donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Hamara Nasabul Ain Hadaf Aur Hamari Hikmate Amli


ہمارا نصب العین ۔ ہدف اورہماری حکمت عملی

 

 ریاض عظیم آبادی

 

    مجاہد اردو مولانا بیتاب صدیقی مرحوم کا میں شاگرد رہا ہوں ،وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے قومیں تین طرح کی ہوتی ہیں۔اول وہ جو کہتی ہیں ’یہ کام ہوگا‘  دوسری کہتی ہیں  ’یہ کام ہونا چاہیے ‘ اور تیسری وہ ہیں جو کہتی ہیں ’ کاش ایسا ہو تا‘۔میں نے بارہا لکھا ہے ’خیر ات کے طلب گار کبھی تاجدار نہیں بن سکتے‘ اور حق کی بھیک نہیں مانگی جاتی بلکہ جدوجہد سے حاصل کی جاتی ہیں۔عزم ،حوصلہ اورہدف کے نشانے کا تعاقب کرنے والے لوگ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے زندہ قوموں کی طرح حصولیابی کے لیے کوشاں رہتے ہیں،دوسرے لوگوں میںجذبے کی کمی رہتی ہے اور امید پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں لیکن تیسریطرح کے لوگ خواب غفلت میں رہتے ہیں اور کوشش کم ’کاش ایسا ہو جائے‘ کے خواب میں کھوئے   رہتے  ہیں۔ آپ ایماندار ی سے غور کریں اور بتائیں کہ کیا ہم یعنی ہم مسلمان’کاش ایسا ہوتا‘ کی صف میں کھڑے نہیں ہیں؟  

    ہمارا یعنی مسلمانوں کا نصب العین کیا ہو؟ سماجی،معاشرتی،تعلیمی اورملی نصب العین کی فہرست میں کس کوترجیح دینی چاہیے۔ویسے معروف کالم نگارڈاکٹر غلام زرقانی سے اتفاق کرتا ہوں کہاللہ رب العزت نے فطرت کے عین مطابق ہمارے لیے قرآن مقدس ہر پل کے لیے راستہ بتا رکھا ہے جس پر عمل کرنا ہی ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔دنیا وی زندگی تو انسان کے لیے عارضیمقام ہے ہمیں دنیا میں آخرت کی تیاری کرنی ہے۔مسلماں اپنے صالح عمل اور اعلیٰ اخلاق سے معاشرے میں پہچانا جاتا ہے۔ہم مسلمانوں کی شناخت ہماری شریعت،ہماری اجتماعیت،ہماری عبادات اور تمام اختلافات کے باوجودہماری یکجہتی ہے،اور یہی ہماری طاقت اور شناخت بھی ہے۔ہم اپنی شناخت برقرار رکھنے کی سعی کر ہم خود کو سر بلند رکھنے کے لیے  مسلسل کوشاں رہیں یہ ہمارا نصب العین کے ساتھ ساتھ ہمارا ہدف بھی  ہے۔ 

    مسلمانوں کا کوئی بھی ہدف اجتماعی ہی ہو گا کیونکہ اجتماعیت اسلام کی روح ہے۔اسلام اور مسلم مخالف عناصر،نفرت پھیلانے والی قووتیں اور فرقہ پرستی کے کندھوں پر سوار کر ملک پر فسطایت مسلط کرنے والی جماعتیںاور انکے لیڈران کی طاقت کو بے اثر کرنا اور انکی سازشوں کو بے نقاب کرنا ہماری بقا کے لیے لازمی ہے۔ ہم اور ہماری ملی و دینی تنظیمیں کس قدر بیدار ہیںاور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کس قدر تیار ہیں اسکا اندازہ تو ایک عام مسلمانوں کو بھی ہے لیکن ہم اہنی کمزوریوں کا احتساب کرنا نہیں چاہتے۔کمزوریوں کا احساس اور احتساب ہی ہمیں فتح و کامرانیوں سے ہم کنار کرتا ہے۔ہمارا عمل،ہماری کاوشیں اور جدوجہد سے ہمیں کیا ملا اور کون کون سی باتوں سے محروم رہ گئے ہیں اس پر بحث و مباحثہ نئی راہ نکالنے کی ہم کوشش کرتے ہیں؟

    مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم مسلم پرنل لا بورڈ نے بہت ہی سوچ سمجھ کر ’دین بچاؤ دستور بچاؤ ‘ کی آواز دی ہے۔لیکن ہم آواز  کے تئیں کس قدر سنجیدہ ہیں؟جب ہماری شریعت کو بدلنے اورمشترکہ سیول کوڈ نافذ کرنے کی سازش کی گئی تو پوری مسلم قوم بلا امتیاز مسلک و برادری دستخطی مہم میںلگ گئی اور کرڑوں دستخط کرا کر اسلام دشمن عناصر کے منھ پر کالک پوت دی۔ملک  میں مسلم پرسنل بورڈ نے ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کی وہ واحد نمائندہ تنظیم ہے۔حضرت ولی رحمانی جنرل سکریٹری مسلم پرسنل لا بور ڈآج مسلمانوں کےspoksmanہیں۔

    ۱۹۲۴ میں انگریزوں نے آر ایس ایس کی بنیاد ڈالی تاکہ ہندوؤں کو اپنے مذہب کے تئیں شدت پسند بنایا جائے اور ہندو مسلمانوں کی صدیوں پرانی ہم آہنگی میں درار ڈالی جا سکے۔اسکا خمیازہ ہم نے گاندھی کی  شہادت کی شکل میں میں بھگتا ۔آر ایس ایس کے نظریات  نے ہم سے گاندھی جی کو چھین لیا۔آر ایس ایس کے خطرہ کو اس طرح محسوس کیا جا سکتا ہے ۔اس ملک میں آر،ایس ایس کی پچاس ہزار شا خیں ہیں جس میں پچاس لاکھ رضا کاربھی ہیں ہندو بچوں کے ذہن کو زہر آلود کر نے کہ لیئے ودیا مندر کے نام پر تیس ہزار اسکول چلا ئے  جا رہے ہیں جس میں تین لاکھ اساتذہ اپنی خد مات انجام دے رہے ہیں ۔پچاس لاکھ بچے ان ویدیا مندروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ نوے لاکھ بی ایم سی کے ممبران ہیں پچاس لاکھ اکھل بھارتیہ ویدیار تھی پریشد کے ممبران ہیں ۔ملک میںپانچ سو اشاعتی مراکز ہیں ۔دس کڑور بھاجپا کے ممبران ہیں  جن میں چار ہزار تنخواہ دار ملا زم ہیں ۔ایک لاکھ سکبدوش فوجی ممبران ہیں سات لاکھ ویشو ہندو پریشد کے ممبران ہیں سات صوبوں میں ان کی حکومت ہے 280 ممبر پارلیمنٹ ہیں اور پانچ سو ایم ایل اے ہیں ۔ان عداد شمار کو دیکھ نے سے آر ایس ایس کی طاقت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔ہما را ہدف اس طا قت کا مقابلہ کر نا اور آر ایس ایس کی حقیقت کو عوام کے سامنے بے نقاب کر سماج سے دور کر دینا ہے میں آر ایس ایس اور بھاجپاکی طاقت سے قطعئی مرعوب نہیں ہوں ۔ہمیں دو با توں کو گرہ میں باندھ لینی ہے ،اول تو یہ ہے کہ ہندوستان گنگا جمنی تہذیب کی طا قت سے ہی متحد اور طاقت ور بنے گا دو ئم یہ کہ سکولڑ طاقتوں کو تمام اعتراضات کے با وجود ملک کی بقا کے  لیئے مضبوط کر نا ہو گا ۔

ابھی حال ہی میں پانچ دنوں تک سیکھوں کے دسویں گرو گوویند سنگھ کی تین سو پچاسویں یوم کے موقع پر مسلم ،ہندو ،سیکھ ،کی یکجہتی کا دل فریب نظارا دیکھ نے کو ملا دنیا کے گوشہ گوشہ سے سیکھ عقیدت مند بہار کی راجدھانی پٹنہ تشریف لا ئے ۔عالم گنج سلطان گنج مسلمانوں کی بڑی آبادی والا علاقہ ہے ۔لاکھوں سکھ بھا ئی کرتن کر تے ہو ئی گاندھی میدان سے گرودوارا کی جانب گامزن تھے ۔پٹنہ کے میر افضل امام،جماعت اسلامی کے درجنوں ممبران مقامی امیر رضوان اصلاحی کی قیادت میں ،آل انڈیا تحریک انصاف کونسل کے جنرل سکریٹری شکیل احمد ہاشمی کی قیادت میں درجنوں افراد ، معروف صحافی ریاض عظیم آبادی ،ایل این مشرا انسٹی ٹیوٹ کے پروفسر اور واڑڈ 52 کے جدیو کے صدر ارشد حسین  سماجی کارکن ذیشان کلیم اور شاعر جمال کاکوی ،واڑد 53 کی ہر دل عزیز واڑڈ کونسلڑ گلفشاں جبیں عرف سگن ،اشوک راج پتھ میں الگ الگ جگہوں پر سکھوں کا خیر مقدم کر تے ہوئے انہیں گلاب کا پھول پیش کر تے ہو ہے دیکھے جا رہئے تھے پٹنہ کے عوام نے اس طرح کا  جذباتی مسلم ہندو، سیکھ یکجہتی کا سین  پہلی بار دیکھا۔ سکھوں کے چہرے پر خوشیاں جھلک رہی تھی اور کئی جگہوں پر تو وہ مسلمانوں سے گلے ملتے ہو ئے بھی دیکھے گئے۔

مسلمانوں کے اہداف میں مسلم دلت اور مسلم سکھ ایکتا کا قیام ترجیح میں سب سے اول ہدف رہنا چا ہیے ۔
    اپنی معاشرتی کمزوریوں کا مقابلہ کر نا ،مسلمانوں کے در میان بڑھتی جا رہی مسلکی شدت پسندی اور ذات برادری کے نام پر نفرت پھیلا نے کی کو ششوں کا مقابلہ کر نا ،ہما رے بچے اور بچیاں اسکول جا ئیں اس کی گا رینٹی کر نا ،اردو کی تعلیم کو فروغ دینا ،اردو سرکا ری اسکولوں کی اردو تعلیم کا جا ئزہ لیتے رہنا ،مسلم نوجواں کو انکیذمہ داریکا احساس دلانا ہما رے بچے اسکولوں میں اچھا نمبر لا ئیں اور کالجوں میں بہترین کار گر دگی کا مظاہرہ کریں اس کے لیئے ماحول ساز گار کر نا بہار رابط کمیٹی سرکاری مراعات مسلمانون کو کیسے ھاصل ہوں اس کے لیئے کوشاں ہے ہمیں اس بات کی کو شش کر نی ہو گی کہ مسلمانوں کو سر کا ری اسکیموں سے با خبر کرا یا جا ئے اور ان اسکیموں کا فا ئیدہ مسلمانوں کو حاصل ہو اس کی کو شش کر نا ۔

    مسلمانوں کا نصب العین اور اہداف کو متعین کرنے  کے بعد ہمیں اپنی حکمت عملی بنا نی ہو گی ،اس کے لیئے ہمیں سر گرم ہونا ہوگا اور مسلمانوںکے اندر کچھ کر نے کا جنون پیدا کر نا ہوگا ۔ہمین اس کام کو کر نا ہے اس جزبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے کاش ائسا ہوتا مردا صیفت لوگ کہا کر تے ہیں اور چاہئے کی زبان تڑاش لے نی ہو گی جب تک کے ہم زندا نہیں ہونگے ،اہنے مسائل کے لیئے بیدار نہیں ہونگے اور اپنے اندر ملکر کام کر نے کا حوصلہ پیدا نہیں کرینگے تب تک ہم اپنی قوم کو فرقہ پرستوں اور فسطائی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیارنہیں  کر سکیںگے۔ 

    مین پھر کہنا چاہونگا کے ہم نئے نوجوان پیدا نہیں کر سکتے جو نو جوان ہیں انہیں ہی تڑاش خراش کر اس لائق بنا نا ہو گا کہ وہ ایک نئے انقلاب کے داعی بن سکیں ۔میں نے شہروں کے ہر واڑد میںاوردہات کے ہر پنچائت میں دس مسلم اور دس غیر مسلم نوجوانوں کا ایک امن دستہ تیار کیا جائے جو تین شرطوں کی بنیا د پر متحد ہونگے اول انہیں اشتعال انگیزی سے بچنا ہو گا اور دوئم اعتدال پسندی کے دامن کو مضبوطی سے تھام لینا ہو گا اور سویم کہ کسی بھی حالت میں قانون کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لینا ہوگا ۔ان تین شرائط کی بنیاد پر تعمیر کر دہ نوجوانوں کا دستہ معاشرے ،میں امن کا ضامن بنے گا اور  ہم انکی مدد سے ہم مسلم معاشرے کو امن و آتشی کا گہوارا بنا سکیں گے۔صوبہ کے ہر ضلع اور اہم شہروں میں سیمینار اورمذاکرے کا انعقاد کر مثبت راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور یہیہماری حکمت عملی ہونی چاہیے۔میں بہار کے سبھی اضلاع کے با شعور اور بیدار نوجوانوں  سے درد مندانہ اپیل کروںگا کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں،اگر کوئی  شک ہو تو مجھ سے رابطہ کر باتیں کریں۔

    مجھے ایسا لگتا ہے کہ مسلم معاشرہ تنقید زد ہ تھا ہی اب اسکا مریض ہو چکا ہے،ہمیں اپنی کمزوریوںپر غور کرنے کی فرصت نہیں ہے لیکن دوسروں پر انگلی اٹھانے اورتنقید کا نشانہ بنانے میں سب سے آگے رہتے ہیں۔اپنی قیادت کو گالیاں دینا انکی لعنت ملامت کرنا ہماری فطرت بن چکی ہے۔ہم بغیر کسی وجہہ کے نفرت کرنے لگتے ہیں۔مسلمانوں کو نفرت کرنے کی تعلیم نہیں دی گئی ہے،ہاں دشمنوں سے دور رہنے اور انکی چالوں کو سمجھنے کا شعور ضرور دیا گیا ہے۔میں پھر یہ دعویٰ کرنا چاہ رہا ہوں کہ جس روز ہمیں جمہوریت کی اہمیت اور جمہوریت کو برتنے کا سلیقہ آ جائے گا ہم اپنے بیشتر مسائل کا حل حاصل کر لیںگے۔ ووٹ دینا اور حکومت بنانے ہمارا کردار اہم ہوتا لیکن اسکے بعد کی کاروائی سے غفلت برتنے کی حماقت کے شکار ہو جاتے ہیں۔

    ٭سچر کمیٹی کی رپورٹ کا کیا ہوا؟٭جسٹس رنگ ناتھ مشراکی سفارشات کو کیوں ڈمپ کر دیا گیا؟ ٭فساد روکنے کے لیے بننے والا قانون کہاں دفن کر دیا گیا؟مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے وعدے کا کیا ہوا؟…ہم کیا کرتے رہے،حکومت اور کانگریس کو کوستے رہے ایک سوال اور ملک میں ہونے  والے فرقہ وارانہ فسادات کی جانچ کے لیے تحقیقاتی کمیشنوں کا قیام عمل میںآیا،کمیشنوں نے دیر سے ہی حکومت کو اپنی رپورٹ  بھی سونپی،ان ، رپورٹوں کا کیا حشر ہوا؟

     ہمارا المیہ ہے کہ ہم  برادران وطن کے کردار و عمل پر غور نہیں کرتے۔راجستھان میں گوجروں نے ہریانہ میں جاٹوں نے اور گجرات میں پٹیلوں اپنی عوامی تحریک کی طاقت کا احساس پورے ملک کو کرا دیا  لیکن اس کی اہمیت کو سمجھنے سے مسلمان قاصر رہے۔ جمہوریت میں اپنے حقوق کی جنگ ایوان اورایوان سے باہر سڑکوں پر لڑی جاتی ہے۔ ملک میں ۲ فیصد سکھ ہیں لیکن  وہ اپنی ایکتا کی طاقت کو اچھی طرح  جانتے ہیں اور حکومت کو جھکنے کے لیے مجبور کر دیتے ہیں۔ ہم نے کیا کیا؟انہوں اپنے گولڈن ٹمپل کی بے حرمتی برداشت نہیں کی اور چند سر پھروں ہم اندرا جی کو چھین لیا۔۱۹۹۲ فرقہ پرستوں نے بابری مسجد شہید کر دی اور ہم کوسنے کے علاوہ کیا کر پائے؟علی گڈھ یونیورسیٹیاور جامعہ کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہم صرف بیان داغنے میں مصروف ہیں۔ جس روز علیگڈھ مسلم یونیورسیٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کا بیان آیا تھا اسی روز اے ایم یو کے طلبا عوام کے ساتھ سڑکوں پر بیٹھ جاتے اور پر امن طریقے سے شہر کا چکا جام کر دیتے تو آج حالات کچھ اور ہوتے۔بہار میں اسکاتجربہ کیا جا چکا ہے۔اے ایم یو کی کشن گنج شاخ کے لیے زمین دینے میںکوتاہی برتنے اور ٹال مٹول ہونے لگا تو اسوقت کے ایم ایل اے اخترلایمان کی قیادت میں عوام سڑکوں پر اتر آئے،ٹرین کا چکہ جام کر دیا اور حکومت کو جھک مار کر زمین دینی پڑی۔متحدہ ملی محاذ کے بینر اٹھا کر ڈاکٹر تنویر حسن اور اخلاق احمد نے رنگ ناتھ مشرا کمیشن کے عوام  کو بیدار کرنے کی شاندار کوشش شروع کی تھی مگروہ بھی ٹائیں ٹائیں فش ہوکر ہ گیا۔بہارمسلمانوں کی حالت ایسی ہے کہ وہ سامنے رکھا کھانا کھانے کے لیے کسی انتظار کریںگے کہ کوئی آکر انکے منھ میں نوالا ڈال دے۔ہم بہار میں اپنی خاموش حکمت عملی سے بھاجپا کو دھول چٹا دی،اسکے بعد…؟ہم کیا کر رہے ہیں؟؟ ادارۃ شریعہ کے بلیاوی صاحب ایم ایل سی بنا دیے گئے،بھاگلپور کی ایک غیر معروف خاتون راجیہ سبھا بھیج دی گئیں…یعنی مسلمانوں کے مسائل حل ہو گئے،سرکاری اسکولوں میں اردو کی تعلیم جاری ہے،اردو ٹی اے ٹی پاس  امیدواروں کو نوکری مل گئی؟ وقف کی ملکیت کو بچانے کی جنگ لڑنے والے حاشیہپر کھڑے ہیں۔حکومت بہار آج پنشن پانے مٹھی بھر سکبدوش افسران کااڈہ بن چکا ہے۔افسران  یہ سمجھاتے ہیں کہ نتیش حکومت انکے دم سے ہے،اردو ادب اور اردو زبان انکی وجہہ سے زندہ ہے۔پنشن کے علاوہ انہیںسرکاری مراعات ہر حال میں چاہیے۔وزیر اقلیتی فلاح اردو کے پروفیسر بھی ہیں لیکن وہ سکبدوش افسران کے قبضے سے آزانہیں ہو پا رہے ہیں۔نتیش وہی کرتے ہیں جو انہیں سمجھایا جاتاہے۔مدرسہ بورڈ کے چیرمیں کو ہی لیں وہ ریٹائر ہونا گناہ سمجھتے ہیں اور اپنی قابلیت کا معاوضہ سرکار سے کب تک وصولتے رہیں گے اسکا اندازہ انہیں بھی نہیں ہے۔صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں  کہ مدرسہ بورڈ چیرمیں بورڈ کے سکریٹری پر لگام نہیں کس سکے اور حکومت نے بد عنوانی کے الزام میں سکریٹری کو معطل کر دیا یعنی چیر مین کی گود میں بد عنوانی کا کھیل کھیلا جاتا رہا۔پیروی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپرپیوی کا بول بالا ہے۔زیادہ تر پیروی انصاف کے لیے یا پھرکسی کا حق مارنے کے لیے کی جاتی ہے۔میں بھی پیروی کرتا ہوں مگر اسلیے کہ انٹر ویو کے دوران  اسکی قابلیت کا صحیح  احتساب ہو اور اسکے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔میں صرف لائق امیدوار کی پیروی صرف اسلیے کرتا ہوں کہ کہ وہ منفی پیروی کا شکار نہ ہو جائے۔

    مسلم نوجوان مایوسی اور نا امیدی کے درمیان جھیل رہے ہیں ۔ملی تنظیموں کو انکی کوئی فکر نہیں ہے۔وہ نوجوانو کے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔میں پٹنہ میں بہار کے سبھی اضلاع کے نوجوانوں کی ایک مشاورتی مٹنگ کرنا چاہتا ہوں تاکہ نوجوان ملک و ملت اور معاشرے پر منڈلا رہے خطرے کا مقابلہ کرنے کی راہ تلاش کر سکیں ۔اگر آپ کا ضمیر بیدار ہے اور کچھ کرنے کا  جذبہ رکھتے
ہیں تو میرے نمبر پر اپنا پوسٹل ایڈریس اور فون نمبر اور واٹس نمبر بھیج دیں تاکہ آپ کو مٹنگ کی تفصیلات سے مطلع کیا جا سکے۔

    نوٹ بندی کی مصیبت کم ہو چکی ہے۔ہماری معیشت کو حماقت میں کمزور کر دیا گیا ہے۔اتر پردیش میںباپ بیٹے کی جنگ سے بھاجپا کو واک اوور ملنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔بھاجپا کوروکنے کے لیے  مسلمانو کو مایا وتی کا ساتھ دینے کے لیے سوچنا ہو گا۔سماجوادی ملکر نہیں رہ سکتے۔باپ بیٹے کی جنگ کا فائدہ ہمیں بھاجپا کو نہیں اٹھانے  دینا ہے۔ مایوسی کے دل دل سے نکلیے اپنے اندر کے انسان کو زندہ کیجیے۔اپنے دوستوں سے رابطہ کریں ،گروپ کے درمیان بحث  و مباحثہ کریں،کسی نتیجے پر پہنچیاور ہمیں خبر کریں۔آپکی مایوسی پستی کی وجہہ نہ بن جائے۔اپنے اکابرین کا ساتھ دیں اور ایک مثبت ماحول میں قوم کے اندر نئی زندگی پیدہ کرنے کی سعی کریں اور آپ نئے انقلاب کے داعی بنیں۔

(رابطہ9431421821

 

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1393