donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title :
   Chashme Lutf

چشمِ لطف
 
…شاہنواز فاروقی…
 
فراق گورکھپوری کے بارے میں عسکری صاحب نے کہا ہے کہ اردو شاعری نے میر تقی میرؔ کا ایک ہی Container پیدا کیا ہے، اور وہ ہے فراق۔ عسکری صاحب فراق کے شاگرد تھے اور ہمیں ایک عرصے تک یہ محسوس ہوتا رہا کہ عسکری صاحب نے شاگرد ہونے کی وجہ سے فراق کی مبالغہ آمیز تعریف کی ہے۔ ہم نے اپنی اس رائے کا اظہار اپنے کالموں میں بھی کیا ہے، مگر ہمیں فراق کی شاعری پر مزید غور کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ عسکری صاحب کی رائے غلط نہیں ہے۔ فراق کی شاعری میں انسانی نفسیات اور جذبات کے بعض ایسے پہلو آشکار ہوئے ہیں جن کا اُن کے معاصرین تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ فراق پر اس گفتگو کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے آج کے کالم کا موضوع فراق کے ایک شعر سے آیا ہے۔ فراق نے کہا ہے ؎
 
دنیا میں آج کوئی کسی کا نہیں رہا
اے چشمِ لطف تیری ضرورت ہے دُور دُور
 
غور کیا جائے تو فراق کے اس شعر کے پہلے مصرعے میں کئی سو ایٹم بموں کے برابر تباہ کاری کا اظہار ہے۔ ’’دنیا میں آج کوئی کسی کا نہیں رہا‘‘ کہہ کر فراق نے بتایا ہے کہ کسی ایک جگہ نہیں پوری دنیا میں انسانی تعلقات کا نظام منہدم ہوچکا ہے اور سطح پر موجود انسانی تعلقات حقیقی تعلق کا سایہ بھی نہیں ہیں۔ لیکن فراق کا یہ مصرع کسی سیاست دان کا بیان یا کسی اخبار اور ٹیلی وژن کی شہ سرخی نہیں ہے۔ فراق کا لہجہ اور ان کی آواز بے پناہ کرب میں ڈوبی ہوئی ہے اور اس کی پشت پر ایک ایسا شعور موجود ہے جو انسانی تعلقات کے انہدام کو ذاتی سطح پر بھی جانتا ہے اور وہ اس المیے سے عالمگیر سطح پر بھی واقف ہے۔ شاعری، بالخصوص غزل کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ اشاروں کنایوں اور اجمال کی زبان 
میں کلام کرتی ہے۔ چنانچہ فراق نے انسانی تعلقات کے انہدام کو ظاہر کرنے کے لیے صرف دو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (1) ’’کوئی‘‘ اور (2) ’’کسی‘‘۔ یہی غزل کا اجمال ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ والدین اور اولاد کے درمیان دوری پیدا ہوگئی ہے۔ شوہر اور بیوی میں فاصلہ پیدا ہوگیا ہے۔ بہن بھائیوں کے درمیان دیوار کھڑی ہوگئی ہے۔ عزیزوں اور رشتے داروں کے درمیان سناٹا گونج رہا ہے۔ پڑوسی پڑوسی کے لیے اجنبی ہوگیا ہے۔ محبوب اور محب کے درمیان انا کی دیوار حائل ہوگئی ہے۔ قوموں کے درمیان نفرت اور استحصال کا رشتہ استوار ہوچکا ہے۔ فراق کے اس مصرعے میں ایک اور لفظ اہم ہے: ’’آج۔ دنیا میں ’’آج‘‘ کوئی کسی کا نہیں رہا۔ اس کے معنی یہ ہیںکہ تعلقات کے انہدام کا تعلق ہمارے عصر سے ہے۔ ہمارے زمانے سے ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک وقت ایسا تھا جب انسانی تعلقات استوار تھے، بامعنی تھے، گہرے تھے، ان میں حسن و جمال تھا۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے صورتِ حال تبدیل ہوگئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا میں آج کوئی کسی کا کیوں نہیں رہا؟
اس سوال کا جواب فراق کے دوسرے مصرعے میں موجود ہے ؎
 
اے چشمِ لطف تیری ضرورت ہے دُور دُور
 
فراق کے اس مصرعے میں چشمِ لطف محبت کی علامت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فراق کے شعر کا مصرعۂ اولیٰ ایک مسئلہ ہے اور مصرعۂ ثانی اس کا حل۔ فراق کے شعر کا پہلا مصرعہ دنیا میں پیدا ہونے والے ایک ہولناک عدم توازن کا اظہار ہے، اور دوسرا مصرعہ اس عدم توازن کو دور کرنے کی صورت۔ مطلب یہ کہ دنیا میں آج کوئی کسی کا اس لیے نہیں رہا کہ محبت کا تجربہ انسانی تعلق سے منہا ہو گیا ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہو گیا ہے؟
 
انسانی شخصیت کے دو ہی بنیادی مرکز ہیں: محبت اور انا۔ انسان کی شخصیت محبت مرکز ہوتی ہے تو اس کے لیے دوسرے اس کی ذات کا حصہ یا اس کی ایک توسیعی صورت ہوتے ہیں اور انسان ان کے بغیر اپنی زندگی کا تصور نہیں کرسکتا۔ محبت کا تعلق ایک نامیاتی یا Organic تعلق ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب انسان کی شخصیت انا مرکز ہوجاتی ہے تو تمام دوسرے کسی نہ کسی سطح اور کسی نہ کسی معنی میں اس کے ’’حریف‘‘ بن کر سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ انسانی تعلق ہر سطح پر ایک خاص مرحلے کے بعد بوجھ بن جاتا ہے۔ تعلق محبت کے دائرے میں بھی بوجھ بن سکتا ہے، مگر محبت بوجھ اٹھانے کے عمل کو خوشگوار یا کم از کم قابلِ برداشت بنادیتی ہے۔ لیکن انا بوجھ کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کرتی۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیںکہ کہیں بچے والدین کے لیے بار بن گئے ہیں، اور کہیں والدین نے بچوں کے لیے ایک بوجھ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ کہیں شوہر بیوی کے لیے اضافی ہوگیا ہے، اور کہیں بیوی شوہر کے لیے غیرضروری ہوگئی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کہیں انسانی روابط موجود بھی ہیں تو ان میں گہرائی اور گیرائی نہیں، معنی نہیں، حسن و جمال نہیں۔ انسانی تعلق کی ایک شرط دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت ہے۔ گلشن میں بیٹھ کر تو سبھی محبت کی باتیں کرتے ہیں مگر صحرا میں محبت کسی کسی کو یاد رہتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں کو کسی سے محبت 
ہوتی ہے وہ اپنے پیاروں کی موت کے تیس سال بعد بھی انہیں اسی طرح یاد کرتے ہیں جیسے ان کا انتقال کل ہوا ہو… اور کچھ لوگ اپنے پیاروں کو موت کے دوسرے دن اس طرح یاد کرتے ہیں جیسے انہیں مرے ہوئے تیس برس گزر گئے ہوں۔ یہی محبت اور انا کا فرق ہے۔ محبت اگرچہ افادے سے بے نیاز نہیں ہوتی، بلکہ محبت ایک اعتبار سے محبت اور افادے کے مجموعے کا نام ہے۔ محبت میں اصل چیز افادہ نہیں ہے، لیکن انا کے دائرے میں اصل چیز افادہ بن جاتا ہے، چنانچہ جس انسان سے انسان کو فائدہ ہوتا ہے وہ اہم ہوتا ہے، اور جس شخص سے فائدہ نہیں ہوتا وہ غیر اہم بلکہ بوجھ بن جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں انسانی تعلق پر بن آئی ہے اور دنیا میں کوئی کسی کا نہیں رہا تو اس کا سبب یہی ہے کہ انسانی تعلقات زیادہ سے زیادہ انا مرکز اور افادی ہوگئے ہیں اور تعلقات کا مطلب معاشی فائدہ بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شخصیات محبت مرکز سے انا مرکز کیوں ہوگئی ہیں؟
 
اس سوال کا جواب واضح ہے۔ یہ صرف مذہب کی قوت ہے جو انسان کی شخصیت کو حقیقی معنوں میں محبت مرکز بناتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی انسان ہر سطح پر دوسرے کے لیے زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ عبد و معبود کے تعلق کے دائرے میں ہوتا ہے تو اس کے لیے معبود اہم ہوتا ہے۔ وہ حقوق العباد کے دائرے میں ہوتا ہے تو اس کے لیے دوسرے اہم ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک ہے تو اس کے لیے بچے اپنی ذات سے زیادہ اہم ہیں۔ اگر وہ اولاد ہے تو اس کے لیے والدین اپنی شخصیت سے زیادہ قیمتی ہیں۔ یہ صرف مذہب ہے جو انسان کو اپنی اغراض سے بلند ہونا اور دوسروں کے لیے اپنی خواہشات کی قربانی دینا سکھاتا ہے، اور اس طرح سکھاتا ہے کہ قربانی قربانی نہیں رہتی بلکہ معنی اور حسن و جمال کا میلہ بن جاتی ہے۔ لیکن ہماری دنیا کا المیہ یہ ہے کہ اِس میں اربوں انسان مذہب کو ترک کرچکے ہیں، اور جن لوگوں نے مذہب کو ترک نہیں کیا ہے وہ مذہب کی روح کو جذب کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے میں کامیاب نہیں ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ محبت کے تجربے کو مذہب سے کیا لینا دینا! لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ محبت اپنی اصل میں ایک مذہبی تجربہ ہے، اور اگر محبت اپنی اصل کے شعور سے نابلد ہوجائے تو وہ محبت سے زیادہ محبت کی نقل بن جاتی ہے۔ ہماری دنیا میں یہی ہورہا ہے۔ ہر طرف محبت کا شور برپا ہے اور محبت نایاب سے نایاب تر ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے کہ اب انسانوں کے اندر انسانوں سے زیادہ دولت، طاقت اور اشیاء کی طلب ہے۔ بعض اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ انسان کی نجات بہتر سیاسی، معاشی، مالیاتی اور قانونی نظام بنانے میں ہے۔ لیکن فراق کا مشورہ بالکل واضح ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دنیا کی بقا یا سلامتی اور اس کے حسن و جمال کا انحصار محبت کے تجربے کی مکمل بحالی پر ہے۔ انسان، انسان سے حقیقی معنوں میں محبت کرے گا تو اس کی زندگی شاداب ہوگی، اس کی زندگی میں معنی پیدا ہوں گے، اس کی زندگی میں حسن و جمال ہوگا، رنگوں کی برسات ہوگی۔ ہماری تہذیب میں چشمِ لطف کی سب سے بڑی مثال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، جو اپنوں سے ہی نہیں دشمنوں سے بھی محبت کرسکتے تھے۔ چنانچہ ہمارے لیے چشم لطف کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو پوری دنیا کے لیے نمونۂ عمل بنادیں۔ اس کے بغیر دنیا سائنس و ٹیکنالوجی اور اشیاء و سرمائے کی دنیا تو بن سکتی ہے، انسانوں کی دنیا نہیں بن سکتی۔
 
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 4793