donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mokhtar Tonki
Title :
   Ham Parwarish Dahno Shikam Karte Rahenge

 

ہم پرورش ’’دہن وشکم ‘‘ کرتے رہیں گے   


(مختار ٹونکی  (ٹونک  راجستھان  

( Mob:09214826684)

    جی ہاں !دنیا میں جب ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا اور جینے کے لئے کچھ نہ کچھ کھانا پینا ہی پڑے گا۔ بے شک وریب رازق اللہ تعالیٰ ہے، کسی کے ہاتھ میں سوکھی روٹی توکسی کے منہ میں تر نوالہ ہے مگر اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے ہماری اتنی اوقات کہاں کہ چڑیوں چڑونٹوں کی طرح کہیں سے بھی دانہ دنکا حاصل کرلیں اوراپنا پیٹ بھرلیں ، گدھے گھوڑوں کی طرح کسی بھی مرغزار میں پہنچ جائیں اور گھاس پھونس کھاکر شکم سیر ہوجائیں۔ ارے صاحب خلیفتہ الارض انسان خاکی بنیان کو معمولی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے بڑے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور اپنی ننھی سی جان پرمحنت و مشقت کے صدمے جھیلنے پڑتے ہیں تب جاکے روٹی نصیب ہوتی ہے یعنی بغیر ہاتھ پیر ہلائے وہ کیسے بھوک مٹائے۔ لہذا کہہ دیں کہ کرۂ ارضی کے سات ارب نرناری بہر طور شب و روز دہن وشکم کی پرورش میں ہمہ تن مصروف ومشغول ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ کچھ لوگ کماکے کھاتے ہیں اور کچھ لوگ کھاکے کماتے ہیں۔ لاریب کارجہاں دراز ہے لیکن دنیا کے سارے کام شکم پروری ‘ شک پری اورشکم سیری سے جڑے ہوئے ہیں۔ پھر اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ

پرورش دہن وشکم کرتے رہیں گے تو اس میں غلط کیا ہے؟ براکیا ہے۔؟ 

    واللہ ! آپ صحیح فرما رہے ہیں کہ فیض احمد فیض نے تویوں کہا تھا کہ 

    ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے 

    فیض صاحب جغادری شاعر تھے اور کچھ بھی کہنے میں حق بجانب تھے۔ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ ’لوح وقلم تو بے جان اشیا ٹھہریں ، ان کی پرورش چہ معنی دارد ؟ بس وہ سرخ سویرا کی لپیٹ میں آگئے اور یوں بہت سے اعزازات و انعامات پاگئے ورنہ دیکھا جائے تو ان کے لوح وقلم سے بھی قلب وشکم کے ڈانڈے جڑے ہوئے ہیں اوران سے بہت پہلے چچا غالب بھی بہت معرکے کے شاعر ہوئے ہیں مگر وہ بھی حاکمان وقت کی شان میں قصیدے لکھ کر پرورش دہن وشکم کیا کرتے تھے اور اکثر فاقہ مستی میں جیا کرتے تھے۔ ایک دن گھبراکر انہوں نے اپنادلی بخاراس طرح نکالا تھا۔؎

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب 
ہم بھی کیا یادکریں گے کہ خدا رکھتے تھے 

    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص بقدر ہمت اوست اسی اکھاڑ پچھاڑ میں لگا ہوا ہے کہ کچھ بھی کرے ،اپنے پیٹ کاجہنم بھرے پھر ہم بھی اگر سُر میں سُر ملا رہے ہیں توکون سا غضب ڈھا رہے ہیں۔ 

    چلئے ! مابدولت مثالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ لوگ ماں کے پیٹ ہی سے پیٹ کا دکھڑا لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ دیکھئے ! یہ مسٹر کھلاڑی ہیں، کرکٹ کی بجاتے پپاڑی ہیں۔ لاکھوں میں کھیلتے ہیں، پیٹ کے لئے سب کچھ جھیلتے ہیں۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ کیوں ڈنڈپیلتے ہیں تو کہیں گے کہ دیش کیلئے کھیلتے ہیں۔ ارے صاحب ! اگر ان کو نہ ملے بھرپور پیسہ تو کل چھوڑدیں پیشہ۔ ذرا ہمیں یہ بتائیے کہ میچ فکسنگ کیوں ہوتی ہے، ایسے میں دیش بھکتی کہاں ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ بیٹ وبلے کی نہیں شکم وکلے کی پرورش کرتے ہیں۔ ان کا پیٹ بولتا ہے، کھیل چیختا ہے کہ 
ہم پرورش دہن وشکم کرتے رہیں گے 

    اور یہ ہیں مسٹر بھکاری جو سینہ تان کر اور تال ٹھوک کربھیک مانگتے ہیں۔ یہ غالب کی طرح فقیروں کا بھیس بدل کراہل کرم کا تماشا نہیں دیکھتے بلکہ ہاتھ پھیلاکر خود تماشے بنتے ہیں۔ بھلا کیوں ؟ پیٹ ایسا پاپی ہے کہ اچھے کو بھی برا بنادیتا ہے۔ پھر ناداری، لاچاری سامنے منہ پھاڑے کھڑی ہو اورشکم ودہن کو روٹی روٹی کی پڑی ہوتو بھوک دست سوال بڑھا دیتی ہے۔ آخر انسان کو روزانہ پیٹ تو بھر نا ہی ہے اور اس کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہے۔ ہمیں تو ہر فقیر حقیر سراپا تقصیر صدائے فقیرانہ کے ذریعے یہی کہتا نظر آتا ہے کہ 

    ہم پرورش دہن وشکم کرتے رہیں گے 

آپ یہ تو مانتے ہیں نا! کہ چور اچکے اورڈاکو لٹیرے خود نہیں بنتے بلکہ ناموافق حالات انہیں ایسا بنادیتے ہیں۔ چوری چکاری اورچھینا جھپٹی کے پس پردہ پیٹ کا فلسفہ کارفرما ہے کہ جیو اور جینے دو، اصول کو چھوڑ و اورکسی طرح لو ٹو اور کھائو۔ دیگر شعبہ ہائے حیات بھی کھنگال ڈالیں اورنتیجہ نظریہ نکال ڈالیں تو یہی معلوم ہوگا کہ لوٹ کھسوٹ کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ سب لوگ پیسے کے پیچھے فراٹا دوڑ رہے ہیں اورایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ وہ لیڈر ہوکہ پلیڈ ر اور ہسٹری ٹیچر ہوکہ ہسٹری شیٹر سب کو روٹی کی پڑی ہے ‘ ہر وقت آزمائش کی گھڑی ہے۔ ڈاکٹر ز کو دیکھیں تو ان میں ذرا بھی جذبہ ٔ خدمت نہیں ہے ، مریض ماہی بے آب کی طرح آزار میں گرفتار ہے، آپریشن درکار ہے مگر سرجن بغیر پیسے کے لاچار ہے۔ 


    ماسٹر ز کودیکھیں تو ان میں کہاں استاذ کی سی عظمت ہے، وہ بھی پرستار زر ودولت ہے۔ کہتے ہیں کہ پہلے اساتذہ صلہ وستائش کی پرواکئے بغیر دولت علم بے دریغ لٹاتے تھے اور پیسہ نہیں نام کماتے تھے۔ حیف صد حیف اب ایسے معلم ومدرس شعبہ تعلیم میں گھس آئے ہیں جن کی ذہنیت حصول زر ہے اور صرف پیسہ ہی مطمح نظر ہے۔ ان کے قول وفعل کو دیکھو اور رفتار وگفتار کو پرکھو تو یہی آواز خارا شگاف سنائی دے گی کہ ؎


    ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے 

     پیٹ کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ جب خواہش اشتہا بڑھتی ہے تو ھل من تزید کا ورد کرتی ہے۔ آدمی کا پیٹ چاہے بھرجائے مگر نیت نہیں بھرتی۔ اسی طرح چاہے دولت وافرمل جائے مگر ہوس زر نہیں جاتی۔ آپ نے بھی اپنی آنکھوں سے بہت سے دھناسیٹھ ملا حظہ کئے ہوں گے جن کے بڑھتے ہوئے پیٹ اور اُبھری ہوئی تو ندیں اس بات کا اعلانیہ ہوتی ہیں کہ شکم پروری میں انہیں خوب مواقع حاصل ہیں اور نائونوش میں وہ ماہر وکامل ہیں۔ بہ ایں ہمہ وہ اسی تگ دو اور گومگومیں رہتے ہیں کہ غبارۂ شکم اور پھولے آسمان کی بلندیوں کو چھولے اس کے برعکس ایسے تن لاغر بھی نظر سے گزرے ہوںگے جن کے پیٹ اور پیٹھ کا پتہ نہ چلتا ہوگا۔ جب نہ ملے کھانے کو دانہ تو کیا کرے گا عبداللہ دیوانہ۔ اسی لئے مجبوری انسان کو اتنا جھکا کر گرادیتی ہے کہ اسے نجیب سے کمین اور جلیل سے رذیل بنادیتی ہے۔جی ہاں! طوائفیں ‘ فاحشائیں اگر برسر بازار اپنی عصمتیں نیلام کرتی ہیں تو اس لئے نہیں کہ یہ ان کی ہابی ہے اور اگرکوئی مفلس ومحتاج اپنا ایمان بیچتا ہے اور غیرت وحمیت کاسودا کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ ناداروں کی کوئی لابی ہے بلکہ پرورش قلب وشکم مقدم ہے۔ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو سموچانگل جاتی ہے اورمادہ شیر اپنے بچے کو کھا جاتی ہے آخرکیوں ؟ وقت پڑ جائے تومردار بھی جائز ہے۔آخر کیوں؟ یہ سبھی ہیں شکم کے کرشمے جناب۔کہہ گئے ہیں شیخ چلی حماقت مآب۔


    ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ آج کل بہت سے ڈگری ہولڈر اورنام نہاد سند ی یافتہ دانشور یہ جتانے کی مساعی رذیلہ میں منہمک ہیں کہ وہ فیض کی طرح پرورش لوح وقلم کررہے ہیں جبکہ کردار اس کی نفی کرتے ہیں اور افعال چغلی کھاتے ہیں کہ وہ جھولیوں میں دام ودرم بھر رہے ہیں۔ ارے صاحب سمپوزیم اورمذاکرہ ہوکہ مباحثہ ‘ بخدا ہم نے تو یہ د یکھا ہے کہ یہ گرامی قدر حضرات بھکمروں کی طرح اورگرسنہ گدھوں کی طرح ڈائٹنگ ہال میں ڈائٹنگ ٹیبل پر گرتے ہیں اور اناپ شناپ طریقے سے اپنے شکم کے جہنم کو بھرتے ہیں۔ ہم کیا کہہ رہے ہیں اور کیا لکھ رہے ہیں:
    کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی 

    خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے اور یہ بھی مشہور ہے کہ ؎

صحبت صالح ترا صالح کند 

    تو سمجھ لیجئے کہ ہم میں بھی اسی پڑھے لکھے طبقے کے جراثیم پیدا ہوگئے ہیں اور ہمیں بھی چسکہ لگ گیا ہے کہ پہلے کریں پیٹ پوجا بعدمیں کام دوجا۔ ’لوح وقلم ‘ گئے بھڑبھونجے کی بھاڑ میں اب ہم بھی تاحین حیات ببانگ دہل کہتے رہیں گے اور بہ زبان قلم لکھتے رہیں گے کہ؎

ہم پرورش دہن وشکم کرتے رہیں گے 
اورحسرت دام ودرم کرتے رہیں گے 


بشکریہ: مشتاق دربھنگوی

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 794