donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title :
   Ishq Aur Kam Ke Yakjai

 

عشق اور کام کی یکجائی
 
شاہنواز فاروقی
 
ہماری دنیا پیشوں کی کثرت کی دنیا ہے، اور پیشوں کی بہتات نے لفظ ’’پیشہ ور‘‘ کو تقریباً ایک خطاب اور ایک اعزاز بنادیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لفظ پیشہ ور میں ایک جادو ہے، اور یہ جادو اُس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب پیشہ ور کو ’’پروفیشنل‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں پیشہ واریت اتنی بڑھی ہے کہ لفظ پروفیشنل کے ساتھ ’’ازم‘‘ کا بھی اضافہ ہوگیا ہے، اور ’’پروفیشنل ازم‘‘ کی اصطلاح چغلی کھا رہی ہے کہ ہمارے زمانے میں پروفیشنل ازم تقریباً ایک ’’نظریہ‘‘ بن گیا ہے۔
 
اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو پیشہ ور شخص دراصل کسی شعبے کا ماہر ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیشہ واریت یا پروفیشنل ازم ایک نفسیات ہے، ایک رویہ ہے، ایک زاویۂ نگاہ ہے، ایک تناظر ہے۔ اس تناظر کے دائرے میں مکھی پر مکھی مارنا اہم ہے۔ اس زاویۂ نگاہ کے لیے زندگی اور کام کے تکنیکی پہلو پر توجہ مرکوز کرنا ہی سب کچھ ہے۔ یہ رویہ کہتا ہے کہ آدمی کو پھول ہونا چاہیے خواہ وہ پھول کاغذ ہی کا کیوں نہ ہو۔ اس نفسیات کی تخلیق ایک خوف کے سوا کچھ نہیں۔
 
اقبال کی شاعری میں ملاّ و مجاہد اور شاہین اور کرگس کے کردار ملتے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو اقبال کی شاعری کا ملاّ ایک پیشہ ور ہے۔ اس کو اذان دینی اور نماز پڑھانی آتی ہے۔ وہ بچوں کو درس دے سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مفتی بھی ہو۔ لیکن اس کے لیے ہر چیز ایک کام ہے۔ ایک Job ہے۔ وہ یہ کام ذمہ داری، ایمانداری، تندہی اور تواتر سے کرتا ہے، اور اس حوالے سے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ مگر اس کے لیے یہ کام ایک پیشہ ورانہ سرگرمی ہے۔ ایک مذہبی نوعیت کی پیشہ ورانہ سرگرمی، جس کے ساتھ تنخواہ کا تصور وابستہ ہے۔ لیکن اس کے کسی کام میں لذت نہیں، حسن و جمال نہیں۔ اسے زندگی جیسی ملی ہے اس نے قبول کرلی ہے، اور وہ دین کی بنیاد پر دنیا کی تشکیل نو نہیں چاہتا، بلکہ اسے کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ دین کی بنیاد پر دنیا کی تشکیلِ نو کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ اسی لیے اقبال نے کہا ہے
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملاّ کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
مطلب یہ ہے کہ ملاّ کے لیے اللہ اکبر محض ایک لسانی تشکیل ہے۔ چنانچہ وہ جب اللہ اکبر کہتا ہے تو وہ اس کے معنی، ان معنی کے اطلاقات اور ان اطلاقات کے نتائج سے آگاہ نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اقبال کا مجاہد ’’انقلابیت‘‘ کی علامت ہے۔ وہ دین کی بنیاد پر دنیا کو بدل دینے کا عزم رکھتا ہے۔ اس کے لیے یہ کام اتنا اہم ہے کہ اس کے لیے جان دے دینا معمولی بات ہے۔ بلکہ دین کی بالادستی کی جدوجہد میں جان دے دینے سے بڑھ کر اس کے لیے کوئی سعادت نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پروفیشنل ازم کی نفسیات مجاہد کو چھو کر بھی نہیں گزری۔ البتہ یہ کوئی کلیہ نہیں ہے۔ انسان ایک خوفناک چیز ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں کے لیے جہاد بھی ایک پیشہ ہوسکتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں کرگس کا کردار بھی ایک اعتبار سے پیشہ ور کا کردار ہے اور شاہین کا کردار ایک مجاہد کا کردار ہے۔ اسی لیے اقبال نے جو بات ملاّ اور مجاہد کے لیے کہی ہے وہی بات انہوں نے شاہین اور کرگس کے حوالے سے کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے:
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
شاہین اور کرگس کی پرواز کا فرق یہ ہے کہ شاہین اس لیے بھی اڑتا ہے کہ بلند پرواز اس کی فطرت ہے، مگر کرگس کی پرواز صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ مُردار تلاش کرسکے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اقبال اوّل و آخر ملاّ کے خلاف تھے۔ ایسا نہیں ہے۔ اقبال نے افغانستان کے ملاّ کی دل کھول کر تعریف کی ہے، انہوں نے کہا ہے:
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو اُس کے کوہ و دمن سے نکال دو
اقبال کے لیے ’’افغان ملاّ‘‘ پروفیشنل ازم کی نہیں ’’غیرتِ دیں‘‘ کی علامت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کا ملاّ صرف نماز نہیں پڑھاتا، صرف درس وتدریس کا کام نہیں کرتا، بلکہ ضرورت پڑتی ہے تو وہ جہاد بھی کرتا ہے اور تحفظ کی زندگی ترک کرکے عدم تحفظ کی زندگی اختیار کرتا ہے۔
پروفیشنل ازم مغرب سے آیا تھا مگر اب خود مغرب میں بھی اس پر چیخ پکار مچ رہی ہے۔ رچرڈ روٹری فلسفے کے پروفیسر ہیں اور مغربی دنیا کے اہم مفکرین میں شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں اس مسئلے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ فلسفے کا ماضی شاندار اور مستقبل غیر یقینی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم فلسفے کے اساتذہ جب دانش ورانہ زندگی میں اپنے کردار پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم آگے دیکھنے کے بجائے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم افلاطون، ٹینٹ، آگسٹائن، اسپنوزا، کانٹ، مارک اور نٹشے کا تسلسل ہیں۔ ان فلسفیوں نے افراد اور اقوام کے لیے زندگی کے نئے پیرائے وضع کیے۔ چنانچہ جب ہم خود کو ان کا وارث کہتے ہیں تو ہم تصور کرتے ہیں کہ ان کی طرح ہم بھی انسان کے مستقبل کی صورت گری کرسکتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی ہم ماضی سے حال پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں دانش ورانہ اور سماجی انقلاب برپا کرنے کے لیے تنخواہ نہیں دی جاتی بلکہ کالجوں اور جامعات نے ہمیں اس لیے نوکر رکھا ہے کہ ہم ایسے ذمہ دار پیشہ وروں یا Responsible Professionals کا کردار ادا کریں جو مہارت کے مخصوص و محدود دائرے میں کام کرتے ہوئے اطمینان محسوس کریں۔ چونکہ فلسفہ بھی پیشہ ورانہ مضمون یا Academic Discipline بن چکا ہے چنانچہ فلسفیوں کے لیے جرأت مندانہ اور اوریجنل کا کام کرنا دشوار ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی فلسفی جتنا حقیقی یا اوریجنل اور بلند پرواز ہوتا ہے اتنا ہی کم تربیت یافتہ، کم تر اور کم پیشہ ور نظر آتا ہے۔ مغرب میں فلسفے کو پیشہ ورانہ بنانے کا عمل دو سو سال قبل ایسے دور میں شروع ہوا جب جدید تحقیق سے مسلّم یونیورسٹی کا تصور حقیقت بن رہا تھا۔ یہ فلسفے کے عروج کا زمانہ تھا اور اس کے بعد سے فلسفے کی تکریم میں مسلسل کمی ہوئی ہے، یہاں تک کہ یہ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل اور اکثر دانش وروں کے راڈار اسکرین سے غائب ہوگئی۔ اس صورتِ حال کی بنیادی وجہ سائنس اور مذہب کی دو بدو جنگ ہے۔ اس جنگ میں سائنس کو فتح حاصل ہوئی اور اب سائنس پر اکا دکا حملے کے سوا مطالعے کا شوق رکھنے والے اکثر اہلِ مغرب کائنات کے مادی تصور پر قانع اور مطمئن ہوگئے ہیں۔ اب مغرب میں مذہبی عقائد پر ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ اس طرح نظرثانی فرماتے ہیں کہ وہ سائنس دانوں کی سنائی ہوئی ’’کہانیوں‘‘ سے متصادم نہ ہو۔
 
مغرب میں سائنس آزادی، معروضیت اور عظمت کی علامت ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں سائنس خود ’’پیشہ ور‘‘ بن گئی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سائنس سرمایہ داروں کی غلام بن گئی ہے۔ سائنس امکانات یا Probalities کی دنیا ہے۔ سائنسی تحقیق کے دائرے میں سائنس دانوں کے سامنے کئی امکانات آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ امکانات ایسے ہوتے ہیں جن پر تحقیق سے علم کو فروغ حاصل ہوتا ہے، مگر اس علم سے کوئی شے یا Product بناکر بازار میں فروخت نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ اہلِ سرمایہ ایسی تحقیق کی راہ مسدود کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس بعض امکانات ایسے ہوتے ہیں جن سے علم کو تو فروغ حاصل نہیں ہوتا البتہ ان سے کوئی مصنوعہ یا Product تیار کرکے بازار میں فروخت کی جاسکتی ہے اور اس سے دولت کمائی جاسکتی ہے۔ سرمایہ دار ایسی تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور سائنس دان علم کے فروغ کے تقاضوں کے مطابق نہیں بلکہ تحقیق کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والوں کی مرضی کے مطابق تحقیق کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عصر حاضر کے سائنس دانوں کی عظیم اکثریت بھی پیشہ ور ہے اور جدید سائنس کا منہاج بھی پیشہ ورانہ ہوگیا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ صحافت، درس وتدریس، فلسفہ اور سائنس تک محدود نہیں۔
 
ہمارے دور میں محبت تک پیشہ ورانہ ہوگئی ہے۔ فیض کی شاعری ’’پیشہ ورانہ محبت‘‘ کا ایک بڑا مظہر ہے۔ اس سلسلے میں فیض کی مشہور زمانہ نظم ’’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘‘ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ نے یہ نظم کئی بار پڑھی ہوگی۔ ایک بار پھر پڑھ لیجیے:
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تُو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تُو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بُنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجیے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
فیض کی یہ نظم اس بات کا ’’اشتہار‘‘ ہے کہ فیض کی محبت کا انتقال پُرملال ہوگیا ہے، مگر فیض اپنی محبت کی موت کا اعتراف اور اعلان کرنے کے بجائے محبت کی موت پر نظریہ سازی کی چادر ڈال رہے ہیں۔ محبت کی موت کو Theorize کررہے ہیں۔ چنانچہ اپنی محبت کی موت پر چار آنسو بہانے کی سعادت بھی فیض کے حصے میں نہ آئی۔ فیض کی اس نظم سے محسوس ہوتا ہے کہ محبت کا شعور اور انقلابی شعور دو مختلف چیزیں ہیں۔ چنانچہ محبت ہوگی تو انقلابی جدوجہد نہیں ہوگی، اور انقلابی جدوجہد ہوگی تو محبت نہیں ہوگی۔ یہ ایک مضحکہ خیز تصور ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کی محبت بھی جھوٹی ہے اور انقلابیت بھی فریب ہے۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ فیض کی محبت بھی پیشہ ورانہ ہے اور انقلابیت بھی۔ فیض کو ہماری روایت کے تناظر میں اس بات کا احساس تھا۔ ان کا یہ احساس ان کی نظم ’’کچھ عشق کیا کچھ کام کیا‘‘ میں پوری شدت سے ظاہر ہوا ہے۔ نظم یہ ہے:
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آگے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آکر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
ہماری تہذیب میں عشق اور کام کی یکجائی زندگی کی وحدت تشکیل دیتی ہے، لیکن فیض کی نظم میں عشق نے کام اور کام نے عشق کو طلاق دے دی ہے۔ یہ صورت حال عصر حاضر میں پیشہ ورانہ ذہنیت کا ایک بڑا مظہر ہے۔ لیکن یہ معاملہ فی زمانہ صرف عشق اور کام کے تعلق سے متعلق نہیں۔ اب ایسے شوہر اور بیوی عام مل جاتے ہیں جن کا باہمی تعلق تقریباً پیشہ ورانہ نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ ماں باپ اور بچوں کے تعلق میں بھی پیشہ ورانہ ذہنیت در آئی ہے
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1107