donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Mizaj Meer Sa Shayar


مزاج میرؔ سا شاعر


شمیم قاسمی


ظفر رضوی کاکوی ہر چند کہ اپنے جدی وطن کاکوکی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ ’’کاکوی‘‘ بنانے والے حروف کااستعمال کرتے تھے لیکن عملاً وہ’’سہسرامی‘‘ ہی کہلانے کے حقدار تھے - میرا تو ایسا ماننا ہے کہ دبستان عظیم آباد کے ایک تابناک اور تاریخی طورپر بین الاقوامی شہرت یافتہ شہر سخن سہسرام کاایک نمائندہ شاعر کہلاناانہیں زیادہ پسند تھا۔ موصوف کی زندگی کا تقریباً تمام حصہ شیر شاہ کی نگری سہسرا م کی دھوپ چھائوں کے درمیان گذرا۔ کیمور کی سرمئی پہاڑیوں کی پراسرار یت اورسرسبز کھیتوں کے دلفریب نظاروں، طرحی وغیر طرحی مشاعروں، ادبی نشستوں اور شعراو ادبا کی نشست وبرخاست نے انہیں مکمل شاعر بنا دیا۔ اب یہ الگ بات کہ ان کی نجی زندگی کے غیر موافق حالات نے انہیں غم جاناں توکبھی غم دوراں کاشاعربننے پر مجبورکیا یوں’’شکست ساز‘‘(مجموعہ ٔ  کلام ) کی غزلوں کے خالق کہلائے۔ ہر شاعر کااپنا ایک خاص مزاج ہوتاہے اوراپنے اسی مزاج کے تحت وہ اپناایک اسلوب بھی خلق کرتا ہے۔’’شکست ساز‘‘ کی غزلوں کے بیشتر اشعار کے مطالعہ سے ایک بات توواضح ہوجاتی ہے کہ زندگی میں پے بہ پے ہونے والے غیر معمولی حادثات نے شاعرکو کچھ یوں ضربیں لگائیںکہ وہ نہ صرف شکستہ دل شاعری کا نمائندہ ہوگیا بلکہ زندگی کی کھردری سچائیوں نے اسے حقیقت پسندانہ اظہاریہ کیلئے ایک مخصوص ماحول بھی مرتب کیا ایک ایسا ماحول جس میں گھٹن ہی گھٹن ہے۔ تازہ ہوا کا جھونکانہیں ،حد نظر کوئی روشن دان نہیں۔ اگر کچھ ہے تو بس اس کی اپنی شاعرانہ خلوت پسندی اور روایتی یادوں کاایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ۔ ظاہر ہے کہ اس مقام پر  شعری اظہار کیلئے مروجہ زبان اوراسالیب سے سے باہر نکلنا کوئی آسان بھی نہیں  ؎

 تری یادکے دیئے جو مرے دل میںجل رہے ہیں
شب ہجر میں بھی مجھ کوبڑی روشنی ملی ہے

تری اک نظر میں ساقی ہے سرور صد ہزاراں
ترے میکدے میںپھر بھی مجھے تشنگی ملی ہے

دل کے ٹکڑے ہیں پڑے راہ گذر میں ان کی
حشر یہ خوب ہواہے مرے نذرانے کا

حیات شوق بے تاب و تواں معلوم ہوتی ہے
مجھے یہ زندگی بارگراں معلوم ہوتی ہے

خوشی کاگیت تومفقود ہے غم ہی کی باتیں ہیں
یہ ساری بزم میری ہمزباں معلوم ہوتی ہے

ظفر رضوی کا شماریوں تو ہمارے پیش رو شعراء کی نسل سے ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ قدیم شعراء کی شاعری کے مطالعہ نے اس نسل کے چندمخصوص شعراء کو اپنا آئیڈیل بنادیا اور یوں وہ غیر ارادی طور پر ہی سہی ایک مخصوص آ ب و ہوا میں پروان چڑھنے والے شعری لہجے کے اسیر ہوگئے۔ یہ قنوطیت پسندی اورمصائب و آلام کوفکری سطح پر اوڑھنا  بچھونا بنائے رکھنا شاید انہیں زیادہ راس آیا۔ حصار غم سے نکلنے کیلئے اظہار کے ڈھیر سارے وسائل ہمارے درمیان بکھرے پڑے ہیں۔  شعر شورانگیز والے میر پربھی انیس غم کا ٹھپا لگ چکا ہے۔ بال و پر میں طاقت ہو تو طوفان سے شاعر کوٹکرانا ہی چاہئے بلا سے کشتیٔ عمر رواں غرق ہو تو ہو اگر یہ نہیں توپھر شاعر کو ظاہر ہے کہ ساری زندگی بار گراں معلوم ہوگی اور وہ حصار ذات و غم کا کچھ یوں اسیر ہوگا کہ اس کی سماعت سے ٹکرانے والی مختلف آوازیں بھی ہم زباں معلوم ہونگی۔ مندرجہ بالا اشعار کو میںنے بس یوںہی غیر ارادی طو رپر پیش نظرمجموعہ غزل سے نوٹ کرلیا ہے لیکن ان اشعار کے بطن سے جو روشنی پھوٹ رہی ہے وہ ’’شکست ساز‘‘ کے ایک رخ کو واضح طور پر نمایاں کررہی ہے۔ ان اشعار سے ظفر رضوی کے شعری مزاج اورفکری تنوع کو یقینا سمجھا جاسکتاہے۔ مجموعہ غزل کے تقریباً بیشتر اشعار کا یہی  Temprament ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ظفر رضوی کی تمام شعری کائنات یک رخی ہے اور وہ صرف ’’غم و الم‘‘  ہی کا طوا ف کررہی ہے جبھی تو انہیں اس کااحساس ہے   ؎

کون سمجھے گا غم کا افسانہ
حال دل باربار مت کہئے

وقت کی مجھ پہ یہ عنایت ہے
زحمت روزگار مت کہئے

لگتی ہوئی دیکھی ہے جب آگ مرے گھر کو
دیتے رہے ہمسائے رہ رہ کے ہوا یارو

اس دور حوادث میں جینا ہے ظفر مشکل
ناحق مجھے دیتے ہو جینے کی دعا یارو

ٹوٹے یہ طلسم شب نفرت کی فضا بدلے
ہر خواب پریشاں کی تعبیر بدل ڈالو

برہم ہے ظفر دنیا اظہار تمنا پر
تم اپنی ہراک طرز تقریر بدل ڈالو

ہاتھوں میں لے کے پتھر کچھ لوگ آرہے ہیں
شیشے کے اس مکاں کو ہم کس طرح بچائیں

سچ ہے کہ شعر وادب محض جذبات کی تسکین کاذریعہ یامحض وقتی لطفِ مطالعہ نہیں یوں کہئے کہ وقت گذاری کا سامان نہیں۔ اچھا ادب اور اچھی شاعری تو ہر زمانہ میں زندگی کے اعلیٰ اقدار کی ترجمان رہی ہے۔ ہماری رو زمرہ کی زندگی کے سروکار، کیف و نشاط، سوز وگداز، خوب صورت اوربدشکل چہروں کے پیچھے رنگت بدلتے زاویوں اوربطور خاص حیات انسانی کے نت نئے مسائل کا موثر اظہار یہ اورتنقید حیات بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم شاعر کی آپ بیتی کو جگ بیتی سے تعبیر کرتے ہیں۔ پیش نظر مجموعہ غزل میں ایسے اشعار بھی ڈھونڈنے سے مل جاتے ہیں جن کے اندرون میں عصری حسیت کی لہریںدوڑ رہی ہیں۔ ہر چندکہ یہاںبھی آزمودہ لسانی حربوں کا استعمال کیاگیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ظفر رضوی کی شعری بساط کے لسانی آہنگ کے بہائو کا جائزہ لیتے ہوئے ہمارے عہد کے عالمی شہرت یافتہ جدید تر ناقد پروفیسروہاب اشرفی نے مندرجہ ذیل کلمات کے پس پردہ ’’شکست ساز‘‘ کی شاعری میں نئے امکانات کی تلاش پر زوردیا ہے۔

’’میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگرظفر رضوی نئے ڈکشن کی تلاش کی طرف راجع ہوتے تو جدید شاعروں کی صف میں انہیں امتیازی جگہ مل سکتی تھی۔ حالیہ تنقیدی رویہ یہ ہے کہ اسٹاک کے الفاظ کی شاعری محاورے کی سطح پر رکھ کر دیکھی جاتی ہے۔ ایسے میں قابل لحاظ شاعروں کا قد بھی چھوٹا ہوجاتاہے۔ ظفر رضوی کی شاعری کے تجزیے میں ایسے Reservationمدنظر ہوں توپھر ان کا کوئی حسن ابھر نہیں سکتا۔ میرا موقف یہ ہے کہ لفظ تو بے جان، مردہ شے ہے، خالق اس میں نئی روح پھونک سکتاہے۔ یہ کام ظفر رضوی نے بخوبی انجا دیا ہے۔‘‘

پروفیسر موصوف نے’’شکست ساز‘‘ کے خالق کی شعری لفظیات اور طریق اظہار پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے جس تنقیدی نقطۂ نظر کی وضاحت کی ہے وہ معاصر اردو شاعری کے باب میں زبان وبیان یعنی شعری لسانی آہنگ کے زیر اثر ایک نئی جہت سے وسیع الاطراف سوچ کا اشاریہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کلام ظفر میں ہر حددرجہ استعمال شدہ یعنی مروجہ لفظیات و تراکیب کو برتنے کاایک قرینہ ضرور موجود ہے۔ شکست ساز میں شاعر کی زندگی کے بے حد کمزور لمحے بھی فکری سطح پر توانادم ہوئے ہیں۔ زمانے کے ظلم وستم اوراپنوں کی بے اعتنائی کایہاں جو شاعرانہ شکوہ ہے اس میں ایک طنز لطیف بھی شامل ہے۔ اور شاید یہی وہ تخلیقی لہجہ ہے جس نے شکست ساز کے خالق کو شکست انا کاشاعر ہونے سے بچالیاہے۔ہرچند کہ جذباتی شدت نے ان سے اکثر کمزور اشعار بھی کہلوائے ہیں۔

جناب ظفر رضوی کے جہان سخن کے اندرون کی سیر کرتے ہوئے میں نے    جابہ جاایک خاص قسم کی یاسیت بھری طمانیت کے ساتھ ایک ناقابل بیان قلبی سکون بھی محسوس کیاہے۔  میں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے ان کی ذہنی اور شعری نفسیات کو سمجھنے کیلئے موصوف کی شخصی زندگی میں بھی جھانکنا ہوگا اورشاید یہاں یہ ممکن بھی نہیں کہ فی الحال تو مجھے ا ن کے تئیں اپنے عقیدت مندانہ خیالات کا اظہار مقصود ہے۔ ہاںاتنا توضرور کہوں گاکہ نجی زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے موصوف نے بڑی وضعداری، اناپسندی اورایک طرح سے جہد مسلسل سے کام لیا اور یوں دین و دنیا میں سرخروئی حاصل کی۔ علم وادب کے گہوارہ شیر شاہ کی نگری سہسرام کی سماجی اورادبی زندگی میں بھی وہ اعتدال پسندی کے ساتھ شب وروز بسر کرنے کا ہنرجانتے تھے۔ اصل میں وہ ایک در دمندانہ اور سادہ طریق زندگی کے تمام عمر طرفدار رہے۔ اپنوں سے کہیں زیادہ بیگانوں نے انہیں سمجھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے حسن اخلاق سے انہوںنے اہل سہسرام کا دل جیت لیا اوریوں تمام عمر شاد کام رہے ہرچند کہ ان کی خلوت گاہ کی ناآسودگی نے انہیں ایک کیفیت بے نام سے ہرگام دوچارکیا   ؎

گئے تھے بزم میں ان کی مگر کیا لائے ہم جانیں
بہ ظاہر تو دل دیوانہ اپنا شاد کام آیا

وہ مجھ سے پوچھتے ، میں ان سے درد دل کہتا
قسم ہے دل میں یہی مدتوں سے حسرت ہے

میں ہوں ظفر نشاط کی وادی سے دور تر
صورت کو دیکھئے مری حالت نہ پوچھئے

یہی اپنی ذات کا کرب ہے کہ وبال دوش ہے زندگی
کئی حسرتوں کو لئے ہوئے ظفر اس جہا ں سے گزر گئے

افسوس صد افسوس کہ شیر شاہ کی نگری کامحترم اور ہر دلعزیز شاعر ہمارے درمیان نہیں رہا ۔ شعر وسخن کی گلیاں سونی پڑی ہیں۔ ادارہ فکر ونظر کے دفترمیں ویرانی پسری ہے کہ اب ہمارا محبوب شاعر شاہ کبیر درویش کے شاہی قبرستاں محلہ خانقاہ میں آسودہ خواب ہے  ؎

میں نقش چھوڑ جائوں گا مٹنے کے بعد بھی
حرف غلط سمجھ کے مٹا دیجئے مجھے

شعر و ادب کے شیدائیوں بالخصوص اہل سہسرام کو مندرجہ بالا شعر کے ثانی مصرعہ پرایک ذراٹھہر کے سوچنا ہوگا ۔ بہت جلد بازی میں کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ کہاجاسکتا ہے کہ ظفر رضوی کی شاعری صرف آشنائے درد ہی نہیں آشنائے عصر بھی ہے اور شاید یہی ان کی شاعری کا وصف خاص ہے اب یہ الگ بات کہ بقول شاعر   ؎

شاعر ی اپنی ظفر ہے پئے تسکین خیال
کب سخن فہم سے کچھ داد وصلامانگے ہے

     (قومی تنظیم۔ادبی ایڈیشن۔ ۲۰۰۷ئ)   

******************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 766