donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shams Iftekhari
Title :
   Fahim Anwar Ki Tarjuma Nigari Meri Yaden Ki Raushni Me


فہیم انور کی ترجمہ نگاری ’’میری یادیں ‘‘کی روشنی میں


شمس افتخاری


    فہیم انور کی شخصیت بہ حیثیت شاعر و انشا پرداز محتاج تعارف نہیں ہے۔شاعر و ادیب کی حیثیت سے فہیم انور معروف بھی ہیں اور مقبول بھی ہیں۔ان کی نثری و شعری نگارشات ،ملک گیر سطح پر موقر رسائل و جرائد کی زینت آئے دن بنتی رہتی ہیں۔اہل ہنر اور اہل نقد و نظر سے داد و تحسین بھی وصول کرتی رہتی ہیںمگر فہیم انور کی وہ شخصیت ،جو ایک مشاق ترجمہ نگار کی حیثیت سے معرض وجود میں آئی ہے،ان دنوں کافی نمایاں ہے۔چہار جانب سے ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔اس کا واحد سبب ،ان کی ترجمہ شدہ کتاب ’’میری یادیں‘‘ہے۔۔۔۔۔۔’’میری یادیں ‘‘شہرہ آفاق قلمکار رابندر ناتھ ٹیگور کی ’’جیون شریتی ‘‘

خود نوشت سوانح

 کا اردو ترجمہ ہے۔

    فہیم انور کئی برسوں سے ترجمہ نگاری کے فن میں اپنے جوہر دکھاتے چلے آرہے ہیں۔انہوں نے زبردست شہرت رکھنے والے شاعر و ادیب منور رانا کی پہلی نثری تصنیف ’’بغیر نقشے کا مکان ‘‘کا بنگلہ ترجمہ نقشہ بیہین باڑی ‘‘کے نام سے کیا جس کی خوب خوب مذیرائی کی گئی ۔انہوں نے مولانا قاسم علوی کی کتاب ’’مقالات علوی ‘‘کا بھی بنگلہ میں ’’علویر پربندھو گچھو ‘‘کے عنوان سے ترجمہ کر کے کافی نام کمایا۔فہیم انور بنگلہ اور اردو میں طاق ہیں۔ذہین و فطین بھی ہیں اور رژرف نگاہی کے مالک بھی ۔شاید یہی سبب ہے کہ موصوف بہ آسانی اور عمدگی سے بنگلہ سے اردو میں اور اردو سے بنگلہ میں ترجمہ کر لیتے ہیں۔اس سلسلے میں انہیں دور درشن کولکاتا سے زیادہ فائدہ حاصل ہو رہا ہے ، وہ اردو نیوز یونٹ میں گزشتہ دو دہایئوں سے بہ حیثیت اسسٹنٹ نیوز اڈیٹر ،اپنے فرائض کی انجام دہی میں مستعدی سے جٹے ہوئے ہیں۔

    شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے تحت محض ۲ سال میں رانبدر ناتھ ٹیگور پر ۱۳ کتابیں شائع کیں جن میں ایک کتاب فہیم انور کی ’’میری یادیں ‘‘بھی شامل ہے۔اس سلسلے میں وزارت ثقافت حکومت ہند نے بھر پور مالی معاونت کی۔ان کتابوں کے تعلق سے ایک مجلہ بھی شائع کیا گیا ہے جس میں فہیم انور بھی مترجم کی حیثیت سے شامل ہیں۔مذکورہ مجلہ (Souvenir)انگریزی زبان میں ہے ۔اس یادگاری مجلے میں پروفیسر شہزاد انجم ،کو آرڈینیٹر ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم (شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی )نے فہیم انور کے متعلق جو کچھ لکھا ہے ،اس کا اردو ترجمہ ذیل میں رقم کیا جارہا ہے تاکہ پتہ چلے کہ فہیم انور بہ حیثیت مترجم کس پایے کے ہیں اور ترجمہ کی دنیا میں ،ان کا مقام یا منصب ہے تو کیا ہے؟یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی جامعہ ملیہ اور اس اسکیم سے منسلک ایک ٹیم نے راشٹر پتی بھون جا کر صدر جمہوریہ عزت مآب پرنب مکھرجی کو ۱۳ کتابیں پیش کیں جس میں فہیم انور کی ’’میری یادیں ‘‘اور ایم۔علی کا ترجمہ شدہ ناول ’’گورا ‘‘بھی شامل ہیں۔

        ’’میری یادیں ‘‘رابندر ناتھ ٹیگور کی سوانح عمری ’’جیون شریتی‘‘کا اردو ترجمہ ہے جسے اردو اور بنگلہ اسکالر ،شاعر اور ادیب محترم فہیم انور         (کولکاتا) سنے انتہائی متاثر کن انداز میں کیا ہے۔اس پروجیکٹ کے تحت رابندر ناتھ ٹیگور کی زندگی کے نمایاں منفرد اور ہیرے کی طرح ترشے ہوئے گوشوں     سے اردو قارئین کو متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔اپنی خود نوشت سوانح  ’’جیون شریتی ‘‘میں رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی زندگی کے بہت سے واقعات و     قصص کو انتہائی دلکش پیرائے اور منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ٹیگور نے اپنے بچپن کے مختلف دلچسپ واقعات ،مشاغل اور قدرتی مناظر کے متعلق جو کچھ     لکھا ہے ،وہ از حد متاثر کن ہے۔ٹیگور کے رفقاء ،خاندان ،ان کے عہد شباب ،عہد پیری اور ان کے اسفار میں پیش آنے والے مختلف النوع واقعات کا     ذکر ،    کتاب مذکور میں تفصیل سے کیا گیا ہے۔

        ٹیگور کی حیات کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے یہ کتاب بیحد مفید ہے۔مطالعہ ٹیگور کے لئے یہ کتاب یقینی طور پر اہمیت کی حامل ہے۔شخصیت کے تعلق     سے ٹیگور نے جو اپنے متعلق لکھا ہے ،وہ قابل قدر ہے۔اردو میں اس کی دستیابی قارئین کے لئے ایک نایاب تصور کی تکمیل ہے۔ادب ساز کی ذہانت کو     واضح کرنے میں اور خونوشت سوانح کی اصطلاحات میں ،یہ کافی اہمیت کی حامل ہے۔جب کوئی شخص ،کسی دوسرے کی سوانح عمری لکھتا ہے تو ایسی     صورت میں شخصیات کے تعلق سے غلطیوں کے سرزد ہونے کے کافی امکان ہوتے ہیں ۔۔۔۔لیکن جب کوئی شخص خود اپنے بارے میں لکھتا ہے تو     ایسی صورت میں غلطیوں کا احتمال کم ہوتا ہے جبکہ ٹیگور نے خود ہی اپنی زندگی کے بارے میں لکھا ہے جس کی بات ہی اور ہے۔

        بنگلہ اردو اسکالر محترم فہیم انور ترجمے کے ہنر سے اچھی طرح واقف ہیں ۔جس قدر ممکن ہو سکتا تھا انہوں نے اپنے آپ کو متن سے قریب         کرنے کی کوشش کی اور جائز حریت کے ساتھ ،خوبصوت جملوں میں ،سرچشمہ کتاب ’’جیون شریتی ‘‘کے پیش نظر ،اپنے مافی الضمیر کو پیش کیا ۔

        اس پروجیکٹ کے تحت تیرہ کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آئیں جن میں ’’ٹیگور شناسی‘‘’’گیتانجلی ‘‘’’رابندر ناتھ ٹیگور :فکر و فن کے ہزار         رنگ‘‘’’رابندر ناتھ ٹیگور :شاعر اور دانشور‘‘ ’’میری یادیں ‘‘(خود نوشت)’’ٹیگور اور اقبال‘‘’’ٹیگور کے مضامین‘‘گورا (ناول)’’باغبان‘‘     ’’ٹیگور کے     ڈرامے‘‘’’کلام ٹیگور کی کہانیاں (بچوں کے لئے )اور ’’ٹیگور کی بازیافت ‘‘شامل ہیں۔

        جناب ایم۔علی (کولکاتا)مترجم گورااور جناب فہیم انور مترجم جیون شریتی(میری یادیں)کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ان دونوں         حضرات نے شب و روز محنت کر کے مفوضہ کتابوں کا بنگلہ سے براہ راست اردو میں ترجمہ کیا۔یہ عمل ان کی علم دوستی اور ٹیگور سے عشق کا ایک نمونہ ہے۔

        آخر میں لازمی طور پر میں وزارت ثقافت حکومت ہند کے ارباب حل و عقد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کو یہ     وقار بخشا اور ٹیگور کے ۱۵۰ویں یوم پیدائش پر تاریخی نوعیت کی حامل ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم عطا کی نیز بھر پور مالی تعاون فراہم کیاتاکہ یہ اسکیم ایک     خاص وقار و افتخار کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے ۔
    یہ کتاب (میری یادیں )ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے تحت شائع کی گئی جسے مفت تقسیم کرنے کی ذمہ داری ،مکتبہ جامعہ لیمیٹید کو سونپی گئی۔‘‘

    پروفیسر شہزاد انجم نے اپنی حسب بالا نگارش میں جہاں ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے تحت جو کارہائے نمایاں انجام دئے گئے ہیں ،ان کا اجمالی ذکر کیا ہے وہیں فہیم انور کی ترجمہ نگاری کی دل سے ستائش بھی کی ہے۔اسکالر بننے کے لئے ایک عمر درکار ہوتی ہیمگر خدا کا شکر ہے کہ فہیم انور نے اپنی ادبی عمر کی قلیل مدت میں ،اپنی فن ترجمہ نگاری کی بدولت دانشوری حاصل کر لی ہے جبھی تو پروفیسر شہزاد انجم نے فہیم انور کے تعلق سے بہ خوشی اور پورے وثوق سے کہا ہے ۔بنگلہ اردو اسکالر۔محترم فہیم انور ترجمے کے ہنر سے اچھی طرح واقف ہیں۔ پروفیسر شہزاد انجم نے محض فہیم انور کا دل رکھنے کے لئے نہیں کہا بلکہ دل سے کہا۔’’میری یادیں‘‘کا بالا ستعیاب مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے کہ فہیم انور نے محنت شاقہ سے کام لیتے ہوئے انتہائی جانفشانی ،عرق ریزی اور ازحد ہنر مندی سے اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے۔میری دانست میں جو ترجمہ اصل میں تبدیل ہو جاتا ہے ،وہ اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔’’میری یادیں ‘‘اس علت سے پاک ہے واقعی دو دہایئوں سے ترجمہ کرتے کرتے فہیم انور بے حد مشاق ہو گئے ہیں۔’’میری یادیں ‘‘کے صفحہ نمبر ۱۳ پر’’عرض مترجم ‘‘کے عنوان سے فہیم انور رقم طراز ہیں:
    ’’ترجمہ کے دوران میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اسلوب بیان متغیر نہ ہو ،جملوں کی ساخت میں تبدیلی نہ کی جائے ،چاشنی و شیرینی برقرار رہے،لفظوں میں پیکر تراشی کی جھلکیاں یہاں بھی موجود رہیں ،لطافت بیان مجروح نہ ہو ۔اسی انداز نگارش کو اپناتے ہوئے ترجمے کا سفر جاری رہے ۔خوبصورتی ،دلچسپی، تسلسل و تواتر برقرار رہے۔‘‘

    ترجمہ کرتے وقت کسی بھی قلمکار کے اسلوب کی منتقلی ،کارے دارد ہے۔خیالات بہ آسانی منتقل کئے جاسکتے ہیں،محاکاتی صورت حال بھی پیدا کی جاسکتی ہے،وہی فضا بھی قائم کی جاسکتی ہے ،لفظوں کا تانا بانابھی ویسا ہی بنا جاسکتا ہے جو اصل تحریر میں ہے مگر طرز نگارش کا ہو بہو منتقل کرنا ،ممکن نہیں ہے ۔تاہم ’’میری یادیں کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ٹیگور کو پڑھ رہے ہیں اور ایک نوع کی دلچسپی کا احساس بھی ہوتا ہے۔

طبیعت بوجھل نہیں ہوتی ،جی چاہتا ہے کہ تمہید سے لے کر ’’صدف اور گہر ‘‘سب پڑھ ڈالیں ۔’’میری یادیں ‘‘

کا ایک نمایاں وصف اس کی سادہ بیانی ہے۔اس کے لئے اس کے قابل مترجم فہیم انور کو جس قدر داد دی جائے یقین مانئے !وہ کم ہے۔


Shams Iftekhari
63 P.M.Bustee 3rd Lane ,
Shibpur ,Howrah-711102 [W.B.]
Mob:08336067873.[ India]

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 904