donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Raza Ali Abedi
Title :
   Sada Aur Sehal Zaban Jadu Ka Asar Rakhti Hai

 

سادہ اور سہل زبان جادو کا اثر رکھتی ہے


رضا علی عابدی


آئیے موضوع بدلیں اور زبان کی گفتگو کریں۔ یہ معاملہ صرف اردو ہی کا نہیں، دنیا کی ہر زبان جتنی سادہ اور سہل ہو، کانوں کو ا ±تنی ہی بھلی لگتی ہے۔ بے ساختہ زبان پر آجانے والے فقروں کے آگے نہایت عالمانہ اور گاڑھے الفاظ ماند پڑ جاتے ہیں۔ بولی جائے یا لکھی جائے، سہل سہل سی زبان جادو کااثر رکھتی ہے۔ جس لب و لہجے میں کوئی پھیر نہ ہو وہ اپنے سچے ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ روزمرّہ کی گفتگو میں کوئی چاہے بھی تو چال بازی نہیں کر سکتا۔ ایک عجیب بات ہے کہ لوگ بولتے ہیں تو بات میں سادگی اختیار کرتے ہیں لیکن لکھتے ہیں تو اسی سیدھی سی بات کو الجھا دیتے ہیں۔ خدا جانے کہاں کہاں سے ایسے ایسے لفظ لاتے ہیں جو عام زندگی میں بھولے سے بھی استعمال نہیں کرتے۔ (مثال کے طور پر لفظ: تاہم) اسی لئے کہتے ہیں کہ آسان زبان لکھنا بہت مشکل کام ہے۔ اچھی سہل عبارت میں چلتے چلتے کوئی اُلجھا ہوا اجنبی لفظ آجائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زور کی ٹھوکر لگی ہو۔ ابھی پچھلے برس کی بات ہے، برطانیہ میں ایک اردو ناول کی رسمِ اجرا ادا کی گئی۔ ناول کے مصنف کے بارے میں بتایا گیا کہ سادہ اور سہل اردو لکھتے ہیں۔ یہ بات سن کر ناول پڑھنے کا میرا اشتیاق بڑھا اور اسی شام پڑھنا شروع کیا۔ ابھی دوسرے ہی صفحے پر تھا کہ اچانک ایک جگہ لڑکھڑا گیا۔ عبارت میں ایک لفظ لکھا تھا۔نعمت غیر مترقّبہ۔ اس وقت بڑی حیا آئی جب اپنی ہی زبان پڑھتے ہوئے مجھے ل ±غت دیکھنی پڑی۔ مسئلہ صرف معنی ہی کا نہیں، تلفّظ کا بھی تھا۔ دکھ اس وقت ہوا جب دیکھا کہ اردو لغت میں یہ لفظ سرے سے غائب ہے۔ آخر فارسی لغت دیکھی جہاں مشکل سے لفظ مترقّب ملا جس کا مطلب تھا ، وہ جس کا انتظار کیا گیا یا امید رکھی گئی۔ تب کہیں جاکر یہ بھید کھلا کہ جو نعمت بیٹھے بٹھائے ہاتھ آجائے اس کو نعمت غیر مترقّبہ کہتے ہیں۔ اس طرح کی ترکیبیں زبان کے حسن ہی کو نہیں، خود زبان کو مار ڈالتی ہیں۔ مجھے ایک بار دِلّی میں اردو بولنے والوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرنے کا موقع ملا جس میں عام طور پر کہا جارہا تھا کہ ہندوستان میں اردو کا حال اچھا نہیں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زبان پھلے پھولے تو ترکیب آسان ہے۔ نہایت سادہ، سہل، سلجھی ہوئی اور دل پر اثر کرنے والی اردو بولئے، ایسی ہی زبان کو فروغ دیجئے۔ یہ اس زبان کا حسن ہے کہ پھر ملک میں یہی انداز رواج پائے گا اور ہر ایک کی زبان پر یہی سہل اور سادہ اردو ہو گی اور اگر آپ کی زبان کو ہندی کہا جائے تو کہنے دیجئے، ہمارے بزرگ بھی اس کو ہندی یا ہندوی ہی کہا کرتے تھے۔ ویسے بھی اتنے بڑے اور پھیلے ہوئے ملک کے گوشے گوشے میں چلانے کے لئے جو فلم بنائی جاتی ہے اس کو بنانے والے اسی سادہ اور سہل زبان کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ اسے جو بھی نام دیں۔

 سچ تو یہ ہے کہ عام بول چال ہو رہی ہو تو ہندوستان کی بولی کوئی اور نہیں، اردو ہے۔ ہماری بی بی سی ہندی سروس کی ایک ساتھی ایک روز بتا رہی تھیں کہ انہوں نے ایک ڈرامہ لکھا ہے۔ میں نے پوچھا ’ہندی میں؟‘ کہنے لگیں کہ نہیں ، عام بول چال میں۔ میں نے کہاکہ خاتون، اسی کو عام بولی میں اردو کہتے ہیں۔ میں خاتون کو شرمندہ نہیں کر رہا تھا۔ ا ±س وقت مجھے یہ احساس ستا رہا تھا کہ خود ہم لوگ اردو میں ایسی ایسی فارسی اور عربی ترکیبیں استعمال کرتے ہیں کہ اچھی بھلی زبان کو جنّاتی بنا دیتے ہیں۔ اوپر سے اس کو عالمانہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کتنے ہی اعلیٰ اردو دانوں کے نام لئے جاسکتے ہیں جنہوں نے سادہ نثر لکھی اور اسی سادگی کی داد بھی پائی۔ 
سہل اور سادہ زبان سے کیا مراد ہے؟ زبان جو یوں برتی گئی ہو کہ وہ اپنی اصل کے مطابق ہو، سیدھی براہ راست ہو، کسی فرضی یا بناوٹی انداز سے اس کی شکل نہ بگڑی ہو۔ صاف ہو اور کھلی ہو، جسے سمجھنے کے لئے بڑی توجہ نہ دینی پڑے بلکہ وہ خود اپنے مطلب اور مفہوم میں رچی بسی ہو۔ یہی بولنے اور لکھنے والوں کا معیار ٹھہرے۔ 

سادہ زبان سننے میں سہل ہو۔ اس میں روانی ہو۔ خصوصاً نثر میں بہاو ¿ ہو۔ (ہم تن بدن کہتے ہیں، بدن تن نہیں کہتے حالانکہ مطلب وہی ہے)۔ اگر بات سادہ ہے تو اس میں الجھاو ¿ نہیں ہوگا۔ اسے سمجھنے کے لئے ہمیں ذہن پر بوجھ نہیں ڈالنا پڑے گا۔ سادہ زبان کبھی بکھری ہوئی نہیں ہو گی، اسے سننے یا پڑھنے والا اس پر شک نہیں کرے گا۔ سیدھی اور سادہ بات میں کوئی پھیر نہیں ہوتا ایسی بات دل کو لگتی ہے۔ کہنے والا جو کچھ کہہ رہا ہے، سننے یا پڑھنے والا بالکل وہی سمجھ رہا ہے۔ آج کی تحریروں یا بات چیت میں بے احتیاطی داخل ہو گئی ہے۔ ہم بات کو بڑھا چڑھا کر کہنے لگے ہیں۔ ہماری بات پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے اور ہماری دلیل منطقی نہیں رہی ہے۔ ہم لفظوں کے استعمال میں کفایت نہیں برتتے۔ جہاں کہیں لمبے لمبے جملے لکھے ہوں، سمجھئے کہ لفظوں میں فضول خرچی کی گئی ہے۔ سادہ زبان کا حسن اختصار میں ہے۔ چھوٹے جملے ہی سادگی کی دلیل ہیں۔ لفظوں کا چناو ¿ اور ان کو ان کے جائز مقام پر جگہ دینا زبان کی خوبی سمجھی جاتی ہے۔ بارہا لفظوں کا یا تو غلط استعمال ہوتا ہے یا وہ بہت زیادہ اور کثرت سے برتے جاتے ہیں۔ زبان میں لفظوں کی تکرار کانوں پر گراں گزرتی ہے لیکن عام رجحان یہ ہے کہ ایک ہی لفظ ایک ہی جملے میں دو دو اور تین تین بار شامل کر دیتے ہیں جس کی بڑی مثال ’حوالے سے‘ ہے۔ پاکستان میں تحریر میں کم لیکن بات چیت میں ’حوالے سے، حوالے سے‘ کو اتنی بار د ±ہرایا جاتا ہے کہ ذہن الجھنے لگتا ہے لیکن اب حال یہ ہے کہ نہ کہنے والے کو اس کا احساس رہا ہے اور نہ سننے والے کو۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھونڈی ترکیب جن عام لفظوں کی جگہ رائج ہے وہ سیدھے سادے لفظ ہیں: بارے میں، متعلق ،سلسلے میں ، تعلق سے۔ مگر یہ سب ترک کرکے ان کی جگہ ’حوالے سے‘ کی بھرمار کردی گئی ہے۔

زبان کوئی بھی ہو، احترام مانگتی ہے۔ اس میں سادہ پن ہوگا تو شوق سے سنی جائے گی، شوق سے پڑھی جائے گی،پ ±ر اثر ہوگی اور اتنے ہی چاو ¿ سے رواج پاکر روزمرہ گفتگو کا حصہ بن جائے گی، آزما کر دیکھئے۔٭


 روزنامہ جنگ، کراچی

***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 779