donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Safdar Imam Qauadri
Title :
   Shorae Karaam : Maqsood Is Se Qataye Mohabbat Nahi Mujhe


شعراے کرام:مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے


صفدر امام قادری

    شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، پٹنہ


    پچھلے دنوں ایک شعری نشست کے دعوت نامے پرپہلی سطر میں شایع اپنے اسمِ گرامی کو ملاحظہ کرنے کے باوجودپروگرام کے منتظم سے ایک شاعر نے یہ شکایت کی :  ۱۔ان کا نام ترتیب میں معقول جگہ پر نہیں تھا۔۲۔شعری نشست میں شمولیت کے لیے ان سے پیشگی اجازت نہیں لی گئی۔نتیجے کے طور پر ادارے نے غلط طور پر ان کے نام کی تشہیر کی (اور غالباً اس سے اپنے پروگرام کو وقار بخشا)۔۳

ان اسباب سے وہ اُس پروگرام کا حصہ نہیں بنیںگے۔
    پُرانے زمانے میں شاعروں کی تنک مزاجی بڑی شہرت رکھتی تھی۔ جاگیردارانہ عہد میں شعرا  اور فلسفیوں کی شخصیت کچھ اس طرح سے پیش کی گئی کہ اُن میں بے ہنگم پن، غیر ضروری انانیت اور بے جا اکڑ اُن کی گھٹّی میں پیوست ہونے کو حقیقت بتایا گیا۔  ملوکیت اور اسی کے اثر سے جاگیردارانہ ماحول میں شعرا(اور ادبا) کی شخصیت کو بہت حد تک غیر سماجی حیثیت عطا کر دی گئی گویا وہ سماج کے عام کاموں سے کچھ الگ تھلگ ہیں۔ اہالیانِ اقتدار کا شاید یہ بھی مقصد ہو کہ شعرا ، ادبا اور فلسفیوں کی آزادیِ خیال سے محفوظ رہیں اور اپنی حکومتی من مانی کو قائم رکھیں۔ بادشاہوں، فوجیوں کی بے عقلی ، سخت مزاجی، غیر دانش مندانہ اقدام اور تنک مزاجی کو بہت کم موضوعِ بحث بنایا گیا جب کہ شعرا اور فلسفیوں یا عاشقوں کو ہمیشہ عمومی طنز یا سماج کے مرکزی رویّے سے الگ تھلگ ماننے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی گئی۔

    شعرا و ادبا عام طور سے درباروں سے وابستہ ہوتے تھے اور چاہے وہ جتنے سرکش ہوں لیکن بادشاہ کی عظمت اور فضیلت بیان کرنا ان کے فرائضِ منصبی میں شامل تھا۔ملّا وجہی نے نہ جانے کس عالم میں ’سب رس‘ میں بادشاہ ، عاشق اور پاگل ہاتھی کو ایک ہی دائرے میں رکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ ابراہیم قطب شاہ سے لے کر عبد اللہ قطب شاہ کی بادشاہت کو قریب سے دیکھنے والا شاعر ہے۔ شاید اسی لیے اُس نے دربار کے قریب رہنے کے باوجوداپنی واضح راے ظاہر کی۔آج سے چار سو سال پہلے ملا وجہی نے بادشاہوں کو جس طرح پیش کرنے کی کوشش کی تھی، اگر اس بات کو ٹھیک طرح سے سمجھ لیاگیا ہوتا تو ملا وجہی زندہ نہیں بچتا۔ لیکن وہی ملا وجہی جب اپنے مشہور ہم عصر پر اظہارِ خیال کرتاہے تو یہ جہاں دیدنی معمولی رقابت میں بدل جاتی ہے اور وہ غواصی کی شخصیت کو بے جا طور پر مسخ کرنے سے وہ باز نہیں آتا۔ شعرا اور ادباکی آپسی چپقلش اور ایک دوسرے سے غیر منصفانہ انداز میں رقابت کی کہانیوں سے تاریخِ ادبِ اردو کا دفتر بھرا پڑا ہے۔ غالب اور ذوق تو محض نمایندہ مثال ہیں لیکن یہ سلسلہ عام ہے کہ کس طرح کبھی بادشاہت، کبھی منصب اور کبھی دنیاوی اثر و رسوخ کا استعمال کرکے ایک فن کار نے دوسرے فن کار کو حقیر اور ملعون گردانا۔ کوشش کی کہ انصاف اور ایمان سے رشتہ قائم نہ ہو۔ 

    مشاعروں میں شعرا کی آپسی جنگیں مشہور ہیں۔ مرثیہ خوانی کے دوران بھی ایک خاصی مدّت تک آپسی رقابت کو مجلسی اور علمی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ مشاعروں میں تو کبھی ادبی تہذیب اور کبھی روایت کے نام پر شعرا نے ایسے کھیل کھیلے جنھیں مورّخ آسانی سے معاف نہیں کر سکتا۔ محفل میں شعر سب سے پہلے کون سنائے گا اور ابتدائی نام کن شعرا کے ہوں گے یا صدر سے پہلے آخری نام کن شعراے کرام کے طے ہوں گے، ان پر مشاعروں کے مورّخین نے خوب خوب لکھا ہے۔ تمام ضروری اور غیر ضروری معرکہ آرائیاں بیش تر شعر پڑھنے میں تقدیم و تاخیر کے معاملوں سے جڑ جاتی تھیں۔ آخر آسانی سے خود کو کوئی مبتدی کیسے ماننے دے گا۔ کوئی نیا شاعر ہے تو شاید تنہا نہیں، کئی نئے شعرا اس محفل میں موجود ہیں۔ صدرِ محترم کے علاوہ بھی کئی فن کار ہیں جنھیں بزرگ تر تسلیم کیا جاسکتاہے۔ اب سوال یہ اُٹھتاہے کہ دوبزرگوں میں کون بزرگ تر ہے، یہ کیسے طے ہو گا؟ ایک عمر سے بڑا ہے تو دوسرے کا دعوا ہے کہ ہماری شہرت زیادہ ہے۔ تیسرے کو اپنے شاگردوں کی تعداد سے اپنی استادی سمجھ میں آتی ہے تو چوتھے کو اپنے دواوین کی جلدیں ممتاز ہونے کے لیے دلیل ہیں؛ آخران میں سے برتر کون ہے۔ وہ کون سی ترازو ہے جس میں فوری طور پر تول کر ایک فن کار کو دوسرے فن کار سے چھوٹا یا بڑا طے کر دیا جائے۔ اگر کسی نے طے کر بھی دیا تو اُسے ماننے والا کون ہے۔ ایک محفل میں اگر یہ ترتیب صحیح یا غلط طور پر متعین ہو گئی تو اگلی محفل میں کون اس بات کی ضمانت لے گا کہ اس کے خلاف چار دعوے نہ پیدا ہوں گے۔ 

    شعرا کی آپسی رقابت میں ناظم اور منتظمین ہمیشہ نشانہ بنتے ہیں۔ ناظم نے ’ب ‘ کو ’الف‘ سے پہلے پڑھا دیا تو شامت آگئی۔ دشمنی عام ہو جائے گی۔ایک مشاعرے کا بہت مشہور واقعہ ہے کہ کسی شہر کے دو ہم پلّہ شعرا کی رقابت منتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ناظم ان دونوں شعرا کا شکار ہو چکا تھا۔ ان کی بزرگی بھی ایسی تھی کہ صدر سے ٹھیک پہلے ان کی باری آنی چاہیے۔ ناظم نے اعلان کیا کہ اب صدر سے پہلے ہماری فہرست میں صرف دو شعرا باقی رہ گئے ہیں۔ ایک آفتاب ہے تو دوسرا ماہتاب۔ دونوں کی عظمت مسلّم ہے اور میں خود فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں ۔ لہٰذا وہ خود یہ فیصلہ کر لیں کہ پہلے کون شعر پڑھے گا اور ان کے بعدمجلس میں کون سامنے آئے گا۔ناظم نے ذہانت سے اپنی جان تو بچا لی  لیکن لوگوں نے دیکھا کہ اسٹیج پر ان شعرا نے ایک دوسرے پر طنز کے جو تیر چلائے وہ ادبی تاریخ کا حصہ بن گئے۔

    یہ غنیمت ہے کہ اُس زمانے میں دعوت نامے گھر گھر تقسیم نہیں ہوتے تھے اور جلسوں کے کارڈ شایع ہونے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ جمہوریت میں ہر چند کہ سب برابر ہیں لیکن حکومتوں نے قوانین بنا کر پہلے اور بعد کے مقامات کا تعیّن کیا اور اُسے ’پروٹو کول‘ کا نام دیا۔ حکومت اور اقتدار کا حلقۂ اثر بڑا ہوتاہے اور ادیب و شاعروں کا بڑا حصہ اس دائرے میں رہنے اور پہنچنے کے لیے کوشاں ہوتاہے۔ اس لیے اگر کسی نے ایک محفل میں گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمان فاروقی دونوںکو مدعو کرلیا تو شامت ہی آگئی۔ کارڈ میں نام جس طرح بھی شایع کیا جائے، کسی کو پہلے اور کسی کو بعدمیں تو لکھنا ہی پڑے گا۔ اکثر منتظمین اس جھمیلے سے بچنے کے لیے کسی ایک ہی تیس مار خاں کو بلانا عافیت کا باعث سمجھتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ بھی خدشہ رہتا ہے کہ آگے پیچھے ناموں کی وجہ سے آپ کی مجلس میں دونوں نہ آئیں۔ بعض منتظمین الف بائی ترتیب سے ناموں کو پیش کرتے ہیں۔ اس ترتیب میں قسمت کا لکھا بھاری پڑتاہے۔ ایسی ہی ایک ترتیب پر ممتاز نقّاد وہاب اشرفی نے اُس کتاب کے مرتّب سے یہ سوال پوچھا تھا کہ آخر کس کے مشورے سے یہ ترتیب رکھی گئی اور فہرست میں باضابطہ طور پر اس کا اعلان بھی کیا گیا۔ حالاں کہ اس فہرست میں غالباً پہلا نام الیاس احمد گدّی کا تھا اور آخری وہاب اشرفی کا۔ 

    غرض شعرا ، ادبا، فلسفی اور دانش وروں کی آپسی رقابت سے بچ کر نکلنے کی کوئی صورت ہے ہی نہیں۔ سب کیسے خوش ہو سکتے ہیں اور سب کی راے سے کوئی فہرست سازی کیسے ممکن ہے؟پھر اوّل، دوم کی حتمی فہرست کیسے بن سکتی ہے؟ شعری نشست ہے تو اس کی صدارت شاعر کو اگر ملتی ہے تو اس سے زیادہ مشہور نقّاد کو پیٹ میں مروڑ کیوں ہونا چاہیے۔ مرثیہ خوانی کی محفل میں غزل گو ئی کے امتیازات کیوں قابلِ لحاظ سمجھے جائیں۔ آپ ہو سکتاہے کہ کسی سرکار میں کابینہ وزیر ہوں، کسی گورنر کے سکریٹری ہوں یا کسی ادارے کے نائب ہوں۔ ان فضائل سے کسی ادبی محفل میں آپ کو کوئی اونچا مقام یا بزرگی کا منصب کیوں کر عطا کرے گا؟ تاریخ نے ذوق کے مقابلے غالب کو تسلیم کر لیا ۔ آج کی نسل دنیاوی منصب کو علمی معاملوں میں زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ جاگیر دارانہ نظام اور جمہوریت میں بہت فرق ہے۔ 

    دنیا میں جمہوریت کے فروغ نے ہزار اجارہ داریاں توڑی ہیں۔ ہندستان کے موجودہ صدر نے عہدہ سنبھالتے ہی القاب و آداب کے ساتھ نام لینے کی روایت کی مخالفت کی تھی اور اُسے جاگیردارانہ اور نوآبادیاتی جبر کا ترجمان مانا تھا۔ باہر کے ملکوں میں بڑے سے بڑے آدمی کے لیے مسٹر اور جناب کے القاب کافی ہوتے ہیں۔ یوروپ اور امریکہ کی یونی ورسٹیوں میں اساتذہ کو ان کے طلبہ نام یا Surnameکے ساتھ مخاطب کرتے ہیں اور تکلّف کے بجاے سیکھنے سکھانے کے مساویانہ  اور محبوبانہ ماحول کو قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ 

    اردو پر جگہ جگہ سے ایسے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں کہ بادشاہت، اور جاگیردارانہ عناصر اس کی گھُٹّی میں پڑے ہوئے ہیں۔ بعض پُرانے دانش ور اسے اردو کا امتیاز سمجھتے تھے تو کئی لوگ اس کی وجہ سے خجالت محسوس کرتے ہیں۔ عصرِ حاضر میں دونوں کیفیتیں اور تجزیوں کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ ادبی سرماے کے اعتبار سے اردو کے قبولِ عام کے مقابلے میںخواندگی کا نہیں بڑھنا صرف حکومت کے سوتیلے پن یا منافرت کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس میں کچھ ہمارے مزاج اور ماحول کا بھی قصور ہے۔ اردو کو اشرافیہ دائرے میں جب پھیلنا تھا اس وقت وہ پھیلی لیکن بد قسمتی سے آج ہماری کوششیں اُسی میں سمیٹ دینے کی ہیں۔ سرکاری دفتروں سے اردو چلی گئی۔ بازاروں سے نکلتی جا رہی ہے۔ حکومتوں نے چند سکّوں پر ادارے اور اکادمیاں بنا کر اردو کی بولی مقرر کر دی ہے۔ یونی ورسٹیوں میں نااہل اساتذہ کی تقرری نے یوں بھی ان سے قیادت چھین لی۔فلموں میںجتنی اردو بچی ہے، اس کا بھی نام ’ہندی‘ ہو گیا اور ہم ہیں کہ اپنے مقام و مرتبے کے نقلی گھروندے میں قید ہیں۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے کی لڑائی تو اُسی وقت تک ہوتی رہے گی جب تین افراد ہماری مجلس میں موجود ہوں گے۔ ہماری مجلسوں میں اب وہی شریک ہوتے ہیں جو یا تو شعر پڑھتے ہیں  یا مقرر ہوتے ہیں یا جنھیں اپنے پرچے پیش کرنے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ اس میں عوام کہا ں ہیں۔ کہیں ایسا نہیں ہو کہ اپنی عظمت اور بزرگی کو محفوظ کرنے میں اپنی انا کے خول میں قید رہنے والے لوگ محفل میں تنہا رہ جائیں اور کوئی دوسرا وہاںنہ ہو۔ اس وقت بلا شبہہ محفل کا آغاز اُنھی سے ہوگا اور وہی مبتدی بھی کہے جائیں گے۔ وقت کی فصیل پر لکھی عبارتیں جن اردو شعرا اور ادبا کو نظر نہیں آتیں ، وہ ملوکیت کے بنائے کٹہروں میں قیدنام نہاد عظمت میں مبتلا ہیں ۔

    ہماری سماجی زندگی میں ادیبوں شاعروں کی اہمیت ہی کتنی ہے کہ وہ اِترائیں۔ اب تو دربار میں بھی جگہ نہیں ہے۔ بڑے مشاعرے تو متشاعروں نے ہڑپ لیے۔ سیمیناروں میں استاد نما نقاد اور ان کے شاگردان زیادہ قابض ہو گئے ہیں۔ تھوڑی سی مخصوص نشستیں ہیں جہاں سچے لکھنے پڑھنے والے جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی باتیں سُن لیتے ہیںاور اپنی تازہ تخلیقات سنالیتے ہیں۔ ممکن ہوا تو تبادلۂ خیالات بھی کر لیتے ہیں۔ ان چھوٹی محفلوں میں بیس پچیس اور پچاس سے زیادہ لوگ اگر شریک بھی ہوتے ہیں تو وہ خاص طور پر بلائے جاتے ہیں یا ناشتہ اور کھانا کھانے کے لیے آتے ہیں۔ ہم سب اب اسی دائرے میں قید ہیں۔ دوچار دس کو چھوڑ دیجیے تو اپنے شہر میں کسی شاعر ادیب یا نقاد کا پچاس سننے والا شاید ہی موجود ہو جو اس کے نام کے ساتھ پروانہ وار محفل میں اس کے کلامِ بلاغت نظام کو سننے چلا آئے۔ ہمارے لیے مسئلہ یہ ہے محفل میں دوچار دس تو ہمیں سننے کے لیے موجود ہوں۔ ایسے میں اپنے نام نہاد مرتبے کے خول سے ہمیں نکلنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جو دو چار غنیمت کے طور پر احباب بیٹھے ہیں، اُن کے ساتھ محبوبانہ نہ سہی، مساویانہ سلوک کرکے کاروبارِ اردو کو اس مشکل دور میں جاری رکھا جائے ورنہ حالات بہ قولِ شاعر معلوم: اردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے۔

  (مقالہ نگار کالج آف کامرس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں) 

   safdarimamquadri@gmail.com
 

*******************************

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 630