donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mosharraf Alam Zauqi
Title :
   Urdu Adab : Hindustan Mein Behtar Fikr Pakistan Mein Nazar Aati Hai


اُردو ادب

ہندوستان سے بہتر فکر پاکستان میں نظر آتی ہے

:مشرف عالم ذوقی


 

 غالب کے بعد فراقوہ واحد شاعر ہیں جن کی نثر بھی اُردو ادب کے خزا نے

میں اتنا ہی گراں قدر اضافہ ہے جتناکہ اُن کی شاعری: عزیز نبیل


کتابیں زندگی ہیں اور میرے لیے یہ سوچنا مشکل ہے کہ کتابوں کے بغیر لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں۔ ۲۰۱۳ میں کئی عمدہ کتابوں کو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول غلام باغ نے مجھے متاثر کیا۔ اس کتاب میں صدیوں کے شیڈس ہیں۔ اس کتاب کی قرا ¿ت ایک سانس میں مشکل ہے۔ کیونکہ یہاں صرف زندگی نہیں ہے بلکہ ناول نگار ہماری آپ کی اس زندگی سے ایک منجھے ہوئے بازیگر کی طرح کھیل رہا ہے اور اس کے پاس زندگی کا اپنا فلسفہ موجود ہے —یعنی غلام اخلاقیات سماجی، سیاسی اور معاشرتی سطح پر، ایک ملک پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے تمام ناول پڑھ ڈالے۔ خصوصی طور پر خس وخاشاک زمانے کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ وہ ناول ہے جس کو آپ دنیا کے کسی بھی عالمی شہ پارہ کے سامنے فخر کے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ سب سے دلچسپ ہے ناول کی زبان اوروہ گہرا کنواں جہاں سے ننھے ننھے بونے نکل کر ہماری آپ کی دُنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ ناول بھی صدیوں پر محیط ہے۔ اکادمی بازیافت نے رضیہ فصیح احمد کے ناولوں کا سیٹ بھیجا۔ اور مجھے رضیہ کے تمام ناولوں میں صدیوں کی زنجیر نے بے پناہ متاثر کیا۔ صدیوں کی زنجیر کا موضوع سقوطِ بنگلہ دیش ہے۔ اسی طرح خالد طور کاناول بالوں کا گچھا پاکستان کے سیاسی اور سماجی پس منظر کے تانے بانے سے بنا گیا ایک ایسا ناول ہے جسے آپ بار بار پڑھنے کے لیے مجبور ہوں گے۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ آج بھی ہماری زبان اردو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہے۔ ورنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ صفر سے ایک تک، غلام باغ، صدیوں کی زنجیر، ڈاکیہ اور جلا ہے، بالوں کا گچھا، خس وخاشاک زمانے کا تذکرہ نہ ہو۔ ہمارے ہندستانی نقاد مطالعہ نہیں کرتے اور مضمون لکھنے بیٹھتے ہیںتو قرة العین حیدر سے آگے نہیں بڑھتے۔ آج ایک نئی دنیا، ایک نئی فکر ہمارے سامنے ہے— ہندوستان کے زیادہ تر ادیبوں، ناول نگاروں کے سامنے یہ دنیا نہیں ہے۔ سیاست اور سماج سے بے خبری نے انہیں ایک محدود دنیا کا مسافر بنادیا ہے۔ ہندوستان سے بہتر فکر پاکستان میں نظر آتی ہے۔ وہاں تکنیک،اسلوب، کردار نگاری اور فلسفہ کی سطح پر ژرف نگاہی اور دیانتداری کے ساتھ بہتر ادب تخلیق ہورہا ہے۔٭


٭عزیزنبیل,دوحہ۔ قطر


گزشتہ برس بہت ساری شعری و نثری کتابیں زیر ِ مطالعہ رہیں، کچھ کے اثرات دیرپارہے اور کچھ ذہن و دل سے یکسر محو ہوگئے۔ میری خوش قسمتی کہ مجلس فخر ِ بحرین کی جانب سے منعقد ہونے والے’ مشاعرہ بیاد فراق گورکھپوری کی مناسبت سے شائع ہونے والی کتاب ” فراق: شاعری، شخصیت اور شناخت” کو ترتیب دینے کی ذمّہ داری مجھے سونپی گئی، تقریباً ۸۰۰ صفحات کی کتاب کو ترتیب دیتے ہوئے میں بیسویں صدی کے عظیم غزل گو اور اُردو کے پہلے گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ ادیب و شاعرفراق گورکھپوری کی شاعری، شخصیت اور فکرونظر کے طلسم میں پوری طرح گرفتار رہا۔


 فراق کی شاعری اگرچہ انتخاب طلب ہے لیکن جب منتخب شاعری کا نمونہ سامنے آتا ہے تو یقینا ایک قد آور اور بلند آہنگ شاعرسامنے آکر کھڑا ہوتا ہے جو اپنے قاری سے دل اور دماغ کی ساری توانائیوں کے ساتھ مخاطب ہوتا ہے۔

فراق کی شعری عظمت کا اعتراف اُردو کے تقریبا تمام ہی اہم نقّادوں اور دانشوروں نے کیا ہے اور اِس بات کو قبول کیا ہے کہ فراق نے اپنی شاعری میں انسانی نفسیات اور جذبات کوزمینی حقائق سے قریب تر کردیاہے ۔ یہ فراق کا کمال ہے کہ انہوںنے اپنی غزلوںمیں اردو شاعری کے روایتی موضوعات عشق و محبت ، فراق و وصل اور جفا و وفا کو نئی کیفیات اور نئی حسّیت کے ساتھ اپنی شاعری میں برتا اور کامیاب بھی رہے ورنہ فانی، شاد،حسرت،جوش، جگر اور یگانہ کی موجودگی میں اپنی آواز کے وقار اور اسلوب کو تابناک بنادینا بہت مشکل امر تھا۔ فراق کی شاعری میں خوددار عاشق کی شان اور دل نوازمعشوق کا رنگ بالکل مختلف ہے۔ معاملات ِ حسن و عشق اور تصوّر ِ عاشقی کوفراق کی شاعری میں بالکل مختلف آہنگ دیا گیا جس میں ایک نابغہ ءروگار مفکّر کی سوچ بھی ہے، بدلتے ہوئے عہد کے خیالات کا نیا سلسلہ بھی ہے اورایک نئی روایت کی مستحکم بنیادوں کا پتہ بھی ہے۔

ہم انجمن ِ ناز میں یوں کیسے چلے جائیں٪کہہ دے کوئی اُن سے کہ فراق آئے ہوئے ہیں
....
ترا وصال بڑی چیز ہے مگر اے دوست٪وصال کو مری دنیائے آرزو نہ بنا
....
رہا ہے تو مرے پہلو میں اک زمانے تک٪مرے لیے تو وہی عین ہجر کے دن تھے


پروفیسررشید احمد صدّیقی نے بجا فرمایا تھا کہ ”فراقکو اِ س صدی کے موجودہ پچاس برسوں کے منفرد غزل گویوں کی صف ِ اوّل میں جگہ مل چکی ہے اور یہ امتیاز معمولی نہیں ہے۔ غزل کی آئندہ ساخت و پرداخت اور سمت و رفتار میں فراقکابڑا اہم حصّہ ہوگا“۔ اور پروفیسر مجنوں گورکھپوری نے لکھا تھا ” فراق کی شاعری نہ صرف اُردو ادب بلکہ سارے ملک اور قوم کے لیے باعث ِ فخر ہے، فراق جیسی جیّد اور جامع شخصیتیںروز روز نہیں پیدا ہوتیں“۔


فراق جتنے عظیم شاعر تھے اُتنے ہی بے مثال ناقداور نثر نگار بھی۔ اُن کی ناقدانہ اور مفکّرانہ صلاحیتوں کی بہترین مثالیں ان کی تنقیدی کتاب’ اندازے‘ ، ان کے خطوط اور ان کے انٹرویوز ہیں جن میں وہ کھل کرقدیم ہند کی تہذیب و ثقافت کو موضوع بناتے ہیں،ہم عصر ادبی رجحانات کا تجزیہ کرتے ہیں، منظق و فلسفہ کے رموز اورشعروادب کی باریکیوں پر گفتگو کرتے ہیں۔ شاعری اور نثر دونوں میں یکساں مہارت رکھنے والی شخصیات اردو ادب میں بہت کم ہیں، میرے خیال سے غالب کے بعد فراقوہ واحد شاعر ہیں جن کی نثر بھی اردو ادب کے خزا نے میںاتنا ہی گراں قدر اضافہ ہے جتناکہ ان کی شاعری۔ ٭


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1354