donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Irshad Usmani, UK
Title :
   Hazir Jawabi Ka Khameer Urdu Adab Me

حاضرجوابی کا خمیراردو ادب میں
 
صابرارشاد عثمانی،لندن
 
حاضرجوابی بروقت موزوںجواب دینے کی صلاحیت ہے۔ کسی وکیل کیلئےاپنے مقابل وکیل کی جرح کافوری اور مدلل جواب دینا اسی وقت ممکن ہے کہ وہ ذہنی طور پر حاضر ومستعدہو۔ کسی علمی مباحثے میں، کسی مذہبی مباہلے میں فریقین کی حاضرجوابی ایک اہم رکن ہے۔ تاہم ہمارے فکشن کے ادیبوں اور شاعروں کی حاضرجوابی اکثر تفنن طبع کامواد فراہم کرتی ہے۔ ہم اسی پس منظر میں حاضرجوابی کو پیش کررہے ہیں۔ یہاں حاضرجوابی کہ ذہنی ذکاوت ، شوخ بیانی، ندرت ادااور شوخ شگفتگی کاامتزاج ہے۔ اور طنزوظرافت اس کی جڑواں اولادیں ہیں۔ یہی حاضرجوابی ہمارے اردو ادب کا سنگ میل بن گئی ہے۔ اردو ادب میں حاضرجوابی کاوتیرہ سخنوران کا ضمنی پہلورہا ہے۔ ہمارے سخنوروں کے طنزومزاح کی چاشنی سے ہمارے ادب میں تازگی رہتی ہے۔ افسوس اس کاہے کہ حاضرجوابی کولطیفوںمیں شمارکیا جاتاہے اس کی نزاکت اور اس کے اثرات کوقہقہوں کی لپیٹ میں دفن کردیاجاتاہے۔ اس کاآغازتوہجوگوئی سے ہوا جس میں ذہنی ذکاوت کی ملاوٹ سے اس طرح ظاہرکیاجاتاکہ بات ہنسی ہنسی میں کہہ دی جائے۔ لیکن شخص مذکورکی عزت بھی مجروح نہ ہونے پائے۔ مرزاسوداہجوگوئی کے سرغنہ شمار کئے جاتے ہیںاور جب کوئی موقع آجاتاتھا تو وہ حاضر جوابی سے چوکتے بھی نہیںتھے۔ ایک بارنوجوان انشااللہ خان انشانے ایک مشاعرے میں اپنی غزل جھڑکی سہی اداسہی چیںبہ جبیںسہی، کاجب یہ شعر پڑھا۔
 
گرنازنین کہے سے برامانتے ہوتم
میری طرف تودیکھئے میں نازنین سہی
 
اس وقت بزرگ عمر سودا، جووہاں موجودتھے ،ان سے نہ رہاگیااور برجستہ بول پڑے۔ دریں چہ شک،اردو ادب کی تاریخ سے تویہی ثابت ہوتاہے کہ بذلہ سنجی میں غالب کابھی کوئی ثانی نظر نہیں آتاکیونکہ مرزاغالب بذلہ سنج اور سحرالبیان شاعرہی نہ تھے بلکہ محاضرات میں کامل اور انشا پروازی میں ماہرتھے۔ وہ دلچسپی ،شوخی ،رنگینی، بے ساختگی ،طنزومزاح اورقوت اختراع میں بے مثال تھے۔ جب ذوق نے دیکھاکہ دو تین مشاعروں میں غالب غزل پڑھنے سے کتراتے ہیں توذوق نے آوازہ کسا
 
رکائو خوب نہیں طبع کی روانی میں
کہ بوفسادکی آتی ہے بندپانی میں
غالب کہاں چوکنے والے تھے برجستہ جواب دیا
پاتے نہیںجب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے میری طبع توہوتی ہے رواں اور
حالانکہ غالب اپنے لئے کہہ چکے تھے
دیکھوغالب سے گرالجھاکوئی
ہے ولی پوشیدہ اورکافر کھلا
 
بہادر شاہ کے دربار میں بیٹھے ہوئے تھے ان کی غزل کایہ مقطع تھا
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم دل سمجھتے جونہ بادہ خوار ہوتا
 
بہادر شاہ نے ٹوکا، بھئی ہم تو جب بھی ویسا نہ سمجھتے،مرزا نے فوراًجواب دیا، حضورتواب بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں مگریہ اس لئے ارشاد ہوا ہے کہ میں اپنی ولایت پر مغرورنہ ہوجائوں۔
 
اکبرالہ آبادی کے پاس ایک جوتافروش آیا اور کہا کہ میں نے جوتوں کی دوکان کھولی ہے اس لئے کوئی شعر ہوجائے گرمایا۔
 
شومیکری کی کھولی ہے ہم نے دوکان آج
روٹی کوہم کمائیں گے جوتوں کے زورسے
 
اسی طرح ایک گوہرنامی طوائف نے فرمائش کی کہ ان کیلئے شعرارشادہوجائے ،اکبرالہ آبادی نے فی البدیہہ کہا،
خوش نصیب آج بھلاکون گوہرکے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھاہے شوہر کے سوا
 
ایک روزاکبرالہ آبادی خواجہ حسن نظامی کے یہاں مہمان تھے، دوطوائفیںخواجہ صاحب سے تعویذلینے آئیں۔ اکبرالہ آبادی تکئے سے لگے بیٹھے تھے دفعتادونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہنے لگے :
آیئے آیئے
 
فقیروں کے گھر میں لطف کی راتیں آتی ہیں
زیارت کیلئے اکثر مسماتیںآتی ہیں
 
میں توخیال کرتاتھا یہاں صرف فرشتے نازل ہوتے ہیں لیکن آج تو حوریں بھی اترآئیں، ایک مرتبہ علامہ اقبال کی ایک نظم کومنشی محبوب عالم ایڈیتر پیسہ اخبار نے چھاپنے سے انکار کردیا۔ علامہ نے فی البدیہہ یہ شعر کہا،
آج کل لوگوں میں ہے انکار کی عادت بہت
نام محبوبان عالم کایونہی بدنام ہے
ایک بار مولاناابوالکلام آزاد، مولاناظفر علی خان برابر برابر بیٹھے ہوئے تھے۔ مولاناآزاد نے پینے کے لئے پانی مانگا۔ اس پر ایک معمر سفیدریش بزرگ اٹھے اور پانی کا گلاس نہایت عقیدت سے ان کی خدمت میں پیش کردیا، مولانانے گلاس ہاتھ میں لیتے ہوئے برجستہ فرمایا
لے کے خودپیرمغاں ساغرومیناآیا
اس پر مولاناظفرنے شعر مکمل کردیا
مے کشو!شرم تم کوپھربھی نہ پیناآیا۔
ایک استاد نے اپنے شاگردکوایک مصرعہ دیا، چمن سے آرہی ہے بوئے کباب، دوسرے دن ان کے شاگرد اس مصرعے کوبلندآواز میں الاپ رہے تھے کہ ایک کم سن لڑکا، جوادھرسے گزررہاتھا، بول اٹھاکسی بلبل کادل جلاہوگا۔ شاعر نے اس لڑکے کو سینے سے لگایا۔ بڑے ہوکر یہی جگر مرادآبادی کہلائے ۔
 
ممبئی کے ایک مشاعرے میں جوش، جگر ، حفیظ جالندھری وغیرہ سب جمع تھے۔ مشاعرے کے اختتام پر ایک دبلی پتلی نازک اندام سی لڑکی ،آٹوگراف بک پردستخط لینے لگی۔ جگر مرادآبادی نے آٹوگراف بک میں یہ قطعہ لکھا
ازل سے چمن بندمحبت
یہی نیز نگیاںدکھلارہا
کلی کوئی جہاں پہ کھل رہی ہے
وہیں اک پھول مرجھارہاہے
اور جب حفیظ صاحب کی باری آئی تو انہوں نے معصوم لڑکی کے چہرے پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے لکھا
معصوم امنگیں جھول رہی ہیں دلداری کے جھول میں
کچی کلیاں کیاجانیں،کب کھلناکب مرجھاناہے
اس کے بعد آٹوگراف بک دوسرے شاعروں کے پاس ہوتی ہوئی جب جوش صاحب کے سامنے آئی توانہوں نے لکھا:
 
آٹوگراف بک ایک ایسا اصطبل ہے جس میں گدھے اور گھوڑےایک ساتھ باندھے جاتے ہیں۔ جگن ناتھ آزاد اپنے خط میں تحریر کرتے ہیں جو پرواز دسمبر۲۰۰۲میں شائع ہواتھا کہ کپورتھلہ کے مشاعرے میں وہ خود موجودتھے۔ جب نوح ناروی نے یہ مصرعہ پڑھا یہ دل ہے جگر ہے یہ کلیجہ تو ہری چنداختر نے برجستہ گرہ لگائی، قصائی دے گیا سوغات کیاکیا،
 
اسرارالحق مجازاپنے ہم عصرشاعروں میں سب سے پہلے دنیا ئے فانی سے رخصت ہوگئے۔ حاضرجوابی میں ایسے ایسے چٹکلے چھوڑے ہیں جس سے ان کی ذہنی ذکاوت اور شوخ شگفتگی کی عکاسی ہوتی ہے ایک مشاعرے میں ایک نوجوان شاعر غزل پڑھ رہا تھا جس کی زمین تھی، نظاروں سے کھیلا ،بہاروں سے کھیلا 
غزل ختم ہوتے ہی مجاز نے کہا ویل پلیڈ Well Played مسٹر۔
 
ایک مشاعرے میں دعوت خوردونوش کابھی انتظام تھا۔ دوسرے شعراتو کھاپی کرپنڈال میں جاچکے تھے۔لیکن مجازاور جذبی ابھی کھانے میں مصروف تھے مشاعرہ جلدشروع کرنے کیلئے منتظمین اصرارکررہے تھے۔ جذبی نے کہاکہ بھیا، ابھی چلتاہوں ذراسارائنتہ کھالوں۔ مجاز اتنی سی بات سنتے ہی ایک دم سنجیدہ ہوکر کہنے لگے، جذبی اس رائتے کے مضمون کواقبال اپنے ہاں اگر نظم کرتے تویوں کرتے؎ حیف، شاہیں رائتہ پینے لگا! اور اخترشیرانی کامصرعہ یوںہوتا؎ رائتہ جورخ سلمیٰ پہ بکھرجاتاہے۔ جوش یوں کہتے؎ رائتہ کھا کروہ شاہ کج کلاں آگیا۔ فراق یہ انداز اختیارکرتے؎ ٹپک رہاہے دھندلکوں سے رائتہ کم کم فیض احمد فیض لکھتا؎
 
تیری انگشت حنائی میں اگر رائتہ آئے
ان گنت ذایقہ کے یلغارکریں مثل رقیب
میں خویوں نظم کرتا؎
بنت شب دیگ جنوں رائتہ کی جائی ہو
میری مغموم جوانی کی توانائی ہو
 
اور تمہیں تو واقعی یہی کہناچاہئے تھا؎ ابھی چلتا ہوں ذرارائتہ کھالوںتوچلوں
ذہنی اختر اعات کولطیفہ کی جھولی میں ڈال دیاگیاہے۔ جب کہ اردو زبان کی غزل گوئی اس نعمت سے بھی سرفراز ہوئی ہے جس سے ہمارے مذاقوں میں جلاپیداہوتی ہے اور مزاج میں تازگی اس کو ابھی تک نظر انداز کیاگیاہے۔ 
 
امیر خسروجنہوں نے بنیاد ڈالی اردو غزل کی ان کی حاضرجوابی کاواقعہ جوضرب المثل بن گیاہے۔ حاضرجوابی میں ایک دفعہ محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیا کے ہاں کھانے کے بعد مہمان نے باتوں کاسلسلہ شروع کیا اور برابر باتیں کرتارہا یہاں تک کہ آدھی رات کی نوبت بجی ہے۔ پوچھا کیا آوازآتی ہے حضرت محبوب الہی کویقین تھا امیر خسروؒکی ذکاوت وفہم پر امیر خسروان کے اشارے کوآنافانا سمجھ گئے فورا اپنے ادراک سے نقارہ کی آواز کواس طرح interpretیعنی ترجمانی کی۔
 
نان کی خوردی خانہ برو، نان کہ خوردی خانہ برو، خانہ بروخانہ برو، نانخودی خان برو، نہ کہ بدست تو کردم خانہ گرو، خانہ بروخانہ برو،،
 
روٹی کھالی گھرجائو، روٹی کھالی گھرجائو، گھرجائو ،گھرجائو، گھرجائو نہ کہ تمہارے ہاتھ گھرہی گروے رکھ دیاہو، گھرجائو، گھرجائو۔
 
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1051