donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rasheed Arshad
Title :
   Aasman Se Gira

آسمان سے گرا…
 
رشید ارشد
 
ہمارے علم کے مطابق اُردو ادب میں اب تک ایسی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی جس کا تعلق محاورات یا ضرب الامثال کی تاریخ سے ہو، یا جو یہ بتاسکے کہ محاورات یا ضرب الامثال کی ابتدا کیسے ہوئی یا کون صاحب کس محاورے کے موجد ہیں! کیا آج کل بھی ضرب الامثال یا محاورے ایجاد ہوتے ہیں یا محض سابقہ ایجادات و اختراعات پر گزارہ ہورہا ہے؟ اگر محاورے ایجاد ہوتے ہیں تو اس کا طریقۂ کار کیا ہے؟ اِن کی ایجاد کی ذمہ داری انفرادی ہے یا اجتماعی؟ جب کوئی محاورہ ایجاد ہوتا ہے تو کیا اِس کو منظوری کے لیے کسی کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے یا اپنے زور سے روزمرہ میں مقام بناتا ہے؟ اگر محاورے ایجاد ہونے بند ہوگئے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا کسی آئینی ترمیم کی وجہ سے محاورات کی ایجاد کی روک تھام کی گئی ہے یا قدرتی طور پر خاتمہ ہوا ہے؟
 
قیاس یہی ہے کہ محاورے اور ضرب الامثال گئے وقتوں کی ایجاد ہیں۔ اُن دنوں لوگوں کے پاس کرنے کو کچھ تھا نہیں۔ بس بیٹھے شطرنج کی بازی لگا رہے ہیں یا پینک میں لہرا رہے ہیں۔ مصرعہ طرح اُٹھارہے ہیں۔ قافیے سے قافیہ ملا رہے ہیں اور ضرب الامثال کے ڈھیر لگارہے ہیں۔
 
آج کل محاورے ایجاد ہوں یا نہ ہوں، اِن کا استعمال زوروں پر ہے۔ اُلّو سیدھا کرنا ہمارا محبوب قومی مشغلہ ہے۔ خیالی پلائو ہماری من پسند ڈِش ہے۔ باسی کڑھی میں اُبال دینے کی ترکیبیں بھی کوئی ہم سے سیکھے۔ رائی کے پہاڑ کھڑے کرنے میں ہمارا کوئی مدمقابل نہیں۔ ہماری ساجھے کی ہنڈیا پکے بھی تو چوراہے میں پھوٹتی ہے۔ کسی کو بھائی بنانا ہو تو اُس سے پگڑی بدلتے ہیں۔ پھر اُسی بھائی کی پگڑی سرِبازار اُچھالتے ہیں۔ پگڑی کا صحیح استعمال بھی کوئی ہم سے سیکھے۔ دیگرممالک کے لوگ پگڑی سر پر رکھتے ہیں مگر ہم اسے وڈیروں کے پائوں پر رکھتے ہیں۔ اس سے دولہے کی شکل بگاڑتے ہیں۔ جائداد کی خرید و فروخت کے وقت لیتے اور دیتے ہیں۔
 
تسلیم کہ ضرب الامثال زمان و مکان کی حدود و قیود سے بالاتر ہوتی ہیں، مگر زمانہ جس تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے پُرانی ضرب الامثال اُس کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔ ’’کہاں راجا بھوج اور کہاں گنگو تیلی‘‘ کی ضرب المثل اِس وجہ سے بے کار ہوئی کہ راجواڑ ریاستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سب کچھ کھوبیٹھے۔ اور تیلی حضرات اب زمین سے تیل نکال رہے ہیں اور ساری دنیا پر حکومت کررہے ہیں۔ تیلیوں سے مراد آئل کمپنیوں اور خلیج کی ریاستوں کے شیوخ سے ہے۔ بیل کی جگہ ٹریکٹر اور دوسری مشینوں نے لے لی ہے اِس لیے ’’کولہو کے بیل‘‘ کی گردن سے جوا اُتارکر اُس بے چارے کو بھی صدیوں کی مشقت سے آزاد کرنا ہوگا۔ جگہ جگہ ڈرائی کلیننگ کی سہولتیں مہیا ہونے اور گھر گھر لانڈری کی مشینیں آجانے کے باعث اب دھوبی کے کتے کا پٹّا بھی، گھر اور گھاٹ سے کھول دینا چاہیے۔ وہ دور لَدگیا جب لکھ پتی حضرات کا شمار اُمرا اور رئوسا میں ہوتا تھا۔ آج کل افراطِ زرکے ہاتھوں لکھ پتی کسی شمار و قطار میں نہیں۔ اگر شمار میں ہیں تو غریبوں میں۔ اگر قطار میں ہیں تو دفترِ روزگار کے سامنے۔ وہ دن دور نہیں جب بھکاری لوگ فریاد کیا کریں گے: ’’سخیا! خدا رسول کے نام پر لکھ پتی کی مدد کر!‘‘ ’’بابو! لکھ پتی کئی دن سے بھوکا ہے، کچھ کھانے کو دے!‘‘
 
معاشی اِنقلاب یا انحطاط کا تقاضا ہے کہ کوڑی، دمڑی اور پائی کو بھی محاورے سے نکال باہر کیا جائے۔ اب نہ کوئی چیز کوڑیوں کے دام بکتی ہے نہ کوئی پائی پائی کا حساب رکھتا ہے۔ دمڑی کے لیے چمڑی دینے والوں نے بھی اپنے ریٹ بڑھادئیے ہیں۔ قلم کی جگہ اب ٹائپ رائٹر اور کمپیوٹر نے لے لی ہے، اِس لیے قلم کی سیاہی خشک ہونے کا محاورہ بھی خشک ہوا۔ تقسیم کے بعد ہم نے کئی پرانی سڑکوں اور یادگاروںکو اِسلامی اور قومی نام دئیے ہیں، اس لیے لازمی ہے کہ محاوروں اور ضرب الامثال کو بھی مشرف بہ اسلام کیا جائے اور انہیں حُبّ الوطنی کے رنگ میں رنگا جائے۔ ’’بغل میں چھری‘‘ کا ہونا تو لازمی ہے کہ ہم ذابح قوم ہیں اور ذبیح ہمارا جزوِ ایمان ہے، مگر اسلامی ریاست میں ’’منہ میں رام رام‘‘ چِہ معنی دارد؟ اِس کے بجائے تکبیر کا وِرد ہونا چاہیے۔ ’’بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے‘‘ کے بجائے اب ’’بہتے راوی میں وضو‘‘ کرنا ہوگا! راوی کے خشک رہنے کی شکایت ہو تو تیمم بھی جائز ہے۔
 
نئے محاورے یا ضرب الامثال ایجاد کرنا ایسا ہی ہے جیسے نیا کاروبار شروع کرنا۔کیا معلوم چلے نہ چلے؟ اِس خطرے کو جانتے ہوئے بھی میاں خیردین نے اپنا سر اوکھلی میں دیا اور جو لوگ ذات پات کی تمیز، حسب نسب کی برتری اور طبقاتی ناہمواری کے غم میں ہلکان رہتے ہیں اُن کی اشک شوئی کے لیے اور اُردو زبان پر احسان کرتے ہوئے ضرب المثل ’’جس کی بات اچھی اُس کی ذات اچھی‘‘ عطا کی۔ اُن کے نزدیک ذات پات کی تمیز کی اصطلاح ذات پات کی بدتمیزی ہونی چاہیے۔
 
اُمید ہے کہ میاں خیر دین کی طرح اور بھی کئی لوگ میدان میں آئیں گے اور ضرب الامثال کی ایجاد میںاپنا تخلیقی سرمایہ لگائیں گے!
 
آج کل کا دور ہائی ٹیک دور ہے، اس لیے ہمارے محاورے بھی ہائی ٹیک ہونے چاہئیں۔ دماغ کی غیر حاضری کا نعم البدل ’’ڈِسک کا غائب ہونا‘‘ مناسب رہے گا۔ چونکہ خود ہماری ڈِسک بھی اکثر غائب رہتی ہے اِس لیے ڈر ہے کہ کہیں یار لوگ ’’اوّل خویش بعد درویش‘‘ کے مصداق ہماری ہی ذات کو اِس محاورے کا نشانہ نہ بنانے لگیں۔
 
اس میں شک نہیں کہ محاورے اور ضرب الامثال زبان کی جان ہوتے ہیں اور مرچ مصالحے کا کام دیتے ہیں۔ لیکن بعض محاوروں کا سر ہوتا ہے نہ پیر! اگر سَر پیر ہو بھی تو پتا نہیں چلتا کہ سر کدھر کو ہے اور پیر کدھر کو۔ اب ’’چور سر پر پیر رکھ کر بھاگا‘‘ پر غور کریں۔ اِس محاورے میں بے شک سَر بھی ہے اور پیر بھی، مگر سر اور پیر چورکا ہے محاورے کا نہیں۔ بھلا بتائیے کہ سر پر پیر رکھ کر کوئی کیسے بھاگ سکتا ہے؟ سر پر پیر رکھ کر بھاگنا تو درکنار کھڑے رہنا یا بیٹھنا بھی ناممکن ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو تھوڑی دیر کے لیے اِس میگزین کو ہاتھ سے رکھیں اور سر پر پیر رکھ کر بیٹھیں، کھڑے ہوں یا دو قدم چل کر دکھائیں!
 
’’دشمن کے دانت کھٹے کرنا‘‘ ہمیشہ ہمارے دانت کھٹے کرتا رہا۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی کے دانت کھٹے کرنے میں کیا تک ہے اور اس فعل سے دانت کھٹے کرنے والے کو کیا فیض پہنچتا ہے! یوں بھی یہ کتنی بھونڈی حرکت ہے کہ آپ لیموں یا اِملی ہاتھ میں لیے لوگوں کے دانتوں پر مَل رہے ہیں۔ اگر کسی کے منہ میں دانت نہ ہوں تو کیا اُس کے پوپلے منہ کو کھٹا کریں گے؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ آپ جس کے دانت کھٹے کرنے کا اِرادہ کریں وہ اپنی بتیسی نکال کر آپ کے ہاتھ میں تھمادے اور کہے: ’’لو میاں! ہمارے دانت کھٹے کرو اور اپنا شوق پورا کرو!
 
معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے ضرب المثل’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ ایجاد کی وہ بہت عجلت میں تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ موجد اِس ضرب المثل کو اِیجاد کرتے وقت خود کھجور میں اٹکا ہوا ہو، ورنہ اِتنی مہمل اور بے معنی ضرب المثل اُردو زبان کے سَر نہ تھوپتا۔ اِس ضرب المثل میں یہ تو واضح نہیں کہ موصوف آسمان پر پہنچا کیسے؟ کس مقام سے اور کتنی بلندی سے گرا؟ اس کا پائوں پھسل گیا تھا، کسی چیز سے ٹھوکر لگی یا کسی نے دھکا دے دیا؟ اب اگر یہ بدنصیب ضرب المثل کی مار سے گر ہی گیا ہے تو طبیعاتی قانون کے مطابق کھجور میں اٹکنا ناقابلِ فہم ہے۔ اتنی بلندی اور اپنے وزن کے زور سے وہ اس تیزی کے ساتھ کھجور کے درخت پر گرے گا کہ کھجور میں اٹکنے کے بجائے ٹہنیوں کو توڑتے ہوئے زمین پر آپڑے گا۔ ہمیں تو یہ بھی اعتراض ہے کہ یہ شخص کھجور کے درخت میں کیوں اٹکا! چاہیے تو یہ تھا کہ اس شخص کو آم، جامن یا شیشم کے درخت پر اٹکایا جاتا جو برصغیر میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اگر مدعا کھجور کے درخت میں اٹکانے کا یہ تھا کہ اُس بدبخت کے جسم کو کھجور کے نوکیلے پتوں سے چھلنی کیا جائے تو کسی خاردار درخت مثلاً کیکر یا بیری میں اٹکا کر بھی یہ عذاب دیا جاسکتا تھا۔
 
کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے شیکسپیئرؔ طوطے کی طرح رٹا ہوا ہے، یا فلاں نے مثنوی طوطے کی طرح رٹی ہوئی ہے۔ طوطے خواہ کتنے ہی زیرک ہوں یہ بات بعید ازقیاس ہے کہ وہ غالبؔ، حافظؔ، سعدیؔ یا کسی اور شاعر کا پورا کلام رَٹ لیں۔ ہم یہ تو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ بعض طوطے ضرور ایسے ذکی ہوں گے جنہوں نے میرؔ، مومنؔ یا مصحفیؔ کی چند ایک غزلیں رَٹ رکھی ہوں اور اِن کی شرح بیان کرنے کے علاوہ اِن پر تنقید بھی کرسکتے ہوں مگر کسی شاعر کا پورا کلام رَٹ لینا ہماری دانست میں چرند پرند اور چوپایوں کی بساط سے باہر ہے۔
 
کئی محاورے اِفترا کی زد میں آتے ہیں جس کی اجازت ہمارے مذہب میں نہیں۔ ’’قدم قدم پر جھوٹ بولنا‘‘ سراسر جھوٹ ہے اور اس کے پائوں نہیں۔ جھوٹے سے جھوٹے شخص کے لیے بھی قدم قدم پر جھوٹ بولنا ناممکن ہے۔ محاورے میں دو چار قدم چھوڑ کر جھوٹ بولنے کی رعایت ہونی چاہیے تھی۔ یہی فتویٰ پھونک پھونک کر پائوں رکھنے پر بھی صادر ہوتا ہے۔
 
ایک دن ہم نیویارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کے پاس سے گزرے تو ایک شخص کو یہ کہتے سُنا کہ یہ عمارت آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ ہمیں تجسس ہوا تو عمارت کے ساتھ کان لگا کر سننے کی کوشش کی۔ عمارت بالکل خاموش تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں کو بے پرکی اُڑانے میں کیا مزا آتا ہے! ہم نے آج تک کسی کے پیروں تلے سے زمین نکلتے نہیں دیکھی مگر ایسا جھوٹا دعویٰ کرتے کئی لوگوں کو سنا ہے۔ درختوں سے طوطوں کو اُڑتے ضرور دیکھا ہے لیکن ہاتھوں کے طوطے کیسے اُڑتے ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ جن لوگوں کے ہاتھوں کے طوطے آئے دن اور موقع بے موقع اُڑتے رہتے ہیں اُن کو چاہیے کہ اپنے طوطوں کو پنجروں میں بند رکھیں۔ آخر ہاتھوں میں لیے پھرنے میںکیا تک ہے؟
 
یہ سراسر جھوٹ ہے کہ ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی مجبور اور ضرورت مند کیوں نہ ہو، گدھے کے سامنے دوزانو ہوکر اور ہاتھ جوڑ کر یہ نہیں کہتا: ’’حضور اِس نابکار کو اپنی فرزندی میں قبول فرمائیے!‘‘
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 825