donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahzad Ahmad Shahzad
Title :
   Urdu Zaban Ke Masael Aur 21ween Sadi

 

اردو زبان کے مسائل اور اکیسویں صدی 


تحریر: شہزاد احمد شہزاد


عملی طور پر پاکستان میں اردو کی حیثیت ثانوی ہو چکی ہے
اگر کبھی یہ صورتِ حال پیدا ہو جائے کہ کرہ ارض کی ایک زبان کو محفوظ رکھنا ممکن ہو، تو یہ فیصلہ کرنے کے لیے کسی طویل بحث کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کے لیے اقوامِ متحدہ کا کوئی اجلاس ہی لازمی ہے۔ اس سوال کا سیدھا سادہ جواب ہے، انگریزی زبان!

اسکی ویسے تو بہت سی وجوہات ہیں، مگر سب سے بنیادی اسباب دو ہیں۔ اس وقت دنیا کا مکمل انحصار سائنس اور ٹیکنالوجی پر ہے اور دنیا کو کوئی سائنس کانفرنس بین القوامی سطح پر انگریزی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں نہیں ہو سکتی۔ جو اصطلاحات مروج ہیں، ان کا بنیادی تعلق بھی زیادہ تر اسی زبان سے ہے اور جو نئی اصطلاحات بنائی جاتی ہیں، وہ بھی اسی وقت مروج ہوتی ہیں، جب وہ انگریزی زبان کے لیے قابل قبول ہوں۔ گلوبل لائبریری کا تصور اس وقت ساری دنیا میں عملی سطح پر موجود ہے، اس کا حوالہ بھی یہی زبان ہے اوت دنیا بھر کے کلاسک اور دیگر اہم کتابوں کا ترجمہ اس زبان میں ہو شکا ہے۔ جدید علوم میں جو بھی اضافہ ہوتا ہے، وہ انگریزی زبان ہی میں ہوتا ہے، یا اسے فوری طور پر انگریزی میں منتقل کر لیا جاتا ہے۔ یہ صورتِ حال کسی اور زبان کی نہیں ہے۔

اسی باعث انسانوں کے روزگار کے تمام مسائل اور وسائل انگریزی زبان سے متعلق ہو گئے ہیں۔ بین الاقوامی تجارت اوت تعلیم زیادہ تر اسی زبان میں ہوتی ہے اور دنیا کا ہر ملک خواہ وہ فرانس، روس اور چین ہی کیوں نہ ہو، اس زبان کو سیکھنے پر مجبور ہے۔ انگریزی کو علمی اور ادبی سطح پر اب وہ حیثیت حاصل ہے جو قرونِ وسطی میں عربی کو حاصل تھی، یا اس سے پہلے یونانی کو حاصل تھی۔

موجودہ لسانی صورت حال کو تبدیل کرنا بھی ممکن نہیں ہے اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں ہے، پوری انسانیت کے پاس کوئی ایک زبان تو ایسی ہونی ہی چاہیے، جو ایک دوسرے سے رابطے کی زبان ہو، اور ایک چھوٹے پیمانے پر ہم یہ بات پاکستان میں اردو کے بارے میں بھی کہتے ہیں، ایک زمانے میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ١٩٨٦ء تک اردو کو دفتری زبان کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ اس کے لیے کچھ کام بھی ہوا۔ مرکزی سطح پر مقتدرہ قومی زبان قائم کیا گیا تھا، مگر ١٩٨٦ء گزر جانے کے بعد ١٧ برس میں ہم نے اس طرف مڑ کے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ کسی سطح پر بھی عملی طور پر یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ اب کوئی دوسری تاریخ ہی مقرر کر دی جائے، بلکہ اس کے برعکس انگریزی کو پرائمری سطح پر رائج کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی والے اس وقت سب سے زیادہ فعال ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ اگلے چند برس میں ہماری سب سے زیادہ ایکسپورٹ اس شعبے میں ہو گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم سال بھر میں جتنی ایکسپورٹ کرتے ہیں، اس سے زیادہ ایکسپورٹ ہندوستان میں صرف سوفٹ ویئر کی ہے، لٰہذا عملی طور پو خود پاکستان میں اردو کی حیثیت ثانوی ہو چکی ہے۔

رہا ادب کا سوال، تو چند ماہ پہلے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اردو کے مقبول ناول نگار عبداللہ حسین اردو ادب کے مستقبل کے بارے میں خاصی مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں۔ انہوں نے صرف اپنے ناول “اداس نسلیں“ کا ترجمہ خود انگریزی میں کیا ہےم بلکہ وہ کوئی ناول انگریزی زبان میں بھی لکھ رہے ہیں۔

ہندوستان میں بھی انگریزی فکشن کا رواج اب روایت کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ انگریزی زبان میں ایسے کئی قابلِ ذکر مصنف موجود ہیں جنہوں نے آغاز تو کسی اور زبان سے کیا تھا، مگر بعد میں وہ انگریزی کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی میں بہت نام پیدا کیا۔ فوری طور پر ذہن میں آرتھر کوسلر، آئزک ایسی خوف اور لو لیتا والے نوبوکوف کے نام آ رہے ہیں۔ چنانچہ انگریزی کے دروازے کسی پر بند نہیں ہیں۔ لندن میں ساقی فاروقی اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی شاعری بھی کرتے ہیں، امریکہ سے افتخار نسیم کا انگریزی نظموں کا مجموعہ حال ہی میں شائع ہوا ہے اور ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی اردو نظموں کا ترجمہ انگریزی میں کیا ہے اور دوسرے لوگوں نے بھی کیا ہے۔ اب انگریزی نظمیں بھی لکھنے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔


لاہور میں مظفر غفار نے ایک آرٹ فورم بنا رکھا ہے، جسے وہ Tri lingual کہتے ہیں۔ وہاں ایک ہی جلسے میں انگریزی، اردو اور پنجابی کی تخلیقات پڑھی جاتی ہیں۔ خود میرا یہ حال ہے کہ پڑھتا انگریزی ہوں، لکھتا اردو ہوں اور بولتا پنجابی ہوں۔ اب تک جو کچھ نثر میں لکھا ہے یا ترجمہ کیا ہے، اس کا ماخذ زیادہ تر انگریزی ہے۔ صورتِ حال یہ بنی جا رہی ہے کہ ہم اپنے اصل (Origin) کو بھی انگریزی کے وسیلے کے بغیر نہیں جان سکتے۔


زبان محض اپنے ادب پر زندہ نہیں رہ سکتی
دوسری طرف یہ حقیقت بھی اپنے طور پر موجود ہے کہ کوئی بھی زبان محض اپنے ادب پر زندہ نہیں رہ سکتی۔ ضروری ہے کہ اس کا تعلق علوم کے ساتھ بھی ہو اور روٹی کمانے کے وسائل کے ساتھ بھی۔ اور اردو کا یہی حصہ بہت کمزور ہے۔ اردو پڑھے لکھے لوگوں میں اب وہ لوگ بے حد محدود تعداد میں رہ گئے ہیں، جن کا بنیادی تعلق علوم سے ہو۔ ڈاکٹر عبدالسلام اگرچہ اردو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، مگر انہوں نے اردو زبان میں سائنس پر کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔ شاید یہ ان کے لیے ممکن بھی نہیں تھا، کیونکہ انہوں نے اپنے لیے نظریاتی طبیعاتی سائنس داں کا کردار پسند کیا تھا۔ جس میں اردو گنجائش ہی نہیں تھی اور پاکستان بھی اسی لیے چھوڑا تھا کہ اس وقت یہاں سائنسی برادری سرے سے مفقود تھی، چنانچہ یہ ضروری ہے کہ نہ صرف سائنسی برادری موجود ہو، بلکہ ایسی ہو جو اردو زبان میں سائنس کو ترقی دینے کے کام پر لگی ہوئی ہو۔ بہت سے اردو جاننے والے دنیا کے مختلف ممالک میں بڑے بڑے سائنسی اداروں میں اعلٰی سطح پر کام کر رہے ہیں، مگر ان کا کوئی تعلق اردو زبان سے نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی کی سطح پر بھی اردو زبان کو متعارف کروانے کی باقاعدہ کوشش نہیں کی گئی، حلانکہ اس سطح پر یہ نہ صرف ممکن تھا بلکہ ضروری بھی۔ انجمن ترقی اوردو پاکستان نے بعض پیشہ وارانہ اصطلاحات پر کئی کتابیں شائع کی ہیں، مگر جدید تکنیکی معاملات پر کوئی کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔ مثال کے طور پر موٹر مکینک مختلف چیزوں کے لیے مختلف اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، مگر اس سلسلے میں کسی سطح پر بھی کوئی کام نہیں ہوا۔ ہم نے ایم اے اردو کو محض ادیبوں کے احوال و آثار تک محدود کر دیا ہے اور مقالہ لکھنے کے لیے سانچے بنا دیے ہیں۔ یہی حال عام طور پر پی ایچ ڈی کی سطح پر بھی ہو رہا ہے۔ ہمیں کسی نہ کسی صورت میں ادب اور جدید علام کے مابین کوئی مضبوط رشتہ بنانا پڑے گا، پھر بعض تکنیکی شعبوں کی تربیت بھی اردو میں کرنی پڑے گی۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو پھر طلبہ مجبور ہوں گے کہ وہ انگریزی تک محدود ہو کر رہ جائیں۔ روٹی کمانے کا تعلق بھی اردو سے قائم کرنا ہو گا۔ شماریات کا تو مجھے علم نہیں، مگر میرا خیال ہے کہ شاید ایک فیصد لوگ بھی ایسے نہیں، جن کے رزق کا تعلق اردو کے ساتھ قائم کیا جا سکے۔

اردو میں علمی روایت

میں پچھلے سولہ سترہ برس سے اردو میں علمی موضوعات پر لکھ کر روٹی کمانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مگر یہ بے حد مشکل کام ہے۔ ناشر اور سرکاری ادارے اس کو حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ مارکیٹینگ(بازار) کی صورتِ حال بھی تسلی بخش نہیں، اس لیے کتاب اس قاری تک مشکل ہی سے پہنچتی ہے، جو اسے واقعی پڑھنا چاہتا ہے۔ ایسی کتابیں زیادہ تر لائبریریوں تک محدود پو کر رہ جاتی ہیں۔ اکثر تو ایسی ہوتی ہیں کہ سمجھ میں ہی نہیں آتیں۔ اصطلاحات کا جھگڑا بھی شدید ہے، مگر یہ بھی اس وقت حل ہو گا، جب اردو میں علمی روایت پھر سے مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مجھے تو اس بات پر بھی حیرت ہے کہ اقبال کے سبھی پہلوؤں کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی، سوائے اس کی علمی روایت کے۔ اقبال نے اپنے خطبات بھی انگریزی ہی میں لکھے، کیوں کہ وہ اسی علمی زبان میں لکھے جا سکتے تھے۔ پھر ان کے تراجم کے سلسلے میں بھی کوئی قابلِ ذکر کام نہ ہو سکا۔ اقبال کے قریبی لوگوں میں ایک فرد بھی ایسا نہ تھا، جو اس روایت کو آگے بڑھاتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ فلسفے کی کلاسیکی روایت کے آخری آدمی تھے، ان کے بعد فروعات کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے، جو اب تک رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔


ادیب اور شاعر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ اردو کی شمع کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔ خصوصاً وہ شعراء جو مشاعرے کے ذریعے اپنے خیالات اور محسوسات دوسروں تک پہنچاتے ہیں، مگر اس میں بھی اب زیادہ تر مشاعروں کو ترجیح ملنی شروع ہو گئ ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے باہر بھی مشاعرہ ایک ثقافتی سرگرمی کی طور پر مقبول ہے، جو نسل تازہ تازہ ملک چھوڑ کر گئی ہے، یہ سرگرمی ان کے لیے طمانیت قلب کا باعث ہے، مگر ان محفلوں میں نوجوان نسل بہت کم نظر آتی ہے۔مانچسٹر کی ایک ایسی ہی محفل میں جب میں نے کہا کہ حاضرین کی اوسط عمر ٤٠ برس لگتی ہے تو ایک طرف سے آواز آئی، “ جی نہیں! یہ عمر ساٹھ برس ہے۔“ لندن کی ایک محفل میں بھوپال سے آئے ہوئے ایک پروفیسر نے تالیوں کی گونج میں یہ اعلان کیا کہ ہندوستان میں اردو مقابلے کی جنگ جیت چکی ہے اور وہاں اس کا مستقبل بہت روشن ہے۔ کاش یہ صورتِ حال ویسی ہی موجود ہوتی، جیسی کہ پروفیسر صاحب نے بیان کی تھی، ہم روز مرہ کی سطح پر زیادہ سے زیادہ انگریزی کو قبول کرتے چلے جا رہے ہیں۔ پچھلے پچاس برس میں جو تبدیلیاں بھی ہمارے معاشرے میں آئی ہیں، انہوں نے سبھی کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اگر ہم نے پورے نہیں تو آدھے انگریز ضرور بن چکے ہیں۔ بے شمار سہولتیں ایسی ہیں، جن کے بغیر ہم ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکتے، مگر اسن سب کا تعلق سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ہے۔

پاکستان بننے کے فوراً بعد بھی یہ احساس کئی لوگوں کو ہو گیا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو ترقی دیے بغیر ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہیں ہو سکتے، مگر اس کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا، صرف دفاعی ضروریات کی وجہ سے ہم نے ایٹم تو بنا لیا ہے، مگر سوئی اب بھی نہیں بنا سکتے، اب بھی ہمارے مسائل وہی ہیں، جو آغاز میں تھے، مگر دنیا کی تیز رفتاری کے باعث ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ پہلے یہ ممکن تھا کہ ہم دس گیارہ سال کی محنت اور قربانی سے ترقی یافتہ ہو جائیں، مگر اب اس کے لیے شاید زیادہ مدت اور کام کرنے کی لگن درکار ہو گی۔ ہم نے اپنے تساہل کے باعث اردو زبان کو بھی کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچایا۔ اب اگر یہ زبان معدوم ہونے والی زبانوں میں سرِ فہرست نہ بھی ہو، تو کم از کم یہ ان زبانوں میں شامل نہیں جنہیں محفوظ زبانیں کہا جا سکے۔

اردو کی خوش قسمتی


دوسری جنگِ عظیم کے بعد زبانوں کے متعلق ہمارا رویہ بہت مختلف تھا۔ اس وقت چھوٹی چھوٹی زبانوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ چین میں ایک ایسی زبان میں اخبار نکالنے کی کوشش کی گئی تھی، جو محض چند ہزار افراد تک محدود تھی۔ افریقہ میں کچھ ایسی زبانیں تھیں جن کا اسکرپٹ ہی موجود نہیں تھا، ان کو بھی اہمیت ملی تھی۔ اس وقت تیسری دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ نو آبادیات کا خاتمہ تھا۔ بیداری کی جو لہر آئی تھی، وہ حکمرانوں کے اثر کو زائل کرنے کے درپے تھی، مگر اس کے باوجود افریقہ میں جو قابل ذکر ادب تھی کہ اس کے اندر عربی، فارسی اور کئی مقامی زبانوں کی روایت موجود تھی۔ اسی باعث یہ کہا جات اہے کہ وہ دنیا کے بہت بڑے حصے میں سمجھی جاتی ہے اور کئی ملکوں میں رابطے کی زبان ہے۔

جدید سائنس نے دنیا کو پھیلایا کم اور سمیٹا زیادہ ہے۔ اب روز بروز یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ یہ زمین ایک عالمی قصبہ ہے اور آپ جانتے ہیں کہ اس عالمی قصبے کے اندر بے شمار زبانیں تو نہیں بولی جا سکتیں، لٰہذا اس وقت موجود اکثر زبانیں مخدوش مستقبل رکھتی ہیں اور اردو زبان کئی استثناء نہیں ہے، اگر آپ اردو کو مستقبل کی زبان بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بہت کام کرنا ہو گا اور یہ کام صرف ادب تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے دائرے کو علوم تک پھیلانا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ جاگیرداری نظام کے بجائے ہمیں جدید سائنسی معاشرہ کو اپنی زیادہ تر خوبیوں اور خرابیوں کے ساتھ قبول کرنا ہو گا۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 1225