹا دلاسا دینے والوں کا ’’جشنِ ارتحال‘‘ رانگ نمبر‘‘    اپنی بے پناہ مصروفیت کا چرچہ، قہوہ خانوں میں لب کشائی کرتے ہوئے بے ہودہ ’’جوکر‘‘ جھوٹے داوے داروں کا ’’واسوخت‘‘ دستخطِ لہو سے لبریز ’’محضر‘‘ حادثے کی منتظر  تماشائے شر’’بیعت‘‘ دستِ حق پرست، اپنی وارثوں پہ توقع ’’شاید‘‘ نورتنوں کی حکمتوں کا جائزہ و طنز ’’تزک اکبری‘‘ جو حواس و بے لباس کرنے والی’’ تیسری آنکھ ‘‘تصوفانہ فقیروں کا رقصِ پیہم ’’دھمال‘‘ عیش و عشرت و عیاشی میں ڈوبا ہوا ’’راج گرو‘‘ تجربۂ زیست کا ’’آخری تجربہ‘‘ شمعِ حق پرستوں سے ظلمتوں کے سیاہ چہرے کی آئینہ داری میں ’’ماہ دیجور‘‘ پاک ارادوں میں لرزیدہ’’ نیک خواہشات کے ساتھ ‘‘صفحہ عمر کے بے باک تجربوں کا فقدان ’’کتابِ مستعار‘‘  ،  پیرزن کی مجبوریوں پر مسکراتا ہوا ’’زمہریر‘‘۔

رسم دنیا کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے ’’سلوک‘‘ ،  روح کی تبدیلیوں میں گامزن ’’سیمیا‘‘ آخری خواہش سے پہلے ’’اپنی استطاعت سے زیادہ پانے کی تمنا‘‘ وقت کے بے تکی حلقوں میں پھنسا ہوا ’’دسراتھ‘‘ گداگر کے حاکمانہ فیاضی میں ’’تحفۂ درویش‘‘ الماس کے حق داروں کی طرف داری کا’’ آبگینہ‘‘’’ مرگِ آسا‘‘ کی منتظر میں ایک لاغر روح، کل، آج اور کل کا تسلسل لئے ہوئے ’’میراث‘‘ کی امیدیںبڑھتی اور گھٹتی ہوئی انسانی تہذیب و تمدن کا ’’تجزیہ‘‘ تاریک ظلمتوں میں اپنے حوصلوں کے دئیے جلانے کا عمل ’’گرو دکشنا‘‘ سَحَر کی سِحر سے سِحر کی سَحَر تک نصیحت آموز باتیں ، راز فانی و باقی کی ’’شناخت‘‘ دنیا کی رشتہ دار سے بے ثباتی کا ’’نوحہ‘‘ شاہانہ گھر، گرہستی کا نفسیاتی منظرجس بزدلی و حوصلہ کے درمیان ایک ادھوراآدمی جدائی کی فریاد کرتاہوا ’’بانگ رحیل‘‘ وقت کے ساتھ بدلتی ہوئی بصارتوں کا ’’ارتقا‘‘ انسانیت شناس ’’نباض‘‘ ،اپنے اور غیروں کی مصروفیت کا تماشہ ’’اذن عام‘‘، ’’سرراہے‘‘ اپنی اصلیت کی پہچان، اپنے ہم زاد و غارِ یار کی کمزوریوں اور مصروفیت پہ ایک ہجو یہ قصیدہ ’’درمدح شخصے‘‘۔

غرض ہر عنوان اپنے موضوع کا تاج دار اور ہر موزوں اپنے الفاظوں کا شہنشاہ، ہر ایک لفظ کناے او راستعاروں کا شاہکار منجملہ ’’سیمیا‘‘ بے کراں تفکرات و خیالات کا انمول نمونہ ثابت ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موصوف ہر مشاہدہ کی رہ گزر سے گزرنے کے بعد ہر مشاہداتی روح کو پیکرِ لفظ میں منتقل کرنے کی بے انتہا کوشش کی ہے۔ یہی وہ علمِ طلسم ہے جو ’’سیمیا‘‘ کا روپ لیکر منظر عام پر آیا ہے۔

’’سیمیا‘‘ ایک ایسا فکر و عمل کا جزیرہ ہے ،جہاں لفظوں کے سر سبز و شاداب و ادیوں میں فضائوں کی صداقت کی عکاسی کی بدولت ہر گُل وقت کی بے قرار آنسوئوں سے نہایا ہوا نظر آتا ہے۔

 

نوٹ:  اس مضمون میں نظم کے عنوانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے تبصرہ کیا گیا ہے ۔ اقبال خسرو قادری کا مجمو عہ’’ سیمیاـ‘‘پڑھے بغیر اس تبصرے کو سمجھنا مشکل ہے۔


*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 667