donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title :
   Tarz

 

طرز
 
شاہنواز فاروقی
 
سلیم احمد کا ایک شعر ہے    ؎
کتنے لکھنے والے اس حسرت میں مٹی ہوگئے
صفحۂ آبِ رواں پر نقش ہو تحریر کا
 
سلیم احمد کا صفحۂ آبِ رواں دراصل وقت ہے، اور ہر لکھنے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا لکھا ہوا وقت کے بہتے ہوئے دریا میں فنا ہونے کے بجائے اس پر تیرتا ہوا سفینہ یا کم از کم ایک چھوٹی سی کشتی ہی بن جائے۔ لیکن تاریخ میں یہ سعادت چند ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے، ورنہ اکثر لکھنے والوں کے لیے صفحۂ آبِ رواں پر نقش چھوڑنے کی خواہش حسرت بن کر رہ جاتی ہے۔ یہاں لفظ ’نقش‘ کا ایک مفہوم مواد کی عظمت ہے۔ لیکن اس کا ایک اور مفہوم بھی ہے، اور وہ یہ کہ لکھنے والا عظیم ہو یا نہ ہو مگر صاحبِ اسلوب یا صاحبِ طرز ضرور ہو۔ اس لیے کہ اسلوب یا طرز بھی انسان کو دیر تک زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسلوب یا طرز پیدا کرنا بھی آسان نہیں۔ فراقؔ جدید اردو غزل کے امام اور صاحبِ طرز تھے۔ انہوں نے کہا ہے کہ
میں نے اِس آواز کو مر مر کے پالا ہے فراقؔ
یعنی یہ جو میرا اسلوب یا طرزِ بیان ہے یہ یونہی پیدا نہیں ہوگیا، اس کے لیے مجھے ہزار بار مرنا پڑا ہے۔ اردو کی شعری روایت میں صاحبِ طرز دو سو، ڈھائی سو سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ نثر میں صاحب طرز ہونا شاعری سے بھی زیادہ مشکل ہے، اس لیے کہ نثر میں شاعری سے کہیں زیادہ پھیلائو ہوتا ہے۔ لیکن اردو نے شاعری کی طرح نثر میں بھی بہت سے صاحبِ طرز پیدا کیے ہیں۔ مثلاً محمد حسین آزاد صاحبِ طرز تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد صاحبِ اسلوب تھے۔ ہمارے زمانے میں صاحبِ طرز نثاروں میں سب سے بڑا نام مولانا مودودیؒ کا ہے۔ قرۃ العین حیدر ناول کے فن میں سب سے بڑی صاحبِ طرز ہیں۔ تنقید میں محمد حسن عسکری اور سلیم احمد کی طرز کا کوئی ثانی نہیں۔ لیکن اسلوب یا طرز کے بارے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ لکھنے والا صاحبِ طرز کیسے بنتا ہے؟
 
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے تمام خیالات، جذبات، احساسات، تجربات اور مشاہدات کو اپنی ذات یا اپنی شخصیت میں ایک مرکز پر جمع کرنے اور انہیں ایک تناظر یا ایک رنگ میں دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے تو وہ صاحبِ طرز بن جاتا ہے۔ اس کام کی مشکل کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انسان ہزاروں باتیں سوچتا، پڑھتا اور ہزاروں مشاہدات اور تجربات سے گزرتا ہے، اور اکثر اوقات ان تمام چیزوں میں کوئی ربطِ باہمی نہیں ہوتا بلکہ ان کے درمیان تضادات موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کے تضادات کو دور کرنا اور انہیں ایک مرکز پر جمع کرکے ایک تناظر فراہم کرنا اور ایک آہنگ میں ڈھالنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن جب کوئی آرزو، کوئی تمنا، کوئی تجربہ 
انسان کی پوری شخصیت پر چھا جاتا اور اپنی کشش ثقل یا Gravitational Force پیدا کرلیتا ہے تو پھر انسان کے تمام خیالات، جذبات، احساسات، مشاہدات اور تجربات کا ایک مرکز پر جمع ہونا اور ان میں ایک رقص کی کیفیت کا پیدا ہونا سہل ہوجاتا ہے۔ اردو زبان و ادب میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً میرؔ کا بنیادی مسئلہ عشق یا اس کی ناکامی سے پیدا ہونے والا غم ہے۔ غالب کا مسئلہ اَنا یا دنیا کے ساتھ اپنے تعلق کی تعریف متعین کرنا ہے۔ اقبال اور مولانا مودودی کا مسئلہ ماضی کی بازیافت ہے۔ عسکری صاحب نے اپنے ایک مضمون میں حالیؔ کو ’’بھلا مانس غزل گو‘‘ کہا ہے۔ یہ حالی کی تفہیم کے سلسلے میں بنیادی بات ہے۔ عسکری صاحب نے اپنے ایک اور مضمون میں جرات کو ’’مزیدار شاعر‘‘ کہا ہے۔ یہ ترکیب جرات کی پوری شخصیت اور شاعری کو بیان کردیتی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے ناولوں کے حوالے سے ان کا بنیادی مسئلہ ’’وقت‘‘ ہے جو تاریخ کے منظرنامے پر بیک وقت سب سے بڑا ہیرو بھی ہے اور ولن بھی۔ سلیم احمد نے ایک جگہ لکھا ہے کہ عسکری صاحب کا مضمون ’’آدمی یا انسان‘‘ اتنا بنیادی ہے کہ اگر عسکری صاحب کی باقی تمام تحریریں ضائع ہوجائیں تو صرف اس ایک مضمون کی مدد سے عسکری صاحب کے ادبی نقطۂ نظر کو دوبارہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اور آدمی کا فرق عسکری صاحب کی فکر اور شخصیت کا بنیادی پتھر ہے۔ خود سلیم احمد کا سب سے بڑا مسئلہ پورے آدمی کی تلاش ہے۔ شاعری ہو یا تنقید، ہر جگہ یہی مسئلہ پس منظر میں کھڑا محسوس ہوتا ہے۔
 
دنیا میں لکھنے والوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو اپنی معلومات لکھتے ہیں، اور دوسرے وہ جو اپنی تفہیم لکھتے ہیں۔ اگرچہ طرز معلومات یا علم سے بھی برآمد ہوسکتی ہے، مگر تفہیم اور طرز کے درمیان چولی دامن کا رشتہ ہے۔ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص اپنی تفہیم لکھے اور وہ صاحبِ طرز نہ بنے۔ مولانا مودودیؒ کے معاصرین میں کئی علماء تھے جن کی معلومات بظاہر مولانا سے زیادہ نظر آتی ہیں، مگر وہ صاحبِ طرز نہیں ہیں۔ مولانا کی معلومات بظاہر کم ہیں مگر وہ صاحبِ طرز ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا کے بہت سے معاصرین اپنی معلومات کے اسیر ہوگئے، لیکن مولانا نے اپنی معلومات اور علم کو تفہیم میں ڈھال لیا۔ اردو تنقید میں اس کی ایک بڑی مثال پروفیسر کلیم الدین احمد اور محمد حسن عسکری ہیں۔ کلیم الدین کیمبرج کے فارغ التحصیل اور پوزیشن ہولڈر تھے، عسکری صاحب نے کبھی کیمبرج کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا، لیکن اردو ادب کی مغربی ادب کے سلسلے میں بھی عسکری صاحب کی بصیرت بے مثال ہے۔ کلیم الدین صاحب کی معلومات قاموسی یا Encyclopedic ہیں مگر انہوں نے بیشتر صورتوں میں اپنی معلومات اور علم ہی لکھا ہے، اور عسکری صاحب نے اپنی تنقید کے غالب ترین حصے میں صرف تفہیم لکھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ معلومات یا علم تفہیم کیسے بنتا ہے؟ اس سوال کے تین جواب ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ اپنی معلومات کو بسر کرنے والے بن جاتے ہیں، تفہیم انہی کا مقدر بنتی ہے اور وہی تفہیم کو لکھتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ اپنی معلومات اور علم کو اوڑھ لیتے ہیں، چنانچہ وہ ساری عمر معلومات اور علم کو لکھتے رہتے ہیں۔ مذکورہ سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ کچھ لوگ معلومات یا علم کو اپنی تہذیبی روح سے ہم آہنگ کرلیتے ہیں، اور کچھ لوگوں کی شخصیت میں معلومات اور علم تہذیبی روح سے بے نیاز رہتے ہیں۔ چنانچہ اوّل الذکر لوگوں کو تفہیم فراہم ہوجاتی ہے اور مؤخرالذکر معلومات یا علم تک محدود رہ جاتے ہیں۔ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اپنے علم کی کلیّت کا شعور ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے یہاں زیادہ آسانی کے ساتھ طرز پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کا علم 
خانوں میں بٹ کر رہ جاتا ہے اور وہ اس مسئلے کی وجہ سے صاحبِ طرز نہیں بن پاتے۔
 
علم وادب میں شخصیت کے شدید احساس نے بھی اکثر اسلوب یا طرز کو جنم دیا ہے۔ غالب کے یہاں شخصیت کا احساس اتنا شدید، گہرا اور بنیادی ہے کہ اسے نظرانداز کرکے غالب کی فکر اور شخصیت کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ اس سلسلے میں غالب کے تین اشعار نثر کی کتابوں پر بھاری ہیں   ؎
بندگی میں بھی وہ خودبین و خود آراء ہیں کہ ہم
اُلٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
………
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
………
ہنگامۂ زبونیٔ ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
 
مذہبی مفکرین میں شخصیت کا شدید احساس مولانا ابوالکلام آزاد کے یہاں بھی اسلوب یا طرز بن گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مولانا کے یہاں علم کی کمی ہے۔ مولانا کا علم بہت ہے، مگر مولانا کے یہاں علم بھی شخصیت کا اظہار بن کر سامنے آتا ہے۔ مرزا یاس یگانہ اور جوش ملیح آبادی کی شاعری بھی ان کی شخصیت کے شدید احساس کا حاصل ہے۔ یگانہ کو خدا معلوم کس وجہ سے یہ خیال لاحق ہوگیا تھا کہ وہ غالب سے بڑے شاعر ہیں یا کم از کم ان کی سطح غالب کے برابر ضرور ہے۔ یگانہ کا یہ احساس اتنا بڑھا اور اس میں اتنی منفیت پیدا ہوئی کہ وہ اپنی تہذیب کی بہت سی مثبت چیزوں کے منکر ہوگئے۔ جوش کو ابتداء ہی سے اپنے شاعرِ انقلاب اور شاعرِ شباب ہونے کے تصورات نے آلیا تھا، اور اُن کی شاعری ان تصورات کی گونج بن کر رہ گئی۔ یہ یگانہ اور جوش کی شخصیت اور شاعری کی ’’اسیری‘‘ تھی، مگر یہ لوگ ساری عمر اسے اپنی ’’آزادی‘‘ سمجھتے رہے۔
 
اسلوب یا طرز پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لکھنے والا اپنے مواد پر پوری طرح حاوی یا غالب ہو اور وہ اُسے جس طرح چاہے بیان کرے۔ ہمارے زمانے میں صاحبِ طرز لوگوں کی کمی اس لیے بھی ہوگئی ہے کہ ان کے پاس یا تو اتنا مواد ہی نہیں کہ اس میں طرز پیدا ہوسکے، یا پھر وہ اپنے مواد پر حاوی نہیں ہوتے۔
+++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 954