donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Razia Kazmi
Title :
   Shayar Aur Asri Taqaze


شاعراور عصری تقا ضے

 


 رضیہ کاظمی

       ہرزبان کےشاعر نے فی زمانہ کم وبیش اپنے ملک  کے عصری تقا ضوں کے مطابق ہی جانے یاانجانےاپنی شاعری کو تراشاہے .ہومر ہوں یا ورجل،ورڈس ورتھ ہوں یا کولرج اور شیلےہوں یا کیٹس.خواہ یہ ایّام جاہلیت کےعرب رزمیہ شاعرہوں.

   انسان اشرف المخلوقات ہے .شاید اسی وجہ سے وہ کائنات میں سب سے زیادہ حساس مخلوق ہے . حالانکہ وہ سب سے بڑھکر ذی شعور اور سمجھدار ہے اور یہ خوب جانتا ہے کہ نظام قدرت کے سامنےوہ محض کٹھ پتلی ہے لیکن کوئ بھی نا خوش گوار واقعہ اجتماعی اور خا  ص طور پر شخصی اسے بے چین کردیتا ہے. ہمارا ماحول ہمیں اداسی دیتا ہے اور پھر جب یہ دل اداس ہواتو ساری فضا ہی غمگین دکھائ دینے لگتی ہے. ہر فرد اپنے احساسات کا اظہار بھی بقدر اپنے مزاج ومقدرت کے کرتاہے . ایک عام خیال یہ ہے کہ شاعر دوسرے لوگوں سے زیادہ حسّاس طبیعت کا حامل ہوتا ہے.اس کے مشاہدات عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں .اس کی قوّت متخیّلہ کسی ماحول، واقعہ یا حادثہ میں رنگ آمیزی کرکے اس میں نیا پہلو، الگ نظریہ اورعجیب پہلو تلاش کر لیتی ہے.کسی نے یہ بھی کہا ہے .„ کائنات میں سب سے مہنگی چیز احساس ہے جو ہر انسان کے پاس نہیں ہوتی.“

         شاعری کیا ہے جذبات ، احساسات اور خیالات کاموزونیت کے ساتھ اظہارجس میں موسیقیت ہو اور آہنگ بھی.اچّھی شاعری وہی ہے جو فطری جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہو اور تصنّع و بناوٹ سے پاک ہو. شاعر نہ توپہاڑ کی چوٹیوں یا غاروں میں زندگی گزارنےوالا ایک راہب ہوتا ہےاور نہ خانقاہوں میں پلنے والا کوئ صوفی. وہ عام ہوتے ہوئے بھی خاص ہوتا ہےاور خاص ہوتےہوئے بھی عام. وہ ہمارے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے. وہ اپنے چاروں طرف جو کچھ دیکھتا ہے، خود اپنے یا دوسروں کے تجربات سے جو سیکھتا ہے اور جو محوس کرتا ہے ان سب کا نچوڑمختلف اوقات میں مختلف اندازسےاپنی محبوب صنف شاعری کے ذریعہ دانستہ ونادانستہ پیش کرتا ہے.شاید ہرقاری میری اس راۓ سےحرف بحرف متّفق نہ ہوکہ ہراچّھے شاعر کےکلام میں کہیں نہ کہیں اورکبھی نہ کبھی عصری ماحول کی جھلکیاں ضرور ملینگی خواہ وہ دشنہ و خنجر کی آڑ میں ہوں یا گل وبلبل کے پردے میں.جب ادب محض دائرۂ تفریح اورکمال فن کےاظہارتک محدود تھا اور آلۂ نشر و اشاعت نہ ہوا تھا،جب وہ انگریزی ادب کے سایہ سےبھی دور تھا، جب غزل بھی صرف اپنے لغوی معنوں تک محدود تھی اسوقت بھی گاہے بگاہےشعراء کےکلام سےعصری حالات کی غمّازی ہوتی رہی ہے.گو دانستہ نہ سہی مگر ماحول سے پیدا شدہ خیالات کا اظہارلاشعوری طور پررد عمل کی صورت میں اکثر ہوتارہا ہے. قصیدوں کی تشبیبیں کبھی کبھی ذکر شباب چھوڑ کرحالات روزگار کا مظہر بنتی رہی ہیں.میر تقی میرکے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے ذاتی غم واندوہ میں اس قدر مستغرق رہا کرتے تھےکہ انھیں مدّتوں اسکا علم نہ ہو سکا کہ ان کےگھر میں پائیں باغ بھی ہے . وہ اس طرح حالات کی بدحالی کا ذکرکھلےالفاظ میں کرتے ہیں:

 کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
 مجھ کو غریب جان کےہنس ہنس پکار کے
         ہم جب کبھی ادبی اوراق پلٹ کر

 دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
 رہتے تھےمنتخب ہی جہاں روز گار کے

 اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
 ہم رہنے وا لے ہیں اسی اجڑے دیار کے

       اگر ہم اردو شاعری کی تاریخ کے پچھلے اوراق پلٹ کر دیکھیں توشعراء کے کلام میں اکثریاسیت کا عنصرنظر آۓ گاجو انفرادی کے ساتھ ساتھ عصری بیچینی کا نتیجہ ہے. علم نفسیات کی روسے تیین طرح کے لوگ پاۓ جاتے ہیں:

               ۱.قنوطیت پسند ۲. رجائیت پسند ۳. رواقیت پسند

           میرتقی میر، محمدرفیع سودا اور خواجہ میر درد  تینوں ہمعصر شعراء کو الگ الگ ان تین زمروں میں بانٹا جاسکتا ہے. میر کے غم انگیز اشعار، سودا کی ہجویات اور میر درد کےتصوّفانہ اشعارایک ہی زمانہ کی لوٹ مار ، فتنہ و فساداور عصری بے چینی کے نتائج ہیں .ان تینوں نےاپنے دور کے سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی حالات سے اثرات قبول کیۓاوراپنی فطرت کےمطابق مختلف پیراۂ بیان کے ذریعہ اظہار خیال کیا.

           غالب کی شاعری  میں بھی „ کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرتصویر کا“ کی کیفیت ہے لیکن دور شہنشاہیت میں افراد کواپنی بات کھل کرکہنے کا زیادہ حق ہی کہاں ہوتا ہےاور حکومت سے صلہ کی امّید زبان پر مہر سکوت لگا دیتی ہے .در اصل اس زمانہ تک ذہنوں میں اجتماعی خیا لات کےسوتے بھی نہیں پھوٹے تھے .

           ہندوستان میں سن۱۸۵۷ء کے ناکام انقلاب نےاردو ادب کو نئ قدروں سے روشناس کرایا . شاعری  میں نظم کے باقاعدہ ایک صنف کی صورت میں آجانے سے خیالات کو تسلسل کے ساتھ ادا ئگی کی سہولیت مل گئ .اب ڈیڑھ سو سال سےزیادہ کے عرصہ سے ہماری اردوشاعری  سیاسی ،سماجی ، معاشرتی اور اقتصادی عالمگیرعصری حالات کی آئینہ دار ہے .

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 741