donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title :
   Mashraqi Pakistan Aur Barha Adab

 

مشرقی پاکستان اور بڑا ادب
 
…شاہنواز فاروقی …
 
فیض احمد فیضؔ سے ایک انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا مگر اتنے بڑے سانحہ پر ہمارے یہاں ادب تخلیق نہیں ہوا، اس حوالے سے کوئی بڑا ناول نہیں لکھا گیا، اتنے عظیم سانحہ نے ہمارے ادیبوں کے باطن میں کوئی ہلچل پیدا نہیں کی؟ اس کے جواب میں فیض احمد فیض نے کہا: ایسا اس لیے ہوا کہ جو بازو کٹا ادب وہاں پیدا ہونا چاہیے تھا، کیونکہ بازو ہمارا نہیں ’’اُن کا‘‘ کٹا ہے۔ ان سے پوچھا گیا: یہ سانحہ ہمارے ادیبوں کے لیے ذہنی اور روحانی تجربے کی حیثیت تو رکھتا ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں فیض نے کہا کہ یہ ہمارے لیے ذہنی اور روحانی تجربہ بھی نہیں تھا کیونکہ یہ ہمارے لیے دور دراز کی بات تھی۔
 
فیض اس طرح کی بات کہنے والے واحد شخص نہیں تھے۔ ن م راشد نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد کہا تھا کہ اب پاکستان ’’آہنگ‘‘ میں آگیا ہے۔ یعنی جب تک مشرقی پاکستان ساتھ تھا شاعری کی اصطلاح میں پاکستان بحراور وزن سے خارج تھا، لیکن مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہوتے ہی پاکستان بحر اور وزن میں آگیا۔ یہ ہماری قومی تاریخ کے حوالے سے ایک مجرمانہ ذہنیت ہے اور یہ ذہنیت فیض کے تبصرے میں بھی موجود ہے۔ سقوطِ ڈھاکا سقوطِ بغداد اور سقوطِ غرناطہ سے کم بڑا سانحہ نہیں تھا، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سانحہ اِن معنوں میں ان دونوں سانحات سے بڑا ہے کہ اس سانحے میں ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے۔ چنانچہ اس سانحہ کی بنیاد پر ادب تخلیق ہونا چاہیے تھا، لیکن فیض کا کہنا ہے کہ ہمارا بازو تھوڑی الگ ہوا تھا، بازو تو ’’اُن کا‘‘ الگ ہوا تھا، چنانچہ ’’اُن ہی‘‘ کو ادب تخلیق کرنا چاہیے تھا۔ غور کیا جائے تو فیض کا یہ بیان امر واقع کے خلاف ہے۔ ریاست اگر اقتدار اور اتھارٹی کا نام ہے تو متحدہ پاکستان میں اصل پاکستان مغربی پاکستان تھا۔ اس لیے کہ ریاست کی تمام قوت اور اس کے سارے وسائل مغربی پاکستان کے لوگوں کے ہاتھ میں تھے، چنانچہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں مغربی پاکستان کا بازو الگ ہوا تھا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہمارے لیے ہی المیہ تھی اور ہمارے یہاں ہی اس المیے پر ادب تخلیق ہونا چاہیے تھا۔ بلاشبہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے لیے بھی اس علیحدگی میں المناک پہلو تھے، مگر اُن کے لیے یہ علیحدگی آزادی بھی تھی، جس نے اُن کے المیہ احساس کا بڑی حد تک ازالہ کردیا۔ چنانچہ بنگلہ دیش میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ادب یا بڑا ادب تخلیق نہیں ہوا تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن مغربی پاکستان کا تخلیقی شعور اس المیے کو نظرانداز کرنے کی کوئی توجیہ نہیں کرسکتا۔ لیکن ہمارے دو بڑے لکھنے والوں یعنی فیض اور راشد نے اس سانحے کو نظرانداز کرنے کی توجیہ سے آگے بڑھ کر اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
 
فیض احمد فیضؔ نے ایک بات یہ کہی ہے کہ مشرقی پاکستان ہمارے لیے ’’دوردراز‘‘ کی بات تھی۔ لیکن زندگی میں اصل چیز جغرافیائی فاصلہ یا جغرافیائی قربت نہیں ہوتی، اصل چیز دل کا فاصلہ یا دل کی قربت ہوتی ہے، اور فیض، ن م راشد اور ان جیسے لوگوں کا مسئلہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان ان کے دل سے دور تھا۔ ورنہ مسجدِ قرطبہ اقبال سے زمانی اور مکانی دونوں اعتبار سے ہزاروں سال کے فاصلے پر تھی مگر انہوں نے مسجدِ قرطبہ پر ایسی نظم لکھ دی ہے جسے عسکریؔ صاحب نے اردو شاعری کا تاج محل کہا ہے۔ اور مسجد قرطبہ کیا، اقبال نے مسلمانوں کی پوری تاریخ کو اپنے باطن کا حصہ بناکر یا Internatize کرکے دکھا دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اگر انسان کا تعلق ہو تو وہ ماضی کو بھی حال بنا سکتا ہے۔ خیر اسلامی تاریخ تو اقبال کی اپنی چیز تھی۔ انہوں نے تو رام، کرشن اور گرونانک پر بھی شعر کہہ دیے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ صرف اقبال کا معاملہ نہیں ہے۔ قرۃ العین حیدر نے ’’آگ کا دریا‘‘ میں پانچ ہزار سال کی تاریخ کو ’’رومانس‘‘ بناکر دکھا دیا ہے۔ ان کا ناول ’’آخرِ شب کے ہمسفر‘‘ بنگال میں برپا ہونے والی کمیونسٹ تحریک اور اس کے زوال کا مطالعہ ہے، اور قرۃ العین کے لیے بنگال اور کمیونزم دونوں دور کی چیزیں تھیں مگر اس کے باوجود انہوں نے اس حوالے سے ایک بڑا ناول تخلیق کرکے دکھا دیا۔
 
نسیم حجازی کے یہاں مسلمانوں کی تاریخ حال سے زیادہ طاقت ور، دلکش اور زندہ نظر آتی ہے۔ نسیم حجازی کے ناول ’’آخری چٹان‘‘ کو ٹیلی ڈرامے میں ڈھالنے کا مرحلہ آیا تو سلیم احمد نے جلال الدین خوارزم شاہ کو ڈرامے کا مرکزی کردار بناکر اس میں رومانوی ہیرو سے کہیں زیادہ رومانویت پیدا کردی، اور سلیم ناصر کی اداکاری کے ساتھ آمیز ہوکر جلال الدین کا کردار ایسا ہوگیا کہ ہالی ووڈ کی کسی بھی بڑی تاریخی فلم کے کسی بھی کردار سے اس کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ جلال الدین خوارزم شاہ سقوطِ بغداد کے زمانے کا کردار ہے۔ اس سلسلے میں خود فیض کی اپنی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کے کامریڈوں، فلسطین اور افریقہ پر شاعری کی ہے، حالانکہ یہ تمام چیزیں بھی فیض کے لیے دور کا منظر تھیں، مگر چونکہ فیض ان چیزوں سے قلبی اور ذہنی طور پر قریب تھے اس لیے ان چیزوں نے اُن سے شاعری کرالی۔ البتہ بنگلہ دیش اُن سے صرف ایک غزل کہلوانے میں کامیاب ہوسکا۔ لیکن اس سلسلے میں صرف فیض یا ن م راشد کو ذمہ دار ٹھیرانا درست نہیں۔
 
المناک بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم کے بالائی طبقات کے اکثر لوگوں نے مشرقی پاکستان کے المیے کو جذب کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہ ہمارے یونیورسٹی کے زمانے کی بات ہے۔ اُس وقت ہم کراچی کے ایک ایسے ادبی حلقے میں پابندی کے ساتھ جایا کرتے تھے جس کے زیادہ تر اراکین کا تعلق کبھی مشرقی پاکستان سے رہا تھا۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جو دو ہجرتوں کے تجربے سے گزرے تھے۔ ان میں سے ایک تجربہ بھارت سے مشرقی پاکستان ہجرت کا تھا اور دوسرا مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان آمد کا تھا۔ 16 دسمبر آیا تو ہم نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے ایک چھوٹا سا مضمون لکھا اور یہ سوچ کر ادبی حلقے کا رخ کیا کہ آج وہاں یقینا مشرقی پاکستان کا ذکرِ خیر ضرور ہوگا۔ لیکن تین چار گھنٹے کی نشست میں کسی کو مشرقی پاکستان کا خیال تک نہ آیا اور لوگ اٹھنے لگے تو ہم نے کہا کہ بھائی آج 16 دسمبر ہے، سقوطِ ڈھاکا کا دن… اور ہم اس حوالے سے ایک مضمون لکھ کر لائے ہیں۔ یہ سن کر لوگ چونکے اور انہوں نے اعتراف کیا کہ ان میں سے کسی کو 16 دسمبر یاد نہ تھا۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے اس سلسلے میں اور بھی ظلم کیا، اس نے مشرقی پاکستان کے المیے کو تاریخی کیا ’’سیاسی یاد‘‘ بھی نہ بنے دیا، اور ادب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تعلق اور یاد سے جنم لیتا ہے۔ 
 
***********
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 987