donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Moid Rasheedi
Title :
   AsTaare Ka Bhed

 

استعارے کا بھید


معید رشیدی


استعارہ کیا ہے اور ادبی اظہار کے لیے کیوں ضروری ہے؟اس سوال سے قبل یہ پوچھنا چاہیے کہ زبان کیا ہے، اور یہ ہماری اساسی ضرورت کیوں ہے؟اس کا معاشرتی تفاعل کیا ہے؟کیا زبان محض اصوات کا نام ہے؟اگر نہیں تو کیوں؟لفظ اور معنی میں کیا رشتہ ہے؟لسانی نظام کی تشکیل، ترتیب اور ارتقا سے پہلے ترسیل کے مختلف عوامل کیا تھے؟جذبات کیا ہیں؟احساسات کیا ہیں؟ادراکِ معنی کے پیمانے کیا ہیں؟ادراک، تصور اور تخیل میں فرق کیا ہے؟معنی کے منابع تک رسائی ممکن ہے یا نہیں؟معنی آفرینی اور معنی خیزی۔ ۔ ۔ چہ معنی دارد؟

مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

بات تو محض ایک استعارے کی تھی۔ اتنے سوالات کیوں کر پیدا ہو گئے؟اس کا مطلب استعارہ کوئی معمولی شے نہیں۔ اچھا، زندگی کیا ہے؟زندگی کے بارے میں شاعروں کے بہت سے اشعار اور فلسفیوں کے اقوال ہیں۔ بڑے بڑے مفکرین اس کا سراغ لگانے میں رہ گئے۔ نہ جا نے کتنے ذہین ترین دماغ توازن کھو بیٹھے۔ کوئی چھور نہیں ملا۔ جواب تو ایک جملے میں ہے:

زندگی کیا ہے؟

زندگی ایک استعارہ ہے۔

روشنی کیا ہے؟تاریکی کیا ہے؟سچ کیا ہے؟جھوٹ کیا ہے؟آگ، ہوا، پانی، مٹی۔ ۔ ۔ یہ سب استعارے ہیں۔ ’’ابتدا میں لفظ تھا، اور لفظ ہی خدا ہے۔ ‘‘یعنی’ لفظ‘ بھی استعارہ ہے۔ [۔ ۔ ۔ ’’شاید لفظ ناستک نہیں ہوتے۔ ۔ ۔ ہاں شاید۔ ۔ ۔ لیکن بھیڑیے، اس کی پوترتا کو نوچ کر کیسے خوش ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (1)]تو کیا استعارے سے نجات ممکن نہیں۔ کچھ لوگوں کا تو دعویٰ ہے کہ استعارے کی موت ہو چکی ہے۔ بیانیہ کی واپسی ہو گئی ہے۔ تجریدی شاعری اور کہانیوں کا زمانہ اب ختم ہوا۔ وہ ساٹھ اور اس کے بعد کی دہائی تھی۔ یہ اَسی (80ء)کے بعد کا ادب ہے۔ اول تو یہ میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ تجرید سے اتنی چڑ کیوں ؟علامت سے خوف کیسا ؟استعارے کا نام سنتے ہی جی بیٹھنے کیوں لگتا ہے؟استعارہ کوئی بھوت یا سایۂ مکروہ تو نہیں؟میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ بیانیہ گُم کب ہوا تھا، اور استعارے کی موت ہو چکی ہے، تو ہم زندہ کیوں ہیں۔ ۔ ۔ ؟میں اس دن سے خوف زدہ ہوں، جب انسان سے اس کی سوچنے کی صلاحیت بھی چھین لی جائے گی۔ کسی جماعت کا فکری نظام وائرس زدہ ہو جائے گا۔ کسی فرد کی قوتِ فکر ہائی جیک کر لی جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو استعارہ ہمیشہ کے لیے موت کی آغوش میں خاموش ہو جائے گا۔ استعارے کی موت اس دنیا کا بدترین سانحہ ہو گا۔

نطشے(Friedrich Nietzsche)نے خدا کی موت کا اعلان کیا تھا۔ موت نہ کبھی پوچھ کر آتی ہے اور نہ اس کی آمد کا اشتہار کیا جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ خدا کی موت، استعارے کی موت ہے۔  نطشے کی نفی نے استعارے کو حیات بخشی۔ اس نے استعارے کی روح کو پا لیا تھا، کہ اس کی حیات اور استعارے میں فرق ہی نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاگل ہو گیا اور زندگی کے آخری گیارہ سال(1889-1900)اس نے عالم جنون میں گزارے۔ وہ استعارے کی تاب نہ لا سکا۔ اس کی موت ہو گئی:

اِس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری

تنہا پسِ زنداں، کبھی رسوا سرِ بازار

استعارہ تو رسوائی کا سامان ہے۔ پھر بازارِ سخن میں اس کی قیمت گراں کیوں ہے؟کیا ہم استعارے کے بغیر نہیں جی سکتے؟صنعتی انقلاب تو کب کا آ چکا۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ کہتے ہیں، یہ سائنس اور ٹکنا لوجی کا دور ہے۔ معروضیت کا زمانہ ہے۔ سوچنے کا نہیں، کر گزرنے کا عہد ہے۔ ۔ ۔ ’’دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘۔ ۔ ۔ ۔ اس دوڑ بھاگ میں کوئی پیچھے مڑ کر کیوں دیکھے؟چاند پر کمندیں ڈالی جاچکی ہیں۔ اس نسل کو اس پر آشیانہ بنانا ہے۔ سائنس کی رسائی نے اس کے رومانی چہرے سے نقاب ہٹا دیا ہے۔ تو کیا چاند اب روٹی کا استعارہ نہیں بن سکتا؟اسے محبوب کی صورت سے تعبیر نہیں کرسکتے؟بچپن میں ہم نے سنا تھا کہ وہاں کوئی بڑھیا رہتی ہے۔ کیا اس کا سراغ نہیں مل سکتا؟کیا چندا ماما کا رومان گُم ہو گیا؟عید کا چاند اب اونچے ٹیلوں سے نہیں، جہاز اور دور بین کی مدد سے دیکھ لیا جاتا ہے۔ کیا اب بادلوں میں گھوڑے کی رتھ نظر نہیں آتی؟کیا وہاں شیر اور ہاتھی چھپ کر نہیں رہتے؟ہاں یہ سچ ہے، ستارے اب مقدر کا فیصلہ نہیں کرتے!۔ ہم فطرت سے جتنے قریب ہوتے جا رہے ہیں، اس کا حسن ماند پڑتا جا رہا ہے۔ نئی صدی کے ساتھ ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب نئی قدروں کا سامنا ہے۔ اس عہد میں خارجی حقیقت، قبولیت کا نیا باب رقم کر رہی ہے۔ پھر بھی حقیقت اور مجاز میں سیکڑوں پردے حائل ہیں۔ کیوں۔ ۔ ۔ ؟آج کے مادی ماحول میں تخیل کی پرورش اور تہذیب نہایت مشکل ہے۔ تاجرانہ ذہن نے ادب کو بھی خرید و فروخت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ یہ دنیا ایٹم بم میں، آدمی کے اندر چھپے ہوئے حیوان کی سفاکی دیکھ چکی ہے۔ چہروں کے سیلاب میں ایک چہرے پر کئی چہرے پڑے ہیں۔ تجارتی یلغار نے ذہنِ انسانی کو مشین بننے پر مجبور کر دیا ہے۔ مشین استعارہ خلق نہیں کرسکتی۔ مشین کمانڈ دینے پر مصرعے اُگل سکتی ہے، شعر نہیں کہہ سکتی۔ آدمی جذبے کا اسیر ہے۔ اسے جب ٹھیس لگتی ہے تو وہ اپنے اندر اترتا ہے۔ اس کے اندر کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ اس کی سوچ اسے گہرائی میں لے جاتی ہے۔ وہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس عمل میں اسے تجرید کی فصیلیں/ سرحدیں پار کرنی ہیں۔ یہ استعاروں کی دنیا ہے۔ انتظار حسین نے شاید اسی موقعے کے لیے کہا تھا۔ ۔ ۔ ’’ہمارے اندر ایک تاریک براعظم سانس لے رہا ہے۔ ‘‘ (2)

ہر خیال Abstractہوتا ہے۔ ادراک یقین میں بدلتا ہے۔ یقین اور خیال میں تصادم نہیں ہوتا۔ آدمی کو تخیلات سے مفر نہیں۔ زبان تخیل کے احضار اور اظہار کا آلۂ کار ہے۔ خیال نہ صرف عطیۂ فطرت، بلکہ عجیب ترین شے ہے، جو خارجی اور داخلی دنیا میں رابطہ پیدا کرتا ہے۔ ہر خیال کسی نہ کسی فاعل کا محتاج ہے۔ منطقی بیان اور خیال میں بعد المشرقین ہے۔ منطق کو استعارے سے کوئی علاقہ نہیں۔ استعارہ تراشنا خیال کا مقدر ہے:

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

(عرفان صدیقی)

استعارے کی مہیما رومانی کیف سے معمور ہے۔ یہ وہ شے ہے جو زندگی کو نئے معنی عطا کرتی ہے۔ خیال نامیاتی حقیقت ہے۔ اس کے مختلف تلازمے ہیں۔ احساس خیال کا روپ دھارتا ہے۔ ہر خیال بذاتِ خود غیر مادی ہے۔  اس لیے کہ اسے ہم نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں، نہ چکھ سکتے ہیں، نہ سونگھ سکتے ہیں اور نہ ہی چھو سکتے ہیں۔ خیال آزاد ہوتا ہے۔ شاعری لفظوں سے نہیں، بلکہ تخیل، احساس اور جذبے سے بنتی ہے۔ افلاطون ان تینوں چیزوں پر عقل اور منطق کو ترجیح دیتا ہے۔ اس نے اپنی مثالی’ جمہوریہ‘ سے اسی لیے شاعروں کو نکال باہر کیا تھا کہ وہ جذبے کے اسیر ہیں اور اسی کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ اس نے شاعرپرفلسفی کو اسی لیے ترجیح دی کہ وہ شاعری کو فلسفے سے کم تر سمجھتا ہے۔ اسی بنیادپراس نے کلیہ تراشا کہ شاعری اورفلسفے میں ازلی مخاصمت ہے۔ فلسفے کی بنیاد عقل پر ہے، جوانسانی ذہن کی اعلیٰ ترین صفت ہے، جبکہ شاعری جذبات کی تصویر ہے۔ افلاطون کے بقول، جذبہ انسان کو صالح بنانے کے بجائے اس کے ذہن کو بھڑکاتا ہے۔ اس لیے یہ عقل کے لیے مضر ہے۔ شاعری جذبات کی پرورش کرتی ہے، حالاں کہ اس کا کام ان پر قابو پانا اور، روک لگانا تھا۔ یعنی جذبے کو حکمراں ہونے کے بجائے محکوم ہونا چاہیے۔ شاعری احساس کو تقویت بخشتی ہے اور ادراک کو معطل کرتی ہے۔ ذی عقل، غور و فکر کرتا ہے، جذبات میں بہہ نہیں جاتا۔ الہامی کیفیت یا وجدان پر شاعر کا قبضہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کی رہبری قبول کرنا حماقت ہے۔ ’’شاعر کبھی پیغمبر بن جاتا ہے، کبھی پاگل، اوراس کی شخصیت ان کے درمیان معلق رہتی ہے۔ ‘‘(3)افلاطون یہ بھی کہتا ہے کہ شاعر نقال ہے۔ وہ نقل کی نقل اتارتا ہے۔ گویا استعارہ بھی ایک نوع کی نقل ہوا، کیوں کہ یہ شاعری کا ناگزیر حصہ ہے۔ افلاطونIdeasکوسچائی سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی ہرIdea(عین/جوہر)وہ بنیادی/حقیقی اور لافانی ساخت ہے، جس کی تمام چیزیں نقل ہیں، اور نقل کبھی اصل کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کے مطابق دنیا میں جتنی چیزیں موجود ہیں، وہ مادی ہیں اورمادے کی حیثیت ثانوی ہے۔ Ideasزمان و مکان سے ماورا، اور غیر فانی ہیں۔ یہ سچے علم ہیں جن کی بنیاد صداقت پر ہے، اور صداقت اس روح سے ہم رشتہ ہے، جو لافانی ہے۔ ریاست مادی اور فانی خیالات سے نہیں چلائی جا سکتی۔ افلاطون کے مطابق دنیا میں ایک ہی قبیل کی کئی اشیا پائی جاتی ہیں۔ ان سب میں تھوڑا بہت فرق ہے۔ اِس سے اُس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ہر قبیل کی کوئی ایک شے توایسی ہونی چاہیے، جو بہترین اور کامل ہو، یعنی اس سے برتراس قسم کی کوئی چیز نہ ہوسکتی ہو۔ اس کے مطابق یہ آئیڈیل یا مثالی چیز/نوع عالمِ اعیان/مثال میں موجود ہے۔ یعنی ’’عالمِ مثال میں ایک مثالی انسان، ایک مثالی گھوڑا، ایک مثالی کرسی(علیٰ ہذالقیاس)موجود ہے۔ دنیا میں موجود کوئی انسان، گھوڑایاکرسی، اپنی ’مثال‘ سے بہتر نہیں۔ تمام اشیا اپنی اپنی مثال کی ادھوری نقول ہیں۔ ‘‘(4)مثالی صورتیں خدا کی تخلیق کردہ ہیں۔ اس طریقۂ استدلال کی منطق بظاہر تو بہت توانا ہے، لیکن بباطن اسے منطقی حقیقت سے دور کا بھی علاقہ نہیں۔ افلاطون نے اپنی آسانی کے لیے یہ مفروضہ قائم کر لیا کہ دنیا میں جتنی اشیا ہیں ان کی ایک مثالی صورت خدا کی تشکیل کردہ ہے، اور یقیناً مثالی صورت ایک ہی ممکن ہے۔ وہ پلنگ/چارپائی کی مثال دیتا ہے۔ کلیم الدین احمد کے بقول آپ پلنگ کی جگہ گائے کا تصور کر لیجیے۔ اس لیے کہ مصور محض چارپائی کی تصویر نہیں بناتا۔ کلیم الدین احمد نے گائے اور پھول کی مثال کے ذریعے نہ صرف افلاطون کے نظریے کی تردید کی، بلکہ اس پہلو سے بھی آگاہ کیا کہ نظریۂ اعیان کے مفروضے کے تحت فلسفیوں کے خیالات بدلتے رہے ہیں۔ چوں کہ گائیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔  سفید، سیاہ، بھوری، چتکبری، موٹی، دبلی، سینگ دار، بے سینگ وغیرہ۔ بھینس اور بیل بھی اسی قبیل میں ہیں۔ اگر خدا محض ایک مثالی گائے بنانے پر قادر ہے تو اتنی گائیں کہاں سے وارد ہوئیں۔ یعنی یہ گائیں بھی خدا کی بنائی ہوئی ہیں۔ اس کا  مطلب ’’بڑھئی کی طرح خدا بھی نقال ہے، جس نے اپنی مثالی شکل کی اتنی مختلف شکلیں بنائیں، اور خدا نے یہ گائیں نہیں بنائیں تو پھرکس نے؟مصور نے تو نہیں بنائی ہیں۔ کیا خدا کے علاوہ کوئی اور بھی خلاق ہے؟کیا خدا کا کوئی نائب ہے جو اس کی مثالی شکلیں بناتا ہے[؟]پھول کو لے لیجیے۔ ۔ ۔ اگر دنیا کے پھولوں کی فہرست مرتب کی جائے تو ایک موٹی کتاب تیار ہو جائے گی۔ بقول افلاطون خدا نے ایک اور صرف ایک مثالی پھول بنایا ہو گا۔ پھر یہ ہزاروں قسم کے پھول کہاں سے آ گئے[؟]یہ نقالی کس نے کی[؟]‘‘(5)افلاطون فلسفی ہے۔ اسی لیے وہ شاعری پر فلسفے کی بزرگی تسلیم کرتا ہے۔ وہ تعقل پرست ہے۔ وہ شاعری اور حقیقت میں کسی تعلق کو قبول نہیں کرتا۔ اس کے خیال میں شاعری حقیقت کی نقالی نہیں، بلکہ نقل در نقل ہے۔ یہاں دو مستقل موضوعات سامنے آتے ہیں:

شاعری۔ ۔ ۔ وجدان یا حقیقت

شعری نقل کی نوعیت

شاعری ان معنوں میں وجدانی ہر گز نہیں کہ شاعر کے پاس اپنی شعری صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس پر دیوتاؤ ں کا سایہ ہوتا ہے۔ جب وہ شعر کہنے پر آتا ہے تو شاعری کی دیوی اسے القا عطا کرتی ہے۔ اس پر الہام ہوتا ہے۔ شاعر مجنون یا خبطی ہر گز نہیں۔ ایسا بالکل نہیں کہ وہ عقل کی نعمت سے محروم ہے۔ شاعری تخیلی تجربہ ہے، جس میں فینسی اور قوتِ ممیزہ کو بڑا دخل ہے۔ شاعری اور حقیقت، ایسا موضوع ہے جس میں ظاہرپرستوں نے سادہ لوحوں کو خوب الجھایا۔ حقیقت کیا ہے؟وہی جو سامنے نظر آتی ہے؟یا پھر وہ بھی جہاں تک ہماری رسائی نہیں؟اگر ہر نظر آنے والی شے ہی حقیقت ہے تو خدا، اس دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ محسوسات اور جذبوں کا ذکر ہی کیا؟حقیقت بھی جدلیاتی شے ہے۔ مجاز حقیقت کی ضد ہے، لیکن یہ بھی اتنی ہی حقیقی ہے۔ یہ دنیا، یا زندگی، وہ سکہ ہے جس کا ایک رخ حقیقت کہلاتا ہے اور دوسرا مجاز۔ ایک خارجی کہلاتا ہے، دوسرا داخلی۔ دنیا کے وجود کے ساتھ دونوں کے وجود کا اثبات ناگزیر ہے۔ شاعری اس دنیا کی عظیم حقیقت ہے۔ یہ نقل نہیں، تخیلی تجربہ ہے۔ شاعری سے نفرت، حماقت ہے۔ اسے دور سے سلام مت کیجیے۔ اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس کے تجربے میں خود کو شریک/تحلیل کیجیے۔ حقیقت کیا ہے، خود معلوم ہو جائے گا۔ حقیقت ڈھنڈورا پیٹنے جیسی کوئی شے نہیں۔ جس طرح انقلاب انقلاب چیخنے سے انقلاب نہیں آ جاتا، اسی طرح ’حقیقت پسندی‘یا’حقیقت نگاری‘ کا عنوان قائم کر لینے سے حقیقت کی تفہیم نہیں ہو جاتی۔ اس نوع کے عناوین قائم کرنے والے حضرات چھوٹے چھوٹے سامنے کے حقائق کو معراج تصور کر لیتے ہیں، اور اس عظیم حقیقت تک یا تو ان کی نظر نہیں جاتی یاپھر وہ اسے جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، جو زندگی کا بھید بھرا گہرا داخلی تجربہ ہے۔ یہی تجربہ استعارے کی تخلیق کے لیے اساس فراہم کرتا ہے۔ استعارہ تو مجاز کی ایک شکل ہے۔ پھر مجاز، حقیقت کیسے بن سکتا ہے؟یہ سوال انھی حضرات کو پریشان کرتا ہے جو حقیقت کو محض مرغی کا انڈا سمجھتے ہیں۔ اس انڈے میں کوئی سانس بھی لے رہا ہے، یہاں تک ان کی نگاہ نہیں جاتی۔ ان کی بساط میں حقیقت محض مرغی کا انڈا ہی نہیں، کسان کا ہل بھی ہے، مزدور کی ٹوکری ہے۔ موچی کی چپل ہے۔ دھوبی کا  گدھا ہے۔ کسی مظہر کو سیاسی لیڈر بھی دیکھتا ہے۔ مذہبی واعظ بھی دیکھتا ہے۔ کوئی سماجی مصلح بھی اس کا جائزہ لیتا ہے، لیکن ان کی نظر اور ایک فن کار کے مشاہدے میں کچھ تو فرق ہے، اور پھر مجروحؔ صاحب تو پاگل ہی تھے کہ ایسی بات کہہ دی:

جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے

جو گھر کو آگ لگائے ہمارے سات چلے

مجروحؔ صاحب کیسے ترقی پسند ہیں؟آگ لگانے کی بات کرتے ہیں۔ گھر پھونکنا تو بورژوا طبقے کی سازش ہے۔ یہ غیرسماجی فعل ہے۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ’مشعلِ جاں‘ کی ترکیب کا مفہوم حقیقت کی کس ڈکشنری میں ملے گا۔ پھر میرؔ صاحب نے جو یہ شعر کہا


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 844