donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Razi Mujtaba
Title :
   Shahzad Ahmad Ki Nasri Takhliqat

شہزاد احمد کی نثری تخلیقات
 
رضی مجتبیٰ
 
شہزاد کی شاعری پر کافی اچھے تبصرے نظر سے گزرے مگر ان کی نثری تخلیقات، خصوصاً جن کا تعلق علمِ نفسیات سے تھا اور جن موضوعات پر وہ دل وجان سے کام میں مگن تھے، اُن کا ذکر بہت کم دیکھنے میں آیا۔ اگرچہ خود شہزاد احمد کے کہنے کے مطابق، سیف صاحب نے انھیں 
نفسیات اس لیے نہ پڑھنے کی تاکید کی تھی کہ ان کے خیال میں اس سے شہزاد احمد کی شاعری ہلاکت سے دوچار ہوسکتی تھی، لیکن شہزاد احمد نفسیات کے سحر میں کچھ ایسے آئے کہ انھوں نے سیف صاحب کے تجربے اور علم پر بنیاد رکھنے والی ایک بیش بہا نصیحت کو نظرانداز کردیا۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ علمِ نفسیات سے ان کی بڑھتی ہوئی اور گہری دل چسی نے ان کی شاعری پر کوئی گہن لگادیا، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس دل چسپی نے ان کی شاعری کو بہرحال متاثر کیا۔
 
اپنی جگہ یہ بات بھی قابلِ غور و فکر ہے کہ شہزاد احمد جیسے ذہین آدمی نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ مگر ہم اس مضمون میں اس بارے میں کوئی گفتگو اس لیے نہیں کریں گے کہ یہ ہمارے مضمون کے دائرۂ بحث میں نہیں آتا۔ شہزاد احمد کی یوں تو کئی کتابیں نفسیات پر ہیں مگر میں نے اس مضمون کے لیے جن کتابوں کو منتخب کیا ہے وہ ہیں:
1۔ ژونگ
2۔ ایڈلر
3۔ اوسپسنکی
ان کتابوں کو شہزاد احمد نے جتنی محنت اور گہرائی سے لکھا ہے یہ تو ان کو پڑھنے کے بعد ہی معلوم ہوسکتا ہے۔ ہم اس مضمون میں ان موضوعات پر بحث کریں گے جن کو قارئین اور تنقید نگاروں نے ترجیحی طور پر پیشِ نظر رکھا اور جن پر بار بار مختلف زاویہ ہائے نظر سے اب تک بحثیں جاری ہیں، لیکن اس سے پہلے میں نفسیات کے بارے میں کچھ Academic گفتگو بھی کروں گا کہ اس گفتگو سے میرے مضمون کا کھونٹا بندھا رہے گا۔
 
آئیے سب سے پہلے تو ہم دیکھیں کہ آخر نفسیات اپنی نیچر میں ہے کیا؟ نفسیات نصابی اور applied دونوں شعبوں میں استعمال ہوتی ہے اور انسان کے ذہن اور اس کے افعال کا جائزہ لیتی ہے۔ نفسیات کی ریسرچ یہ جاننا اور ہمیں یہ سمجھانا چاہتی ہے کہ ہم کس طرح سوچتے ہیں؟ کس طرح ہماری عادتیں تشکیل پذیر ہوتی ہیں اور ہمارے احساسات کیوں کر جنم لیتے ہیں؟ نفسیات نے حیاتیات اور فلسفے دونوں ہی کی کوکھ سے جنم لیا۔ ان دونوں علو، یعنی حیاتیات اور فلسفے پر سقراط کے زمانے سے بحث جاری ہے۔ سائیکولوجی یونانی لفظ سائیکی سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے ’’نفس‘‘۔ نفسیات نے ایک جداگانہ سائنس کی حیثیت سے اُس وقت جنم لیا جب Wilhelm Wundt نے پہلی مرتبہ Leipzig,Germany میں اپنے نفسیاتی کلینک کا افتتاح کیا۔ نفسیات کے مندرجہ ذیل مکاتبِ فکر ہیں:
 
1۔ ساختیات (Structuralism)، یہ نظریہ کہ ساخت کو عمل سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
2۔ نظریۂ فعلیت (Functionalism)، یہ وہ نظریہ ہے جو عملی اخلاق پر زیادہ زور دیتا ہے۔
3۔ تحلیل نفسی (Psychoanalysis)، اس کے تحت ذہنی رویوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
4۔ نظریۂ طرزِ عمل (Behaviouralism)، اس کے ذریعے باہمی تعلقات کے رویوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
5۔ انسان دوستی (Humanism)، اس میں انسانوں کی طرف شخصی طرزِعمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
6۔ ادراک یا تفہیم (Cognitivism)، اس میں تجزیے کے بعد نتائج متعین کیے جاتے ہیں۔
 
لیکن اب نفسیات ان مکاتب کو تقریباً رد کرکے اسے سائنٹفک طریقے سے اور سائنسی تجربات کے ذریعے نفسیاتی مسائل کا حل تلاش کرتی ہے۔ چوں کہ دو ماہرینِ نفسیات ان تمام مکاتب اور نظریات پر تنقید کرتے ہیں اس لیے ان کا تذکرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ کارل گستاو ژونگ سوئٹزرلینڈ کا ماہرِ نفسیات اور نفسیاتی امراض کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ اس نے تجزیاتی نفسیات کا نظریہ پیش کیا۔ اس کو اس کے انسانی سائیکی پر عبور کی وجہ سے لوگ پیغمبر کا درجہ دینے لگے تھے۔ اس کے یوں تو نفسیات اور کیمسٹری پر کئی مضامین اور کتابیں مشہور ہیں، لیکن اس کی کتاب Modern Man In Search Of Soul  شاہکار تصور کی جاتی ہے۔ شہزاد احمد نے نہ صرف اس کتاب کی شرح و تعبیر بہت سلیس الفاظ میں کی ہے بلکہ اس پر سیر حاصل بحث کرنے کے بعد اس کے حواشی میں مختلف نفسیاتی اصطلاحات کو بہت ہی آسان اردو میں منتقل کیا اور ان کی تشریح بھی ایسی کی جو ایک عام آدمی جس نے کبھی نفسیات نہ پڑھی ہو، کی بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔
 
انھوں نے ژونگ کے Introversion اور Extroversion کے تصور کو بھی بخوبی عام فہم بنایا۔ پہلی اصطلاح کا مطلب دروں بینی ہے اور دوسری کا بیروں بینی۔ انسان کے دروں بیں یا بیروں بیں ہونے کے پیچھے جو مخفی قوتیں کارفرما ہوتی ہیں ان کو بھی شہزاد نے بہت گہرائی سے سمجھا اور انتہائی سلاست سے سمجھایا۔ ان کی نفسیات پر تحریریں پڑھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ وہ خود بھی نفسیات کے عالم تھے۔ ژونگ پر کتاب کے تیسرے باب میں انھوں نے بہت محنت کی۔ اس میں انھوں نے ژونگ کے اجتماعی لاشعور کے آرکی ٹائپ کو جس طرح عام انسان کے ادراک تک پہنچانے کی کوشش کی ہے وہ یقینا قابلِ داد و تحسین ہے کہ یہ گمبھیر تصور جب تک لکھاری خود کلی طور پر اچھی طرح نہ سمجھ لے، دوسرے کو کچھ بھی نہیں سمجھا سکتا۔ الغرض شہزاد احمد نے ژونگ کی نفسیات کو اس طرح ہر زاویے سے دیکھا ہے کہ ان کی بصیرت کا ہر کوئی قائل ہوکر رہتا ہے۔
 
اسی طرح انھوں نے الفرڈ ایڈلر پر جو کتاب لکھی ہے وہ نہ صرف ان کی نفسیات پر دسترس کی دلیل ہے بلکہ ان کے انگریزی زبان پر عبور کا بھی ثبوت ہے۔الفرڈ ایڈلر آسٹریا کا ایک میڈیکل ڈاکٹر، ایک نفسیاتی امراض کا معالج ہونے کے علاوہ ایک فردی نفسیات کے انسٹی ٹیوٹ کا بھی بانی تھا۔ اس پر شہزاد احمد کی کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اس کتاب میں فرائیڈ اور ایڈلر کے باہمی روابط پر جو روشنی ڈالی ہے اس سے ہمیں ان کی رفاقت کی گہرائی کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ یہ رنگ ان کی دوستی اور اُن کی ایک دوسرے سے باطنی ہم آہنگی سے پیدا ہوئے ہیں۔ خود شہزاد احمد کہتے ہیں کہ ’’اڈلر، فرائیڈ کے قابل ترین شاگردوں میں سے تھا لیکن اس میں ایک ایسی کم زوری تھی جو کھل کر سامنے آجاتی تھی۔ وہ تحلیل یا تجزیہ نہیں کرسکتا تھا۔‘‘ اس ایک فرق کے ہوتے ہوئے بھی فرائیڈ کی اڈلر کے لیے ہم دردی اور دوستی کبھی کم نہیں ہوئی۔ شہزاد احمد نے اڈلر کی ذاتی زندگی اور اس کے نفسیات کے علم کو مفصل طور پر بیان کیا اور وہ بھی بہت ہی سلیس اردو میں۔
 
اوسپنسکی کی سریت اور اس کے مخفی علوم پر لکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ شہزاد احمد بھی مخفی علوم سے بے حد دل چسی رکھتے ہیں۔ In Search Of the Miraculous (معجزوں کی تلاش میں) اس کی بہترین کتاب سمجھی جاتی ہے اور اس کے متعلق شہزاد احمد نے حیرت ناک ادراک سے بہت کچھ لکھا۔ غرض یہ کہ ہم برملا یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہزاد احمد کا مطالعہ نفسیات کے میدان میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ 
 
وہ ان گنے چنے لوگوں میں تھے جو صرف شاعری ہی میں نہیں لگے رہے بلکہ ان کو مختلف النوع علوم کو استغراق سے پڑھنے کا بہت ہی شوق تھا۔ ان کے اس علمی پہلو پر نظر ڈالتے ہوئے انسان یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ مختلف علوم کے مطالعے کی assimilation یا انجذاب کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے۔ان کو نظریاتی فزکس پڑھنے کا بھی از حد شوق تھا۔
 
آخر میں، میں یہ کہوں گا کہ اس علمی استعداد کے لوگ پاکستان ہی میں کیا دنیا بھر میں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ میں، جو لوگ بھی ان کی شاعری پڑھتے ہیں، ان سے گزارش کروں گا کہ وہ ان کی شاعری کے ساتھ ان کی نثری تخلیقات کا بھی مطالعہ کریں۔ اس سے ان کو جدید شاعری میںاستعاروں اور علامتوں کی تخلیق میں بہت مدد ملے گی۔شہزاد احمد ایک بہت وسیع العلم جدید شاعر تھے۔ ان سے ہماری نئی نسل کے نوجوان غزل میں اجنبیت کے بغیر جدت پیدا کرنے کا ہنر سیکھ سکتے ہیں۔میری ان سے ایک دو ہی ملاقاتیں ہوئیں اور وہ بھی بہت مختصر، مگر ان ہی مختصر ملاقاتوں میں انھوں نے اپنی بہت ہی علمی اور ہمہ جہت شخصیت کے سحر سے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔گو میں نے اس بات کا اعتراف یا تذکرہ تک ان کے سامنے نہیں کیا ،جس کا اب مجھے بہت ہی افسوس ہے۔
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1178