donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Har Aik Sahebe Manzil Ko Ba Mardana Jaan


ہر ایک صاحب منزل کو با مراد نہ جان


 

 

زبیر حسن شیخ


انعام و اکرام اور  ستائش کی طلب انسانی سرشت میں شامل ہے  اور  انسان اپنی اور اپنوں کی کاوشوں اور  محنتوں کے عوض انعام و اکرام و اعزاز و  ستائیش کا خواہشمندرہتاہے.... اچھے کام کو انجام دینے دلوانے پر اور  برے کام سے پرہیز کرنے اور کروانے پر سرور  و انبساط محسوس کر تا ہے....اور  یہ کیفیات  ایک شکر گزار  بندے کے لئے بذات خود انعام  کی حیثیت رکھتی ہیں اور  جو خالق حقیقی کی طرف سے ودیعت کردہ  ہوتی ہیں...اور  یہ کیفیات  اس وقت تک قائم و دائم رہتی ہیں جب تک اس میں  شہرت کی بھوک،  خود غرضی، انا اور جاہ طلبی کے رنگ نہیں پا ئے جاتے....خالق حقیقی کے احکامات و پیامات میں اس انسانی نفسیات کا خیال رکھا گیا ہے کہ وہ نیک عمل کرنے پر اور  بدی سے پرہیز کرنے  پر بندوں سے  بے شمار انعامات و اکرامات کا وعدہ فرماتا آیا ہے، اور جن میں ہر قسم کے  روحانی اور مادی انعامات و اکرامات کے وعدے شامل ہیں ...عموما یہ انسانی نفسیات ممتا کی گود میں ہی پرورش پاتی ہےاور یہیں سے نفسیاتی طور پر وہ انعام و اکرام کا عادی ہوجا تا ہے.... پھر جیسے جیسے وہ عہد طفلی میں مختلف ادوار  و مراحل طے کرتا ہے یہ نفسیات پختہ ہوتی جاتی  ہے... حسی، شعوری اور جسمانی نشو نما کے دوران کامیابی کے ہر ایک ننھے منھے قدم پر ماں مختلف اقسام کے مادی اور روحانی انعام و اکرام  سے   انسان کو نوازتی رہتی  ہے.... مادی انعام و اکرام میں جہاں مختلف اقسام کی اشیائے  خوردنوش پا ئی جاتی ہیں ونہیں روحانی انعام و اکرام میں بے تحاشہ ممتا پیار  و شفقت اور  دعائیں شامل ہوتی ہیں.. ..یہ تو نو مولود اور ماں کے درمیان ابتدا ئی خلوتی مراحل ہیں اور اسکے بعد باپ کی شمولیت ہوتی ہے، اور پھر اسکے ساتھ  شفقت و نصیحت اور انعام و اکرام کے مختلف مراحل طے پاتے ہیں ....یہ شمولیت عزیز و اقارب، بزرگ و اساتذہ،  دوست احباب، اڑوس پڑوس، محلہ قصبہ شہر سے ہوتے ہوئے کبھی ملکی اور عالمی سطح تک بھی پہنچ جا تی ہے .... الغرض انسان اپنے کارہا ئے نمایاں کو مختلف مراحل و درجات پر نمایاں ہوتے دیکھنا چاہتا ہے اور اسکا صلہ بھی چاہتا ہے....اب ضروری نہیں کہ ہر ایک انسان کو  بر وقت مناسب صلہ بھی ملے  اور ستائیش و انعام و اکرام بھی....اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جسے انعام و اکرام اور ستائیش ملے وہ اسکا مستحق بھی ہو...... کیونکہ انعام و اکرام کے مختلف پیمانوں سے ہر کوئی متفق ہو یہ ضروری نہیں ہوتا.. انعامات و اکرامات اور تنازعات کا ساتھ ہمیشہ سے رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا ....اس میں مکمل عدل و انصاف کرنا ممکن نہیں.... بنیادی طور پر ان کا دار و مدار اہلیت، مسابقت کے علاوہ  انفرادی و اجتماعتی پسند نا پسند پر ہوتا ہے او ر یہ وہی عناصر  ہیں جو انعام و اکرام و ستائیش کا جہاں باعث بنتے ہیں ونہیں عدل و انصاف میں کجی و نقص کا بھی بن سکتے ہیں...... بلکل اسی طرح  جس طرح اس فانی دنیا میں جرائم اور گناہ کی سزا کا تصفیہ عارضی اور غیر مکمل رہتا ہے.... اور ضروری  نہیں کہ ہر ایک جرم کی سزا میں مکمل  انصاف ہو..... اسلئے سزا و جزا کا اصل پیمانہ  خالق حقیقی کے پاس ہی ہوتا ہے....جب اس دنیا میں سزاوں اور  جزاوں کا ملنا ملانا وقت اور عمر  کا پابند نہیں ہوسکتا اور  اکثر  سزائیں اور جزائیں مکمل عدل و انصاف پر  مبنی نہیں ہوسکتی تو،  انسانی عقل و شعور  اور احساسات اس بات کا تقاضہ کرتےہیں کہ یہ عدل و انصاف کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں ضرور مکمل ہو،  جہاں انصاف کے پیمانے اس کے من مطابق ہوں،  جہاں اسکے اپنے  اعمال و احساسات خود پیمانے بن جائیں،  اور منصف کوئی ایسا ہو  جس پر انفرادی و اجتما عی طور پر  سب راضی ہوں..... اگر انسان کے شعور و لا شعور میں یہ احساس با قی نہیں رہاہوتا  تو    انسان امید و بیم جیسے اہم جذبات و محرکات سے نا آشنا رہتا...اور  پھر یہ غیر مکمل اور ناقص عدل و انصاف بھی دنیا سے اٹھ گیا ہوتا... نہ کوئی میزان پر تلنے راضی ہوتا اور نہ ہی کوئی تولا جاتا-  الغرض دنیا انہیں غیر مکمل اجزائے و کیمیائے ترکیبی کا نام ہے جو  اپنی تکمیل کی طرف گامزن  ہے اور  خالق حقیقی اسکی تکمیل کے پیمانے خود مقرر کرچکا ہے،  اور  ان عارضی جزاوں اور سزاؤں  کے بعد مکمل انصاف دلانے کا وعدہ بھی اپنے بندوں سے کرچکا ہے.... بہر حال یہ سلسلہ جنبا نی اپنے تمامتر نقائص اور غیر مکمل عدل و انصاف کے ساتھ دنیا میں جاری ہے ، اور ہمیشہ رہے گا ....اور انعام و اعزاز  یوں ہی دئے جاتے رہیں گے... چاہے انعام یافتہ مستحق ہوں یا نہ ہوں،  قلبی سرور و انبساط میسر ہو یا نہ ہو....لیکن اہل فکر و نظر تو یہی کہتے رہیں گے بقول فراز کہ......ہر  ایک صاحب منزل کو با مراد نہ جان ..... ہر ایک راہ نشیں کو شکستہ پا نہ سمجھ..

جیسے جیسے انسان تہذیب یافتہ ہوتا چلا گیا انعام و اکرام و ستائیش  کے مختلف  انداز  اور طور طریقے اپناتا چلا گیا،  جو اول اول تو گھر اور رشتوں کی چار دیواری تک ہی محدود رہے لیکن پھر  تعلیمی و تدریسی مراکز جاپہنچے.... یہاں تک تو یہ سب ٹھیک تھا لیکن جب یہ سلسلہ جنبا نی مغربی طرز سیاست و  تجارت  کے زیر اثر آتا گیا   تو  روحانیت کا عنصر ختم ہوتا چلا گیا،  اور مادیت کا عنصر غالب آتا چلا گیا،  جہاں انسان عہد طفلی میں ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت کے مذکورہ فطری مراحل طے نہیں کرسکا... مادیت پرستی کے خمار میں یہ مراحل کون طے کرسکتا ہے بھلا .. یہ مراحل  پھر کچھ یوں بے جا دولت و شہرت اور اخلاص و انصاف سے عاری مسابقت کا شکار ہوتے  چلے  گئے کہ  تعلیمی، تدریسی ، سیاسی، تجارتی، فنی بلکہ  سماجی خدمات کی بھی بولیاں لگنے لگی.... انعام و اکرام و اعزاز کی محبوبہ اپنی اور سب کی قبائیں  چاک کر   ان مراکز سے باہر نکلی اور صنعتی انقلاب اور عالمی جنگوں کے بعد  ایک عالم پر چھانے لگی ...مغرب سے نکلا ہوا یہی وہ مہذب انقلاب تھا جس نے انسان کو ایجادات و دریافت کے ایسے خبط میں مبتلا کردیا کہ اس نے ظلم و جبر  و نا انصافی اور انعام و اکرم و اعزازات کو نئے معنی عطا کردئے.. ضروریات زندگی کو  جہاں بہترین تحقیقات و ایجادات سے مزین و منزہ کیا جاتا رہا ونہیں حیات انسانی کو  لمحوں میں نیست و نابود کرنے کے جدید ترین اسلح  اور کیمیا ئی  مرکب بھی ایجاد کئے  جاتے رہے ... مرد کو ترقی کے نام پر مادیت  پرستی میں دیوانہ کیا جاتا رہا تو عورت کو آزادی اور خود مختاری کے نام پر  برہنہ کر بازار میں لے آیا جاتا رہا، اور پھر ان تمام غلطیوں کا ازالہ اور  مداوا کرنے  کی خاطر  انعام و اکرام اور اعزازات کو متعارف بھی کرایا جاتا رہا،  انکی نئی نئی تعریفیں  لکھی جاتی رہی، اور نئے معنی عطا کردئے جاتے رہے-  اب  کہیں ملکہ حسن کے اعزاز سے نواز کر نسوانیت کو برہنہ کردیا جاتا ہے تو کہیں مخلتف  اعزازات و انعامات سے نواز کر  ادب کو  اور  کہیں علم و فن کو.....اور اب تو  جنگ و جدل میں شامل ظالموں کو بخشوانے کے لئے مظلوم اور ظالم دونوں کو عالمی امن کا اعزاز بھی عطا کر 'ہیرو اور ہیروئین' بنا دیا جاتا ہے....پھر اعزازات میں توقیر باقی نہیں رہتی ..... یہ اور بات کہ اکثریت کی بجا ئی گئی تالیوں کی گونج میں یہ انسانیت کا لٹا ہوا وقار کسی کو نظر نہیں آتا...... ایک ہی تخت پہ اساتذہ ہوں یا بھانڈ،  مخلص سماجی خدمت گزار ہو یا سیاسی سازشوں کا شکار  کوئی مہرہ، رحم دل محقق و سائینس داں ہو  یا ظالم موجد، صالح ادیب و شاعر ہو یا نرا ادیب،  سب کو ایک ساتھ بٹھا دیا جاتا ... کوئی تمیز نہیں ہوتی..ایسے بے شمار انعامات و اعزازت سے مغربی محفلوں کی رنگینیاں قائم ہیں... اور انہیں میں ایک  نام نہاد "نوبیل پرایز" بھی ہے جو عالمی درجہ کا حامل ہے،  اور جو  ابتدا سے آج تک مختلف تنازعات کا شکار رہا ہے..جس کے بانی الفریڈ  نوبیل  کی موت کی افواہ پر   مغربی اہل فکر و خبر نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ......"موت  کے سوداگر   کی موت " ....جس اعزز   کا  وجود میں آنا اہل مغرب کی خطرناک ایجادات  و تحقیقات کا مرہون منت رہا ہے،  جس  کے پس پشت جو نفسیاتی موقف ہے وہ یہی ہے کہ خطرناک تحقیقات اور ایجادات سے انسانیت کو جو نقصان پہنچایا گیا تھا اسکا ازالہ اور مداوا کردیا جائے اور دنیا کی نظروں میں سر خرو رہا جا ئے...... انعام او اکرام کی رقم جمع کرنے کا بندوبست آج  بھی اسی ادارہ سے حاصل کیا جاتا ہے جس کا نام بوفورس ہے اور جو خطرناک  جنگی اسلح تیار کر  فروخت کرتا ہے، وہی جنگی اسلح جسکی بنیاد جناب نوبیل نے ڈائینامائیٹ کی کھیتی پر رکھی تھی... اب اسی سے امن کی انعامی  رقم  ادا کی جاتی ہے....یہ ادارہ  انسانی قتل عام کا کفارہ ادا کرتا ہے....جمہوریت کے اصولوں پر کام کرتا ہے اور انسانیت کا  کفارہ  انسانیت کے لئے اور  انسانیت کے ذریعہ ادا کرنے پر  مکمل یقین رکھتا ہے....انعام کی رقم اکثر معزز انعام یافتہ حضرات  امن کے نام پر کسی ادارہ کو خوشی سے دان کردیتے ہیں ...... ایسے ہی جیسے مغربی تہذیب کے مارے مختلف فنکار  اپنے فن کی اسقدر قیمت غریب عوام سے لیتے ہیں کہ انفرادی طور پر  جس سے نقصان کا اندازہ نہیں ہو پاتا.... لیکن مجموعی طور  پر جسقدر  یہ غربا کا مالی، اخلاقی اور نفسیاتی نقصان کرتے ہیں اس کا تخمینہ کمپیوٹر بھی نہیں لگا سکتا ...... لیکن پھر یہ فنکار اسکا ازالہ و مداوا ایسے کرتے ہیں کہ عیش و عشرت کے لوٹے ہوئے سمندر  سے چند قطرے مختلف اخلاقی اور جسمانی بیماری میں مبتلا غربا میں تقسیم کردیتے ہیں.. ...عجب طرفہ تماشہ ہے ... اہل مغرب کا کیا ہے انہیں تو عادت سی ہوگئی ہے تماشہ  کرنے اور کروانے کی .... لیکن حیف اہل مشرق پر ... خاص طور سے  اہل ایمان پر جن کی بلند نگاہی اور دور اندیشی کے چرچے آسمانوں میں ہوتے ہیں .....اور انکی پست نگا ہی اور کوتاہ اندیشی کا یہ عالم ہے کہ وہ قوم و وطن پرستی اور مغربی  ذہنی  غلامی میں آج تک مبتلا ہیں ، اور مغربی انعامات و اعزازت پر پھولے نہیں سماتے،  ان مغربی اعزازت پر جن کا دار و مدار  آج بھی انسانی لاشوں، استبداد و استحصال، ظلم و جبر اور سیاسی سازشوں پر ہوتا ہے.. یہ وہ سیاسی سازشیں اور حربے  ہیں جو  اول مغربی نو آبادیات سے وجود میں آئے تھے،   اور پھر عالمی جنگوں سے حاصل شدہ بندر بانٹ میں جن کا خوب استعمال کیا گیا...مآل آخر وہی ہوا جو اکثر  لٹیروں کی آپسی ناچاقی سے ہوتا آیا ہے..... ان میں جو شاطر لٹیرا ہوتا ہے وہ خود اپنے گروہ کے خلاف سازش رچتا ہے اور ساتھیوں کے لوٹ کا مال ختم ہونے پر  اپنی سرداری  کا اعلان کردیتا ہے..... لیکن کب تک ... نوبیل پرایز  جیسے اور بھی کئی اعزازت  ہیں جنہیں  مہذب و تعلیم یافتہ انسان ہفت اقلیم کی دولت سمجھتا ہے ...اور یہ بھول جاتا ہے کہ ایسے اعزازت کے پس پردہ موقف کیا ہے ؟  اصول کیا ہیں؟  کون لوگ اس کی پشت پر  ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟... دنیا کو اور انسانیت کو  کیا دینا چاہتے ہیں  اور کیوں دینا چاہتے ہیں ؟  انکے پاس دینے اور دلانے کے لئے وسائل کہاں سے آتے ہیں؟ انتخاب و نامزدگی کے پیمانے کیا ہیں؟  اب تک جنہیں ایسے اعزازت سے نوازا گیا ہے انکی اکثریت کس قسم کے کردار کی حامل رہی؟  اور اعزز یافتہ انعام و اعزاز پانے سے پہلے اور پانے کے بعد انسانیت کے لئے کیا کچھ کرسکے ؟  کتنے متنازعہ فیہ اعزازت ہیں یہ ؟  ایسے تمام سوالات کے جوابات کی تہہ تک پہنچنا اب کوئی ایسا مشکل کام نہیں رہا..... اس کے لئے اول تو وطن پرستی، قوم پرستی، شخصیت پرستی، مفاہمت پرستی جیسی بیماریوں سے چھٹکارا پانا ہوگا....... نو بیل  اعزاز  و انعام کی بنیاد کیسے قائم کی گئی ہے یہ کسی عالم و فاضل سے پوشیدہ نہیں......بلکہ ایک عام انسان بھی برقی اطلاعاتی سمندر میں غوطہ لگا کر حقائق کے موتی نکال سکتا ہے .... ہاں بطور حفظ ما تقدم اسے اخلاص و دیانت داری کا لباس زیب تن کر غوطہ لگانا ہوگا... ورنہ تعصب کی ایک ہی لہر  اس  کی سوچ  کا کام تمام کرسکتی ہے.... القصہ مختصر یہ کہ نوبیل انعام و اعزز کو  سائینس، ادب، معیشت اور امن کے شعبوں کے لئے مختص کیا گیا ہے...... اب ان چاروں بنیادی شعبوں میں جو ترقیاں ہوئی ہیں اور کارہا ئے نمایاں انجام دئے گئے  ہیں اور اس سے کن کن ممالک کو کیا کیا فواید حاصل ہوئے ہیں  اسے کسی تعلیم یافتہ کو  یا اہل فکر و نظر کو بتانے اور سمجھانے کی اگر کوئی ضرورت  نہیں .... ذرا غائر نگاہوں سے مغربی تاریخ کا مطالعہ کر لیجیے.. چودہ طبق روشن ہوجائیں گے ...... اب تو  مغربی افکارات اور سیاسی اور سماجی سازشوں کی پرتیں کھول کھول کر اہل قلم کی انگلیاں بھی  فگار ہو چکی ہیں...... جوش کہتے ہیں ....

شاعر ہو یا ادیب قلندر ہے آج بھی......انگریز کاغلام گورنر  ہے آج بھی ....

وہ شاعران قوم گراں قدر و معتبر ... رہتے ہیں جن کی جیب میں اسرار بحر و بر ...

سورج پہ جن کا ہاتھ ہے اور پاؤں چاند پر ......روٹی وہ ڈھونڈتے ہوئے پھرتے ہیں در بدر

کیا چیز ہے ادب کوئی جانتا نہیں.....جانے وہ کیا جو حرف بھی  پہچانتا نہیں

 کوا ہے زمزموں کی ترازو بنا ہوا....مرغ چمن ہے کاٹھ کا الو بنا ہوا


***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 656