donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shakil Faruqui
Title :
   Urdu Duniya Ke Shahanshahe Zarafat

اردو دنیا کے شہنشاہ ظرافت


شکیل فاروقی

 

بسا اوقات بزرگوں کے منہ سے نکلی باتیں حرف بہ حرف درست ثابت ہوتی ہیں مثلاً شوکت تھانوی نے بچپن میں درج ذیل برجستہ شعر کہا تھا۔ تب تمام بزرگوں نے یک آوازیہ کہا تھا۔ ’’یہ بچہ بڑا ہوکر ضرور شاعر بنے گا۔‘‘

؎نہ روٹی نہ سالن میں بھُوکا ہوں
اے میرے اللہ میں کس سے کہوں

اگرچہ دلاور فگار کے حوالے سے ہمارے علم میں ایسی کوئی بات نہیں، لیکن غالب کے گمان میں ہے کہ ان کے بارے میں بھی کسی پہنچے ہوئے بزرگ نے یہی کہا ہوگا ’’یہ بچہ بڑا ہو کر ایک نابغہ روزگار شاعر بنے گا۔‘‘ 25 جنوری 1998ء کو یہ خوش کلام و خوش گلو شاعر رونے والوں کو ہنساتا ہوا پاپوش نگر کے قبرستان میں اَبد کی نیند جا سویا۔

دلاور حسین المتخلص فگار 8؍ جولائی 1929ء کو بھارت کے سب سے بڑے صوبے اُتر پردیش (یوپی) کے مشہور و معروف مردم خیز قصبے بدایوں میں پیدا ہوئے۔ اس کی مٹی نے بڑی بڑی نامی گرامی شخصیات کو جنم دیا ہے۔

اگر صرف شاعری کے حوالے سے ہی بدایوں کا ذکر کیا جائے تو دلاور فگار کے علاوہ فانی بدایونی‘ شکیل بدایونی‘ محشربدایونی اور اللہ اُنھیں تادیر سلامت رکھے بھائی منظر بدایونی کے نام ہی کافی ہیں۔ یہ سب ایک ہی لڑی میں پروئے موتیوں کی طرح ہیں۔

حسنِ اتفاق ہے کہ دلاور فگار محشر صاحب اور منظر بھائی سے ہماری دِلی قرابت رہی۔ رہی بات ہماری اور فگار صاحب کی تو ہم دونوں نے آگے پیچھے بھارت سے پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔

اگرچہ پاکستان میں بھی فگار صاحب کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی مگر اُن کی شہرت کے ڈنکے بہت پہلے پورے ہندوستان میں خوب زور و شور کے ساتھ بج چکے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ جس مشاعرے میں جاتے اس پر چھا جاتے اور اپنے منفرد کلام اور پڑھنے کے انداز سے مشاعرہ لوٹ لیا کرتے۔

اس سے انکار نہیں کہ اُن کے ہم عصروں میں بڑے بڑے مزاح گو شامل تھے مگر اُن کی بات ہی کچھ اور تھی۔ بہ قول غالب:

؎ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

جن لوگوں نے فگار صاحب کو ہندوستان اور پاکستان میں مشاعروں میں کلام پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، وہ بلا تامل و تکلیف اس بات کی گواہی دیں گے۔ ہمارا یہ منصب ہے اور نہ مقام کہ فگار صاحب کا کسی سے موازنہ کریں لیکن خدا لگتی کی بنا پر اتنا ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ مزاح گوئی میں اکبرالٰہ آبادی کے بعد اگر ہمیں کسی نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے تو وہ دلاور فگارؔ ہی ہیں۔ صاحبو! پسند اپنی اپنی، خیال اپنا اپنا۔

ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اختلاف کریں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سے لوگ اس سے اتفاق کریں ۔ مزاح نگاری اور مزاح گوئی بڑا جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ اس میں بُھول چُوک کی کوئی گنجائش نہیں۔ زبان و بیان کی معمولی سی لغزش سے بڑا مزاح گو پھکڑ پن اور ابتذال کی گہری کھائی میں گر سکتا ہے۔ فگارصاحب کا سب سے بڑا کمال یہی تھا کہ وہ کبھی ڈگمگائے نہیں۔

ان کا ایک اور بڑا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے زندگی کے بڑے بڑے مسائل کی ماہر سرجن کی طرح سرجری کی اور طنز و مزاح کے نشتروں کو نہایت احتیاط اور چابکدستی کے ساتھ استعمال کیا۔ مثال کے طور پر رشوت ستانی کے سنگین مسئلے پر ان کے اشعارملاحظہ فرمائیں۔

؎حاکم رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا
میں بتائوں تجھ کو تدبیر رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

کلام کی آفاقیت اور ہمہ گیری فگارؔکی مزاح نگاری کا ایک نمایاں وصف ہے۔ ان کے اشعار آج بھی اسی طرح ترو تازہ اور حسبِ حال ہیں۔ عام آدمی کی روز مرہ زندگی کے مسائل کو منفرد و دلچسپ انداز میں پیش کرنے پر اُنھیں عبور حاصل تھا۔ اس حوالے سے فگارکے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں اور لطف اٹھائیں۔

؎گھر آنے کو جب مل نہ سکی کوئی سواری
سوچا کہ چلو چل کے پکڑ لیں کوئی لاری
دستے میں ہر اُفتاد و مصیبت کا تھا امکان
لاری ہی پہ لکھا تھا کہ ’’اللہ نگہبان‘‘
سیدھی عدم آبادی کو جاتی تھی یہ لاری
مخلوق کو خالق سے ملاتی تھی یہ لاری

ماضی اور حال کا خوبصورت موازنہ کرتے ہوئے اپنے منفرد انداز میں وہ یوں فرماتے ہیں۔

؎کھا کے خالص گھی اگر غالب جیے تو کیا جیے
ہم کو دیکھیںجی رہے ہیں سُونگھ کر سرسوں کاتیل
دورِ حاضر کوبھلا نسبت کہاں اُس دور سے
آپ ہی سوچیں کہاں ٹٹو کہاں پنجاب میل

فگار صاحب نے شعر گوئی کا آغاز 14؍ برس کی عمر میں 1942ء میں کیا۔ بہت جلد اُنھیں مولوی جام نوائی بدایونی اور مولانا جامی بدایونی جیسے اساتذہ کی صحبت اور رہنمائی میسر آئی جس نے اِن کی صلاحیتوں کو نکھار دیا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے قصبے بدایوں ہی میں حاصل کی اور بعدازاں آگرہ یونیورسٹی سے ایم-اے (اردو) کیا۔ اُنھوں نے ایم-اے (انگریزی) اور ایم-اے (اکنامکس) کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔

اپنے کیرئیر کا آغاز درس و تدریس سے کیا۔ہجرت کرکے کراچی آنے کے بعد عبداللہ ہارون کالج میں بحیثیت لیکچرار کچھ عرصہ اُردو پڑھائی جہاں فیض صاحب پرنسپل ہوا کرتے تھے۔

فگار صاحب کو صرف شاعری پر ہی نہیں نثر پر بھی عبور حاصل تھا مگر ان کی شہرت ایک مزاح گو شاعرکے طور پر ہی ہوئی۔ پہلی مرتبہ جب انھوں نے دہلی میں اپنی نظم ’’شاعر اعظم‘‘پڑھ کر سنائی اُن کی مزاح گوئی کی دھوم مچ گئی پھر وہ وقت بھی آیا جب انھیں ’’شہنشاہِ ظرافت‘‘ اور ’’اکبرثانی‘‘ جیسے خطابات سے نوازا گیا جس کے وہ بلاشبہ بجا طور پر مستحق تھے۔

درس و تدریس کے علاوہ وہ کچھ عرصہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ٹائون پلاننگ کے طور پر کے ڈی اے سے بھی وابستہ رہے جسے معاشی جبر یا غم ِ روزگار بھی کہا جاسکتا ہے۔ پھر ’’اے روشنی طبع تو برمن بلا شُدی‘‘کے مصداق ان پر ایک کڑا وقت بھی آیا جب انھیں اپنا سایہ بھی گریزاں نظرآیا۔

بس یہی وہ وقت تھا جب ہمیں اُن کا انتہائی قرب میسر آیا اور ان کا بیشتر وقت ہمارے ساتھ ہی گزرنے لگا مگر اس عرصہِ دشوار کو خیر مستوئ(Blessing in disguised)کہا جائے تو شاید یہ مبالغہ نہ ہوگا کیونکہ اس خاکسار کے مشورے کے نتیجے میں ہی وہ شاہکار منظر عام پر آیا جس کا عنوان ’’خوشبو کا سفر‘‘ ہے۔

100؍ منتخب ملکی اور غیر ملکی آفاقی منظومات کے انگریزی سے اردو میں تراجم پر مشتمل یہ کتاب دلاور فگار کا لافانی کارنامہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ترجمے پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔

بس یوں کہیے کہ فگار صاحب قادرالکلام شاعر کی حیثیت سے ان نظموں کو اردو کے سانچے میں ڈھال دیتے مثلاً ٹی-ایس-ایلیٹ کی مشہور نظم Moving Stairs کے ایک اقتباس کا ترجمہ بعنوان ’’چلتی سیڑھیاں‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔

؎جیسے پت جھڑ میں نرم شاخوں سے
پتیاں نیچے گرنے لگتی ہیں
یونہی زینہ کے نقش میں اکثر
سیڑھیاں چلنے پھرنے لگتی ہیں

اب ملاحظہ فرمائیے ایڈورڈ لیئر کی چھوٹی سی نظم ’’Old man with a Beard‘‘یہ خوبصورت ترجمہ بعنوان ’’مذاق‘‘۔

؎کوئی بزرگ جو ریش دراز رکھتے تھے
مذاق میں کسی لڑکے سے کل یہ کہتے تھے
یہ ریش ریش نہیں صرف اک بہانہ ہے
یہی قفس ہے، یہی میرا آشیانہ ہے
اِس آشیاں میں بہت سے طیور رہتے ہیں
نہ جانے آپ ہی کیوں دُور دور رہتے ہیں

ایسا ہی خوبصورت رواں ترجمہ فگار صاحب نے ولیم ورڈز ورتھ کی مشہور نظم ’’Daffodils‘‘کا ’’نرگس کے پھول‘‘ کے عنوان سے کیا ہے جس کے چند اشعار بطور نمونہ درج ذیل ہیں۔

؎ابرِ آوارہ کی صورت گھومتا پھرتا تھا میں
ابر جو اُڑتا ہے اونچا وادی و کہسار پر
اتنے میں نرگس کے پھولوں کا بڑا سا اک ہجوم
اپنے زریں رنگ میں مجھ کو معاً آیا نظر
جھیل کے نزدیک‘ پیڑوں کے تلے یہ نرم پھول
لہلہاتے ‘ناچتے‘ چھوتی تھی جب بادِ سحر
سلسلہ در سلسلہ جیسے عروس کہکشاں
آسمان پر کچھ ستاروں کی چمکتی رہگزر

اسی طرح مشہور امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کی شہرہ آفاق نظم’’Stopping ByWoods on A Snowevzing‘‘کا یہ بے مثال ترجمہ بعنوان ’’برفانی جنگل میں قیام ‘‘

؎یہ فضا‘ یہ برف یہ موسم یہ تاریکی یہ شام
اور میرا ایسے میں اس سنسان جنگل میں قیام
کون ہے جنگل کا مالک یہ مجھے معلوم ہے
اُس کا گھرکچھ دُور ہے اس دشت سے معلوم ہے
اس کو کیا معلوم اس جنگل میں کیوں ٹھہرا ہوںمیں
برف پیراہن درختوں ہی پہ کیوں شیدا ہوں میں

ہمیں یقین ہے کہ رابرٹ فراسٹ کی روح بار بار فگارؔ صاحب کی عظمت فن کی داد دے رہی ہو گی۔
اب اس تناظر میں دلاور فگارؔ صاحب کی اس منظوم دعا کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے، جس سے انھوں نے ’’خوشبو کا سفر‘‘ کا آغاز کیا ہے:

میرے اللہ، اے میرے معبود
میری فکر سخن ہو لامحدود
میری فکر و نظر کو وسعت دے
بوئے گُل کو سفر کی رخصت دے
میرا فن ہو فراست کا ابہام
کسی صحرا میں ہو مجھے بھی شام

’’خوشبو کا سفر‘‘ کے پیش لفظ میں سید امجد علی (مرحوم) سابق ڈائریکٹر جنرل ڈیپارٹمنٹ آف فلمز اینڈ پبلی کیشن، وزارتِ اطلاعات و نشریات، حکومت پاکستان رقم طراز ہیں:

’’ان نظموں کو پڑھ کر ترجمہ کا خیال بھی دل میں نہیں گزرتا۔ انھوں نے غیر ملکی نظموں کو نئے قالب ڈھالا ہے۔‘‘

اس کتاب کے پیش لفظ بعنوان ’’پیش دستی‘‘ کے آخر میں فگار صاحبؔ لکھتے ہیں ’’سوچتا ہوں کہ ترجمہ کا یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہ ہو بلکہ کچھ عرصہ بعد اسی قسم کا ایک اور مجموعہ پیش کروں۔‘‘ مگر افسوس کہ زندگی اور حالات زندگی نے انھیں اتنی مہلت ہی نہ دی کہ وہ یہ کام انجام دیتے جو کہ ان کی کُلاہ میں ایک اور سرخاب کے پَر کے مترادف ہوتا۔

اگرچہ دلاور فگارؔ کی وجہ شہرت ان کی مزاحیہ شاعری ہی قرار پائی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ہمہ جہت قادر الکلام سُخنور تھے۔ ان ہی کے الفاظ ہیں ’’لوگ کہتے ہیں کہ میں طنز و مزاح نگار ہوں۔ گویا کہ طنز و مزاح شاعری کم از کم سنجیدہ شاعری سے الگ کوئی فن ہے۔

جہاں تک میری طنز نگاری کا تعلق ہے، یہ میری سنجیدہ شاعری ہی کی بنیاد پر بنی دوسری منزل ہے۔ ظاہر ہے کہ بالاخانہ کو گرائونڈ فلور سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ شاید بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہوں ’’ کہ دلاور فگار ایک منفرد نعت گو بھی تھے۔ دراصل ان کی شخصیت اتنی ہمہ گیر اور پہلودار تھی کہ ایک مختصر سے کالم میں اس کا احاطہ کرنا ناممکن کی جستجو کے مترادف ہوگا۔

ایک مرتبہ کراچی آرٹس کو نسل کے ایک ادبی اجتماع میں انھوں نے نہایت دلچسپ انداز میں اپنے تخیلاتی آسمانی سفر کا قصہ سنایا۔ اُس روز فرشتوں نے اُنھیں جنت میں داخل ہونے سے محض اس بنا پر روک دیا تھا کہ وہ مقررہ وقت سے قبل وہاں پہنچ گئے تھے۔ فرشتوں کا کہنا تھا کہ وہ واپس جائیں اور 5 سال بعد وہاں آئیں۔ یہ 31 جنوری 1993ء کا واقعہ ہے۔ اس کے تقریباً 5 سال بعد یعنی 25 جنوری 1998ء فگار صاحب نے رختِ سفر باندھا اور ملک عدم کو سدھار گئے۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1123