donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Gardishe Ayyam Me Fikro Adab Ki Garmiyan wa Shokhiyan


گردش ایام میں فکر و ادب  کی  گرمیاں  و  شوخیاں

 

زبیر حسن شیخ

 

اہل حق یہی کہتے آئے  ہیں کہ... دیکھ ! اے گردش ایام ہم حقیقت ہیں ...تری مجال کیا کہ   تو ہمیں بیگانہ کردے .... گرمیاں اور شوخیاں  فطرت و ادب کا خاصہ رہی ہیں...اور جب تک فطرت اور ادب  کا ظہور ہوتا رہے گا   یہ گرمیاں اور شوخیاں باقی رہینگی....فطرت اور ادب کا ساتھ ازلی ہے....  اور فطرت سے اعلی و ارفع ادب کوئی تخلیق نہ کرسکا  کہ  جہاں ادب اپنے منتہائے کمال پر ہونے  سے  خود نازاں رہتا ہے......جہاں افکار و خیال کو نور میں ڈھالنے کے نسخے بتائے گئے ہیں.... جہاں سمندر کو کوزے میں اتارنے کا فن سکھایا گیا ہے اور قطرہ کو صدف میں سمو کر موتی بنانے کا ہنر بھی.....جہاں بلند نگہی اور قلندری کے آداب بھی بتائے گئے ہیں اور شہریاری کے رموز و نقاط بھی...جہاں دنیا کو مقام جستجوئے حق اور توکل و قناعت کی منزل  قرار دیا گیا ہے... جہاں انسان  کو  سوچنے اور ماننے  پر مجبور کردیا جاتا ہے کہ  وہ  اگر  خود آیا نہیں  ہے اور  لایا گیا ہے،   تو  کیوں لایا گیا ہے ؟...اور  بغیر  بلائے  اب جا بھی نہیں سکتا،  تو جب بلایا جائے  گا تو کیا ہوگا؟... پھر  انکے جوابات  بھی  دئے جاتے  ہیں...جہاں احسانات کی قدر کرنا سکھایا جاتا ہے  ...جہاں انسانی رشتوں کے علاوہ دیگر تمام مخلوقات کے روابط و ضوابط بتا ئے      گئے ہیں..... جہاں نظام  حیات  کے   بنیادی اصول و  قواعد بھی  متعارف  کرائے گئے ہیں  اور فرد و جمع ، تخصیص و تعمیم،  نصوص و مباحات  ،  رخصت و تحریم ،   اضطرار و  ترجیحات  کے  قواعد بھی.... جہاں علوم و فنون  کو لا محدود  کر  انہیں شر و خیر  میں تقسیم کردیا گیا  ہے اور انکی بنیاد اخلاقیات اور ایمانیات  پر قائم کی گئی ہیں ....  جہاں احکامات کو ماننے نا ماننے کے اختیارات  دئے گئے    ہیں ونہیں  پند و نصائح اور تلقین و تبلیغ کے بھی، بلکہ کارخانہ حیات کے لئے   انکو  واجب قررار دیا  گیا ہے .. جہاں  محبت ہو یا  جنگ، عشق  حقیقی  ہو یا مجازی، دوستی ہو یا دشمنی   سب کے قرائین رقم کر دئے گئے ہیں.... جہاں عدل و انصاف کو  نظام   حیات  کے علاوہ  عشق کی گرمیوں اور حسن کی شوخیوں کے لئے بھی ضروری بتایا گیا ہے.....جہاں آتش نمرود میں بے خطر کود جانے کو عشق حقیقی مانا گیا... جہاں متاع حیات کی قربانی کو رب کی دوستی سے موسوم کیا گیا،   اور فرزند کے گلو پر خنجر رکھ کر دوستی میں رکھ رکھاؤ کے آداب سکھائے گئے.....جہاں حسن کو بہ مثل  لولوالمقنون اورعروبا اترابا لازوال کردیا گیا....جہاں زلیخا کا عشقِ مجازی حسنِ  یوسف کے سامنے مجبور نظر آتا ہے، اور یوسف کا عشق حقیقی حصار خیال یار میں تحفظ پاتا ہے... جہاں عشق  جب  دیدار   کا تقاضا کرتا ہے تو تجلی سے سرشار کر دیا جاتا ہے....جہاں محبوب کی دلجوئی کی خاطر مکاں و لا مکاں کے فاصلے ختم کر دئے جاتے ہیں اور  پھر وصال یار کے رموز  متشابہات میں پنہاں کردئے جاتے ہیں،  اور عشق  کو معراج  عطا کردی  جاتی ہے  ....الغرض ادب کی ابتدا اور انتہا سب کچھ فطرت سے ہے اور قرآن اس کا مظہرہے.... نبئ  مرسل  مجسم قرآن ہے  اور  اولین قارئین و سامعین کرام عینی و قلبی شاہد.... جو عشق حقیقی کی مثال قائم کر گئے.... یہی وہ ادب ہے جو لازوال ہے..... اب وہ اہل  منتہائےادب نہ رہے اور نہ ہی پھر ان سا کوئی ہوا.... ہاں کچھ ایسے باکمال ضرور گزرے جن میں انکا پرتو نظر آیا اور جنہوں نے اس بحر بیکراں میں غواصی  کی اور عشق حقیقی کو گرمایا،  اور اس بحر بیکراں سے اٹھتی موجوں کے حسن میں پوشیدہ شوخیوں کو اجاگر کر دکھایا.... اور اس طرح عشق میں وہ گرمیاں اور حسن میں وہ شوخیاں باقی رہ گئیں جو انسانی تہذیب و تاریخ میں ثبت ہوئیں......یہ تو عشق حقیقی کی داستانیں ہوئیں.... جوہمیشہ سے حسن و عشق کی بھول بھلیوں سے دور صراط مستقیم پر قائم و دائم رہیں......لیکن عشق مجازی جسکے بے شمار رخ ہیں اور جن میں اکثر و بیشتر اب مسخ ہورہے ہیں.... جو اکثر صراط منحنی پر لے جانے کا با عث بنتے رہے ہیں.... عشق کے نام پر دنیا  کی  ہوس ، دولت و شہرت کی اور پھر حسن کی  ....جس میں کیا خاص و عام  اور کیا جاہل و فاضل،  اکثر کو لٹتے دیکھا گیا ..... اورآئے دن یہ خبر آتی رہتی ہے کہ.... عجب ایک شور سا اٹھّا ہے کہیں ...پھر کوئی شخص لٹ گیا ہے کہیں ..اور اکثرسنا گیا کہ ...حسن پہ ہر کوئی مرتا ہے یہاں.....عشق میں کب کوئی مرا ہے کہیں.....الغرض انسان عارضی بلکہ لمحاتی خوشیوں کا مارا ہوا جا  رہا ہے ....کیا کیا جائے کہ عشق کے جراثیم موروثی ہیں، اور قدرت کے ودیعت کردہ ہیں، اور جو منفی اور مثبت دونوں صورت میں  پائے جاتے ہیں... یہ تو انسان پر منحصر ہے کہ وہ کسے پروان چڑھاتا ہے اور کس کو کس پر حاوی کرتا ہے .... بس اسی سے اسکے اندر عشق حقیقی اور مجازی میں جنگ جاری رہتی ہے.... کبھی ادب کا، کبھی خرد کا اور کبھی جنوں کا،   اور کبھی رسم و رواج کا سہارا لے کر عشق مجازی کو حقیقی بتایا جاتا ہے، یا عشق مجازی کو عشق حقیقی کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے ...اور انسان یہی سمجھتا ہے کہ .... "نشّہ عشق میں ہر چیز اڑی جاتی ہے ......کون ذرہ ہے کہ سر شار محبت میں نہیں"....

اہل  حق اپنے  افکارات اور تحریر میں  آج بھی بولتے ہیں کہ .....نہ وہ عشق میں رہیں  گرمیاں   نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں ....اہل  فکر   کی  پیشانیاں  اور اہل نظر  کی  آنکھیں آج بھی   پوچھتی ہیں کہ  یہ سب  کیا ہورہا ہے... منعم کے پاس   رب کے سوا     سب کچھ ہے،   مفلس کے پاس  رب کے سوا کچھ بھی نہیں .....روزگار کے مسائل روز روز کے مسائل بن گئے... کہیں دہقاں کو روٹی تو کہیں روٹی کو دہقاں میسر نہیں.... خوشۂ گندم کو جلانے کی اب  ضرورت  بھی نہ رہی کہ وہ سرکاری گوداموں میں لا پرواہی کی آگ میں جل رہا ہے....اہل دانش خموش ہیں  کہ کسان کی خود کشی جرم ہے تو پھر  سزا کیا ہے....زندگی خود کشی کا قرض ہے یا خودکشی زندگی کا....  سمجھ میں  کچھ نہیں آتا.... آئینہ کرچی کرچی ہورہا ہے کہ شکستہ ہوتا تونگاہ آئینہ ساز میں عزیز  بھی رہتا.... جو شیشہ گر تھے وہ بھی اب نہیں رہے....اور اب آئینوں کو ٹوٹنے کی عادت سی ہو گئی ہے....موسم  خزاں میں تو خزائیں آتی  ہی ہیں  اب  موسم   بہارمیں بھی آتی ہیں ...عوام کا ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا،  پھر بھی مدعا ادا نہیں ہوتا......دولت میں  جمہوریت کی اور  جمہوریت میں دولت  کی گنتی  جار ی  ہے.....جمہوریت معیشت کے ہتھے چڑھ گئی ہے  اورمعیشت سیاست غلیظہ  کے.... جنگ سے امن کو ممکن بنایا جارہا ہے اور امن و امان  سے جنگ کو.. ایجاد ضرورت کی ماں ہوئی  اور  ضرورت دولت   کی...صارفیت سے روزگار اور روزگار سے صارفیت کا  سلسلہ  نسب قائم    ہورہا  ہے ...غربت بہ حالت مجبوری چیتھڑے زیب تن کرتی ہے تو امارت بہ حالت بدمستی و خرمستی ....عورت کے لفظی معنی بدل دئے گئے اور اسکی کنہ  ہی انسان کو یاد نہ رہی ....اور  "عورات النسا"  کو عریاں کردیا گیا.....

 
فرنگی   ذہن کی عجب اختراع ہے ......ہیں عریاں  اور دامن بچانے  چلے ہیں

عورت کے لفظی معنی بدل کر .......چھپانا ہے  جو وہ    دکھانے چلے ہیں

تکالیف سارے جہاں کی  اٹھا کر  ....عورت کے سر یہ منڈانے چلے ہیں

ذرا بوجھ کا تم تناسب نکالو!! ...جمع کو ضرب سے بٹانے چلے ہیں

دیا کیا ہے تم  نے عورت کو اب تک ....مہ خانے   چلے  کار   خانے چلے ہیں

 

الغرض  اب  آفتیں بھی  ناگہاں نہیں آتیں  بلکہ ماہرین انکی آمد کی خبر دے دیتے ہیں... اور انسان اپنی  بربادی کا منتظر رہتا ہے.....خوشی سے کوئی خوش نظر نہیں آتا.... محبت میں بد گمانی اور بد گمانی میں محبت کی جا رہی ہے ... دل لگی میں عشق اور عشق میں دل لگی ہورہی ہے ...عشق آج بھی ام الکتاب   ہےاور   علم آج بھی  ابن الکتاب  لیکن کیا کیجیے گا  کہ  دولت   اب   دختر  تیز طرار بن کر  بنت علم و فن   ثابت   ہورہی ہے .... اب دولت  اور    علم ایکدوسرے کے لئے  لازم و ملزوم ہوئے.... قانون  اندھا بنا  دیا گیا  ہے،    مظلوم انصاف سے محروم   ہیں  اور رکھوالے معذور و اپاہج  ..... قانونی موشگافیوں  سے  شریف کو مشکوک،  معصوم کو  خطا کار ،مظلوم  کو مجرم بنایا جارہا ہے اور  مجرم  با عزت  بری ہے... ظلم عدل کا باپ بن گیا ہے اور بقول شاعر بچے جن رہا ہے....پیشہ ور شوریدہ سر ہوا چاہتے ہیں اور شوریدہ سر پیشہ ور......جس کی گائے بھینس ہے   اب اسی کی  لاٹھی ہے ...انسان سماجی جانور  ہوا کرتا تھا  مگر    اب  سیاسی  ہورہا  ہے اور  اکثر سیاستدانوں   کو دیکھ   کر اس کا یقیں  پختہ ہوا جاتا ہے .....جمہوریت  اپنے  تین   کھوئے ہوئے   ستون تلاش کر رہی  ہے جبکہ   چوتھا  ستون دیمک زدہ  ہے  اور وہ   اس پر  ٹیک لگائے رورہی  ہے،  ابھی گری اور  تبھی .. صحافت مجبور کر دی گئی   ہےاور اکثر کی بلاغت کو اشتہارات نگل گئے..... اب تو عشق سے  کھیل کیا  جا رہا ہے  اور کھیل سے عشق ...عشق  ناتواں   اور حْسن پہلوان ہوا   جاتا  ہے..... لوٹ مار سے عزت اور  عزت سے لوٹ مار    کی جارہی  ہے.....   اب  رشتوں کا احترام باقی  رہا  نہ احترام کا رشتہ... تہذیب کے رشتوں  سے  رشتوں کی تہذیب   جا تی  رہی....اب وصل کی شب ہی رشتوں کا وصال ہوا جاتا ہے..... اب 'من تو شدی،  تو من شدی' کے قصے  عارضی ہوتے ہیں ...چند دنوں کے بعد ہی "من دیگری تو دیگری" کا لمحہ آجاتا    ہے....بلکہ کبھی  کبھی  تو چند گھنٹوں کے بعد ہی ....یہ  جدید طرز     ازدواج   تہذیبی   زوال  کی منہ بولتی تصویر  ہے .. اور اس سے بھی ایک قدم آگے جا کر  اس طرز  ازدواج  میں  ہم جنس پرستی  کو شامل کر   ایک ہی جست  میں اخلاقی  زوال  کے سارے مراحل  طے کر لئے گئے ہیں ...شادی بیاہ، نکاح،  گھر بار، خاندان ،   طلاق ، اخراجات ، انحصار ، رفاقت   سب سے انسان  جان  چھڑانا چاہتا ہے ...سائینس کی مانے تو پتھروں  کے دور میں ایسے رشتے  عام ہوا کرتے تھے ....اب  انسانوں  کا دور ہے   اور  پتھروں  کی بستی ہے ....یہ  مادی  دورعجیب  بھی ہے  اور غریب  بھی ...تجارت میں فایدہ نہیں ہورہا  لیکن فائدے میں تجارت ہے.... قرض کی زندگی میں زندگی کا قرض اتارنا مشکل ہواجارہا ہے.....کہیں بندگی میں عیش  ہے اور کہیں  عیش میں ہے  بندگی.... نہ عشق حقیقی رہا نہ ہی مجازی......بس کچھ گرمیاں اور کچھ شوخیاں بصورت  فطرت و ادب باقی ہیں، اور  جو  ثقہ  اہل علم و نظر   اور  خبر و  نشر    کا  سہارا ہیں ....

 


^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 798