donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Baqaul Darwan : Bandaron Mein Koi Meer Bhi Tha

بقول ڈارون، بندروں  میں  کو ئی میر  بھی تھا


زبیر  حسن  شیخ 

 

اردو ادب کسی بھی دور میں دین سے  مبرا    ہو کر ترقی نہیں کر سکا-   یہ سوال بارہا اٹھایا گیا کہ کیا دین کو ادب سے خارج کردینا چاہیے؟ یا کیوں دین کو ادب میں شامل رکھا جائے؟ ... خیر اس کا آسان جواب تو یہی ہے کہ اپنی  ہیت اور فطری تقاضوں اور اصولوں کے مد نظر ادب اسی ایک درخت کی شاخ ہے جس کا نام دین ہے .... سوال یہ  بھی  تو  پیدا ہوتا ہے کہ دین کو ادب میں کس نے شا مل کیا؟...عموما  علمایے  دین  نے  ادبی تخلیقات    سے احتراز فرمایا ہے  اور دینی  افسانے    یا  ناولز تخلیق  نہیں  کیے  ،    نہ ہی اسکی  ضرورت پیش آئی  ا ور  نہ کبھی آئیگی،  کیونکہ د  ین  تو یہی کہتا  ہے کہ ،   اہل خیال جو یہ فسانے سناتے ہیں....وہ سب ہمارے ان سے گفت و شنیدہ ہیں-    شعر و سخن سے افکار و تحریر و بیان کو اکثر علما نے  مزین ضرور کیا ہے،    جو فی الحقیقت ادب کی شاخ کو ہر بھرا رکھنے کا  ایک اور   ذریعہ بنا-  اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ادبا و شعرا نے ہی دین کو ادب میں شامل کیا ،      اسکے بغیر ادب مکمل بھی کہاں  ہوپاتا...... کوئی ایسی تحریر، کوئی ایسا کلام یا بیان جس میں دینی اصول و احکام کا ذکر بصورت انکار و اقرار نہ ہو یا    مطابقت یا مخالفت  نہ رکھتا  ہو،   تخلیق نہیں کیا جا سکا..... ہاں کچھ ادبا  ایسے ضرور ہوئے جو سائینس  اور فلسفہ کا سہارا لے کر دین کا انکار کر بیٹھے اور سائینس یا فلسفہ کو تہذیبی ارتقائی منازل کی ابتدا قیاس کر بیٹھے–  لیکن یہ بھول بیٹھے کہ  افکارت   جو تہذیبی ارتقا کے لئے لازمی ہیں، اگر  انسان  کے ظہور میں آنے سے پہلے بھی  موجود تھے تو لا محالہ بندروں میں  بھی موجود ہونگے،  ورنہ تہذیبی  ارتقا   کی  ابتدا    ہی     کہا ں  ہو پاتی  -   اور جب بندروں میں افکا رات ہونگے تو   لازما  ادب بھی موجود ہوگا، اور جہاں ادب ہوگا وہاں کوئی میر بھی ہوگا -   تو کیا    جناب  ڈارون   کے نقطہ نظر کے تحت   یہ کہا جا  ئیگا  کہ ؟..... ریختے   کے  تمہیں  استاد نہیں ہو  بھیا    ...بقول ڈارون، بندروں  میں  کو ئی میر  بھی تھا! .( معتقد  میر حضرات بد گمان نہ ہوں ،  راقم کا منشا  ڈارون کی تھیوری  سے ہے)  ..نیز  یہ بھی کہ  ایسے ادب کی بندر بانٹ میں کوئی بندر ڈارون بھی رہا ہوگا ؟    جس نے بندروں کے ادب پر تحقیق کی ہوگی،  اور یہ ثابت کیا ہوگا کہ ادب انسانی عقل سلیم کی دین نہیں بلکہ بندروں کی دین ہے...اب بندر  شر  و خیر  میں کسقدر   تمیز  کر سکتا ہے  ، کسقدر  روحانیت  اور مادیت میں فرق کر سکتا ہے اور  انسانیت  کے لئے کتنا بہتر سوچ سکتا ہے   یہ   تو  ڈارون اور کارل مارکس کے مقلدوں کے افکار و اعمال    سے ہی ظاہر ہے. -

فی الحقیقت کسی مورخ نے آج تک یہ دعوی نہیں کیا کہ تاریخ کی ابتدا سے پہلے دین کے علاوہ بھی کوئی موضوع تھا -  ہاں انسانی معاشرے، رہن سہن، تہذیب و تمدن کے موضوعات جو تاریخ و فلسفہ نے اخذ کیے ہیں وہ تو دین و مذہب کے ہی پیش کردہ ہیں اور اسی سے تاریخ اور فلسفہ وجود میں بھی آئے ہیں- تاریخ کے علم سے پہلے علم دین موجود تھا اور یہ بات خود تاریخ سے ثابت ہے....اسی طرح کوئی سائینس داں ایسا نہیں ہوا جسکے افکارات دین و مذہب کی یا تو موافقت، مطابقت   یا  پھر مخالفت سے وجود میں نہ آئے ہوں... الغرض  ادب، تاریخ فلسفہ اور سائینس کا وجود دین و مذہب کی  بنیاد پر  تشکیل پاتا رہا ہے-  یعنی اس بات کو آسانی سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ سب سے قدیم علم دین و مذہب کا ہے اور باقی سب علوم اسی شجر کی شاخیں ہیں... بلکل اسی طرح منطقی دلائل سے یہ بھی  ثابت کیا جا سکتا ہے کہ دین میں اول اول افکار، اصول وحدانیت پر ہی قائم رہے اور رفتہ رفتہ انکار و شرک و کثرت الوجود  اور وسیع المشربی کے افکارات ظہور پذیر ہوئے- اگر کسی چیز کا وجود ہی نہیں ہوگا اور ابتدا   اکا ئی میں نہیں ہوگی تو انکار  اور کثرت کیا معنی!   سائینسی ارتقائی اصول کےتحت بھی دنیا میں ہر ایک شہ کی ابتدا  اکائی سے ثابت ہے ... منطقی طور پر بھی کسی اشیا کا وجود دوئی اور کثرت کی ابتدا سے غیر ممکن ہے بلکہ  اکا ئی سے ہی ممکن ہے- (راقم کا  ایک  پرانا  مضمون  بزم قلم   میں  شائع ہو چکا ہے   جس میں  سائینس سے ثابت شدہ   اکا ئی  کے  ذرہ نایاب  پر   بحث کی گی ہے،    اور جس کا عنوان   ہے "یقیں  محکم ، عمل پیہم  ہوا شیوا فرنگی کا.") –


البتہ  "عدم سے وجود " میں آنے کے متعلق   سائینسی علوم   کچھ بھی کہنے سے قاصر رہے ہیں- کیوں نہ ہو اس نکتہ پر پہنچ کر سائینسی علوم کے پاس دلیلیں ختم ہو جاتی ہیں، الله ری  بے بسی ! ... ہاں فلسفہ و ادب اس نکتہ سے آگے جاتے ہیں اور پھر دین میں ضم ہونے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا........ اسی نکتۂ بے بسی سے ادب میں دین بیزاری کا آغاز ہوتا ہے.. ادب اور ادبا میں دین بیزاری کی ابتدا اعمال بد پر عائد کردہ پابندی سے ہوتی ہے ، اور جسے  اہل مغرب کی تقلید میں  افکار کی آزادی پر قد غن لگانے پر محمول کیا  گیا-   اولا، جو حضرات دین بیزا ر ہوتے رہے انہیں ایک درمیانی راستے کی ازحد ضرورت محسوس ہوئی،  جو تہذیب جدیدہ نے وسیع المشربی کی شکل میں مہیا کردی- لیکن ادیب و شاعر چاہ کر بھی دین سے الگ نہیں رہ سکے اور کہیں نہ کہیں جانے انجانے پابند شریعت رہتے ہی ہیں-   پھر ہم کیوں نہ کہیں کہ،   جب ادبا ہی پابند شریعت ہوگئے.....اب ادب کو بھی پابند ہونا چاہیے-
 
اس بات سے بھی کسی  کو انکار نہیں ہوگا کہ اردو ادب کے اکثر نامور ادبا و شعرا کا  تعلیمی  اور تربیتی پس منظر دینی رہا ہے، پھر چاہے وہ مختلف وجوہات کی بنا پر با غی ہو کر ادبی مکاتب فکر کے ذریعہ اپنے دور عروج کو جا پہنچے ہوں -  یا پھر عروج کو پہنچنے کے بعد باغی ہوئے ہوں- میر و غالب ہوں یا متاخرین و متقدمین..... کوئی بھی دین سے فرار حاصل نہ کرسکا...کچھ تو انتہائی کوششوں کے بعد بھی فرار حاصل  نہ کر سکے.... آج بھی اردو ادب میں کو ئی ایسا ادیب و شاعر نہیں ہے جو ادب سے دین کو خارج کرسکا ہو...کسی نہ کسی حیلے بہانے سے دین کے موضوعات کو لے کر ہی وہ ادبی ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا رہتا ہے- کبھی صنائع و بدائع کا سہارا لے کر تو کبھی کہاوتوں اور محاروں کا،  کبھی تمثیلات کی بیساکھی اٹھائے تو کبھی تشبیہات و استعارات کے لین دین کے تحت.... کبھی ناصح کو لے کر تو کبھی کٹھ ملا کو لے کر،  کبھی شکوہ سنج ہو کر تو کبھی رجائیت اور غنائیت کو لے کر.... کبھی تشکیک کا شکار ہو کر تو کبھی منتہائے کمال کے سامنے مجبورو بے بس ہوکر... کبھی خود ناصح بن کر تو کبھی نصیحت خواہ بن کر  ........ اور کچھ نہ ہو سکا تو اپنی اور اوروں کی قسمت کو رو دھو کرکہ... جو کھویا ہے یہاں ہم نے ستم ظریفی ہے قسمت کی......... جو پایا ہے یہاں ہم نے وہ اپنی جاں فشانی ہے- الغرض اردو ادب کی تاریخ شاہد ہے کہ  دین کو مکمل طور سے نظر انداز کر نہ ادب کو اور نہ ہی کسی ادیب کو عروج حاصل ہوا....اور نہ کبھی ہوگا..... تجدد کے لاکھ اصول بنا لئے گئے ہوں لیکن وہ سب کے سب کہیں نہ کہیں دین کی مخالفت یا موافقت سے ہی وجود میں آئے ہیں... ادب نے آج تک ایسا کوئی بھی ایک مو ضوع، کو ئی بھی ایک خیال یا تصور، یا کلیہ تشکیل نہیں کیا کہ دعوی کرسکے اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں-  یہ دعوی تو سائینس بھی نہیں کرسکتی اور نہ ہی دنیا کا کوئی علم، یا فلسفہ یا منطق....ملاحظہ کیجیے کسقدر فراریت، وابستگی اور انکار و اقرار کی کیفیتوں سے اردو  ادب کے پہلوو ں کو گرما یا گیا ہے... 


نا خدائے سخن میر سے شروع  کریں تو بے بسی کا عالم دیکھیے، حسن خیال و معنی بھی اور ادب و سخن کو دینی افکار سے مزین کرنے کا والہانہ پن بھی.....الہی! کہاں منہ چھپایا ہے تو نے؟  ہمیں کھو دیا ہے، تری جستجو نے-   ناسخ کی سخنوری  ملاحظہ کیجیے  کہ   فرماتے ہیں.....  منہ ان کا نہیں ہے، شکر ورنہ....ہر بت کہتا کہ میں خدا ہوں-    پھر دین سے کیسے فرار ہونے کی کوشش  کرتے ہیں کہ.... میکدے تک محتسب کو میکشو آنے تو دو......دیکھ کر پیمانے کو پیماں شکن ہو جائیگا-   کچھ یہی  طرز فکر مو من کی بھی تھی کہ ..... کیوں سنے عرض مضطر، اے مومن.....صنم آخر خدا نہیں ہوتا-   لیکن مومن کسی قدر اسم با مسمی واقع ہوئے تھے،   فرماتے ہیں ...... نہ مانوں گا نصیحت، پر نہ میں سنتا تو کیا کرتا.......کہ ہر ہر بات میں ناصح تمہارا نام لیتا تھا-   شہنشاہ  غزل مرزا   غالب بھی کہاں دین سے فرار حاصل کرسکے، فرماتے ہیں..... ہم موحد ہیں، ہمارا کیش ہے ترک رسوم...... ملتیں جب مٹ گئیں، اجزائے ایماں ہو گئیں-   اور یہ بھی کہ..... نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا......ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا؟-     برج نرائن چکبست بھی خدا اور آخرت کے اقرار سے کہاں چھوٹ پائے، اور نہ ہی رحمت خدا وندی سے مایوس ہوئے، فرمایا .......لکھا یہ داور محشر نے میری فرد عصیاں پر.....یہ وہ بندہ ہے جس پر ناز کرتا ہے کرم میرا-  اس درمیان حالی، شبلی، حسرت اور اقبال کے افکارات اور کمالات سخن کا کیا ذکر کریں، ان ہستیوں کا شمار تو ویسے بھی علما اور ادبا دونوں میں ہوتا آیا ہے-   غالب شکن اورایک حد تک  دین بیزار یگانہ کا کیا حال تھا جو وہ فرماتے ہیں....خدا ہی جانے یگانہ میں کون ہوں؟ کیا ہوں؟...خود اپنی ذات پہ شک دل میں آیے ہیں کیا کیا...
تشکیک و لادینیت کے دعویدار، فراق وجوش، ساحر و مجروح اور فیض و فراز بھی خدا کے خیال اور اسکے وجود   سے لاکھ کوششوں کے باوجود بھی فرار حاصل نہیں کرسکے .... فراق نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ...توڑا ہے لا مکاں کی حدوں کو بھی عشق نے....زندان عقل تیری تو کیا کائنات ہے..... پھر وحدت الوجود کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ .....وحدت و کثرت اسی کے جلوے ہیں آنکھیں تو کھول....زندگی خلوت کی خلوت، انجمن کی انجمن-   فیض بھی کہاں خدا کے خیال سے بچ پائے گر چہ لاکھ کوشش کر چکے،  فرماتے ہیں....خدا وہ وقت نہ لائے کہ سو گوار ہو تو-   اور رہے فراز تو کیا کچھ نہیں سوچا اور کہا، لیکن مجبوری حالا ت میں خدا کو پکارنے سے نہیں چوکے کہ،  اے خدا جو مجھے پند شکیبا ئی دے ..اس کی آنکھوں کو میرے زخم کی گہرا ئی دے –
 
تمام ادبا و شعرا ، نازک اور لطیف احساسات کے حامل،  انسانیت نواز اور انسانی دکھ درد کو اپنے افکار و قلم سے دوام بخشنے والے  یہ تمام با کمال حضرات خالق حقیقی اور دین حق سے اپنے آپ کو مکمل طور پر الگ نہ کرسکے- دین کو ادب میں شامل کئے بغیر نہ رہ سکے- ان سب کا تعلیمی اور تربیتی پس منظر دینی تھا- کچھ اسی طرح سے نثری ادب بھی دینی افکارات کے بغیر نا مکمل رہتا..اب  دین کو  ادب سے کیسے خارج کیا جائے،   اور یہ  کب   ممکن ہے !  اس میں کو ئی  شک نہیں کہ ادب کو اس کی فطری   وسعتوں  کے  ساتھ قائم  رکھا جانا چاہیے لیکن  ادب کے لوازمات سے سمجھوتہ    کیے بغیر ،  اور جس میں سب سے اہم  اخلاص   اور ایمانداری    ہیں -    جب  ادب میں  دین  باقی رہے   گا تو  دیگر سارے   علوم کا احاطہ  خود  بہ خود ہو تا  رہے  گا ...اور  ادب  منفی اثرات  سے پاک بھی  رہے گا –  ادب میں توازن  بھی قائم رہے گا -   دین کو ادب سے خارج  کرنا  ایسا  ہی ہوگا جیسے  جسم   سے   روح کو  با ہر کرنا ....

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 493