donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Suhail Anjum
Title :
   Urdu Mein Tagore Shanasi

اردو میں ٹیگور شناسی
 
سات اگست کو رابندر ناتھ ٹیگور کی 72ویں برسی کے موقع کی مناسبت سے خاص مضمون
 
سہیل انجم
 
ہندوستان کے قومی ترانہ کے خالق اور عظیم شاعر، مفکر، فلسفی اور افسانہ نگار و ناول نگار رابندر ناتھ ٹیگور پر اردو سمیت متعدد زبانوں میں بہت کام ہوا ہے۔ یہ کام علمی اور عالمی دونوں سطحوں پر محیط ہے۔ جس میں بنگلہ زبان میں ان کے ناولوں، کہانیوں، نظموں، گیتوں اور ڈراموں کا ترجمہ بھی ہے اور ان کے علمی و ادبی ذخائر کے حوالے سے اوریجنل ورک بھی شامل ہے۔ اردو میں بھی ترجمہ و تبصرہ کے ساتھ ساتھ تصنیفی و تحقیقی کام کیا گیا ہے۔ بڑی تعداد میں مضامین بھی لکھے گئے ہیں اور چند ایک کتابیں بھی تالیف کی گئی ہیں۔ جن میں حامد حسن قادری، مخدوم محی الدین اور شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی کتابیں قابل ذکر ہیں۔ یہ کتابیں ایک عرصہ قبل تصنیف کی گئی ہیں اور اس دوران دوسری زبانوں میں ٹیگور پر ہونے والے تحقیقی و تنقیدی کام کا سلسلہ کافی پھیل گیا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں اردو میں کوئی اوریجنل کتاب منظر عام پر نہیں آئی۔ اسی لیے ایک ایسی کتاب کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جو رابندر ناتھ ٹیگور کی حیات، ان کے کارناموں او ران کے فکر و فن کا احاطہ کرتے ہوئے تعارفی مگر جامع انداز میں لکھی گئی ہو۔ اب ایک ایسی کتاب منظر عام پر آگئی ہے جو مذکورہ ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ یہ کتاب ملک کے معروف شاعر، نقاد اور صحافی شمیم طارق نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ تصنیف کی ہے اور اسے مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔اس کتاب کا نام ”ٹیگور شناسی“ ہے۔
 
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کو ”ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسیشن اسکیم“ کے نام سے حکومت کی وزارت ثقافت سے ایک بہت بڑا پروجکٹ حاصل ہواہے جس کے تحت ٹیگور پر دس کتابیں تصنیف کرکے شائع کرنا اور انھیں اردو داں حلقے میں مفت تقسیم کرنا ہے تاکہ اردو حلقے کے وہ احباب جو ناشناس ٹیگور ہیں یا ان سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں، ان کے بارے میں جان سکیں اور یہ بات محسوس کر سکیں کہ ہمارے ملک میں بنگلہ زبان میں ایک ایسا عظیم فنکار بھی گزرا ہے جس کے فن اور جس کی علمیت کی قدر پوری دنیا نے کی ہے اور اب بھی کر رہی ہے۔ شعبہ اردو نے اس سلسلے میں متعدد علمی شخصیات کی خدمات حاصل کی ہیں اور انھیں اردو میں کتابیں تصنیف کرنے اور بنگلہ، انگریزی اور ہندی زبانوں میں ان پر شائع ہونے والی کتابوں اور خود ان کی کتابوں میں سے چنندہ کتابوں کا ترجمہ کرنے کی ذمہ داری تفویض کی ہے۔ اس حوالے سے پہلی فیلو شپ کا قرعہ فال شمیم طارق کے نام نکلا اور انھوں نے انتہائی جاں فشانی، دقت نظر اور ذہنی و جسمانی وابستگی کے ساتھ اپنا کام کیا اور اردو میں ایک ایسی جامع کتاب بے حد کم وقت میں تصنیف کر دی جسے اہل اردو کے لیے شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ایک گراں قدر تحفہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ شمیم طارق نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قیام کرکے اپنا یہ کام مکمل کیا ہے۔ اس دوران انھوں نے خود کو اس کام کے لیے مکمل طور پر وقف کر دیا تھا۔ انھوں نے اس کتاب کو لکھنے سے قبل ٹیگور پر شائع ہونے والی درجنوں کتابوں کا مطالعہ کیا اور اس مطالعہ سے حاصل ہونے والے علم کو اپنے اندر جذب کیا اور پھر جذب کیے جانے والے علمی خزانے کی مدد سے یہ کتاب تصنیف کی ہے۔ کتاب کیا ہے ”دریا بدست کوزہ“ ہے۔
 
اس کتاب میں ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے کوآرڈینیٹر پروفیسر شہزاد انجم کے ”پیش لفظ“ اور شمیم طارق کے ”حرف مدعا“ کو چھوڑ کر کل پندرہ مضامین ہیں جو ٹیگور اور ان کے عہد، خاندان پیدائش بچپن تعلیم، اسرار فطرت میں دلچسپی اور سیر وسیاحت، شادی اور گھر گرہستی، سیرت و شخصیت، تخلیقی سفر، شانتی نکیتن اور ٹیگور بطور معلم، نوبیل پرائز، ٹیگور کی فکر اور فلسفہ، قومیت کا تصور اور قومی ترانہ، ٹیگور کے فن پر ایک نظر، ٹیگور کی شعری بصیرت، تخلیقات و تصنیفات اور حیات ٹیگور ایک نظر کے عنوان سے ہیں۔ یہ تمام مضامین ایک دوسرے سے اس قدر وابستہ و پیوستہ ہیں کہ اگر کسی ایک مضمون کو درمیان میں چھوڑ کر اگلے مضمون کا مطالعہ شروع کر دیا جائے تو یہ محسوس ہو جائے گا کہ ہم کچھ پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ شمیم طارق نے ان مضامین کے توسط سے رابندر ناتھ ٹیگور کا ایک سراپا کھینچ دیا ہے جس میں ان کی زندگی کا کوئی بھی گوشہ تشنہ نہیں ہے۔ ان کی پیدائش کے وقت کا ہندوستان ہو یا ان کا خاندانی منظرنامہ، ابتدائے طفلی میں اسکول جانے کا اشتیاق ہو یا پھر اسکولی تعلیم سے بیزاری، فطری مناظر سے بے انتہا دلچسپی کا مظاہرہ ہو یا ان مناظر میں اپنے آپ کو کھو دینا، ان کے ازدواجی حالات ہوں یا ابتدائے شاعری کے محرکات، ان کی سیرت کے مختلف پہلووں کا گہرائی کے ساتھ جائزہ ہو یا ان کے تخلیقی سفر اور اس سفر کے مختلف پڑاو ¿ں کے نقوش کا فنی محاکمہ، ان کی فکر، ان کا فلسفہ، ان کا تصور قومیت اور قومی گیت کی تخلیق یا پھر شانتی نکیتن کا قیام اور اس کو جاری رکھنے کی جد و جہد۔ گویا یہ کتاب ہمارے لیے ایک ایسا بائسکوپ ہے جس سے ہم ٹیگور کی زندگی اور ان کے کارناموں کا مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ اس کتاب میں تخلیقی سفر کے حوالے سے ان کی شاعری، موسیقی، ڈرامہ، کہانی، ناول اور مصوری کا ایسا جائزہ لیا گیا ہے جو اختصار کے باوصف اپنے آپ میں مکمل ہے۔ 
 
شمیم طارق ایک دیدہ ور نقاد اور حق شناس و صاف گو قلم کار ہیں۔ انھوں نے خود اس کا اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک ایسی زبان کے تخلیق کار کو اردو دنیا میں متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں جو زبان وہ نہیں جانتے۔ ان کے مطابق ”راقم الحروف کے لیے ٹیگور پر کوئی کتاب لکھنا آسان نہیں تھا۔ ایک مشکل یہ بھی تھی کہ کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے ٹیگور کی تخلیقات اتنی متنوع اور وسیع ہیں کہ کسی ایک کتاب میں ان پر پار نہیں پایا جا سکتا۔ اس کے باوجود یہ کتاب لکھنے کی جسارت کی گئی ہے اور طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا ہے کہ اردو او رانگریزی میں ٹیگور کی اور ٹیگور پر لکھی گئی نگارشات کو نہ صرف پڑھنے بلکہ جذب کرنے کے بعد ان کی شخصیت، عہد، فکر اور فلسفہ کو اپنے لفظوں میں بیان کیا گیا ہے“۔ ظاہر ہے یہ کام آسان نہیں تھا اور وہ بھی محض 167صفحات میں ہزاروں بلکہ لاکھوں صفحات پر پھیلی ہوئی تخلیقات کے مصنف کی جامع انداز میں صورت گری کرنا۔ اس مسودے کو کتابی شکل میں شائع کرنے سے قبل اردو کے تین ممتاز اہل قلم پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر خالد محمود اور پروفیسر شہپر رسول نے غیر جانبداری کے ساتھ تنقیدی نظر ڈالی اور انھوں نے پایا کہ یہ مسودہ ہر اعتبار سے مکمل ہے اور اسے کتابی قالب میں منظر عام پر آنا ہی چاہیے۔ 
 
کتاب میں ایسے بہت سے گوشوں کو تلاش کیا گیا ہے جو اب تک مخفی تھے۔ عام طور پر رابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ اردو کے جس شاعر کا نام لیا جاتا ہے وہ علامہ اقبال ہیں۔ ٹیگور پر گفتگو کرتے وقت یہ بات ضرور کہی جاتی ہے کہ ان میں اور علامہ اقبال کے افکار میں ”قدر مشترک“ کا رشتہ ہے۔ لیکن مصنف نے ایک مختلف نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ”فارسی او راردو (ہندوی) شاعروں میں سے اگر کسی کا ٹیگور پر اثر تلاش کیا جا سکتا ہے تو وہ امیر خسرو ہیں۔ دونوں کے عہد، زبان او رحالات الگ الگ ہیں مگر ان میں جو مماثلت ہے وہ بہت بنیادی نوعیت کی ہے۔ امیر خسرو اور ٹیگور دونوں نے انسانوں کے قلب کو جمال خداوندی کی جلوہ گاہ سمجھا ہے۔ مجازی پیکر کی اہمیت کو دونوں نے محسوس کیا ہے۔ دونوں ہی نے موسیقی کو آتش شوق کو تیز کرنے کا ذریعہ تسلیم کیا ہے“۔ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ شانتی نکیتن کی بنیاد خانقاہی نظام او رمزاج پر رکھنے کے باوجود ٹیگور کا تصور یہ ہے کہ صرف خانقاہ کی تنہائی اور اس کے تاریک گوشے میں پرستش کرنے سے خدا نہیں ملتا بلکہ اس کا وجود اس کاشتکار کی مشقت میں نظر آتا ہے جو سخت زمین پر ہل چلاتا ہے، مشقت کرتا ہے۔ اپنی ایک نظم میں ٹیگور نے اس نظریے کو اجاگر کیا ہے۔
 
یوں تو اس کتاب کے تمام مضامین معلوماتی اور دلچسپ ہیں لیکن ٹیگور کی سیرت و شخصیت سے متعلق مضمون قاری کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ در اصل ٹیگور نے زندگی کے راستے پر چلتے ہوئے دکھ اور مکروہات کے اندر حسن کی تلاش کی تھی اور دل نواز نغمے گائے تھے۔ انھوں نے ایسی دنیا کے سامنے جو روز بروز بے رحم اور وحشی بنتی جا رہی ہے مذہب انسانی کی اشاعت کی....ان کے فلسفہ زندگی کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ وحدت کے قائل تھے۔ ان کے افکار و خیالات میں کہیں بھی دوئی کا پرتو نظر نہیں آتا۔ ٹیگور کی فکر پر ان کے والد کے افکار کا گہرا سایہ نظر آتا ہے جو کہ اپنے زمانے کے مشہور عالم تھے اور سنسکرت کے علاوہ فارسی پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ مثنوی مولانا روم اور حافظ شیراز کے متصوفانہ کلام سے ان کو حد درجہ دلچسپی تھی۔ وہ حافظ شیراز کا کلام ٹیگور کو گا گا کر سناتے اور ٹیگور اسے اپنے اندرون میں اتار لیتے۔ ٹیگور حافظ کی غزلیں او ران کے ترجمے اپنے والد کی زبان سے سنتے تھے جو ان کے دل و دماغ پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام پر حافظ کا خاصا اثر ہے۔ ٹیگور جب ایران کے سفر کے دوران حافظ کے مقبرے پر حاضر ہوئے تو انھوں نے خود اس کا اعتراف کیا کہ ہم دونوں ایک ہی میکدہ کے میخوار ہیں اور ہم نے گونا گوں شراب (معرفت) سے اپنے اپنے جام بھر لیے ہیں اور ہم دونوں روز اول سے آشنا ہیں۔ گویا حافظ اور ٹیگور دونوں ایک ہی میخانے کے جرعہ نوش تھے۔
 
 بہر حال یہ کتاب بے انتہا خوبیوں سے مزین ہے۔ وہ احباب اردو جو ابھی تک ٹیگور، ان کی زندگی، ان کے فن او ران کے فلسفے سے ناواقف تھے اس کتاب کے توسط سے ان سے بھرپور انداز میں متعارف ہو جائیں گے۔ یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ اردو داں طبقہ اس کتاب کے مطالعہ کے دوران یہ بالکل محسوس نہیں کرے گا کہ وہ کسی اجنبی شخصیت کے حالات زندگی اور احوال فن کا مطالعہ کر رہا ہے۔ جس طرح ٹیگور نے خود کو اور حافظ کو ایک ہی میکدے کا جرعہ نوش قرار دیا ہے اسی طرح کتاب کا قاری ٹیگور کو اپنے ہی حلقے کا کوئی فنکار محسوس کرے گا۔ ان کی شاعری اور ان کے فکر و فلسفہ میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو متصوفانہ افکار سے عبارت ہیں۔ کیونکہ وہ بہر حال ایک صوفی تھے۔ ان کا وحدت کا فلسفہ انھیں اہل اردو سے بالکل قریب کر دیتا ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مشرقی اقدار کے حامل شاعروں اور ٹیگور کے مابین بہت سی مشترک قدریں موجود ہیں جو ان سے اپنائیت کا اظہار کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
اس کتاب کے مصنف شمیم طارق نے اس کی تصنیف میں ایسا دلچسپ او رموثر پیرایہ بیان اختیار کیا ہے کہ آپ پڑھتے جائیے کہیں بھی بوریت نہیں ہوگی۔ کہنا چاہیے کہ ”ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا“ یعنی رابندر ناتھ ٹیگور کے حیات و فلسفے کا بیان اور شمیم طارق جیسے ذی علم ادیب و نقاد کا قلم۔ گویا سونے پر سہاگہ ہو گیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کہیں بھی ان کا قلم عقیدت مندی کے جذبات سے مغلوب نہیں ہوا ہے بلکہ انھوں نے کتاب کی تصنیف میں عالمانہ انداز اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیقی و تنقیدی نقطہ نگاہ اپنایا ہے جس کی وجہ سے کتاب کی اہمیت و معنویت بڑھ گئی ہے۔ اس کتاب کی تصنیف و اشاعت پر جہاں شمیم طارق مبارکباد کے مستحق ہیں وہیں پروفیسر شہزاد انجم بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک ایسے قلمکار سے یہ کام لیا ہے کہ جو موضوع کا حق ادا کرنے اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ شہزاد انجم کا پیش لفظ بھی مطالعے سے تعلق رکھتا ہے۔ 
 
 167صفحات پر مشتمل اس کتاب کی کوئی قیمت نہیں ہے اسے مکتبہ جامعہ لمٹیڈ یا شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے مفت حاصل کیا جا سکتا ہے۔
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 850