donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Suhail Ahmad Siddiqui
Title :
   Israel Mein Chand Roz-Aik Dilchasp Safar Nama

 

 اسرائیل میں چند روز۔ ایک دل چسپ سفر نامہ
 
 سہیل احمد صدیقی‎
 
بعض لوگوں کی طرح بعض کتب کا ملنا بھی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتا۔راقم نے گزشتہ کچھ عرصے کی پریشانی، بلکہ مختلف النوع ، زبوں حالی سے قطع نظر، مطالعے ، تحقیق و تحریر کا جو سلسلہ جاری رکھا تو اس میں دیگر مختلف موضوعات سے متعلق عمدہ کتب کے علاوہ ، ’’اسرائیل میں چند روز‘‘ جیسی منفرد کتاب بھی فکر و ذہن کے دریچے وا کرنے کا سبب بنی۔کیلی فورنیا میں مقیم امریکی شہریت کے حامل ، سابق پاکستانی، خواجہ محمد اشرف المعروف ’’کے۔اشرف‘‘ اس سفرنامے کے مصنف ہیں۔کے۔اشرف کی دیگر کتب نظم و نثر میری نظر سے نہیں گزریں، نہ ہی کبھی اس کتاب کی وصولی سے قبل ان سے کوئی شناسائی تھی، سو راقم کے لیے اس سفرنامے پر ، بلا شخصی و علمی تعصب بے جاکے ، معروضی انداز میں تبصرہ لکھنا آسان ہوگیا۔مصنف کا پیرایہ زبان نہایت فطری، سادہ اور گہرا ہے۔وہ مشاہدے کی بھرپور صلاحیت سے مالامال ہیں اوربظاہر ’’مذہبی‘‘ نہ ہوتے ہوئے بھی مقدس شخصیات و مقامات کے لیے تکریم کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ہر چند کہ صاحبِ کتاب نے محض ایک مقامی ادیب سے سرورق کی پشت پر مختصر تعارف لکھوایا، اُن کا پیش لفظ ہی اس سفرنامے کا تعارف ہے۔ انہوں نے نہایت صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے یہ انکشاف کرنا ضروری سمجھا کہ بوجوہ ،( برادر فلسطینیوں کی رائے کے برعکس)، کتاب کا عنوان فلسطین سے منسوب کرنا محض جذباتی اور غیر فطری اَمْر ہوتا، لہٰذا گریز کیا۔کے۔اشرف دائیں آنکھ کے زخمی اور ناقابل استعمال ہونے کے باوجود، ایک ہفتے کے دورے پر روانہ ہوئے تو خود بھی حیران و پریشان تھے کہ یہ (عملاً محال) کام کیسے آسان ہوگا۔ توفیق الہٰی سے وہ اس سفر میں کامیاب ہوئے اور اردو ادب کے خزانے میں ایک اچھے سفرنامے کا اضافہ ہوگیا۔ انہوں نے بہت معروضی اور قدرے منطقی پیرائے میں لکھتے ہوئے بھی بعض دل گداز لمحوں میں قاری کو یوں شریک کرلیا کہ ؂ از دل خیزد و بر دل ریزدصاحبِ کتاب نے نہایت جامعیت سے اسرائیل کی منظم سازش، بلکہ ہنوز جاری سازشی عمل کا پردہ چاک کیا ہے، مگر انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑے بغیر ، کہیں اسرائیلی یہودیوں کی بے جا مذمت نہیں کی۔کتاب میں فلسطینیوں کی مہمان نوازی کا بیان یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ محض رشت�ۂ اِیمان ہی مضبوط ترین رشت�ۂ اِخوت ہے، ورنہ امریکی شہریت کے حامل شخص کی ،فی نفسہ ٖ ،اہمیت ، عموماً دیگر حوالوں پر بھاری ہوتی ہے۔’’اسرائیل میں چند روز‘‘ ایک سیاح کی ہر جا، ہر مقام سے متعلق علمی خوشہ چینی کی عکاس ہے۔کے۔اشرف کو یہ احساس قدرتی طور پر دامن گیر رہا کہ اُن کی طرح ، ہر کس و ناکس کو تو یہ شرف حاصل نہیں ہوسکتا، لہٰذاجہاں تک ممکن ہوا، منظر کشی کے ساتھ ساتھ ، تاریخ و جغرافیہ کے اوراق سے بھی استفادہ کرچلے۔ انہیں مسجد اقصیٰ، مسجد عمر(رضی اللہ عنہ‘)کوہِ زیتون، جبل المکبِر، حضرات صالح، ابراہیم، اسحاق و داؤد علیہما السلام کے مقابِر، روضۂِ اہلیہ محترمہ حضرت اسحاق (علیہ السلام)، مقامِ موسیٰ (علیہ السلام)، جائے ولادت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)جیسے مقدس مقامات کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے یہ جان کر کہ وہاں بھی نہ صرف جبلِ طُور موجود ہے ، بلکہ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے منسوب مقبرہ، نیز، معروف صحابی سیدنا سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ‘) سے منسوب قبر ( اور مسجد) موجود ہے۔۔۔۔۔یہاں ذرا سانس لیجئے۔ تمام مستند کتبِ سِیَرکے مطابق ، حضرت سلمان فارسی( رضی اللہ عنہ‘)، مدائن (عراق) کی جس بستی میں مدفون ہیں، اُسے آج کل ’’سلمان پاک‘‘کہا جاتا ہے اور بیسویں صدی کے ابتدائی عہد میں، شاہ فیصل(عراق) کے دور میں ، دو اصحابِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)حضرت حُذیفہ بن اَلَیمان اور حضرت عبداللہ بن جابر( رضی اللہ عنہم)کی قبور کی منتقلی بھی وہیں عمل میں آئی تھی۔اب رہی بات مصنف کے بیان کی تو عرض کرتا ہوں۔بعض اختلافی اقوال کے مطابق(جن کی سند مذکور نہیں)، قبر سلمان فارسی(رضی اللہ عنہ‘)، اصفہان(ایران)، دامغان، صدود، بیت المقدس اور لیدا(فلسطین) میں ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔(سیرت سلمان رضی اللہ عنہ‘ از فضل احمد عارف، نذیر پبلشرز، لاہور۔۱۹۹۴ء، انسائیکلوپیڈیا آف اسلام، لائڈن)۔۔۔محولہ کتاب کے مطابق، طاقِ کِسریٰ کے عین شمال مغرب میں واقع ، اس روضے کی جدید تعمیر کا اعزاز ، عثمانی خلیفہ سلطان مراد رابع نے حاصل کیا۔۔۔بہرحال انتساب درست نہ بھی ہو تو بر بِنائے نیت(نیز فاتحہ خوانی)ثواب تو حاصل ہوگیا۔کے۔اشرف نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے روضے کی خستہ حال عمارت کا محض ذکر کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ سفرنامے کے سرورق کی زینت بھی بنایا۔ انہوں نے محض ایک ہفتے میں تقریباً تمام تبرکات کی زیارت کے ساتھ ساتھ، ہر قابلِ ذکر موضوع پر خامہ آرائی بھی کی اور آئندہ مزید تلاش و جستجو کے عزم کے ساتھ، سیاحت کا ارادہ بھی ظاہر کیا جو بہت خوش آئند اَمْر ہے۔مقامِ موسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق مقامی لوگوں کی بیان کردہ روایت بِلا سند ہے اور منسوب مقبرہ بھی مصنف کو چونکاتا ہے۔ضمناً عرض کردوں کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ، میدانِ تیہ کے قریب ، وادی اَرِیحاء میں ، ایک سرخ ٹیلے(کثیبِ احمر) کے نزدیک، آرام فرما ہیں۔(قصص القرآن از مولوی محمد حفظ الرحمن صدیقی سیوہاروی، جلد اول، ناشرانِ قرآن، اردو بازار، لاہور بحوالہ فتح الباری فی شر ح البخاری)کے۔اشرف نے یہ انکشاف بھی کیا کہ تمام خبائث سے قطعِ نظر ، یہودی اپنے مذہب پر اتنی سختی سے کاربند ہیں کہ ’’یومِ سبت‘‘ کو تصویر کشی اور کسی بھی قسم کی گاڑی/سواری پر سوار ہونے سے گریز کرتے ہیں۔۔۔کاش مسلمان بھی ایک دوسرے کو کچی پکی مسلکی معلومات کی بِناء پر بِدعتی، مشرک اور کافر قرار دینے کی مذموم، شنیع حرکت سے اجتناب کرکے ہر حال ، ہر لحظہ ، قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کرتے!’’اسرائیل میں چند روز‘‘ تمام اوصافِ حمیدہ سے متصف ہونے کے باوجود، زبان و بیان کی بعض اغلاط ، املا ء نیز متن خوانی میں بوجوہ رہ جانے والے سہو سے مبرّا نہیں۔ راقم اسے کوئی بڑی خامی قرار دینے کی بجائے آئندہ ممکنہ اشاعت میں اصلاح کا متمنی ہے۔آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ سفر نامہ نگار موصوف نے بکمالِ مہربانی ، اس ہیچ مدآں کو کتاب ، براہِ راست ارسال کرکے ممنون کیا۔
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 865