donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Sharib Zeya Rahmani
Title :
   Baseerat Online Ki Pahli Salgirah

بصیرت آن لائن کی پہلی سالگرہ ۔سدا جلتی رہے یہ شمع


محمد شارب ضیاء رحمانی


جمہوری حکومتوں میںمقننہ ،انتظامیہ اورعدلیہ کے بعدبنیادی اہمیت آزادعوامی ذرائع ابلاغ کی ہے۔ یہ ذرائع ترسیل جمہوریت کی کامیابی میں معاون ہیں۔پارلیمنٹ اورپریس دونوں ایسے مضبوط ستون ہیں کہ جن کے بغیرجمہوری عمارت کے قیام کاتصورنہیں کیاجاسکتا۔ اسی لئے میڈیاکوجمہوریت کاچوتھاستون کہاجاتاہے۔جمہوریت کے اپنے اقدارہوتے ہیںاوریہ ذمہ داری میڈیاپرعائدہوتی ہے کہ وہ ان اقدارکی صحیح ترجمانی کریں۔کسی بھی جمہوری سماج میں معلومات کے وسائل کاموجودرہناہی کافی نہیں۔اگریہ ذرائع ابلاغ کسی طرح کی غلامی کی زدمیں ہوں،سیاسی طورپرہوںیاذہنی طورپر،جمہوریت صحیح معنوں میں ثمرآورنہیں ہوسکتی۔اس میںپیہم عمل کے تمام ترمواقع محفوظ ہونے ضروری ہیں۔مطلب یہ ہواکہ عوامی معلومات اورعوامی خیالات کے اظہارکے وسیلوں کوزنجیروں سے پرے رکھ کرہی ہم صحیح جمہوری نظام کے استحکام کادعویٰ کرسکتے ہیں۔

جمہوریت میںخیالات کے اظہارکی آزادی ازحد ضروری ہے۔لیکن اس کے ذرائع کامناسب اورمحتاط استعمال ہی مفیدہے۔ذرائع ابلاغ کی آزادی کامطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ اخلاقی حدودسے آگے بڑھ جائیں۔میڈیاکی آزادی کی ضمانت کے ساتھ یہ خوش گوارامیدکی جاتی ہے کہ اس کے اہلکار ایسی آزادی کاصرف جائزاستعمال کریں گے۔ہرشہری کے آئینی حقوق ہیں۔ان پرڈاکہ نہیں ڈالاجاسکتاجن میںایک بنیادی حق حق خلوت ہے۔نجی زندگی کوپوشیدہ رکھنے کاحق ہرکسی کوحاصل ہے۔چنانچہ ایسے بنیادی انسانی حقوق میں مداخلت برداشت نہیں کی جاسکتی۔

میڈیا ایک معاشرتی ادارہ ہے۔سماج کے سبھی طبقات کاحق اس پرہے ۔صحافی کوہمعصرتاریخ نویس بتایاگیاہے ۔یہ بذات خودکسی معاشرہ کی تخلیق نہیں کرتے بلکہ وہ معاشرہ کی عکاسی کے ذمہ دارہوتے ہیں۔ملک کی سماجی اورمعاشرتی زندگی میں صحافت کی شاندارتاریخ ہے۔بلکہ سیاسی میدانوں میں بھی اس نے حکومتوں کے تختے الٹے ہیں۔الہلال ،البلاغ،ہمدرد،کامریڈ،پیسہ اورزمیندارجیسے اخبارات جن کامشن ایک تحریک تھا،نے جنگ آزادی کے موقعہ پراہم کرداراداکیاہے ۔مشہورمقولہ ہے’’جب توپ مقابل ہوتواخبارنکالو‘‘۔

ذرائع ابلاغ کوہرمعاملہ میں عصبیت سے پاک ہوناضروری ہے۔میڈیا صرف سچی خبروںا ورپاک خیالات کی ترسیل کاذریعہ ہو۔جرائم کی خبریں اس طرح ہوں کہ پڑھنے والاجرم اورمجرم دونوں سے نفرت کرنے لگے۔خبرکوعوامی میراث کہاگیاہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ خبرمیں کسی بھی طرح کی رائے شامل نہ ہو۔خبرکااپناتقدس ہے اوررائے کاعلٰحیدہ مقام ہے ۔چنانچہ انگلستان کے شہرئہ آفاق اخبار’’مانچسٹرگارجین‘‘کے مدیرسی پی اسکاٹ کایہ مقولہ انتہائی اہمیت کاحامل ہے ’’حقائق مقدس ہیں،تنقیدکی پوری آزادی ہے‘‘۔

خبرکے لئے ضروری ہے کہ وہ صداقت پرمبنی ہو۔کسی بھی خبرکی اشاعت میں کسی خاص نظریہ کی نہ حمایت کی جائے اورنہ مخالفت۔امریکہ کے مشہورصحافی جوزف پلٹزرنے کہاہے ’’ خبرکی درستگی ایسی ہی ضروری ہے جیسی کہ کسی دوشیزہ کیلئے اس کی عصمت‘‘۔یعنی کسی خبرکوتوڑمروڑکرناگویاکہ کسی کی عصمت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

لارڈنارتھ کلف نے خبرکی تعریف یوں کی ہے۔ ’’کوئی بھی غیرمعمولی واقعہ خبرہے جب کہ عام واقعہ خبرنہیں‘‘۔
جان لی بوگارڈکی رائے ہے۔

’’اگرکتاانسان کوکاٹ لے تویہ خبرنہیں، خبریہ ہے کہ انسان نے کتے کوکاٹ لیا‘‘۔
الغرض خبرکی جومختلف تعریفیں صحافت کی کتابوں میں کی گئیں اس کاخلاصہ یہی ہوا کہ وہ سچی ہو،تازہ ہو،عام دلچسپی کی ہواوراس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ تعصب اورجانبداری سے پاک ہو،اس میںاپنی رائے شامل نہ ہو۔ساتھ ہی قرب زمان اورقرب مکان کی بھی بڑی اہمیت ہے۔اس کے علاوہ خبرنگاری کی تکنیک سے بھی واقفیت ضروری ہے۔جوخبرکی اہمیت اوراس کے تقاضے کے مطابق بدلتی رہتی ہے ۔عام طورپر خبراہرام معکوس کی تکنیک میں لکھی جاتی ہے یعنی خبرکاجوحصہ جتنی اہمیت کا حامل ہے اسے سب سے پہلے بیان کیاجائے گا۔جس کے لئے چھ کاف بنیادی اہمیت رکھتے ہیں ۔مطلب یہ ہواکہ سب سے پہلے اس سوال کاجواب دیاجائے کہ ’’کیاہوا‘‘،پھریہ بتایاجائے کہ ’’کہاں ہوا،کب ہوا،کیسے ہوا،کس نے کیا،کیوں ہوا؟‘‘۔اگرکسی خبرمیں ان چھ سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں تووہ خبرمکمل کہی جائے گی۔


ان تمام مسلمہ اصول کوہم اگرسامنے رکھیں پھرعصری صحافت کاجائزہ لیں توسمجھناکوئی مشکل نہیں ہے کہ زردصحافت کی جوتعریف کی گئی ہے وہ آج کی صحافت  پرپورے طورپرمنطبق ہوتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی تین مشہور زبانوں(ہندی،انگریزی اوراردو) کے اخبارات کی جہتیں الگ الگ ہیں۔چندلفظوں میں ان کی تصویریوں کھینچی جاسکتی ہے کہ اردواخبارات مسلم جذبات سے کھیلتے ہیں اورہندی اخبارات ’’بھارت کی ترجمانی ‘‘کرتے ہیںجب کہ انگریزی اخبارات مغربیت کی۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انگریزی اخبارات اردواورہندی اخبارات کی طرح نسبتاََکم متعصب ہوتے ہیں۔

 الیکٹرانک میڈیاکی اگرہم بات کریں توہمارے ملک کے نیوزچینل ایک خاص نظریہ کے ترجمان ہیں۔خصوصاََ نئی مرکزی حکومت میں۔الیکٹرانک میڈیاسے وابستہ افرادکابیان کردہ احساس ہے کہ بی جے پی کی سرکار آنے کے بعدہمارے ایک ایک طرزعمل پرنگاہ رکھی جارہی ہے۔متعصب ذہنیت پورے طورپراس میڈیم میں سرایت کرگئی ہے۔جس سے انہیں گھٹن کااحساس ہوتاہے۔ میڈیاہائوس جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ یاتو تجارتی اصول کومطمح نظررکھتے ہیں یامخصوص ذہنیت سے وابستہ ہوتے ہیں۔دوسری طرف یہ ایک بڑاالمیہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیاکاہمارااپنا کوئی نیٹ ورک نہیں ہے۔ہمارے پاس کوئی ایساوسیلہ نہیں ہے جوہمارے مسائل مجموعی طبقہ تک پہونچاسکے۔ہم جوبات اپنے مضامین اورخبروں کے ذریعہ کہناچاہتے ہیں انہیں کون سنتاہے۔اورکون پڑھتاہے ؟۔لکھتے بھی ہم خودہی ہیں،پڑھتے بھی خودہی ہیں۔ظاہرہے کہ اردوزبان کے پڑھنے والے کتنے فیصدہیں اوراپنے اوپرہونے والے جن باتوں کوہم بیان کرناچاہتے ہیں،انہیں کون پڑھ رہاہے ۔اس لئے یہ ایک اہم ضرورت ہے کہ مسلم میڈیاہائوس کے معیاری ہندی اورانگریزی اخبارات ہوںاوراس سے بھی زیادہ یہ ضروری ہے کہ ہماراالیکٹرانک میڈیانیٹ ورک ہو،برقی ذرائع ابلاغ کے لئے کسی زبان کاپڑھاہوناکوئی ضروری نہیں ہے اوراسی لئے ان کی آج گھرگھررسائی ہے۔لہٰذا عصر ی تقاضہ ہے کہ مسلم سرمایہ کارالیکٹرانک میڈیاکی طرف رجوع کریں۔

رہی بات اردواخبارات کی ۔پہلے تووہی مسئلہ ہے کہ ہماری آوازکہاں تک جارہی ہے۔اس کے علاوہ معیار اوراعتبار دونوں لحاظ سے ہمارے موجودہ وسائل ابلاغ یعنی اخبارات و رسائل کی حالت ناگفتہ بہٰ ہے۔اخبارات کسی زبان کوسیکھنے کابہترین ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔آج بھی معروف انگریزی اخبار’’دی ہندو‘‘لوگ انگریزی زبان کوٹھیک کرنے اورسیکھنے کے لئے پڑھتے ہیں۔لیکن کیایہ المیہ نہیں ہے کہ اردواخبارات کوپڑھ کرزبان سیکھی نہیں جاسکتی ہے بلکہ خراب ہوسکتی ہے۔نہ توتذکیروتانیث کالحاظ اورنہ جملوں کی ساخت میں کسی طرح کی کوئی تمیز۔ان خرابیوں کی وسعت خبروں سے لے کراداریہ اورمضامین تک ہے ۔آپ اطمینان سے اس کااندازہ لگاسکتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ گوگل ٹرانسلیٹ کاحدسے زیادہ استفادہ اورکاپی پیسٹ کارواج عام ہے۔اس سے ہماری زبان کاتحفظ اورفروغ تودورکی بات ہے،اندازہ لگالیجئے کہ اس طرزسے زبان بگڑے گی یاقابل استفادہ ہوگی۔؟۔

معیارکی بھی بات کرلیجئے ۔ہمارے یہاںزردصحافت کااعلیٰ ترین نمونہ یہاں دیکھنے کوملے گا۔بیشتراخبارات کااپناکوئی وسیلہ نہیں ہے نہ کوئی نمائندہ جس کی وجہ سے غیرمصدقہ خبروں کی ترسیل ہوتی ہے۔دوسرو ں کے ذرائع پرہم منحصرہیں۔وہی خبریںہمارے اخبارات میں شائع ہوتی ہیںجو ہمیں انگلش یاہندی ایجنسی یاانٹرنیٹ پردستیاب ہوجاتی ہیں۔جن کاصرف ترجمہ کرناہی کافی سمجھاجاتاہے۔اس کے علاوہ جذبات سے کھیلناایک عام سامشغلہ بن گیاہے۔


کسی بھی اخبارکے اداریہ کواس کادماغ اورعطرکہاجاتاہے جس میں اعدادوشماراورحقائق کی بنیادپرعالمانہ بحث ہوتی ہے لیکن ہمارے زیادہ تراخبارات کے اداریئے کسی خبرکی بعینہ نقل ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان کے ذریعہ زبان کے فروغ یادرست خیالات کی ترسیل کافریضہ کیسے انجام پاسکتاہے۔ان سب معروضات کامقصدصرف یہ ہے کہ متعصب ذہنیت کی شکایت ہی کافی نہیں،زندہ قوم کی علامت یہ ہے کہ وہ اپناراستہ خودڈھونڈتی ہے۔صحافی برادری کوبرقی ذرائع ابلاغ پرخصوصی توجہ دینی چاہئے ،نیزسوشل میڈیانیٹ ورکنگ بھی آج بہت مفیدذریعہ ترسیل ہے۔ضرورت ہے کہ ایک ٹیم مسلسل اس پرمتحرک رہے ۔ان کے علاوہ اپنے اخبارات کے معیارپرقابل اعتناء ہیں۔اردوصحافت پرزبان وبیا ن اورمعیارکے اعتبارسے بہت کچھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔’ہمدرد‘،’الہلال‘،’البلاغ‘ نے اسلوب بیان کے ذریعہ اردوکی دل کشی کاجوراگ چھیڑاتھا،اسے پھرزندہ کرنے کی ذمہ داری صحافتی برادری کی ہے۔یہ اردوکے فروغ کی سمت میں بھی اہم قدم  ہوگااورصحافتی میدان میں بھی مفید۔ خوش آئندبات یہ ہے کہ بصیرت آن لائن نے اس سمت میں اہم قدم اٹھایاہے۔ایک سال میں اس کی صحافتی خدمات یقیناقابل قدرہیں۔ذمہ دارانہ صحافت کے حوالہ سے اس نے اپنے اصول سے کبھی سمجھوتہ نہیں کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ اخبار اپنایوم تاسیس منارہاہے۔ ہم اس کے ذمہ داران غفران ساجدقاسمی ،یوسف رامپوری اورشمس تبریزقاسمی صاحبان اوراس کے معاونین کی پرخلوص کوششوںکوہدیہ تحسین پیش کرتے ہیں اورامیدکرتے ہیں کہ ان کی کوششیں عصری صحافت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر ملت کے لئے بصیرت افروزہوں گی۔

شمع جلتی رہے،ملتارہے گلشن کوفروغ۔

(یو این این)

**********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 863