donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof. Syed Md. Saleem
Title :
   Maghribi Nezame Taleem - Tanqeed O Tabsera

 

مغربی نظام تعلیم: تنقید و تبصرہ


پروفیسر سید محمد سلیم

 
جو شخص بھی اس مغربی نظام تعلیم، اس کے نصابِ تدریس پر، اس میں پنہاں اقدار پرغور و فکر کرے گا اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس تعلیم کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ تصادم لازمی ہے۔ سارے علوم میں لادینی روح سرایت کیے ہوئے ہے۔ پورا نصاب تعلیم اخلاق کے مسئلہ سے بے تعلق ہے۔ 16-15 سال جو طالب علم اس نصاب کے تحت تعلیم حاصل کرے گا وہ خالی الذہن نہیں رہ سکتا۔ ضرور اس میںکچھ نقوش مرتسم ہوجائیں گے اور وہ سب اسلام کے خلاف ہوں گے۔ گھر اور ماحول سے جو اسلامیات اس کو ورثہ میں ملی ہے اس سے تضاد اور اختلاف کو رفع کرنا غریب طالب علم تو کجا استادوں کے بس کا بھی کام نہیں ہے۔


انسان خودمختار ہے، صاحب ِارادہ ہے۔ جس خیال کو وہ اچھا سمجھتا ہے اس کو کر ڈالتا ہے۔ خیال اگر شخصی نوعیت کا ہے اور انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے تو اس پر عمل پیرا ہونے میں فرد کو زیادہ مزاحمت نہیں اٹھانا پڑتی۔ لیکن اگر وہ تصور اجتماعی نوعیت کا ہے تو معاشرے میں رائج سابقہ تصورات سے ٹکرائو ضروری ہے۔ اس پر عمل پیرا ہونا کافی دشوار ہے۔ ایک مدت تک ذہن میںکشمکش جاری ہی رہے۔ ایک فریق مسلسل تقویت ملتے رہنے کی وجہ سے بالآخر طاقت ور ہوجاتا ہے اور اپنے حریف تصور پر غالب آجاتا ہے۔ معاشرے کی مخالفت کے باوجود وہ شخص اپنے پسندیدہ تصور پر عمل درآمد شروع کردیتا ہے۔ اس نظام تعلیم میں یہ تصادمِ افکار ہر مسلمان طالب علم کا مقدر بن چکا ہے، وہ یکسوئی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے مسلمان طلبہ کو چار گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:


(1) ابتدا میں غالب اکثریت اُن طلبہ کی رہی جنہوں نے مغربی افکار کو پڑھا ضرور، لیکن وہ اسلامی عقائد اور دینی اقدار کے ساتھ وابستہ رہے۔ انہوں نے جدید افکار کو اپنی زندگانی پر مسلط ہونے نہیں دیا۔ وہ اپنے سابقہ حال پر ہی قائم رہے۔ ان کی خاندانی تربیت اور اسلامی روایات نے مغربی افکار کے حملہ کو غیر مؤثر بنا دیا۔


(2) ایک گروہ ایسا بھی پیدا ہوا جنہوں نے افکار کو دل و جان سے قبول کرلیا، ان کا رشتہ اپنے موروثی افکار و اقدار سے مضمحل ہوتا چلا گیا۔ جہاں اظہار کا موقع ملا وہاں دلی خیالات کا اظہار کردیا، ورنہ خاموش رہے۔ عمل کا موقع ملا تو عمل بھی کرڈالا۔ اسلامی معاشرے کی گرفت جس قدر ڈھیلی پڑتی چلی گئی اسی قدر یہ گروہ طاقتور اور ظاہر ہوتا چلا گیا۔ شروع میں یہ قلیل تعداد میں تھا، بعد میں کثیر ہوگیا۔


(3) ایک گروہ اُن لوگوںکا پیدا ہوا جنہوں نے جدید خیالات بھی قبول کرلیے اور قدیم سے بھی وابستگی رکھی۔ بیک وقت دونوں طریقوں پر چلتے رہے۔ ان کے ذہن نے یا تو تناقض کو محسوس نہیں کیا، یا اس کو دور کرنے کی ہمت نہ کی۔ یا تو یہ کم فہم تھے یا کم تر ہمت کے مالک تھے۔ بہت بڑی اور غالب تعداد ایسے ہی لوگوں کی تھی۔


(4) ایک گروہ وہ بھی ہے جس کے ذہن میں یہ کشمکش شدید طریقے سے برپا ہوئی۔ انہوں نے دونوں نظریات کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی۔ یہ اسلام کی برتری کے بھی معتقد تھے اور مغربی افکار کو بھی پسند کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اخذ و ترک کے ذریعے مفاہمت کی راہ پیدا کی۔ اپنی عقل کو حکم بناکر کچھ باتیں اسلام کی قبول کیں کچھ باتیں مغرب سے لیں۔ کبھی اسلامی حکم کی تاویل کرڈالی، کبھی مغربی فکر کی توجیہہ پیش کردی۔ بعض باتیں پھر بھی اس کی تاویل کی وضاحت میں نہ آسکیں تو اسلام کا جز قرار دینے کے بجائے ان کو ’’ملاّ‘‘ کا اضافہ قرار دے کر رد کردیا۔ اس طرح اسلام کے متعلق اپنے حسن ظن کو بہرحال بچا لیا۔ انہوں نے اسلام کو مغربی اقدار سے جانچنے کی کوشش کی اور یہ نہ سوچا کہ مغربی نظام فکر بھی وقت کے اتھاہ سمندر کی ایک ایسی ہی لہر ہے جیسی اس سے قبل رومانی نظام فکر تھا، جس کا آج کوئی پرستار باقی نہ رہا۔ اسلام خدا کا کلام ہے اس لیے ابدی اقدار کامالک ہے۔ بہر کیف اس مرعوب ذہن نے اسلام کی مرمت کرنے میں بہت بڑی جسارت دکھائی ہے۔ سیدالطائفہ سر سید احمد خاں نے اس راہ میں رہنمائی کے فرائض انجام دیے ہیں۔ اس قبیل کے تمام مفکر اور مصلح سب انہی کے زلہ رُبا ہیں۔


مغربی افکار و خیالات کی جنگ میں معاملہ اگر اس قدر ہوتا کہ ایک اجنبی نظام تعلیم مسلمان معاشرے میں داخل ہوگیا تھا جیسے کوئی غاصب کسی شریف آدمی کے گھر میں گھس آیا ہو۔ اگر بات اتنی ہی ہوتی تو نمٹنا نسبتاً آسان تھا۔ مسلمان معاشرہ جس کے امتیازی خصائص، دینی تصلب، عقائد کی پختگی، خوف ِآخرت اور اخلاق کی گرفت رہے ہیں، جن کی بنا پر مسلمان معاشرہ ایک مضبوط قلعہ بن چکا ہے۔ صلیبیوں کا سیلاب اور تاتاریوں کی یلغار بھی اس قلعہ میں نقب نہ لگا سکی، وہ معاشرہ غاصب کو بے دخل کرسکتا تھا، لیکن مصیبت یہ تھی کہ اُس وقت مسلم معاشرے پر ایک غیر قوم حکمراں تھی۔ یہ بڑی زیرک اور چالاک تھی۔ اس کا اقتدار مسلمان معاشرے کو اختلال اور انتشار کی راہ پر ڈالے بغیر مستحکم نہیں ہوسکتا تھا۔ فکری انتشار پیدا کرنے کے لیے اس نے اس نظام تعلیم کے ذریعے اس قلعہ میں سرنگ لگائی اور پھر اس کو ہر ممکن طریقے سے کمک پہنچائی گئی۔ ذرائع ابلاغ عامہ، اخبارات و رسائل اور جدید دور میں ریڈیو، سینما اور ٹیلی ویژن مغربی افکار اور مغربی ثقافت کو مسلمان معاشرے میں داخل کررہے ہیں۔ آج حملہ بہت آسان ہوگیا ہے۔ حملہ کرنے کے لیے قلعہ کے دروازے کشادہ ہیں۔ پھر جو لوگ ان افکار سے متاثر ہوئے ان کی بے حد توقیر کی گئی۔ انعامات اور نوازش کی ان پر بارش کی گئی۔ جن لوگوں نے مزاحمت کی ان پر دائرہ تنگ کردیا گیا۔ ان کی زندگی ضیق میں کردی گئی۔ ان وجوہ کی بنا پر مغربی افکار و ثقافت کو اپنانے والا چھوٹا سا گروہ بتدریج قوت اور اقتدار حاصل کرتا چلا گیا۔ اور دینی حمیت رکھنے والا گروہ بتدریج کمزورپڑتا گیا۔ ان کا اثرونفوذ محدود ہوتا چلا گیا۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 593