donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof. Abdul Jabbar Shakir
Title :
   Seerat Nigari Aur Maulana Modudi

 

سیرت نگاری اور مولانا مودودیؒ
 
پروفیسر عبدالجبار شاکر
 
مسلمانوں کی علمی تاریخ میں علم حدیث اور سیرت نگاری دو ایسے پہلو ہیں کہ جن کا مقابلہ دنیا کی کوئی دوسری قوم اورکوئی دوسرا مذہب نہیں کرسکتا۔ ان دونوں علوم میں سے پہلے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ گفتگو‘ اعمالِ حسنہ اور طریقِ زندگی کے ہر پہلو کو اس حزم و احتیاط سے محفوظ کیا گیا ہے کہ محدثین کی اس علمی اور تحقیقی کاوش کو غیر مسلموں نے بھی خراج تحسین پیش کیا ہے۔
 
علم حدیث کے دفاع کی خاطر اسماء الرجال جیسا عظیم فن ایجاد ہوا‘ جس کی نظیر اس سے قبل دنیا کی کسی علمی روایت میں دکھائی نہیں دیتی۔ اس پر مستزاد درایت کا ایک ایسا اسلوب وضع کیا‘ جس سے اس اندیشے کا امکان بھی رفع ہوگیا کہ کوئی ظالم‘ آپؐ کی شخصیت اور کلام کے ساتھ کوئی غلط بات منسوب کرسکے۔
جہاں تک علم سیرت نگاری کا تعلق ہے، اس میں آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے ہر ممکنہ اور ضروری پہلو کو اس طرح محفوظ کیا گیا ہے کہ ایک زندہ اور متحرک شخصیت کے بچپن سے وصال تک کا کوئی گوشہ سامنے آنے سے نہیں رہ گیا۔ اس ضمن میں احوالِ حجاز و عرب‘ قبائلِ عرب اور ان کے نسب نامے‘ تاریخ و جغرافیۂ عرب، عرب کی تہذیبی اور ثقافتی روایات‘ سیاسی اور تمدنی نقشہ‘ ادبی اور شعری سرمایہ اور ان کے خصائل و رذائل‘ سب کچھ تفصیل کے ساتھ فراہم کردیا گیا ہے۔ آپؐ کے کارنامۂ زندگی اور احوالِ سیرت کو صحیح طور پر جاننے کے لیے مذکورہ تفصیلات بہت ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں۔
 
سیرت نگاری کا آغاز عربی زبان میں ہوا‘ اسی باعث سیرت کے تمام تر منابع‘ مصادر اور مراجع بھی اسی زبان میں موجود ہیں۔ قرآن مجید آپؐ کے احوالِ سیرت کی سب سے بنیادی اور اساسی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ احادیثِ نبویؐ‘ کتبِ سِیَر‘ مغازی‘ تفاسیر‘ تواریخ‘ اسماء الرجال‘ دلائل‘ شمائل‘ آثار و اخبار‘ ادب و شاعری‘ تاریخ الحرمین‘ حج کے سفرنامے اور انساب و جغرافیہ کی کتب بنیادی ماخذِ سیرتؐ قرار پاتی ہیں۔ قرآن مجید تو خود آپؐ کی حیاتِ طیبہ میں مکمل اور محفوظ ہوا۔ احادیثِ نبویؐ صحابہؓ کے ورد ِزبان تھیں تو روایاتِ سنت ان کے اعمال کا مصفیٰ آئینہ تھیں۔ غزوات و سرایا میں صحابہؓ چونکہ خود شریک ہوتے تھے‘ اس لیے ان سے بڑھ کر ان کا شاہد کون ہوسکتا ہے! اسی باعث مغازی کی کتابیں عہدِ صحابہؓ میں مرتب ہونا شروع ہوگئیں۔ ان تمام مراجع اور مصادر کو دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ قدرت سابقہ انبیاء و رسل کے برعکس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات و خدمات کو اس کی تمام جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ اگر صرف قرآن مجید کو دیکھا جائے تو خود اس میں آپؐ کی سیرت کے تمام تر پہلو ہر اعتبار سے محفوظ اور موجود ہیں۔ اس ضمن میں مولانا مودودیؒ کے 1927ء میں لکھے ہوئے ایک مضمون کا یہ اقتباس قابلِ توجہ ہے:
 
’’دنیا کے تمام ہادیوں میں یہ خصوصیت صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ آپؐ کی تعلیم اور آپؐ کی شخصیت 13صدیوں سے بالکل اپنے حقیقی رنگ میں محفوظ ہے اور خدا کے فضل سے کچھ ایسا انتظام ہوگیا ہے کہ اب اس کا بدلنا غیر ممکن ہے… لیکن اللہ تعالیٰ کو بعثتِ انبیاء کے آخری مرحلے میں ایک ایسا ہادی و رہنما بھیجنا منظور تھا‘ جس کی ذات انسان کے لیے دائمی نمونۂ عمل اور عالم گیر سرچشمۂ ہدایت ہو۔ اس لیے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابن عبداللہ کی ذات کو اس ظلم سے محفوظ رکھا‘ جو جاہل معتقدوں کے ہاتھوں دوسرے انبیاء اور ہادیانِ اقوام کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ اوّل تو آپؐ کے صحابہؓ و تابعین اور بعد کے محدثین نے پچھلی امتوں کے برعکس اپنے نبیؐ کی سیرت کو محفوظ رکھنے کا خود ہی غیرمعمولی اہتمام کیا ہے‘ جس کی وجہ سے ہم آپؐ کی شخصیت کو 1400 برس گزر جانے پر بھی آج تقریباً اتنے ہی قریب سے دیکھ سکتے ہیں‘ جتنے قریب سے خود آپؐ کے عہد کے لوگ دیکھ سکتے تھے۔ لیکن اگر کتابوں کا وہ تمام ذخیرہ دنیا سے مٹ جائے جو ائمہ اسلام نے سالہا سال کی محنتوں سے مہیا کیا ہے‘ حدیث و سِیَر کا ایک ورق بھی دنیا میں نہ رہے جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کچھ حال معلوم ہوسکتا ہو‘ اور صرف کتاب اللہ (قرآن) ہی باقی رہ جائے‘ تب بھی ہم اس کتاب سے ان تمام بنیادی سوالات کا جواب حاصل کرسکتے ہیں جو اس کے لانے والے سے متعلق ایک طالب علم کے ذہن میں پیدا ہوسکتے ہیں۔‘‘
 
جناب نعیم صدیقی (م:2002ئ) کی ’’محسنِ انسانیتؐ‘‘ اپنے اسلوب میں ایک منفرد کتاب ہے۔ اسے دورِ حاضر میں اردو زبان کی مقبول ترین سیرت کی کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کو سید مودودیؒ کی برپا کردہ تحریک میں سیرت پاک کا ایک نمائندہ اظہار کہہ سکتے ہیں۔ سید مودودیؒ نے محسنِ انسانیتؐ کے دیباچے میں سیرت نگاری کے منہج اور مقصود کو یوں واضح کیا ہے:
 
’’پرانے ادوار کی طرح اب اس نئے دور میں بھی انسان کو نعمتِ اسلام میسر آنے کے وہی دو ذرائع ہیں جو ازل سے چلے آرہے ہیں‘ ایک خدا کا کلام جو اب صرف قرآن مجید کی صورت ہی میں مل سکتا ہے‘ دوسرے اسوۂ نبوت، جو اب صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ہی میں محفوظ ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام کا صحیح فہم انسان کو اگر حاصل ہوسکتا ہے تو اس کی صورت صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سے سمجھے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی مدد سے جس نے سمجھ لیا‘ اس نے اسلام کو سمجھا‘ ورنہ فہم دین سے بھی محروم رہا اور نتیجتاً ہدایت سے بھی۔‘‘
محسنِ انسانیتؐ کی طرح بیسیوں دوسری ایسی تصانیفِ سیرت ہیں جن میں سید مودودیؒ کی فکر اور تحریروں سے براہِ راست استفادہ کیا گیا ہے۔
 
سید مودودیؒ کے کارنامۂ سیرت کو بیان کرنے سے پہلے ایک اہم کتاب کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ یہ مولانا ابوالکلام ؒآزاد (1888 ئ۔1958ئ) کی سیرت پر تحریروں کا مجموعہ ’’رسولؐ رحمت‘‘ ہے جسے مولانا غلام رسول مہرؒ نے مرتب کیا۔ اس کتاب کی سید مودودیؒ کی ’’سیرتِ سرورِ عالمؐ‘‘ کے ساتھ ایک تدوینی اور تصنیفی مناسبت ہے۔ یہ دونوں کتابیں مصنفین نے خود نہیں لکھیں‘ بلکہ انہیں ان کی تصنیفات‘ مقالات اور خطبات سے ترتیب دیا گیا ہے۔ مگر ان دونوں کی ترتیب میں ایک فرق یہ ہے کہ ’’سیرتِ سرور عالمؐ‘‘ کا خاکہ مرتبین (نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی) نے مصنف کے سامنے پیش کیا‘ جسے نہ صرف مولانا نے بالاستیعاب دیکھا‘ بلکہ اس میں مناسب تجاویز کے بعد بذاتِ خود سیکڑوں صفحات کے موزوں اضافے تحریر کیے۔
1947ء میں پاکستان کی صورت میں ایک ایسی اسلامی ریاست قائم ہوئی جو قراردادِ مقاصد کے مطابق خلافتِ علیٰ منہاج النبوۃ کا ماڈل قرار پائی۔ اس ریاست کے آئینی‘ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی‘ تہذیبی ‘ تمدنی‘ علمی اور ثقافتی وجود اور اسلامی تشخص کے لیے سید مودودیؒ نے ایک طرف احیائے اسلام کے لیے ایک نظریاتی تحریک کو پروان چڑھایا تو دوسری طرف اسوۂ حسنہ اور سنت ِرسولؐ کی بنیاد پر ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے بھرپور علمی اور عملی مساعی کیں۔ اس لحاظ سے سیرتِ نبویؐ پر ان کی تحریروں کا مزاج محض مستند علمی معلومات کو پیش کرنے اور وقائع نویسی تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ سیرت کے اس فکری اور انقلابی سرمائے کو ایک اسلامی ریاست کی تشکیل اور ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت پر ان کی تحریروں کا اسلوب اور منہج ماقبل کے تمام ذخیرۂ سیرت سے جدا اور منفرد تشخص رکھتا ہے۔
 
سید مودودیؒ کی سیرت پر تحریریں 64 برس (1915ئ۔ 1979ئ) کے عرصے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ہزارہا صفحات پر مشتمل ان تحریروں کا آغاز 1915ء میں ہوا‘ جب آپ نے 12برس کی عمر میں ’’سیرت النبویؐ‘‘ کے عنوان سے ایک مجوزہ کتاب کا پہلا باب تحریر کیا۔ اس مضمون کا اختتام ان سطور پر ہوتا ہے:
 
’’اس نسبی بحث کے بعد‘ ہم اس حقیقی بحث کی طرح راجع ہوتے ہیں‘ جس کے بعد ہم حبیبؐ رب العالمین کی سیرت پاک کو زیادہ روشن اور بہت واضح دکھاسکتے ہیں اور جس کے ذریعے لوگ نہایت آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حقیقتاً تمام دنیا کے انسانوں سے‘ خواہ وہ حکیم ہوں یا عالم‘ زاہد ہوں یا متقی‘ والی ہوں یا پیغمبر‘ غرضیکہ بلند سے بلند مرتبے کے انسانوں سے زیادہ افضل اور برگزیدہ ہیں۔ اگر کوئی شخص انسانیت کی تفسیر معلوم کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ تمام دنیا کی کتابوں کی چھان بین سے زیادہ مفید ہے، اور سب سے زیادہ بہتر طریقے سے وہ اس آئینے میں نہ صرف انسانیت بلکہ جمالِ خداوندی کا عکس دیکھ سکتا ہے۔ یعنی ہم اسلام سے قبل عرب کی بدویت و جہالت کا ایک مختصر سا خاکہ دکھائیں گے اور اس تاریک قوم میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی حیثیت سے بحث کریں گے اور پھر بتائیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کن لوگوں میں نشوونما ہوا‘ اورکن حالات میں انہوں نے پرورش پائی اور کس زمین میں اپنی اصلاحات کا بیج بویا۔‘‘
 
سید مودودیؒ کے قلم سے 12 سال کی عمر میں لکھی ہوئی اس تحریر سے سیرت کے موضوع اور اسلوب کے بارے میں ان کے ذہنی اور قلبی احساسات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان اثرات کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں ان کے خانوادے کی علمی اور روحانی حیثیت اور پھر والدین کی تربیت کا جائزہ لینا چاہیے‘ جس کے باعث کم عمر ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے قلب و ذہن میں اسوۂ رسولؐ کی یہ رعنائیاں اور لطافتیں پختہ سے پختہ تر اور عمیق تر ہوتی چلی گئیں۔ اس ضمن میں سید مودودیؒ کی 1932ء میں لکھی گئی خودنوشت کا یہ مختصر اقتباس دیکھیے:
 
’’میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس میں 1300 برس تک سلسلۂ ارشاد و ہدایت اور فقر و درویشی جاری رہا ہے… اس خاندان کے ایک نامور بزرگ مولانا ابواحمد ابدال چشتی (م:355ھ) حضرت حسن مثنیٰ بن حضرت امام حسن کی اولاد سے تھے۔ انہی سے صوفیہ کا مشہور سلسلہ چشتیہ جاری ہوا… حضرت ناصر الدین ابو یوسف کے فرزند ِ اکبر حضرت خواجہ قطب الدین مودودچشتی (م: 527ھ) تھے‘ جو تمام سلاسلِ چشتیۂ ہند کے شیخ الشیوخ اور خاندانِ مودودی کے مورث ہیں… اس زمانے میں انگریزی تعلیم اور انگریزی تہذیب کے خلاف مسلمانوں میں جو شدید نفرت پھیلی ہوئی تھی‘ اس کا حال سب جانتے ہیں۔ مگر ہمارا خاندان اس میں عام مسلمانوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھا ہوا تھا‘ کیونکہ یہاں مذہب کے ساتھ مذہبی پیشوائی بھی شامل تھی… والد مرحوم اور والدہ ماجدہ دونوں کی زندگی ایک ہی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ ان کی تربیت اور عملی نمونے کا یہ اثر تھا کہ ابتدا ہی سے میرے دل و دماغ پر مذہب کے گہرے نقوش مرتسم ہوگئے… والد مرحوم نے اوّل دن ]سے[ اردو اور فارسی کے ساتھ عربی زبان اور فقہ و حدیث کے درس پر ڈال دیا…‘‘
 
سید مودودیؒ نے اپنی 76 سالہ زندگی میں سے 64 سال کے دوران سیرت ِپاک پر جو نگارشات رقم کیں ان میں مقالات‘ خطبات‘ مصاحبے (انٹرویو)‘ مکتوبات‘ استفسارات‘ پیغامات‘ تقریظات اور دیباچے شامل ہیں۔
سید مودودیؒ کے معارف پرور اور فکر انگیز قلم سے چھوٹی بڑی ایک سو کے قریب کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس علمی گلستان کا سدا بہار مظہر ’’تفہیم القرآن‘‘ کی چھ جلدیں ہیں۔ قرآن مجید ہی حقیقتاً سیرت کا سب سے اہم اور بنیادی ماخذ ہے۔ مولانا محترم نے بھی اس کی تفسیر میں وہ مقامات جو سیرت سے متعلق ہیں، ان کی تشریح میں بہت عرق ریزی اور جگر سوزی سے کام لیا ہے جس کے نتیجے میں اس تفسیر کے سیکڑوں مقامات پر سیرت کے لوازمے کو تحقیقی‘ تاریخی اور داعیانہ اسلوب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہی باعث ہے کہ سید صاحب کی تالیف ’’سیرتِ سرور عالمؐ‘‘ جو تمام تر ان کی مختلف کتابوں کی سیرت سے متعلق تحریروں سے ترتیب پائی ہے اس کا غالب حصہ تفہیم القرآن کی چھ جلدوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے سیرتؐ پر کتاب پیش کرنے کی پہلی کاوش ’’سیرتِ ختم الرسلؐ‘‘ مرتبہ: احمد انس کی صورت میں سامنے آئی۔ کیا عجب کہ ’’سیرتِ سرورِ عالمؐ‘‘ مرتب کرنے کی بنیاد ’’سیرتِ ختم الرسلؐ‘‘ بنی ہو۔
سید مودودیؒ کا سیرت پر ابتدائی مضمون جو انہوں نے 1915ء میں لکھا‘ اپنے موضوع کے لحاظ سے علم انساب کی ایک ایسی بحث سے متعلق ہے اور سیرت کا ایک ایسا موضوع ہے جو مستشرقین اور مسلمان محققین کے درمیان صدیوں سے موضوع بحث ہے۔ ’’سیرتِ سرور عالمؐ‘‘ کی دوسری جلد کے صفحات 61 سے 65 کے درمیان اس موضوع پر ایک ایسی تحقیقی تحریر سامنے آئی ہے‘ جو اس عنوان پر ایک قاری کے لیے تشفی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ سیرتِ سرور عالمؐ کی دونوں جلدوں کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آپ نے مختلف ابواب میں دوسرے مذاہب کی کتب بالخصوص عہدنامہ قدیم اور جدید سے براہِ راست استثہاد کرکے بہت سے الزامات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ اسی طرح ہندو مت‘ آریہ سماجیوں‘ قادیانیوں اور منکرینِ سنت وغیرہ کے الزامات کی تردید میں ان کے قلم کے تحقیقی شہ پارے ہمیں ورق ورق پر دکھائی دیتے ہیں۔
+++++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1003