donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Urdu Directorate Ki Kawishon Ko Salam Lekin-----



 اردو ڈائر کٹوریٹ کی کاوشوں کو سلام لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ریاض عظیم آبادی 


حکومت بہار کا محکمہ راجیہ بھاشا جسے اردو ڈائرکٹوریٹ کہتے ہیں اردو کے ادیبوں شاعروں اور صحافیوں  کی خدمات کے اعتراف میں تقریبات منعقد کراتا رہتا ہے جسکی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔اسے اردو کا نصیب ہی کہیںگے کہ آج امتیاز کریمی جیسے اردو  کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھنے والے  فعال آٖٖفسرڈائرکٹر ہیں۔خورشید اکبر جیسے معروف شاعر اور ادیب بھی اسی محکمہ سے وابستہ ہیںجنکا تبادلہ گیا ہو گیا ہے یا ہوں کہیں باہمی رقابت اور چپقلش کی وجہہ سے انہوں نے خود ہی اپنا تبادلہ کروا لیا ہے۔اردو اور ہندی  کے معروف افسانہ نگارشاہد جمیل اور اردو تحریک کے ایک ستون اسلم جاویداں بھی اسی محکمہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 

    اردو تحریک کے علمبردار اور اردو کے  مایہ ناز افسانہ نگار سہیل عظیم آبادی کی یوم وفات 29نومبرکوپٹنہ کے ابھیلیکھ بھون کے کانفرنس ہال میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔اس سے قبل اردو کے معروف ناقد کلیم الدین احمد پر منعقدسیمینار میں  مجھے شریک ہونے کا موقع ملا تھا۔اسوقت میں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا’ کلیم الدین احمد اردو اکادمی کے نائب صدر رہ چکے ہیں ان پر منعقد ہونے والی تقریب اردو اکادمی کے کانفرنس ہال میں ہونی چاہیے تھی وہ بھی فری آف کاسٹ!سہیلعظیم آبادی اردو اکادمی کے سکریٹری رہ چکے ہیں لیکن پھر وہی ابھیلیکھ بھون میں تقریب کا انعقاد کیا گیا،جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ۲۵۔۳۰ افراد سے زیادہ اردو  داں شریک نہیں ہو پاتے۔پٹنہ سیٹی،عالم گنج،دانا پور سے ابھیلیکھ بھون  جانے میںکم سے کم پچاس ساٹھ روپیے خرچ ہو جاتے ہیں۔گاندھی میدان ون وے ہو جانے کی وجہہ سے ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔اردو اکادمی کا کانفرنس ہال اشوک راج پتھ پرہے اور بہ آسانی کم خرچ پر پہنچا جا سکتا ہے۔

    سہیل عظیم آبادی میرا جذباتی رشتہ تھا،وہ صرف رشتے  میں میرے چچا ہی نہیں بلکہ میری صحافتی زندگی میںمحرک بھی تھے۔وہ اردو کے معروف افسانہ نگار کے علاوہ مستند صحافی بھی تھے۔انکی صحافتی خدمات  پرمیرا ایک مضمون کئی سال قبل ماہنامہ آجکل میں شائع ہو چکا ہے۔حسین الحق صدارت کر رہے تھے۔قاسم خورشیداور کئی طلبہ نے سہیل صاحب کی افسانہ نگاری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا،لیکن کسی نے بھی انکی صحافتی خدمات کا ذکر نہیں کیا۔وہ روزنامہ ’ساتھی ‘ماہنامہ’ راوی‘ اور ہفتہ وار’ حال‘ کے ایڈیٹر رہ چکے  ہیں۔

    آج میں ریاض عظیم آ بادی ہوں توصرف سہیل چچا کی وجہہ سے۔بات یکم جولائی1967کی ہے،میں روزنامہ ساتھی میں ترجمہ کرنا  سیکھ رہا تھا۔میں نے اپنا لیٹر پیڈ چھپوا رکھا تھا جو پورے ایک لائن کا تھا۔سہیل چچا اور انکے سب سے قریبی دوست عبدلقیوم  انصاری مرحوم کی یوم پیدائش یکم جولائی کوتھی۔اتفاق سے خاکسار کی پیدائش  بھی یکم جولائی کو ہی ہوئی ہے۔ سہیل چچاحسب معمول میرے لیے مٹھائی کا ڈبہ لیکر آئے  وہ بھولتے نہیں تھے کہ یکم جولائی کو میری یوم پیدائش بھی ہے۔  انہوں نے ڈبہ دیتے ہوئے کہا ’ ــبیٹا سالگرہ مبارک ہو!‘ میں نے سرخ گلاب  پیش کیا جو انہین بہت پسند تھا۔ا

میں نے شوق میں اپنا لیٹر پیڈ چھپوا رکھا تھا جو پورے ایک لائن کا تھا۔وہ  لیٹر پیڈ دیکھ کافی ناراض ہوئے اورا نہوں نے میرا لیٹر پیڈ رد کر دیا اور میرے نام کو مختصر کر ریاض عظیم آبادی رکھ دیا۔نصف صدی گزر گئی اب میں اپنا اورجنل نام  بھول چکا ہوں۔صرف اسکول کے ساتھی مجھے ریاض الدین کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔سہیل چچا جب روزنامہ ’ساتھی‘ کے ایڈیٹر تھے تو انہیں انکے بڑے لڑکے(لطیف بھیا سے بڑے تھے وہ)کے انتقال کی خبر دی گئی۔انہوں نے بے انتہا صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا،اداریہ لکھا اور آخری کاپی پریس کو بھیجنے کے بعد ہی گھر گئے۔ ۔وہ ایک عظیم صحافی تھے۔وہ کہا کرتے تھے ’ بیٹا صحافت کی دنیا میںI am sorryکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘انہوں نے ماہنامہ راوی کے کافی دنوں کے بعد ہفتہ وارحال کی اشاعت شروع کی جسکی ایک فائل میرے پاس موجود ہے۔وہ ایک شاندار ہفتہ وار تھا جسیدوستوں کی بے وفائی کی وجہہ سے بند کر دینا پڑا۔انہوںنے دولت کی طرف کبھی نہیں دیکھا ۔وہ چھوٹے  بیٹے شان الرحمٰنبہت پسند کرتے تھے ۔بڑے بیٹے لطیف بھیا ،انکی اہلیہ اور انکے بچے انکی جان تھے اور پوتے پوتیوں کے ساتھ مگن رہتے تھے۔

    اردو ڈائرکٹوریٹ نے  ایک تعارفی کتابچہ تقسیم کرایا ہے اس میں صحافتی زندگی کوئی تذکرہ تک نہیں ہے۔میں نے جب اپنے بغل میں بیٹھے ایک ذمہ دار سے اعتراض کیا تو بتایا  ’ آپ کو معلوم نہیں کہ یہاں سٹنگ چلتا ہے اور انہیں ہی بولنے دیا جاتا جنہیں تین ہزار دینا ہوتا ہے۔ …‘ میں خاموش ہو گیا۔یہ سب باتیں میرے لیے تکلیف  دہ تھی حیرت انگیز  نہیں۔میں جب صحافتی کورس کے طلبا کا کلاس لیتا تھا سہیل عظیم آبادی کے محاسن کا ذکر خیر ضرور کرتا تھا۔ویسے میں حسن کمال کے ماتحت کام کر چکا ہوں اور وہ میری پسند کے صحافی بھی ہیں۔ہندی کے صحافیوں میںآنجہانی پربھاش جوشی اورپربھات خبر کے اڈیٹرہری ونش کی تحریر کو پسند کرتا ہوں۔ اردو ڈائرکٹوریٹ نے شین مظفر پوری،کلام حیدری ،شکیلہ اختر،اخترارینوی اور دیگر اہم شخصیتوں پر سیمینار منعقد کرا چکا ہے۔اسکی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔ایسے ادیب ،صحافی،شاعر جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں ان کو یاد کرنے کام بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس محکمہ میں اردو کو چاہنے والوں کی ایک شاندار ٹیم ہے جسے اردو کی خطرباہمی چپقلش کو ختم کر دینا چاہیے۔ایک زندہ قوم کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے اصلاف کو فراموش نہ کریں اور انکی یوم پئدائش یا یوم وفات کے بہانے انکی خدمات کا اعتراف کرتے رہیں ۔ہمیں محکمہ راج بھاشہ کے پروگرم میں نہ صرف شامل ہونا چاہیے بلکہ انکی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔

( رابطہ9431421821) 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1218