donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Kali Dharti Yani Sabz Aatish Ka Shayar


کالی دھرتی یعنی سبز آتش کاشاعر


شمیم قاسمی


مجھے اعتراف ہے کہ عالمی ادب کامنظرنامہ تیزی سے بدل رہاہے۔وقت کے ساتھ ساتھ فکری ونظری زاویے بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ زمانہ بیتا نطشے نے بھی’’لامتناہی بازگشت‘‘ کاتصور پیش کیاتھا۔ نئے فکری زاویوں نظریوں اورادبی رویوں کو ہم یکسر نظر انداز بھی نہیں کرسکتے۔ ادبی، نظریاتی اور شخصی اختلافات اپنی جگہ لیکن یہ سچ ہے کہ تازہ کار نسل ایک نئے ادبی ڈسکورس کے لئے جابہ جا اسٹیج شوکرنے لگی ہے۔ اس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ جان وایمان میںہیجان پید اکرنے والی بیرونی شعاعیں ہماری فکری کائنات کوخیرہ کررہی ہیں۔ معنی کی وسعت کے جبر کومتن سے آزاد کرنے اور پھر ۸۰ کے بعد کی شاعری ؍ تخلیق پر خاصہ زور دیاجارہاہے۔ یہ ۸۰ء کے بعد والاشوشہ کس نے چھوڑا؟ اب ایسے میں ساتویں دہائی کے منفرد شاعر رونق شہری کاپہلا مجموعہ غزل بعنوان ’’سبز آتش‘‘  دیکھئے کہ ہمیں کس سمت لے جاتاہے۔ یوں توبقول رونق   ؎

 ہم اپنے عہد کے آگے کاذہن رکھتے ہیں
کہ ہم نے طے کی مسافت کہیں ٹھہر کے نہیں

اس میںشبہ نہیں کہ اپنے دوسرے ہم عصر شعراء کی طرح رونق بھی میدان غزل میں تقریباً تیس برسوں سے لگاتار دوڑ بھاگ رہے ہیں ایسا اس لئے بھی کہ غزل اصل میں ایک بے قیام رفتار زندگی سے عبارت ہے۔ بہرحال یہ سچ ہے کہ اس میدان خارزار میں انہوںنے ایک طویل صبر آزما مسافت طے کی ہے ۔ لہولہان تلوئوں کو سہلایا ہے۔ مرہم پٹی کی ہے اوریوں تازہ دم ہوتے رہے ہیں اوریہی نہیں سبز آتش کے مطالعہ سے یہ بھی اندازہ ہواکہ صنف غزل کا لباس کہن اتارنے اور غزل کے لفظی خزانے میں مزید اضافہ کرنے کی کوشش میں وہ ایک حد تک سرخرو بھی ہوئے ہیں۔ جگالی شدہ شاعری سے ہمارا آئے دن پالا پڑتارہتاہے ۔ یہ مقام مسرت ہے کہ رونق شہری کے یہاں فکرونظر اورزبان وبیان کی سطح پرایک توازن اور تازہ کاری ہے۔ ان کے تخلیقی سفر میں ایک وقار اور طمانیت ہے۔ اس میدان میں وہ نیا کچھ کردکھانے کیلئے کافی اوتاولے دکھتے ہیں۔ یوںبھی زبان کی ہمہ جہت ترقی کے لئے نئے نئے الفاظ اور تراکیب کا توخطرہ لیناہی چاہئے۔ حد درجہ استعمال شدہ موضوع و لفظیات اور بیل بوٹے سے سجی سجائی شاعری کم ازکم میرے مطالعہ کو آسودگی فراہم نہیں کرتی۔ موبائل کلچر اور سائبر ایج کے کچھ اپنے تقاضے ہیں۔یوں بھی آزادیٔ اظہار کیلئے شاعر کو ایک کھلا آسمان چاہیئے ہی۔ ہاں یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب شاعرنے ایک طویل سفر طے کیا ہو اورحیات وکائنات کاگہرا مطالعہ بھی۔ اس میں تخلیقی ریاضت بھی شامل ہے- دراصل میں یہ کہنے جارہاتھا کہ رونق شہری کے اس طویل تخلیقی سفر اوران کی بیشتر غزل کا اسلوبیاتی مطالعہ کرتے ہوئے معاصر شعر وادب کے باوقار شاعر وناقد (ڈاکٹر) علیم اللہ حالی نے اس بات پر Stress  ڈالا ہے کہ ’’طویل تخلیقی مسافت عام سفر سے مختلف ہوتی ہے۔ یہاں انسان گام گام آگے نہیں بڑھتا بلکہ بسا اوقات اگر اسکی یافت سرعت کے ساتھ سامنے آتی ہے توپھر کچھ مدت کے لئے  Retreatکاسامنا بھی کرناپڑتا ہے۔ آگے بڑھنے اورپیچھے ہٹنے کا عمل لگاتار قائم رہتا ہے۔ فن کار کی رفتار کے اس پیش وپس کے متعدد اسباب ہوتے ہیں ان کامکمل تجزیہ کیا جائے تو بات حد درجہ طویل ہوجائیگی… گویا وقت ہماری سوچ، فہم و دانش، فکر ونظر، احساس وارتعاش اوراظہار وبیان میں اتنی ساری تبدیلیاں پیدا کرتارہتاہے کہ ان طوفان تغیر میں فن کار کاایک انداز و رفتار سے آگے بڑھتے جانا ناممکن ساہوجاتاہے۔ ‘‘خود سبز آتش کے خالق کایہ اعترافی اظہار بھی کم معنی خیز نہیں   ؎

نامکمل خسارے کی شدت سے دوچار ہوں ان دنوں
دائرہ اک مکمل ساپانی میں کوئی دوبارہ نہیں بن سکا

ادھر سے جو بھی ہے گزرا اسی نے رونداہے
عجیب قصہ یہ رستہ بیان کرتاہے

کبھی رونق کی تھی سرکش طبیعت
یہ گنگا آج سیدھی بہہ رہی ہے

 اب دیکھنا یہ ہے کہ تغیرات موسم کے زیراثریہ گنگاایک سیدھ میں کب تک بہتی ہے۔ تغیر وتبدل توایک فطری پروسس ہے۔ ہمیں نہیں بھولناچاہئے کہ ہرعہد اپنے ماقبل عہد کے ادبی مسلک ورویوں سے مشروط و منسلک ہوتاہے۔ میر اایسا ماننا ہے کہ جن مخصوص نظریوں اوراصولوں پر پیش رو ادب کی بنیا درکھی گئی ہے اسے اتنی آسانی سے الوداع نہیں کہاجاسکتا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ نئی ادبی تھیوری اپنیTotalityمیں کائناتی نقطہ نظرکاایک واضح اشاریہ پیش کرتی ہے جسے نظرانداز کرنا ادبی بدنیتی ہوگی ۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کہ کیا واقعی ادیب کی موت ہوگئی؟ اس پر بہت زیادہ سرکھپانے کی ضرورت نہیں ۔نشان خاطر رہے کہ اردو شعر وادب میںبھی ویٹو کی لعنت تیزی سے جڑپکڑتی جارہی ہے۔ پیشہ وارانہ رقابتیں، معاصرانہ چشمکیں، نظریاتی اور ایک قسم کی آپسی کھینچاتانی نے معاصر اردوادب کی پوری فضاکومشکوک بنادیاہے۔ فی زمانہ اسی مشکو ک اورپراگندہ ماحول میں نہ صرف ہم جینے کاہنر سیکھ رہے ہیں  بلکہ اپنے ادبی تشخص کیلئے بزرگوں کی پگڑیاں بھی اچھال رہے ہیں۔ اپنے ہم عصروں اورپیش رو فن کاروں کے درمیان اکھاڑپچھاڑ کاسلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اب تو مجھے بھی یہ تسلیم کہ تگڑی پی آرشپ اور ادبی لابنگ کے بغیر کسی جنوئن فن کار اکادبی تشخص ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

’’سبز آتش‘‘ کاخالق رونق شہری بھی ایک جنوین فن کار ہے۔ معاصر ار دوغزل کاایک قابل ذکر نام۔
۲۶ اپریل۱۹۵۲ء کوکالی دھرتی کے شہر جھریا میں اس نے آنکھیں کھولیں۔ پنچاپن پورضلع گیا اس کاآبائی وطن ہے۔ ہندوپاک کے تقریباً تمام اہم رسائل وجرائد میں گزشتہ تیس برسوں سے اس کی غزلیں شائع ہوتی رہی ہیں۔ شب خون، کتاب، آہنگ، شعر وحکمت، شاعراورمباحثہ وغیرہ خالص ادبی رسائل میں اس کی شعری تخلیقات تواترسے چھپتی رہی ہیںلیکن یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ نئی شاعری یا صنف غزل پر جب کبھی بھی باتیں ہوتی ہیں اورمقالے لکھے جاتے ہیں تو یار لوگ اس کے نام اورکام کو فراموش کردیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہے گروپ بندی یا پھر من تراحاجی بگویم تومرا حاجی بگو والا فارمولا۔ جوبھی ہو ادبی صورت حال حد درجہ غیر صحت مند اورمشکوک ہوتی جارہی ہے۔ ایسے منافقانہ ماحول سے رونق قطعی بددل نہیں ہوئے۔ یہ یقینا اس کا شاعرانہ ظرف ہے ۔ اس کی شاعرانہ بے نیازی کے لئے اس کایہ شعر ہی کافی ہے  ؎

 مصروف ہم مطالعۂ فطرت میں رہتے ہیں
دن بھر کسی فقیر کی صحبت میںرہتے ہیں

پیش نظر مجموعۂ غزل سبزآتش دراصل کولڈفیلڈ کی کوئلہ کوئلہ سی زندگی کاایک توانا استعارہ ہے۔ صفحہ ۴ پر انتساب کے تحت رونق نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے کہ میرا یہ مجموعہ غزل اس جھریا کے نام ہے جس نے سرپرجون کاسورج اورپائوں کے نیچے آگ ہونے کا احساس دلاکر سبزآتش کاتخلیقی جواز پیش کیا ہے۔ لمحہ لمحہ کالی دھرتی سے شمعی لو کی مانند، سیال صفت جوتخلیقی سوتے پھوٹ رہے ہیں اس سے سبزآتش کی شاعری کے خدوخال بہت واضح اورروشن ہیں    ؎

تمام شہر میں ایندھن کی طرح جل کربھی
ہے چہرہ کون سا دھنباد کا پتہ نہ چلا

وہ خرچ کرتاتھا قسطوںمیں زور بازوکا
مجھے غنیم کی طاقت کا کچھ پتہ نہ چلا

حریص ہاتھ میں آکر سمٹ گئی دنیا!
حلال رزق کی وسعت کا کچھ پتہ نہ چلا

مستقبل کی راکھ جمی ہے حال کے رخ پر
ہم کو نظر آتاہے آئینہ سے آگے

سرپر جون کا سورج پائوں کے نیچے آتش
ایسی دوزخ کہیں نہیں جھریا سے آگے

یہ خیال حقیقت پسندانہ ہے کہ کبھی کبھی کسی غزل کا محض ایک شعر ایک ضخیم ناول کے مطالعہ کانچوڑ پیش کرنے کاجوازرکھتاہے۔ سبز آتش کے بیشتر اشعارکا مطالعہ کرتے ہوئے الیاس احمد گدی مرحوم کے یک موضوعی ناول’’ فائر ایریا‘‘ (ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ) کے اوراق اپنے تمام سیاق وسباق کے ساتھ پھڑپھڑانے لگے اوریوں ایک بارپھر میں ایک کیفیت بے نام کی خلش سے دوچارہوا۔ بلاشبہ یہ سبز آتش کے خالق کی قوت تخلیق کاکمال ہے یہ خوش آئند ہے کہ سبز آتش کی تقریباً تمام غزلوںمیں ایک نہ ایک شعرایسا ضرورمل جاتاہے جسے ہم بآسانی بیت الغزل کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔ اس سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتاہے کہ اس قبیل کے اشعار حیات و کائنات کے مظاہر ومناظر کو Clickکرنے کی فن کارانہ صلاحیت کے حامل ہیں۔ یوں ایک اچھوتے نظارہ لطف سخن کی گرفت میں آکر باشعور قارئین غزل کاذہنی علاقہ بہت حدتک سیراب ہوجاتاہے   ؎

برسبیل تذکرہ جب مرگیا عرض ہنر
میں نے رونق پھر سے موضوع سخن زندہ کیا

بن گیا مقتل درد سر ایک پہچان کا مسئلہ
اب کے تفریق تانیث وتذکیر سے شہر زندہ ہوا

ماتمی لے میں ڈوبی رہی خامشی ا ب کے چاروں طرف
پھر ہوایوں کہ اک نیک کردار سے شہر زندہ ہوا

اپنی ہی نیند کی گہری دلدل میں جب لوگ دھنسنے لگے
ایک سادھو کی ترکیب بے دار سے شہرہ زندہ ہوا

شعرکہتے وقت لگتا ہے یہی رونق مجھے
تیر کوئی جسم کے اس پار سے اس پار ہو

ایسا ہو کاش غم بھی مرا منفرد لگے
سورج کی طرح دکھ بھی اکیلا طلوع ہو

بوسے کااک چراغ جلے اہتمام سے
پھر خطۂ بدن پہ سویرا طلوع ہو

عصری شاعری سے متشکل یہ تازہ فکری، یہ توانا شعری اظہار یہ، نئی ہنر مندیوں اورنئے اسلوب کی تلاش میں غزل کے مروجہ تصورات ومدار سے ایک ذر اباہر آنے کی یہ جسارت ،زبان و بیان کی سطح پر معنی و صوت کا یہ فطری بہائو اورپھر سماجی اورسیاسی شعور کی یہ بالیدہ نظری - کیا یہ ساری خصوصیات رونق شہری کے شعری تشخص اور اس کی منفر پہچان کے لئے کافی نہیں؟…؟…؟… اس سوال کا جواب بیک وقت ہاں اورنہیں دونوںمیں دیاجاسکتاہے۔ ایسا کیوں؟ میں نے قبل ہی عرض کیا ہے کہ فی زمانہ ادبی صورت حال کافی حد تک مشکوک اورمنافقانہ ہوگئی ہے۔ ہمارے یہاں کسی ’’ازم‘‘ کے حوالے سے نظریاتی وابستگی تومحض دکھاوا ہے۔ سچ تویہ ہے کہ مکھی وہیںبیٹھتی ہے  جہاں مٹھاس ہو……  حلقہ یاراں سے چھماچاہتے ہوئے یہ بتانا چاہوں گاکہ ہمارے درمیان ایک مخصوص نسل کے چند ادباو شعرا ایسے بھی ہیں جوبیک وقت دلی کی میٹھی ریوڑیوں اورالہ آباد ی امرود کا ذائقہ لیتے رہتے ہیں۔ پکڑلئے جان پرمصلحتاً کسی ایک سے اپنی غیر وابستگی کا دبے اندازمیںاظہا رکرتے نظر آتے  ہیں ۔ ان کی یہ علاحدہ شناخت اورشہرت کسی غیر شادی شدہ حاملہ لڑکی سے کچھ کم نہیں- فی زمانہ ادبی دنیا میںاس دوغلاپن کا چلن عام ہوتاجارہاہے۔ اورہو بھی کیوںنہیں- اصل میں ہم سب شوبیز (Show Biz)کے عہدمیں سانس لے رہے ہیں۔ اورہم میں سے بیشتر اپنے مختلف ہونے کی’’امیبیا‘‘ کی پرورش و پرداخت میں خاصے گرم جوش دکھتے ہیں۔ ہمارے درمیان چند ایسے’’ مہینی‘‘ بھی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کابھونپو بنے ہوئے ہیں۔ کوئی سمینار، کوئی علاقائی مشاعرہ، ریڈیو اسٹیشن ، دور درشن یاپھر قسمت سے کوئی ’’عالمی مشاعرہ‘‘ ہویہ غزل کی چوسنی منھ سے لٹکائے اسٹیج پردندناتے پھرتے ہیں۔ اب یہ الگ بات کہ اچانک موراپنے پائوں دیکھ کررقص بھول بیٹھتا ہے۔ خیرصاحب! بھرپور مرغن غذا، فرسٹ کلاس ٹی۔ اے + ڈی اے کے نام پر پاکٹ گرم یعنی ایک معقول رقم ۔ اسے کہتے ہیں حلوہ ہضم کھیل ختم۔ اقربا پروری کے ایسے ماحول میں شعر وادب سے ہماری طویل ذہنی وابستگی کاکیا سبب آخر؟ ان دنوں ہم زبان و ادب کی بقا کیلئے سنجیدہ مکالمے نہیںکرتے بلکہ عیسیٰ کے بعد موسیٰ اورپھر… کے بعدکیا؟ … اورکیوں؟ پربحث و تکرار کرتے ہوئے رحمانیہ ہوٹل سے جیتے جی’’قبرستانیہ‘‘ نشیںہوگئے ہیں۔ ادب کے چور دروازے سے کسی چمکتاری ایوارڈ کے لئے ہم بے حد اوتاولے اورعجلت پسند واقع ہوئے ہیں اس معاملہ میں میرے ہم عصر دوست رونق شہری بڑے بے نیاز اور بے کار ثابت ہوئے ہیں۔ میری طرح ادب کے بونوں کو بانس پر چڑھانے کاہنرانہیں بھی نہیں آتا۔ اورپھر بقول شاعر    ؎

حیرت سے کبھی منظر حیرت نہیں دیکھا
ہم اپنی طبیعت سے بھی سرشار بہت ہیں

صدیوں سے ایک ہی جگہ اونچے کھڑے ہوئے
جانے پہاڑ کس کی حمایت میں رہتے ہیں

کرشمۂ وجودہے یا پھر کشش زمین کی
ہیںپائوں اپنے مستقل چٹان پر رکے ہوئے

مصروف ہم مطالعۂ فطرت میں رہتے ہیں
دن بھر کسی فقیر کی صحبت میں رہتے ہیں

مندرجہ بالا اشعار کے حوالے سے اتنا تو ماننا ہی ہوگاکہ بیشتر کارخانۂ غزل میں خود کارمشینوں کے زیر اثر تیار شدہ ایک جیسے ماڈل اور خدوخال والی غزلوں اوران کی آپس میں گڈ مڈ ہونے والی ایک جیسی آوازوں کی بازگشت سے پیچھا چھڑانے کی رونق شہری نے جوتھوڑی بہت شعوری کوشش کی ہے وہ خوش آئند ہے۔ بلاشبہ ڈھیر ساری آوازوں کے درمیان ایک اچھوتی جمالیاتی سنجیدگی کا پرتو لئے رونق شہری کے سرکش اوربے تکلف لہجے کوآسانی سے پہچانا جاسکتاہے   ؎

دل کے دروازے پہ دستک دے رہاہے اجنبی
بے تکلف وہ اگر ہوگا تو اندر آئے گا

 

(بہار کے چند نامورشعرائ، جلد ۳ )


^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 846