donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maqsood Elahie Sheikh
Title :
   POP Kahani


 پوپ کہانی

 

مقصود الٰہی شیخ

انگلینڈ۔

 

کتاب” پوپ کہانیاں” کے بعد ” شاعر” کے علاوہ ایوان اردو دہلی، ساحل لندن، ندائے ملت لاہور، تخلیق لاہور، بے باک ملیگاؤں، گلبن لکھنو، ہند سماچار جالندھر، اسباق پونے، اردو ٹائمز ممبئی اور عکاس راولپنڈی میں کہانیاں اور تبصرے چھپنے شروع ہوئے تو نظریاتی اختلاف کی وجہ سے گلبن لکھنو میں ایک بحث چل نکلی ۔ اس نئی صنف پر ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹررؤف خیر، ڈاکٹر مجیر آزاد، اور محمد بشیر مالیر کوٹلوی صاحب نے مختلف جرائد میں وقیع مضامین لکھے ۔ کچھ مضامین کتاب ” پوپ کہانیاں ” مطبوعہ لاہورمیں بھی شامل ہیں ۔ یو کے اور یورپ میں رہنے والے آزادیٔ افکار کے قائل اور حامی ہیں اس لئے کتاب میں ممتاز حسین (امریکہ) اور علی سفیان آفاقی صاحب (پاکستان) کی مختلف زاوئیے کی آرأ بھی موجود ہیں ۔ اپنی اپنی پسند ہوتی ہے مگر کبھی کبھی نئی ایجاد یا نیا خیال کسی کسی کو سخت ناگوار گزرتا ہے ۔ سب سے زیادہ دشنام جناب ڈاکٹر عظیم راہی نے گلبن لکھنو میں لکھ ڈالیں ۔ ستم بالائے ستم انہوں نے یہ انکشاف بھی کر ڈالا کہ مقصود الٰہی شیخ بھی افسانچے لکھ چکا ہے جس کا ایک افسانچہ ڈاکٹر عظیم راہی صاحب نے اپنے مطبوعہ مجموعے میں شامل کیا تھا ۔ میں خوش ہوا مگر زیادہ حیران تھا کہ مجھے اس کا علم تک نہ تھا کیونکہ مجھ سے اجازت کے بغیر، کتاب میں افسانچہ ” آخری ایکٹ ” شامل کیا گیا تھا پھر کرٹسی کا تقاضا تھا کتاب کا ایک نسخہ مجھے بھیجا جاتا مگر نہیں نہیں یہ اخلاقی روایت ہمارے یہاں رائج نہیں اور میں کم و بیش بیس سال بے خبر رہا ۔ اس انکشاف پر میں چپ رہا کہ احترام دوست مقصود تھا ۔ مجھے ” شاعر” میں ان کا مکتوب دیکھ کر گونہ مسرت ہوئی یہاں وہ افسانچے اوراس صنف کے حوالے سے ” شاعر ” کو بڑھاوا دینے اور مدیرانہ صلاحیوتوں کی تحسین کے سوا دوسری سمت یعنی پوپ کہانی کی نئی صنف کا رخ نہیں کیا ۔ میرا خیال نہیں تھا کہ اپنے یو کے، کے معروف افسانہ نگا ر جتندر بلو کے مکتوب شریف پر خلاف محاورہ تین حرف لکھوں مگر ان کو نظر ز بھی تو نہیں کیا جا سکتا ۔ بلو جی! بات افسانچہ نمبر سے شروع کرتے ہیں اور اعدا د و شمار پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاعر کے افسانچہ نمبر میں شامل پینتیس افسانچہ نگاروں (اتنا لکھنا ہی کافی تھا پر بلو کا اسٹائل ہی دوسرا ہے ) کو عورت مرد یا خواتین و حضرات نہیں نر اور مادہ کہا ۔ ممکن ہے اس طرح حیوانی جذبوں کی تسکین ہوتی ہو ۔ اس کے بعد ان کا قلم پوپ کہانی کا لفظ اگلتا ہے تو معاملہ ” مینو پاز “تک جا پہنچتا ہے ۔ ایک اونچا کہانی کار الفاظ کے انتخاب میں تہی دست نہیں ہوتا ۔ شاید اسٹایل کا معاملہ ہواس لئے ٹوئسٹ کر کے پوپ کو پاپا بناتے ہوئے تجویز پیش کی کہ اب مم کہانی بھی لکھنی شروع کر دی جائے ۔ آغاز میں نر مادہ کہا تو آخر میں تکنیک پاپا ماما یعنی وہی نر مادہ پر تمام کی ۔ بھائی! آپ میٹرنٹی وارڈ سے باہر تو آئیے !!۔


مئی ۲۰۱۱ میں شاعر نے افسانچہ نمبر نکالا اور اس میں پوپ کہانیاں بھی شامل تھیں لیکن اس سے بھی پہلے بعض اردو جریدوں میں پوپ کہانی کی اشاعت پر لے دے شروع ہو چکی تھی ۔ یہ تنقید مدھم اور دھیمے انداز میں جاری رہی ۔ مدیر ” شاعر ” افتخار امام صدیقی صاحب اس خصوصی شمارے مین افسانچے اور پوپ کہانی پر ادارتی رائے زنی کی مگر بات جیسے دب گئی کہ اچانک سال کے اختتامی شمارہء دسمبر میں مئی سے رکے ہوئے مکتوبات شائع ہوئے ۔ تب معلوم ہواٗ جگہ جگہ سے ” دھواں سا اٹھتا ہے” ایک بڑے افسانہ نگار محمد بشیر مالیرکوٹلوی نے ذرا ہٹ کر سوال اٹھایا کہ شاعر نے اپنا شمارہ افسانے کے لئے مختص کیا تو افسانچے کے خد و خال افسانے کی تکنیک افسانچہ کو کیوں مقبولیت حاصل نہیں ہو رہی ان موضوعات پر مضمون ہونا چاہیئے تھا ۔ ڈاکٹر عظیم راہی افسانچہ اپنی طبعی عمر پچاس سال ( گلبن ) کو پہنچ چکا اب اس کی جگہ پوپ کہانی آ گئی ہے ۔ بشیر مالیر کوٹلوی نے اپنے مکتوب میں اس کا تذکرہ اس لئے نہیں کیا کہ وہ ایک طول طویل دفاعی مضمون لکھ چکے ہیں مگر سیانے ہیں اس لئے پوپ کہانی کی مخالفت کی نہ موافقت ، جناب کوثر صدیقی صاحب ان سے بھی سیانے ہیں انہوں نے سلیقے سے گالی دی اور مقصود الٰہی شیخ کو اس ایجاد نو کو کلیم کر لینے پر مہذب انداز میں لتاڑا ۔ بھائی میں (مقصود ) تو انکسار بھرا بندہ ہوں کبھی تعٰلی و تکبر نہیں دکھایا اگر نئی صنف کا کمپٗین چلاتے ہوئے معمولی انداز میں بغیر کسی گھن گرج کے یہ نشان دہی کر دی کہ پوپ کہانی کیسے شروع ہوئی تو یہ ذکر آنا لازم تھا کس نے پہلی پوپ کہانی لکھی ۔ یہ کلمہء ابتر و خراب ہے تو سر تسلیم خم ہے ۔ آپ اب اس جانب آئیے اور پوپ کہانی لکھئے اور سہرا اپنے سر باندھ لیجئے ۔ آواز اونچی کر جاؤں تو قلم برادری سے باہر کر دیجئے گا ۔ یہ کام تو شعراء کو ہی سجتا ہے کہ وہ توارد اور تصرف پر بھی دعوٰی داری کریں ۔

اس تمہید کے بعد،

پوپ کہانی کیا ہے؟ جب یہ سوال مجھ سے نئی صنف متعارف کرانے والے کی حیثیت سے پوچھا جاتا ہے میرا جواب کسی قاعدے قواعد کا مرہون منت نہیں ہوتا ۔ میں کبھی کچھ کبھی کچھ کہہ دیتا ہوں ۔ یہ شاعری نہیں کہ عروض، بحور اور وزن یا قوافی و ردیف کا پیمانہ مقرر کرنے کا سوچا جاتا ! ؎ ۔
پر مجھے گفتگوعوام سے ہے ۔

اس لئے میں بےتکلف، بغیر تکلف یا بلا تکلف، پیمانے کا خیال رکھے بغیر،۔ آمد پر پوپ کہانی لکھ لیتا ہوں کہ مجھے تو عوام سے گفتگو کرنی ہے ۔

حال ہی میں اردو کے جانے مانے دانشورجناب ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی نے بڑے ہی سلیس، آسان مقالے میں بڑے دلچسپ پیرائے میں بعنوان ” زبان اور استعاراتی زبان ” جو کچھ لکھا ہے اس سے مجھے حوصلہ ملا کہ میں کوئی خلاف قاعدہ و اصول فعل کا مرتکب نہیں ہو ریا ہوں ۔ پوپ کہانی لکھ رہا ہوں جو معمر اور بزرگوں کے بجائے نوجوانوں کی سمجھ اور پسند سے ماوراء نہیں ہے ۔ یہاں دو پوپ کہانیوں ( مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں اور ندیدے لڑکے) کا حوالہ مناسب رہے گا جن کو نوجوان یونیورسٹی کے طلباء موبائیل پر ایس ایم ایس وغیرہ کے ذریعے ایک دوسرے کو بھیجتے اور محظوظ ہوتے ہیں ۔۔۔ بات کو جوڑتے ہوئے، فاروقی صاحب کے مقالے سے اخذ کرتا ہوں :۔

بہرحال، زبان کے بارے میں پہلا اصول یہ ہے کہ وہ کسی منطقی قاعدے کی پابند نہیں ۔ سماع کی پابند ہے اور سماع غیر منطقی بھی ہو سکتا ہے بلکہ اکثر ہوتا بھی ہے ۔ زبان کے بارے میں دوسرا قاعدہ یہ ہے کہ اس میں بہت سی باتیں منطقی اصول یا عقلی دلیل کی پابند بھی ہو سکتی ہیں ۔ایسے منطقی اصول کو یا عقلی دلیل کو قیاس کہتے ہیں لیکن قیاس کو سماع پر فوقیت نہیں ۔ قیاس اسی حد تک معتبر ہے جس حد تک وہ سماع کے خلاف نہ ہو ۔ ( نئی کتاب ۱۷ اپریل ۔ جون ۲۰۱۱ صفحہ ۱۰ )

یہاں یہ بھی واضح کر دیا جائے کہ سماع لوگوں کو بولتے ہوئے سنا جانے کو کہتے ہیں اور یہ کسی قاعدے کی پابند نہیں، قیاس منطقی اصول یا دلیل کو کہتے ہیں لیکن ماہر لسانیات کے مطابق قیاس سماع پر فوقیت نہیں رکھتا ۔ اس لئے نئے رجحانات پرنگاہ رکھنی لازم ہے ۔

میری کوشش ہوتی ہے علامت اور تجرید کی بھول بھلیوں سے دور رہ کرعام فہم اشاروں میں کوئی مقصد اور سوچ پیدا کرنے والی بات قاری تک پہنچا دوں ۔ میں بلا مبالغہ مشاہدے کے ساتھ سماع سے متاثر و متحرک یعنی انسپائر ہوتا ہے ۔

اردو کے ادبی پرچوں، ماسوا دو ایک، کئی نے ” پوپ کہانی ” کی اشاعت سے پرہیز کیا بلکہ مزاحمت کی ۔ بعض افسانچہ نگاروں نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے مخالفت کی جیسے یہ خطرہء ایمان ہو۔ میرا کام الجھنا نہیں اس لئےلکھتا رہا اور چھپتا رہا ۔ اس میدان میں کئی دوسرے قلمکار مثلا” صفیہ صدیقی، ڈاکٹر مشتاق عمران (یو کے) ۔ جاوید اختر پاشا (امریکہ) ۔ ڈاکٹر مجیر آزاد (ہندوستان) ۔ احمد صفی (پاکستان) بھی اس میدان میں اتر آئے ۔ پرانے بالغ نظر، پختہ عمر افسانہ نگار اور ادبی رسالوں کے معمر مدیر عمق میں جانا ہی نہیں چاہتے ۔ اردو ادبی رسالوں پر نظر ڈالو تو زیادہ تر لگتا ہے پتھر کے زمانے سے باہر نہیں نکلے ۔ وہی سوچ اور وہی اوزار ہیں ۔ کوئی جدت نہیں، نیا پن نہیں ۔ یہ سب کچھ نئی پود کو اردوادب کا رخ کرنے سے باز رکھتا ہے ۔ متبرک ( با الحاظ عمر) مدیران کرام مجبورا” کمپئوٹر کمپوزنگ تو کرانے لگے مگر گیٹ اپ اور پیش کش بدستور دقیانوسی ہے ۔ ان پرچوں میں لکھنے والے اکثرنہیں متعدد وہی لیکچرر اور پروفیسر حضرات ہوتے ہیں جنہوں نے اردو بولنے والوں کے نئے جہان میں جھانکنے کی کوشش سے ہمیشہ گریز کیا ہے ۔ ان کو اپنے زمانے کی محبتیں اور عشق عاشقی کی ڈگریا سے ہٹنانا مشکل ترین امر ہے ۔ آج کل جوانوں کے جذبات اور دستور کیا ہیں ان کو کیا معلوم ؟ وہی انگریز کے زمانے کے تتبع میں کلاس میں دئیے گئے لیکچر کو نیا دوپٹہ پہنا کر مقالات تیار کر لئے اور پھپھوندی لگے پرچوں مین اشاعت سے مطمئن ہو گئے ۔ مانتا ہوں پروفیشنل ٹچ ہوتا ہے مگرڈرائنگ روم سے اٹھ کر کلاس میں گئے اور اپنی کہنہ مشقی کے صدقے شاگردوں کو مرعوب کر کے چلے آئے ۔ ان کو زمانے کی تبدیلیوں سے کوئی مطلب نہیں، تدریسی تجربہ ہی ان کی متاع ہے ۔ بالخصوص نائن الیون کے بعد ہمارے ارد گرد ہزاروں طرح کی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں ۔ ان کے یہاں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں گزرا ۔ نئی ایجادات اور تفکر سے کوسوں دور ہیں ۔ کمپوئٹر اور ای میل کی تربیت لینے سے خوف زدہ ہیں ۔ پتھر کے زمانے کے ریت روایت سامنے رکھ کر اپنے رسالے نکالتے ہیں ۔ جدید نہیں قدیم عنوانات ۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ نہیں خانے مقرر ہیں جو آیا اسے خانہ بخانہ بغیر تصدیق و ادارت (تنقیح) پریس کے حوالے کر دیا ۔ یہ رویہ پرانا ہے چنانچہ بڑے بڑوں کو ڈائجسٹوں نے پچھاڑ دیا مگر ہمارے بزرگ مدیران کرام معیار کا رونا روتے رہے اور ہر گز تسلیم نہ کیا کہ وقت کی نبض و رفتاریکسر بدل چکی ہے ۔ اتنا تو سوچنا چاہیئے تھا کہ ڈائجسٹوں کی تعداد اشاعت دن بدن فزوں ہو رہی ہے اور پرانے جریدوں کا حلقہ سمٹ اور گھٹ رہا ہے ۔ کیوں نہیں سمجھا کہ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں! نتیجتہ” اشاعت کے ساتھ ساتھ روز بروز حلقہء تریر و نگارش سمٹتا گیا ، ہر رسالہ آنےپر فہرست اورمکتوبات بنام ایڈیٹر بغور ملاحظہ کیجئے، ہر بھر کر وہی نام جو پہلے تھے اب بھی ہیں ۔ اس کارن کئی نامی پرچے بند بھی ہوئے ۔ ایک بڑے ادیب نے لکھا کہ انہوں نے سخت کوششوں سے افسانچہ کی حیثیت منوائی ۔ اس میں انہیں پچاس سال لگے ۔ کیا اب ” پوپ کہانی ” کے تسلیم کئے جانے کے لئے بھی پچاس سال درکار ہوں گے؟ کیا عجب اور غضب زاویہء تفکر ہے!!۔

میرے نزدیک موجودہ سماجی شب و روز ہی وہ حقیقت ہیں جن سے ایک محنت کش اور متوسط گھرانے کا پالا پڑتا ہے ۔ ان جگہوں میں ہر پل، وقت نئی کروٹ لیتا اورغریبوں کو نت نئےامتحان سے گزارتا ہے ۔ سیاست نے ایسی بد حالی پھیلائی ہے، کرپشن نے پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ قدریں الٹ پلٹ کرچور ہوتی چلی جا رہی ہیں ۔ ہر طرف نفسا نفسی ہے ۔ اسی روزمرہ سے میرے تاثرات کو ابھار ملتا ہے اور ” پوپ کہانی ” تخلیق ہوتی ہے ۔ جہاں تک ایجاد من ” پوپ کہانی ” کا تعلق ہے، میں کسی بحث میں پڑنا یا کسی کو پچھاڑنا نہیں چاہتا مگرایک دن پوپ کہانی نئی تبدیلیوں کے پروں پر ضدی اوردقیانوسی پیمانوں سے اوپر اٹھ جائے گی اور ہرقسم وضاحتوں سے پیچھا چھٹ جائے گا کہ ” پوپ کہانی ” کیا ہے؟ ۔

کبھی سوچا نہ تھا یہ نئی ادبی صنف جو افسانے اور افسانچے سے الگ ہے اس کی ہیئت، تکنیئک ۔۔۔۔ ساخت، پلاٹ، کلائمکس اور انت و انجام کی صورت کیا ہونی چاہئے ۔ اس میں تحیر یا چونکاہٹ کیسے بھری جائے؟ ان باتوں کا پوپ سے کیا سروکار؟ جب سماجی اور عوامی واقعات / مسائل آنکھ کے دیکھتے ہی دل میں گداز و تحرک پیدا ہو جانے پر قلم فی الفور الفاظ کا جامہ پہنا دیتا ہے یعنی جو حساسیت ہے وہی پوپ ہے ۔ اسی لئے اس کی زبان زیادہ تر علمی و ادبی نہیں عوامی ہوتی ہے ۔ اسی قسم سوالات کی تابڑ توڑ اور بوچھاڑکے پیش نظر مختصر مختصر عذر نگارش پیش کررہا ہوں ۔ حالانکہ پوپ کہانی کا یہ تقاضا نہیں لیکن قدامت پسندوں کو قائل کر کے نئی روسے آشنا کران بھی ایک فرض ہے ۔ شاید کہ دل میں اتر جائے مری بات!! اس قصے کو طول دینے کے بجائے، تجویز کروں گا بہت سا مواد میری کتاب ” پوپ کہانیاں ” (مطبوعہ ۔ جنوری / فروری ۲۰۱۱ ) میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ میرے علاوہ اس میں دیگر قلمکاروں کے افکار دل نشین و دل پذیر بھی شامل ہیں ۔

پوپ کہانی کا آغاز

یہ نومبر ۱۹۹۹ کی بات ہے ، چلتے چلتے، فی البدیہہ (لائیوو) انٹر ویو ہورہا ہے ۔ ایک اخباری رپورٹر مجھ سے سوال کرتا ہے ” ۲۱ ویں صدی فکشن کی صدی ہو گی یا شاعری کی؟ ” میرے ذہن میں تھا جناب احمد ندیم قاسمی (مرحوم) نے ۲۱ویں صدی کو نظم اور شاعری کی صدی قرار دیا ہے ۔ میں تمام عمر قاسمی صاحب کا ایک ادنٰی مداح رہا ہوں ۔ میرے نزدیک احمد ندیم قاسمی صاحب ایک عظیم ادبی شخصیت ہیں ۔ ان کے پیروں میں بیٹھ کر مجھے حیرانی ہو رہی ہے انہوں نے فکشن کو کیوں اور کیسے فراموش کر دیا ۔ آنے والی صدی حقائق کو سامنے لائے گی ۔ ذوق شعری و شعر گوئی کم ہو گا ۔ کمیونی کیشن کو اہمیت ملے گی ۔ لوگ سادگی و سلاست کی وجہ سے نثر (فکشن) کواہمیت دیں گے ۔ موسیقی کا حال آپ نے دیکھا، بدلتے ہوئے رجحانات نے پوپ میوزک کو رواج دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جواب کے ضمن میں یہ سوال کیا گیا ۔ ” اس کا مطلب ہے پاپ افسانے بھی لکھے جائیں گے” ؟ اب بات کا رخ بدل گیا ۔ ” وقت پاپ افسانے بھی لکھوائے گا ” ۔۔۔۔اور… ” آپ لکھیں گے ؟ “

جواب تھا ” اگر میری مقصدیت مجھے بے قرار کر کے اس راہ کی طرف لے گئی تو ضرور لکھوں گا ” ۔۔۔۔۔

مجھے اپنے بارے میں کوئی مغالطہ نہیں ۔ سوال جواب ہوئے اور قصہ ختم ہو گیا ۔ رات گئی بات گئی۔؎

ہم کہاں کے دانا ہیں کس ہنر میں یکتا تھے !

ساٹھ کےدہے میں جو امیگرنٹس آئے تھے، نئے ہزارے میں ان کی اولادیں جوان ہو چکی تھیں اور انہوں نے ولایت کی بہت سی باتوں / رواجوں کو اپنا لیا تھا ۔ کچھ اچھی باتیں بھی سیکھی تھیں ان میں ایک یہ تھی کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے دہرے معیار سے قطعی پاک تھے اور سچ بول دیتے تھے لیکن پرانے تارکین وطن کے دل بہت سے طور طریقوں پر نالاں تھے اور کڑھتے تھے چنانچہ جو بات افسانے یا افسانچے میں نہ کہہ سکا وہ پہلی اردو پوپ کہانی:۔

تم نے ،

مجھ سے،

جھوٹ کیوں بولا ؟

کی شکل میں ڈھل گئی ۔ یہ پوپ کہانی ماہنامہ انشاء کلکتہ( نومبر دسمبر ۲۰۰۷ ) میں شائع ہوئی

تین سال گزر گئے ۔

اس کے بعد ۲۰۱۰ میں مجھ پر پوپ کہانیوں کی یورش ہوئی اور میری دعوت پر کئی ساتھی اس میدان میں کود پڑے ۔ یو کے سے صفیہ صدیقی اور ڈاکٹرعمران مشتاق، امریکہ سے جاوید اختر پاشا، ہندوستان سے ڈاکٹر مجیر احمد آزاد اور پاکستان سے احمد صفی ۔ یہ نام نئے اردو ادب میں اونچے ہیں ۔ ہندوستان میں کئی لوگوں نے مخالفت یا مزاحمت کی ۔ دکن سے جناب روءف خیر صاحب نے بھی کئی پوپ کہانیاں لکھیں ۔ انڈین پنجاب سے محمد بشیر مالیر کوٹلوی نے اس عنوان پر طویل مضمون میں افسانے اور افسانچے کی تاریخ دہرا دی مگر پوپ کہانی کی مخالفت کی نہ موافقت! گمان ہے اچھے سے لکھاری کے دل میں دھڑکا ہو گا، پوپ کہانئ کا دور ، زیادہ دور نہیں! پوپ کہانی دھندلاہٹ سے نکل چکی ہے، قلمکارو! ثبات چاہنے والو!! اپنے فن کو اجالو اور بھلے افسانہ لکھو،افسانچہ لکھو پر موقع محل سے پوپ کہانی بھی لکھو۔ جب ماضی پھلانگ کر، چھلانگ آج سے، آج کی پود مکالمہ ہو گا، اطمینان ملے گا، تسکیں ہو گی!

مزیر طوالت سے بچنے کے لئے یا دوسرے دوستوں کے مضامین سے اقتباسات دینے کے بجائے نیچے ایک نہیں چارمثالیں دیتا ہوں اور قارئین سے پوچھتا ہوں بتائیے یہ افسانے ہیں یا افسانچے؟ یہ افسانے، افسانچے یا منی کہانیاں ؟ نہیں ۔۔ نہیں ۔۔ ۔۔ یہ پوپ کہانیاں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ تو انہیں پوپ کہانیاں کہنے میں کیا حرج ہے؟ اب پڑھئیے اور لطف اٹھائیے ۔

سارا جہاں ہمارا۔۔۔۔۔۔۔ گلوبل ولیج

بھئی کیا ملا؟ آج آواز میں خوشی چھلکی پڑ رہی ہے ۔

میری شادی ہو گئی ہے ۔

مبارک ہو ،

یہ اچھا ہے ، آپ پی ایچ ڈی اور وہ میڈیکل ڈاکٹر ۔ خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے ” دوئیں ” ڈاکٹر !!۔

شادی کہاں ہوئی؟ اپنوں میں ؟

نہیں وہ فیصل آباد سے ہے ۔

دلہن کو لے آئے نا؟

شادی پشاور میں ہوئی ۔ وہ کینیڈا جاب پر چلی گئی اور میں ادھر یو کے میں آ گیا ۔

چلو اچھا ہے ۔تم بھی کینیڈا چلے جانا ۔ سنا ہے وہاں کے لوگ تعصب نہیں کرتے، یہاں سے اچھے رہو گے ۔

ہم نے آسٹریلیا کے لئے اپلائی کر دیا ہے ۔

(وضاحت : عام آدمی یہ سمجھ رہا ہے ۔ اب ڈرائنگ روم میں بیٹھے دانشور نہ سمجھیں تو کیا کہا جا سکتا ہے؟ دوسرے گلوبل ولیج عام فہم نکلا اگر چاروں کھونٹ ۔ دشا، سمت اور طرف وغیرہ لکھا جاتا تو عنوان غتر بود ہو جاتا )۔

کوا سیانا یا لڑکا؟

مولوی صاحب کی کلاس میں حاضری کبھی کم نہیں ہوئی ۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ بڑا دلنشین ہے ، بچے دلچسپی سے سنتے سیکھتے ہیں ۔ مولانا بیچ بیچ میں پیر پیغمبروں کے قصے سناتے ہیں تو تمام شاگرد ہمہ تن گوش بن جاتے ہیں ۔ ایک دفعہ انہوں نے غصہ کی برائی کرتے ہوئے بتایا، غصہ حد سے بڑھ جائے تو انسان قتل بھی کر دیتا ہے ۔ دنیا کے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کے بڑے بیٹے قابیل نے اپنے ہی چھوٹے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا ۔ اس سے پہلے ایسا کبھی ہوأ ہی نہ تھا ۔ اب پرابلم یہ تھی لاش کا کیا، کیا جائے؟ وہ کیا کہتے ہیں ” آوٹ آف بلیو ” ایک کوا آیا ۔ اس نے اپنی چونچ سےزمین کھود کر دفنانے کا طریقہ بتا دیا ۔

یہ سن کر ایک لڑکا کھڑا ہوأ اور پوچھنے لگا کوے کے بدلے، آخر کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا؟

مولوی صاحب کو برا لگا ، انہوں نے لڑکے کو اشارے سے بٹھا دیا اور بیان جاری رکھا اسی لئے کوے کو سیانا یعنی ہشیار، چالاک پرندہ کہا جاتا ہے ۔

لڑکا پھر کھڑا ہو گیا ۔ یہ بھی تو بتائیے، بھائی نے بھائی کو کیوں قتل کیا؟ کیا اس کے پیچھے کوئی” لوو اسٹوری ” تھی ؟ مولوی صاحب کو غصہ آ گیا ” فلم اور ٹی وی دیکھ دیکھ کر تیری مت ماری گئی ہے ” ۔ وہ اپنی چھڑی لہراتے ہوئے شاگرد کی طرف لپکے !!۔

اب میں وہ دو پوپ کہانایں دہراتا ہوں جو نوجوانوں مین مقبول ہیں اوریہ امرمصدقہ ہے کہ ای میل ٹیٹر اور ایم ایس ایم پر ایک دوسرے کو بھیجی جا رہی ہیں :۔

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

لڑکا:

سامنے بنچ پر کالے سیاہ لمبو کے ساتھ تمہاری دوست بیٹھی ہےَ نا؟

لڑکی :

ہاں وہ میری دوست ہے ۔ کیوں؟

لڑکا :

تم نے دیکھا وہ تمہاری دوست کو بری طرح چوم رہا تھا !

لڑکی :

وہ اس کا دوست ہے ۔ تم سے مطلب؟

لڑکا :

کیا تم میری دوست بنو گی ؟

ندیدے لڑکے

لڑکا:

آؤ،اچھے سے ریستوران میں چائے پیتے ہیں ۔

لڑکی :

پھر تم کہو گے،

لونگ ڈرائیو پر چلتے ہیں ۔

لونگ (لوو) لین سے گزرتے ہوئے تم کار کی اسپیڈ کم کر دو گے،

ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاؤ گے ،

تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھڑی، اندھیرے میں ڈوبی گاڑیوں کی طرف اشارہ کرو گے، متوجہ کرو گے ۔

پھر، اس حوالے سے بتاؤ گے تم نے آج تک کسی لڑکی کو ” کس ” نہیں کیا !! ۔

لڑکا:

تو تم کیا چاہتی ہو؟

بل میں ادا کروں،

تم کھاؤ پیو اور سیدھی سیدھی گھرچلی جاؤ

یہاں یہ کہہ دینا لازم ہے ہے کہ اب تک جن لوگوں کو پوپ کہانی اچھی نہیں لگی وہ ساٹھ اور ستر کے پیٹے میں ہیں ۔ اب یہ کہنے سے رہے کہ انگور کھٹے ہیں ۔ دنیا کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی تبدیلی آتی ہے، آتی رہے گی ۔ ڈرنے کے بجائے تبدیلی کو سلام کہنا چاہئے ۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 769