donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Nezamuddin
Title :
   Allama Iqbal Ka Paigham Nayi Nasal Ke Liye



محمد نظام الدین 

ریسر چ اسکالر ، شعبہ اردو ،یونیورسٹی آف دہلی ۔

 

علامہ اقبال کا پیغام نئی نسل کے نا م 

 

نوٹ)علامہ اقبال کی یوم وفات کی مناسبت سے یہ مضمون لکھا گیاہے-  21 اپریل 1938)

شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال اردووفارسی کے ایک عظیم اور آفاقی شاعر تھے۔ وہ شاعر ہی نہیں بلکہ مفکر اور فلسفی بھی تھے۔ ان کی شاعری میں جہاں فکر وفلسفہ ، دلجوئی اور دانائی کے علاوہ جدید افکار وخیالات کی فراوانی کا پتہ چلتا ہے تووہیں سیاسی ، معاشی اور معاشرتی افکار کے لیے بیان کا سلیقہ بھی نظرآتا ہے۔ اسی سبب انہیں حکیم الامت، ترجما ن حقیقت ، شاعر انسانیت اور پیغامبر شاعر کہا جا تا ہے۔ علامہ اقبال کے کلا م میں فلسفے کے ساتھ ساتھ فن شاعری کے تما م خوبیاں موجود ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کو کبھی خشک اور بے رنگ ہونے نہیں دیا ۔ نا در تشبیہات و استعارات اور صنائع وبدائع کے استعمال میں کمال فن کا ثبو ت دیا ہے۔ علا مہ اقبال نے جتنی تراکیب استعمال کی ہیں اس کی مثال کسی اور اردوشاعر کے یہاں کم ملتی ہے۔ اگر یہ کہا جا ئے تو غلط نہ ہو گا کہ علامہ اقبال نے ماضی کے حا لات کا مطالعہ کر کے حا ل کے تقاضوںکو سمجھ کر ، روشن اور تابنا ک مستقبل کے تئیں اپنے خیا لات و افکار کابحسن خوبی اظہا رکیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مکتب فکر وخیال کے حا مل افراد کی دلبستگی کا سا مان کلام اقبال میں موجود ہے۔ ہر طبقے ، ہر عقیدے اور ہر عمر کے افراد اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا تے ہیں اور اپنی علمی تشنگی کو بجھا تے ہیں۔ 


علامہ اقبال نے جس دور میں آنکھ کھو لی ، اس وقت وطن عزیز کے افق پر بر طانوی اقتدارکا سورج بڑی آب وتاب سے چمک رہا تھا ۔ اور ہندوستانی قوم جسما نی اور ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ مایوسی ، نا امیدی ، احساس کمتری ، کم ہمتی ، بزدلی اور بے یقینی کا دور دورہ تھا۔ ان نا موافق اور ناگفتہ بہ حالات کو دیکھ کر علامہ اقبال دلبرداشتہ ہو گئے اور ہندوستا نی قوم کو قعر مذلت سے نکا لنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ 

علامہ اقبال نے اپنے کلا م میں ثا بت قدمی ، حوصلہ مندی ، بلند پرو ازی، غیر ت مندی ، ریاضت ومحبت، جنو ن وجذبہ، عزم و استقلال، خودی ، فقر، عشق اور مرد مومن پر زیادہ توجہ صرف کی ہے۔ دانائے روزگار علامہ اقبال کو اس بات کا بخو بی علم تھا کہ نا سازگار حالات کو سازگار بنا نے میں مذکورہ عناصر کلیدی رول اداکر تے ہیں ۔ اور اس کام کو کر گزرنے اور انجام دینے کی صلا حیت سن رسیدہ افراد کے مقابلے نئی نسل اور نوجوان طبقہ میں زیادہ ہوتی ہے۔ اور اس میں دورائے کی کوئی بات نہیں ہے کہ نئی نسل اور نوجوان ہی کسی بھی قوم کے جو ہر اور بیش بہا سرمایہ ہو تے ہیں۔ اگر نئی نسل اور نو جوانوں میں دلیری، استقلال ، ثابت قدمی ، اولوالعزم اور عزم مصمم ہو تو وہ کسی بھی پہاڑاور چٹان سے ٹکرانے کے لیے تیارہو جا تے ہیں۔ کیونکہ ملک کی ترقی ، خوشحالی اور تابنا کی کا انحصار انہیں پر ہوتا ہے۔ لہذاعلامہ اقبال نے جہاں ایک طرف وطن ، قوم ، خودی ، عشق، فقر، اور مرد مومن کو اپنے کلام کا موضوع بنا یا ہے تو دوسری طرف اپنے فکر وفن ،امید اور آرزوئوں کا محورو مرکزنئی نسل اور نوجوانوں کو بھی بنا یا ہے۔ اور با رہا ان سے خطاب کیا ہے۔ 

کلام اقبال کے مطالعہ کے بعد ایسا اندازہ ہو تا ہے کہ نئی نسل اور نوجوان ہی علامہ کے اصل مخا طب ہیں۔ یو ں تو ان کی پوری شاعری ایک خاص مقصد اور پیغام سے لبر یز ہے۔ لیکن علامہ نے جن نظموں میں خاص طور پر نئی نسل اور نوجوانوں کو خطاب کیا ہے۔ ان میں سر فہرست ’’خطاب بہ جو انان اسلام ، ایک نوجوان کے نا م ، جا وید کے نا م ، جاوید سے ، عبدالقادر کے نا م ، صدائے غیب، بزم انجمن ، شاہین ، ذوق وشوق، پیام مشرق، مسجد قرطبہ ، ساقی نامہ ، نصیحت، دعاء ، زمانہ ، نوید صبح ، اور سلطان ٹیپوکی وصیت‘‘ وغیر ہ ہیں۔ 

علامہ اقبال نے نئی نسل اور قوم کے نوجوانوں کو بید ا کر نے ، با کمال ، با ہنر ، با کردار اور با عمل بنا نے کے لیے مر د مو ہن یا مرد کامل کا روشن تصور پیش کیاہے۔ یہ وہی تصور ہے جسے علا مہ اقبال نے مر دخدا، مر د حق، صاحب فقرواستغنا،مر د درویش، شاہین ، ابر اہیم اور کلیم کی صورت میں مختلف جہات اور مختلف حیثیتوں سے ہما رے سامنے پیش کیاہے۔ جو تمام طرح کی خوبیوں سے آراستہ وپیرا ستہ ہے۔ مثلانوجوان کا تعارف علامہ اقبال نے کچھ اس طرح پیش کیا ہے: 

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی 
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری 
اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر 
اگرہو صلح تو رعنا غزال تاتاری 
خدانے اس کو دیاہے شکوہ سلطانی 
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری 
نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو 
یہ بے کلاہ ہے ، سرمایہ کلاہ داری 

علامہ کے تصور کے مطابق وہی نئی نسل اورنوجوان کا میا بی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں جو اپنے اسلاف کی میراث کی حفاظت کر تے ہیں ۔ علامہ اقبال کو نئی نسل اور نوجوانوں سے شکایت ہے کہ انہوں نے بزرگوں اور اسلاف کے اسوہ حسنہ اور طوروطریق کو با لا ئے طاق رکھ دیا ہے۔ چنانچہ علامہ نے نوجوانوںسے خطاب کر تے ہوئے اپنے تاسف کا اظہا رکچھ یوں کیا ہے :

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پا ئی تھی 
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے ما را
حکو مت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی 
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی پیارا
مگروہ علم کے موتی ،کتابیں اپنے آبا کی 
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہو تاہے سیپارا
غنی روز سیاہ، پیر کنعاں راتماشا کن 
کہ نوردیدہ اش روشن کند چشم زلیخارا

 علامہ اقبال کے یہاں نا امیدی، محرومی ، مایوسی ، بزدلی اورکم ہمتی وغیر ہ نا م کی کوئی چیزموجود نہیں تھی بلکہ یقین محکم ، عمل پیہم، بلند حوصلگی، اولولعزمی، ثابت قدمی اور بلند پروازی کا تصور ان کے دماغ میں مو جزن تھا۔ اور یہی وہ صفات ہیں جو انسان کو اس کے منزل مقصودتک پہنچاتی ہیں۔علامہ اقبال نے با رہا اس کی تلقین کی اور نو جوانوں کو خطاب کر تے ہو ئے کہا :

ہے شباب اپنے  لہو کی آگ میں جلنے کا نا م 
سخت کو شی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں
وہی جہاں ہے تراجس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ وخشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے 
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی 
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ نا ری ہے 
ہمت ہے تو پیداکر فردوس بریں اپنا 
ما نگی ہوئی جنت سے دوزخ کا عذا ب اچھا

علامہ اقبال کے کلا م میں جو فلسفہ جلو ہ گرہے ، اس کے اہم نکا ت عشق ، خودی اور مرد مو من ہیں ۔ علامہ اقبال نے عقل کے مقابلے میں عشق کو ترجیح دی ہے۔ ان کے خیال کے مطابق علم وعقل انسان کو منزل کے قریب تو پہنچاسکتے ہیں لیکن بغیر عشق کی مدد کے منزل تک پہنچنا نا ممکن ہے۔ عشق کی پشت پنا ہی کے بغیر عقل ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی ہے ۔ عقل جہاں تذبذب اور پس وپیش کا شکار ہو تی ہے تو وہاں عشق زندگی کے کارواں کی قیادت کرتا ہے۔ علامہ اقبال اپنے صاحبزادے جاوید کے وسیلے سے نئی نسل اور نو جوانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں:

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر 
نیا زمانہ نئے صبح وشام پیداکر 
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا وجام پیدا کر 
خدااگر دل فطرت شناس دے تجھ کو 
سکوت لالہ و گل سے کلا م پیدا کر 

علامہ اقبال کے کلا م میں جگہ جگہ عمل کی تلقین ملتی ہے ۔وہ کہتے ہیں مقاصد کتنے ہی بلند کیوں نہ ہو عمل کے بغیر بے معنی ہو تے ہیں ۔ انسان کی شخصیت عمل ہی کے ذریعہ بنتی ہے ۔ نیکی کوئی خودساختہ شی نہیں ہے بلکہ عمل سے جنم لیتی ہے۔ اسی طرح زندگی کی تشکیل اور شخصیت کی تعمیر میں عشق و عمل کے ساتھ فقر واستغنا، غیرت اور خودی بھی اہم عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں اور علامہ اقبال نے انہی صفات کو اصل جو ہر قراردیاہے۔ 

مرد مومن یا انسان کا مل کی تشکیل اسی وقت ممکن ہے جب کوئی شخص علم کی زیور سے آراستہ ہو ۔دورحاضر کے تعلیمی نظام پر علامہ اقبال نے طنز کیا ہے ۔ علامہ اقبال ایسی تعلیم کے خواہاں تھے جس سے محض ما دی ترقی اور کا میا بی ہی نہیں بلکہ روحا نی قوت اور قلبی سکون حاصل ہو :

عصر حاضر ملک الموت ہے تیراجس نے 
قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش 
دل لرزتاہے حریفانہ کشا کش سے ترا
زندگی مو ت ہے کھو دیتی ہے جب ذوق خراش
فیض فطرت نے تجھے دیدہ شاہیں بخشا
جس میں رکھ دی ہے غلا می نے نگاہ خفاش 
مدرسہ نے تیری آنکھوں سے چھپایا جن کو 
خلوت و کوہ وبیاباں میں وہ اسرارہیں فاش 

علامہ اقبال نے نوجوانوں اور نئی نسل کو پیغام دینے کے لیے جن ذرائع کا یا یوں کہیئے کہ جن استعارات کا استعمال کیا ہے ان میں سے ایک سب سے اہم ذریعہ شاہین کا استعارہ ہے۔ شاہین ایک ایسا پر ندہ ہے جس میں بلند پر وازی ، دو ر اندیشی اور خوداری جیسی صفات پا ئی جا تی ہیں ۔ علامہ اقبال نے شاہین کی زبا نی نئی نسل اور نو جوانوں کو جو پیغام دیا ہے وہ کما حقہ اپنے مقصد میں کا میا ب ہیں ۔ اشعار ملاحظہ ہو:

کیامیں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نا م ہے آب و دانہ 
بیاباں کی خلو ت خوش آتی ہے مجھ کو 
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ 
ہوائے بیاباں سے ہو تی ہے کا ری  
جواں مرد کی ضربت غازیانہ 
حما م وکبوتر کا بھوکا نہیں میں 
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ 
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا 

لہوگرم رکھنے کا ہے اک بہانہ یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا 

مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ 
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں 
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ 

علامہ اقبال کا یہ پیغام جو نوجوانوں اور نئی نسل کے نا م ہے ۔اس کی اہمیت اور معنویت جتنی کل تھی اتنی آج بھی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے کلا م میں جس طرح نوجوانوں سے خطاب کیا ہے وہ بالکل دو راندیشی اور حکمت عملی سے بھر پور نصیحت آمیز خطاب ہے۔ آج کا نوجوان اور نئی نسل ان ناصحانہ کلام سے فیض حاصل کر کے اپنے حال اور مستقبل کو تابناک اور روشن بناسکتا ہے۔  
 

Md.Nizamuddin
Room No.23, Gwyer Hall, 
North Campus, University of Delhi,
110007
Mob: 9718048854
E-mail: nizamindia9@gmail.com

 

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1747