donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahbaz Askari
Title :
   Urdu Ka Mustaqbil

 

اردو کا مستقـبل

 


شہبازعسکری


    اردو زبان آج کل جس طرح  صرف بول چال کی زبان بنتی جارہی ہے اور نہ صرف نوجوان نسل بلکہ اردو جاننے و الے بڑی عمرکے بعض لوگ بھی اردو سے دوری اس طرح اختیار کررہے ہیں کہ اردو زبان میں پڑھنے لکھنے کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں بلکہ اکثر تو یوں ہورہا ہے کہ رومن رسم الخط میں اردو لکھ کر ای میل بھیجے جارہے ہیں یا Text کے ذریعہ پیغامات  کے تبادلے ہورہے ہیں۔ اردو سے محبت رکھنے اور اس کے مستقبل کو تابناک بنانے کی آرزو والے لوگ یہ سوچ کر فکر مند ہوتے رہتے ہیں کہ اگر اردو سے لاپروائی کا یہی حال ہوگا تو اس پیاری زبان کاورثہ کیسے منتقل ہوگا۔ 


    اردو زبان کے تہذیبی وثقافتی ورثے کی بات جب ہم کرتے ہیں تو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ  تو اس کا تعلق زبان سے زیادہ اس ز بان کے بولنے والوں ، ان کے ماحول ، ان کی روز مرہ  کی زندگی ، ان کے مذہب و عقائد ، ان کے رسم و رواج ان سب سے چھن کر ہی زبان کا ا پنا کلچر وجودمیں آتا ہے۔ اب جہاں تک اردو کا معاملہ ہے اس پرزیادہ اثر اسلامی تہذیب کا ہندستانی پس منظر میں ہے پھر اس میں ہندو ، سیکھ ، عیسائی سب شامل ہوتے گئے۔ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ا ردو نے وہاں اپنا گھر بھی بنایا اور ساتھ ہی ایک نئی اور جداگانہ شناخت بھی روشناس ہوئی جس میں پنجابی ، گجراتی ، سندھی ، سرحدی ، بنگالی زبانوں کے بولنے والوں کا کلچر بھی شامل ہوگیا۔ اور پھر جب ہندو پاک سے نکل کر اردو مغربی ممالک میں داخل ہوئی تو ان دونوں ممالک کا کلچر ہی اس کی بنیاد ٹھہرا اور مغربی تہذیب کے اثرات بھی پڑنے لگے۔ اس لئے مغربی ممالک میں  اردو کو مسلمانوں کی زبان کہیں تو یوں عجیب لگے گا کہ یہاں مسلمان تو ساری دنیاسے آبسے ہیں جن کی اپنی زبانیں ہیں اپنا علیحدہ کلچر ہے اس لئے ا ردو تہذیب پر آج بھی ہندو پاک کا ہی اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ 


    آج سے 30برس قبل تک بھی پاکستانی اردو ڈرامے جوٹی وی پر پیش کئے جاتے ان کا معیار اتنا اعلیٰ ہوتا  اور اس میں اتنی کشش ہوتی کہ سڑکیں ویران ہوجاتیں۔ لوگ دعوتوں میں بلاتے وقت خاص صراحت کرتے کہ ڈرامے دکھانے کا انتظام رہے اور پڑوسی ملک انڈیا میں بھی ان ڈراموں کو شوق سے دیکھا جاتا اس طرح غزل گانے والے ایسے کہ شاعر سے زیادہ گانے والے کی وجہ سے  غزلوں کو شہرت حاصل  ہوتی اس طرح انڈیا کی فلمیں ان کے گیت، وہاں کی موسیقی کا اپنا ایک ممتاز مقام تھا جو ہندستانی تہذیب کی نمائندہ ہوتی تھیں۔ لیکن جب Popکلچر ک کو فروغ حاصل ہوا تو یہ کوشش بڑے پیمانے پر نہیں ہوئی  بلکہ اس کی کچھ حدیں مقررکی گئیں۔ پیسہ کمانے کی ہوس نے دونوں ملکوں کی اپنی اصلی تہذیب کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا گیا اور ہر طرف بے ہنگم موسیقی کا شور ، عریانیت سے بھرپور ڈرامے اور فلمی ڈائیلاگ کے نام پرگالیوں اور لچرزبان کی بھرمار ، برائیوں کو اچھا بتاکر پیش کرنا بڑے آرام وفخر سے کیاجارہا ہے یعنی یہ کہ تہذیب و ثقافت کے ورثے کی منتقلی نہ ہوئی بلکہ یہ تو ایک خزانے کو دفن کردیا گیا کہ آئو آنے والی نسلو! تم اس خزانے کی کھوج کرو اور اس دفینے کو باہر نکالو۔ جب موجودہ نسل ہی سنجیدہ کوشش نہ کرے توکس طرح آنے والی نسل کو ا س  ز بان کاورثہ اس کی اصل شکل میں منتقل ہوگا؟ 

    اردو کی کشتی کی پتوار تھامے جو آج کی نسل ہے اسکا اہم فریضہ یہ ہے کہ سب سے پہلے آنے والی نسل کو زبان ِاردو سے مکمل روشناس کرائیں جب تک کہ ترجیحی بنیادوں پر نوجوان نسل کو اردو زبان کی بول چال کے ساتھ ساتھ لکھنا پڑھناسیکھنے کی طرف راغب نہیں کیا جاتا یہ منتقلی ایک دشوار عمل ہوگا آج کے نوجوان اردو کی حمد و نعت ، گانے غزل وغیرہ رومن رسم الخط میں لکھ کر محفلوں میں پڑھتے ہیں یا گاتے ہیں یعنی  یہ کہہ بھی سکتے ہیں  اورسمجھ بھی سکتے ہیں بس کمی ہے تو اس بات کی کہ لکھیں بھی اردو میں اور پڑھیں بھی اردو میں۔ خواتین اور لڑکیوں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آج تک تو شائد مادری زبان کے خانے میں اردو لکھی جاتی ہے لیکن کیا آنے والی نسلیں یہی کہہ سکیں گی اگر ہماری نوجوان لڑکیاں  جب تک خود اردوداں نہیں بن جاتیں؟ کیوں کہ کل انھیں بھی ماں بننا ہے اور آغوش مادر ہی ہر انسان کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اسی لئے اردو سیکھئے، اسے  دوسروں کو سکھائیے۔ مغربی ممالک میں کتنی ہی مصروف ماں کیوں نہ ہو، رات میں بچوں کے لئے Story timeہوتا ہے یہاں بچوں کو کہانی سنا کر پیار کرکے وہ سونے جاتی ہیںہماری ایسی کتنی اردو داں خواتین ہیں جو یہ عمل پابندی سے کرتی ہیں؟ بچوں کی کہانیوں میں مذہبی اعلیٰ قدروں پر محیط و اقعات سناتی ہیں جو سبق آموز نصیحت سے بھری  ہوں اور دلچسپ بھی۔ اس طرح یہ  خود سوچیں گی کہ کیوں نہ ہم خود پڑھ کر دیکھیں  کہ ان قصے  کہانیوں کی کتابوں میںکیا کیا لکھا ہے۔ جس طرح انگریزی اخباروں میں تصویر ی کارٹون کہانیاں سلسلہ وار چھپتی ہیں اس طرح اگر اردو اخبار ات میں یہ سلسلہ شروع ہو تو آپ اردو اخبار گھر لے جا ئیے اورہر ہفتہ بچوں کو پڑھ کر سنائیے، تصویریں دیکھ کر ان کی دلچسپی بڑھے گی۔ بچوں میں سیکھنے کی بڑی صلاحیت ہوتی ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں دلچسپ انداز میں سکھایا جائے۔ اردو سکھانے کا عمل جہاں انفرادی طورپر اردو داں سر پرست کی ذمہ داری ہے وہیں اردو اخبار بھی خریدیں اور مقامی طورپر اردو کلاس کا کم ازکم ہفتہ میں ایک بار انتظام کریں تاکہ اردو سیکھی سکھائی جا سکے، صرف اپنے لئے محفلِ شعر وادب منعقدکرنے کے بجائے ا ردو سکھانے کا بھی انتظام کریں۔ ہندو پاک سے آسان اردو سیکھنے کے CDوغیرہ مل جائیں گے۔ اسی طرح اسلامی اسکولوں میں جہاں ہندو پاک سے تعلق رکھنے والے بچے پڑھتے ہیں ان اسکولوں کے منتظمین کو بھی ایک زائد کلاس اردو کا انتظام کرنے کہا جائے اور اگر مالیہ کا مسئلہ ہو تو اردو  داں سرپرست حضرات والینٹئرس باری باری سے اس کا اہتمام کریں۔ جن اسکولوں یا کالجوں میںا ردو پڑھنے کے خواہش مند بچے زیادہ ہو ں تو اسکول ڈسٹرکٹ یا کالج انتظامیہ کو اردو کلاس شاملِ نصاب کرنے کے لئے مجبور کریں۔ یہ تو ہوئی زبان سیکھنے کی بات، اب ساتھ ہی کلچر کی منتقلی کے لئے مہینہ میں ایک بارکسی مقام پر ’’شام اردو ‘‘کا انعقاد کریں جہاں نوجوانوں کو ترغیب دیں کہ وہ اردو حمد و نعت ، غزل گیت ترنم سے پڑھیں بیت بازی کے مقابلے ہوں، مختصر اردو ڈرامے پیش کئے جائیں۔ کسی موضوع پر اردو میں تقریری وتحریری مقابلے ہوں ۔ 

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1224