donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Mohsin Naqvi
Title :
   Shaukat Thanvi Ki Marsia Nigari

شوکت تھانوی کی مرثیہ نگاری


سید محسن نقوی


          مرزا دبیرؔ اور میر انیسؔ  کی شاعری کی روایت سے ایک طرف تو اردو کے رثائی ادب نے معراج پائی اور دوسری طرف یہ اصول مرتب ہوا کہ مرثیہ ایک ایسی صنف شعر ہے کہ جس کے لئے بڑی مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ غالبؔ کا جیسا منجھا ہوا شاعر بھی  معذرت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

               بیسویں صدی کی دوسری نصف  میں یہ روایت بدلنا شروع ہوئی ۔ اس بدلتی ہوئی روایت کے دو پہلو سامنے آئے۔ ایک تو یہ کہ مرثیہ صرف رونے رُلانے سے مخصوص نہ رہ گیا، جوشؔ ملیح آبادی نے اپنی انقلابی شاعری کو  مرثیہ کے رنگ میں ڈبو کر مسدس کا بالکل نیا رنگ پیش کیا۔ دوسری طرف یہ نظر آیا کہ اردو کے عام شعرا  جو غزل اور نظم کے شعرا  ہوئے انہوں نے اپنے غزلیہ اور  نظم کے کلام میں بھی کربلا کے متعلق اشعار نظم کئے۔ اسکی مثالیں ہم کو پروین شاکر اور مصطفے زیدی کی شاعری میں ملتی ہیں۔ ایک تیسرا پہلو جو ہم کو اردو کی نئی شاعری میں نظر آیا وہ یہ ہے کہ  وہ اہل قلم جن کا میدان عمل بالکل ہی کچھ اور تھا انہوں نے بھی دو، چار، دس، بارہ  اشعار کربلا پر ضرور کہے۔ ان میں دو نام بہت اہم ہیں، ایک تو ابن صفی، جن کو ہم جاسوسی ادب کے حوالہ سے جانتے ہیں اور دوسرے شوکت تھانوی جن کی شہرت مزاح نگاری کے حوالہ سے ہے۔

           اردو کے مشہور مزاح نگار شوکت تھانوی کا نام کون نہیں جانتا۔ قیام پاکستان کے بعد لکھنؤ سے کراچی آگئے۔ مزاح نگاری جاری رہی۔ ریڈیو پاکستان اور اخبار جنگ سے منسلک رہے۔
           کراچی میں ڈاکٹر یاور عباس مرحوم نے مرثیہ خوانی کی مجلسیں قائم کیں جو بہت کامیاب رہیں۔ اسی ایک محفل میں شوکت تھانوی نے اپنا نو تصنیف مرثیہ بھی پڑھا۔  اس مرثیہ میں شوکت نے ایک طرف تو نانا سے نواسے کی محبت کی تصویر کشی کی ہے اور دوسری طرف امام حسین کے انقلابی خیالات کی عکاسی کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
 

کہتے تھے خود رسول کہ بیٹھا ہوں قبلہ رو
مجھ سا میرے حسین کو پاؤگے ہو بہو
عادات میں کہیں سے نہیں فرق مو بمو
دیکھو مرے حسین میں مری ہر ایک خو
   میں خود کو دیکھتا ہوں تو ہوں سر بسر حسین
آئینہ درمیان ہے ادھر میں اُدھرحسین
بچپن کی جیسے میری ہی تصویر ہیں حسین
یہ واقعہ ہے میری ہی تنویر ہیں حسین
میرے ہر اک خواب کی تعبیر ہیں حسین
قرآن میرے لب پہ ہے تفسیر ہیں حسین
  پیغامبر ہوں میں میرا پیغام ہیں حسین
انسان کی شکل میں مرا  اسلام ہیں حسین
 
وہ سوچتے تھے آج جو ہوتے یہاں رسول
کیا ان مطالبات کو کر لیتے وہ قبول   ؟
واقف ہے خود یزید ہمارا ہے کیا اصول
پھر بحث اس نےچھیڑی ہےہم سے یہ کیا فضول
کیا واقعی نہیں ہیں ٹھکانے اب اسکے ہوش
  سمجھا اُس نے ہم کو بھی شائد خدا فروش
میں بیچ دوں رسول کی غیرت، نہیں نہیں
قرآن کی اور ختم ہو عظمت،   نہیں  نہیں
ہو داغدار کعبہ کی حرمت،      نہیں نہیں
میں اور کروں یزید سے بیعت، نہیں نہیں
  سُن لے بگوش ِ ہوش کہ انکار ہے مجھے
 اور ایک بار بھی نہیں، سو بار ہے مجھے
 

 -------------------------------

نوٹ: شوکت تھانوی کے خاندان کا آبائی وطن ڈسٹرکٹ مظفرنگر  کاایک گاؤں بنام تھانا بھون تھا، لیکن انکے والد منشی صدیق حسن نے ابتدائی زمانہ ہی میں لکھنؤ میں آکر اپنا گھر بسا لیا تھا۔ اسی اعتبار سے شوکت تھانوی نے اپنے نام کے ساتھ تھانوی کا لاحقہ لگا  لیاتھا۔ انکا اصل نام محمد شوکت عمر تھا۔ وہ متُھرا بِرندابن میں ۲؍ فروری ۱۹۰۴ کو پیدا ہوئے تھے۔ شوکت تھانوی کو کبھی کوئی تعلیم اسکول یا کالج کی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ انکی شعرو ادب کی ساری لیاقت لکھنؤ کے قیام اور وہاں کے ماحول کی مرہونِ منت تھی۔ انہوں نے فلموں سے لیکر اخبارات اور ریڈیو میں کا م کیا اور اپنی مزاح نگاری کے جوہر دکھائے تھے۔ وہ کاروباری سلسلہ سے لکھنؤ سے لیکر دلی اور بمبئی تک گئے اور اسکے بعد لاہور، کراچی اور راولپنڈی میں مصروفِ کار رہے تھے۔ انہوں نے ساٹھ سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں مزاحیہ افسانے، ناول اور خاکے شامل ہیں انکا ایک شعری مجموعہ بھی شایع ہوا ہے۔ انکا انتقال ۶؍ مئی ۱۹۶۳ کو ہوا اور وہ لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب میں دفن کئے گئے۔ ڈاکٹر سعید مرتضیٰ زیدی نے اپنی پی۔ ایچ۔ڈی کی تھی سِس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ مشہور فحش نگار وہی وہانوی اصل میں شوکت تھانوی ہی تھے اور اس نام سے لکھے جانے والے ناول شوکت تھانوی اور نسیم انہونوی مل کر لکھا کرتے تھے۔ پا کستان بن جانے کے بعد مختلف بے ایمان پبلشرز نے اس نام   سے  نئی نئی کتابیں چھاپ کر بڑا مالی فائدہ اٹھایا۔

 
*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 628