donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Raushan Zameeri Se Aari Raushan Khayali

 

روشن ضمیری سے عاری  روشن خیالی
 
زبیر حسن شیخ
 
آج شیفتہ کو  چمن میں سر نگوں  دیکھ ہم نے شوشہ چھوڑا ........حضور ..کیا بات ہے..چہل قدمی  سے تھکے ہوئے ہیں یا  حالات حاضرہ   کو دیکھ دیکھ کر .   آج کو ئی پاس نہیں ..... تن و تنہا ہیں... بقراط کا ساتھ بھی نہیں. آسمان میں اپنی نظریں گاڑ کر فرمایا ...کوئی کب پاس تھا اپنے، اک ترا پاس تھا ہمکو........بتا اس سے سوا،  اب کسقدر غیور ہونا ہے.  پھر پسینے سے منور پیشانی کو  آستین سے کچھ اس ادا کے 
ساتھ ملنے لگے جیسے دوسروں کے اعمال پر کف افسوس مل رہے ہوں ...... ہم نے اور کریدنا مناسب نہ سمجھا. انہوں نے کچھ لمحہ توقف کیا اور پھر فرمایا، مٹا دے خرمن ہستی، جو بھولے سے تجھے بھولیں....جو بھولے سے تجھے بھولیں،  انہیں رنجور ہونا ہے..
 
اس سے قبل کہ شیفتہ  آگے  اور کچھ فرماتے بقراط ہانپتے کانپتے نمودار ہوگئے.  ہمیشہ کی طرح اپنی توند پر ہاتھ پھیر  کر شکم سیری کی بری عادت سے پناہ مانگی،  اور  بنا  اجرت کی بھاگ دوڑ  کو  یہ کہہ کر  خوب کوسا کہ صحت مند رہنے کے  یہ وہ نسخے ہیں جن میں اہل مغرب کی تقلید کرنا جائز ہے . پھر شیفتہ کے قریب بیٹھ گئے. کافی دیر تک شیفتہ کو گم سم دیکھ ان سے رہا نہ گیا. کہا حضور.... اب تک آپ دہلی کے دل دہلا دینے والے واقعہ سے پریشان ہیں.... اب تک تو تفکرات کی آگ میں تپ کر  خیالات روشن ہو چکے ہونگے .....فرمایا...آگ اور  روشنی سے یہ سوال ذہن میں آیا  کہ  موجودہ نسل اور  سابقہ نسلوں کی  روشن خیالی میں کیا فرق ہوگا؟   ہر کوئی نوجوانی میں روشن خیال ہوا کرتا ہے....... لیکن آجکل کی  روشن خیالی  روشن ضمیری سے عاری نظر آتی ہے....
 
بقراط نے کہا حضور ہمارا اندازہ صحیح تھا کہ آپ دہلی کے ان حیوانوں کے متعلق سوچ سوچ کر پریشان ہیں جنہوں نے ایک دوشیزہ کی روح کو تار تار کردیا اور انسانیت کے نام پر ایک بد نما داغ بن گئے.  فرمایا وہ تو ہر ایک درد مند انسان سوچ رہا ہے اور کہہ رہا ہے. ہم دراصل یہ سوچ رہے  ہیں کہ تہذیب یافتہ انسان ایک عرصہ دراز سے افراط و تفریط میں مبتلا ہے،  اور تحقیق در تحقیق ثابت  کرنے پر تلا ہے  کہ حیوان کیسے  انسان بن گیا!...جبکہ آج اس بات پر تحقیق  کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ انسان  کیسے حیوان بن رہا ہے!!.......مہذب انسان  حیوان سے اسقدر متاثر رہا  ہے کہ  مانو اسے حیوانیت کا "فوبیا " ہوگیا ہو .  سیاست ہو یا معاشرت،  اسے اپنی انسانیت  کے ساتھ  حیوان  کا لا حقہ  لگائے بنا چین نہیں آتا .  پہلے تو  صرف افکار میں ہی یہ "فوبیا" نظر آتا تھا   لیکن اسکا اثر یہ  ہوا کہ  اب اعمال میں بھی یہ حیوانیت ظاہر ہونے لگی .  اور یہ سب مغرب کے مہذب  انسانوں  کی  دین ہے جسکی ابتدا انہوں نے  "سیاسی  حیوان"  اور "سماجی جانور" کے القابات  سے کی تھی  اور پھر  اسے  رشتہ داری  میں بھی  تبدیل کردیا تھا ..ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مغربی اہل علم و فکر کے سر خیل سگمنڈ فرائیڈ نے اسے  بطور جنسی جانوربنا  کر  پیش کر دیا .  روحانیت  سے خالی یہی وہ  افکارات  تھے  جنہیں فلسفہ اور ادب میں پیش کیا گیا .  اور انہیں افکارات کی بنیاد پر  انسانی قوانین بھی  وضع  کیے گیے ..امریکہ میں  اسکولی بچوں کا قتل عام ہو یا دہلی میں دوشیزاؤں کی روحوں کو تار تار کرنے کے واقعات، ہند و پاک میں بد عنوانی اور لا قانونیت کے واقعات ہوں  یا تیونس، لیبیا، مصر، شام اور دیگر عرب ممالک کے حکمرانوں کی عیاشیاں، یورپی حکمرانوں کی کھلے عام بد اعمالیاں ہوں یا دیگر ممالک کے اہل اقتدار  و اہل دولت و ثروت کی بے راہ روی..... یہ طرز فکر و عمل پتہ نہیں ارتقا کی کونسی منزل کا حصہ ہے جس پر مہذب دنیا تحقیق کرنے سے قاصر ہے.  جبکہ یہی وہ طرز فکر و عمل ہے جو عام انسانوں کو برائی کی  ترغیب دیتا ہے اور  انکی مختلف جسمانی بھوک کو  ناجائز طریقہ سے بلکہ کبھی کبھی وحشیت اور بربریت سے مٹانے پر آمادہ کرتا ہے..
 
   بقراط نے کہا ،  حضور تحقیق تو با قاعدہ کی جاتی ہے، ماہر نفسیات اور سائینسدانوں کی ایک فوج ہے جو انسان کے بدلتے رویوں اور اسکی نفسیات پر تحقیق میں سر گرداں ہے. پوچھا ،  پھر کیا وجہ ہے کہ اس تحقیق کو منظر عام پر نہیں لایا  جاتا؟.  حقائق سے پردہ کیوں نہیں اٹھایا 
جاتا.....کیوں نہیں دنیا کو بتایا جاتا کہ  تہذیب یافتہ انسان بندر کی سی رفتار سے تنزلی کی سمت سفر کرنے لگا ہے ؟. اسنے حیوانوں کے رنگ ڈھنگ اپنالیے ہیں اور اسکے افکارات  بھی تنزلی کی سمت گامزن ہیں. اب اس نے عورت اور مرد کے درمیان تمام فطری تقاضوں سے انحراف بھی کرنا شرو ع کر دیا  ہے ....اب وہ کبھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے  تو کبھی خنزیروں کے کرنے کے کام کرتا ہے... کبھی سانپ بن کر ڈستا ہے تو کبھی جنگلی کتوں کی طرح بھنبھوڑتا ہے.  ذرائع ابلاغ میں لنگوروں کی طرح کرتب دکھاتا ہے تو تجارت میں بندر بانٹ میں مبتلا ہے .  کبھی شدت پسند بن کر گیڈر بھپکی دیتا ہے تو کبھی سیاستداں بن کر طوطا چشمی  اختیار کر لیتا ہے،   کبھی ٹی وی  پر   ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا ہے تو کبھی اشتہار میں  غٹر غوں . الغرض اسکے تمام آثار تیز رفتار تنزلی کی طرف ہی اشارا کر رہے ہیں، ارتقا کی طرف نہیں . اور اب تو خود حیوان بھی مہذب انسان کی  برہنگی دیکھ کر شرم سے آنکھیں بند کر رہے ہیں. مانو یہ کہہ رہے ہوں.... خبردار  جو ہم سے کو ئی رشتہ جوڑا  یا کو ئی ایسا ویسا تعلق پیدا کرنے کی کوشش کی..ہمیں خالق حقیقی سے جو  بھی عقل و  اختیار کی صورت میں ودیعت کیا گیا ہے اور جو  قدر ہمارے حصہ میں آ ئی ہے،  اس  پس منظر میں آج  ہم انسانوں سے بہ درجہ بہتر ہیں..اس لئے ارتقا کے نام پر  اب ہماری بے عزتی نہیں ہونی چاہیے......
 
بقراط نے کہا حضور .......اب عریانی اور فحاشی پر کی گئی نصیحتوں  کا تہذیب یافتہ روشن خیال  انسان پر کو ئی اثر نہیں ہوتا. ایسی نصیحت پیش کرنے والوں کی مخالفت میں مغرب زدہ طاقتور ٹی وی میڈیا اٹھ کھڑا ہو تا ہے . اور اگر وہ خاموش رہے گا تو "ٹی آر پی" کی مار کھا کر  ادھ مرا ہوگا،  اور ان سرمایہ داروں اور "اسپانسروں" سے اشتہار  نہ ملنے کا خطرہ مول لے گا جنکی مصنوعات عریانیت اور فحش کلچر کے بدولت فروخت ہوتی ہے . یعنی مادیت پرستی کے اس دائرۂ حمام میں ہر کوئی برہنہ ہے.  دہلی میں جس طرح کے فحش احتجاج کا مظاہرہ چندخواتیں نے کیا ہے وہ  اس "سلٹ واک پروٹسٹ"  کی طرف اشارہ کرتا ہے جسکی اختراع  و  ابتدا امریکا سے ہوئی تھی اور بار دیگر اسے  یوروپ اور ہندوستان میں دہرایا گیا....
 فرمایا.... پچھلی ایک صدی میں مغرب کے شرفا اور اہل علم و ادب نے بھی مذکورہ دائرہ حمام کو پھیلتے دیکھ بہت کچھ لکھا اورکہا.   لیکن اس دائرہ حمام میں برہنہ لوگوں نے دائرے کے باہر کی دنیا کا جینا کچھ یوں حرام کردیا تھا کہ انکے ادبا، امر ا اور شرفا بھی اس دائرے کے تیز رفتار پھیلاؤ کے سامنے اپنی دستار و قبا محفوظ نہ رکھ سکے.   اور آج اہل مغرب کی اکثریت اسی دائرہ میں سمٹ کر رہ گئی .  روشن خیالی سے انکی آنکھیں چندھیا گئی تھیں.  لیکن ایسی روشن خیالی سے اہل مشرق خاصکر  اہل بر صغیر   کی اکثریت کی  یہ حالت ہے جیسے آہوئے ختن شکاریوں کے نرغہ میں ہو  اور تیز روشنی سے حواس باختہ ہوکر رم بھول گیا ہو. یہی  وہ مرحلہ تھا جس میں اہل مغرب یوں منجمد ہوگئے تھے کہ مذہب و اخلاق کی تپش بھی انہیں پگلا نہ سکی .  یہی وہ مرحلہ ہے جس سے اہل بر صغیر گزر نہیں پا رہے ہیں اور  روشنی سے بر سر پیکار ہیں. کیونکہ ابھی دین بیزاری اسقدر  نہیں ہوئی ہے کہ یہ اہل مغرب کی طرح منجمد ہو جائیں،  اور  اب بھی مو قع ہے کہ اس دائرے کے پھیلاؤ کو  دینی  تربیت سے روکا جاسکے. 
 فرمایا..... اہل مغرب اور مغرب زدہ لوگوں کی پریشانی کا باعث اب وہ لوگ ہیں جو انہیں کے ملک میں اور ملک کے باہر  با لباس نظر آتے ہیں، اور وہ  پریشان ہوکر یہ سوچ رہے ہیں کہ .... یہ کیوں با لباس نظر آتے ہیں؟ کیوں برہنہ نہیں ہو رہے ہیں، کیا وجہ ہے، وہ کیا طاقت 
ہے کہ پچھلی سوسالہ تہذیب کی آندھی میں ان لوگوں کے افکار  و اجسام،  انکی روحیں اور انکے پیراہن تار تار ہونے سے اب بھی بچے ہوئے ہیں؟.  یہ کون لوگ ہیں اور کس کے معتقد ہیں، کس کے ماننے والے ہیں؟، اس خالق حقیقی کو تو ہم بھی مانتے ہیں، لیکن یہ کس کے عشق میں مبتلا ہیں اور اب تک دائرہ حمام میں آنے سے کیسے بچے ہیں ، ہماری طرح یہ ذہنی بے سکونی اور جنسی ہیجان کا شکار  اور بے اطمعنانی کے دوزخ میں کیوں نہیں ہیں؟. انہیں جب پتہ چلتا ہے کہ جس جلیل القدر پیغمبر اور معلم اعظم کے یہ معتقد ہیں،  جن کے عشق میں یہ مبتلا ہیں اور جو تمام انسانوں میں مکارم اخلاق کے اعلی ترین مقام پر فائز کیے گئے ہیں، اور ان لوگوں کو ہماری طرح نقطۂ انجماد پر پہنچنے سے روکنے کا اصل جواز یہی وہ کردار ہے، بس پھر انکا ذہنی خلجان و خلفشار انتہا کو پہنچ جاتا ہے....اب وہ اس کردار کی طرف حملہ کرنے کی ذلالت پر آمادہ ہوتے ہیں ، چند کمینگی اور ذلالت کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں، چند تالیاں بجاتے ہیں،   چند چپ چاپ بیٹھ کر دیکھتے ہیں، اور چند احتجاج  کرنے پر منہ بناتے ہیں، چند خاموشی سے  ہنستے ہیں، یہ سب ایک ہی حمام کے ہیں....
 
بقراط نے پوچھا حضور ،  اس دائرہ حمام کے  باہر  رہنے والے  اپنی ذمہ  داری کیوں نہیں نباہ  سکے .  فرمایا....اول یہ کہ کسی تہذیب و ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کی ذہنیت، افکار و اقدار کا اجمالی تجزیہ کرنا ہو تو  اس ملک کے ذرائع ابلاغ، فنون لطیفہ، ادبی اور ثقافتی شعبوں کا تجزیہ اور معائنہ کر لیجیے،  اس ملک کی اکثریت کے افکار  اور اقدار  کا پتہ چل جائے گا. مغربی اخلاقی قدریں زوال پذیر ہو کر اب جس مقام پر  آ گئی ہیں وہاں سے انہیں نیچے جانے کوئی اور  راستہ نظر نہیں  آرہا ہے،  جز اسکے کے اب وہ دوسری اقوام کی اخلاقی قدروں، انکے عقاید اور افکارات کے ساتھ چھیڑ خانی کریں اور اپنے سفلی جذبات وخیالات کو تسکین پہنچائیں اور اپنے  تہذیب و تمدن کو مختلف حربوں سے سب پر حاوی کردیں. اور یہ مغرب کے ذرائع ابلاغ، مفکر اور انکے "تھنک ٹینک" کی منافقت ہے کہ وہ مغرب کی معاشرتی اور عائلی  قدروں کے زوال کی روک تھام کے بجائے اس تنزلی سے حتی الامکان مالی فایدہ اٹھانے پر مصر رہتے ہیں، یہ اس دائرے کے باہر کے لوگ ہیں اور اپنی ذمہ داری نباہنے سے قاصر رہے . در اصل اہل مغرب کے نزد اب معاشرہ، افکار، اقدار، سیاست، تجارت اور یہاں تک کے مذہب و عقائد بھی تجارت کا ذریعہ بن گئے ہیں.  فرمایا ........اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ جب کو ئی تہذیب و تعلیم یافتہ گروہ خود پرستی، مادیت پرستی، وطن پرستی، شخصیت پرستی اور جنس پرستی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے تو ایک مقام پر پہنچ کر اخلاقی اقدار اور جذبہ خیر  سے انحراف کرنے لگتا ہے . اور اسکے بعد پاگل پن کا سفر  اور آگے نہیں بڑھ پاتا.  پھر وہ اپنے اہل خانہ، اہل محلہ، اہل وطن کو اپنی حالت میں دیکھنا چاہتا ہے.  اور تدریجا انہیں اس حالت میں لے بھی آتا ہے.  اس کا پاگل پن اور  بڑھ جاتا ہے جب وہ دیگر قوم و ملک اور مختلف عقائد کے ماننے والوں کو اپنے سے مختلف حالت میں دیکھتا ہے. پہلے پہل تو صرف چند لوگ جڑتے ہیں پھر مختلف تنظیمیں جڑ جاتیں ہیں جن میں ذرائع ابلاغ، سیاسی، تعلیمی، معاشی اور کبھی کبھی تو کچھ مذہبی تنظیمیں بھی .   کچھ یہی حال اب مغرب کا ہے .
 
 دوم یہ کہ اہل مغرب نے آزادی افکار  کی حشر سامانیوں کا اندازہ نہیں لگایا تھا کہ انسان کی غیر محدود افکار و اظہار کی قوت جب بے لگام ہوجائیں گی تو انسانی اعمال پر اثر انداز ہو کر بد اعمالیوں کو جنم دیں گی  اور پھر  دوسرےانسانوں کی آزادی کو بھی متاثر کریں گی.  ابتدا میں شرفا 
اور اہل اقتدار اپنے اپنے محلوں میں چھپ کر محفوظ رہے اور یہ سوچتے رہے کہ انکی بناوٹی عزت  و عفت کو پوشیدہ رکھنے والا  طویل القامت پیراہن اس آندھی کی زد سے باہر ہے.  لیکن انہیں جلد ہی معلوم ہوگیا کہ افکار و اقدار کی یہ آندھی انکے محل دو محلوں کے اندر بھی آچکی ہے اور انکی بناوٹی تقدیس کو تار تار کر رہی ہے.  حالیہ دنوں میں اس کا نظارہ تب دیکھنے ملا جب برطانیہ کی نئی نویلی دلہن شہزادی کی عریاں تصاویر ذرائع ابلاغ کے چند بھیڑیوں کی روزی روٹی کا ذریعہ بننے لگی.  ان بھیڑیوں کو مغرب کے ذرائع  ابلاغ میں عزت و توقیر کے مقام سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں "پاپاریزی" کہا جاتا ہے ، جو  اہل اقتدار اور بناوٹی شرفا کو ملک کی اکثریت کی طرح جسمانی اور ذہنی طور پر مادر پدر زاد برہنہ دیکھنا چاہتے ہیں اور دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں. انکی قوم کا اب یہ مزاج بن گیا ہے.  جب جب یہ بھیڑیے ایسا کچھ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انکے ان اعمال بد کو ذرائع ابلاغ اور عوام دو نوں ملکر دولت و عزت سے نوازتے ہیں.  کبھی اجتجاجی اقدمامت بھی کیے جاتے ہیں اور کبھی قانون کا سہارا لیکر  ایسی قبیح اور انسانیت سے گری حرکتوں پر روک تھام بھی لگا دی جاتی ہے. اس سے پہلے بھی کئی بار  اہل مغرب کے شرفا اور اہل دولت نے تہذیب جدیدہ کی اس آندھی میں اپنے آپ کو برہنہ اور اخلاقی طور سے قلاش پایا ہے. پھر چاہے وہ لیڈی ڈائنا ہو یا خود ملکہ برطانیہ یا ولی عہد ، اس آندھی نے اکثر کو برہنہ کر کے رکھ دیا تھا.  کبھی احتجاج ہوا تو کبھی روک تھام اور کبھی تو اس آندھی کی تیزی اور تندی میں اکثر معزرین مسکراتے ہوئے خود ہی برہنہ ہو گئے،  اور انکی اس بے بس بے حیائی کو  انکی خوشدلی اور روشن خیالی پر محمول کر کے انکی عوام بھی خوش ہو چلی.  بس پھر کیا تھا ساقی ہوں  یا رندوں کا جم غفیر  سب میخانہ کو حمام میں تبدیل کر برہنہ ہو گئے. لیکن انکی جسمانی عیاشی کا تلاطم انکی ذہنی عیاشی کو مطمعین نہ کر سکا. انکے افکار میں بر گشتگی آتی گئی کہ..... جو حمام کے باہر لباس فاخرانہ میں ہیں،  اور  اپنے عقاید و افکار  کے پردے میں اپنی جبلی خواہشوں کو محترم و مقدس بنائے بیٹھے ہیں اور سماجی جانور  اور سیاسی حیوان جیسے القابات کو قبول کرنے کے روادار نہیں ہیں، وہ کہیں نہ کہیں انکے لئے مذاق کا باعث بن رہے ہیں اور انہیں احساس کمتری میں مبتلا کر رہے ہیں.
 
 سوم یہ کہ... مغربی ذرائع ابلاغ کے اشتہار  اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ انکی اکثریت گناہ کے مفہوم سے نا بلد ہوچکی ہے.  ذہنی اور جسمانی عریا نیت کا یہ عالم ہے کہ انکے ادب و کلچر میں نوجوانوں کے بہکنے کی حدود مقرر کر دی گئی ہے ،  چاہے جو کیجیے لیکن خیال رہے کہ انکی لڑکیاں حاملہ نہ ہوں  اور نہ ہی لڑکے کنوارے باپ بنیں ... انکے اشتہار میں نو خیز دوشیزاؤں کو یہ کہتے دکھایا جاتا ہے کہ وہ کتنی شرمسار ہیں ، کسقدر رنجیدہ ہیں کہ وہ فربہ جسم ہونے کے سبب عریاں نہیں ہو سکتیں اور  گھر سے باہر  مکمل لباس میں انہیں نکلنا کتنا شرمناک محسوس ہوتا ہے . مرحوم جناب احمد دیداد کا آسٹیریلیا میں منعقدہ وہ مناظرہ یاد آتا ہے جب ایک دوشیزہ سے انہوں نے بادل نخواستہ کچھ یوں درد مندی  اور غصے کا اظہار کیا تھا کہ تمھارے لباس اور تمہاری حالت دیکھ کر انکے جیسا متقی اور پرہیز گار مو من بھی دل میں برے خیالات کو محسوس کرتا ہے.   بظاہر تو معمولی بات ہے لیکن اس کے پس پردہ جو تلخ حقیقت ہے اسکا احساس ان ماؤں اور بہنوں کو ضرور ہوتا ہوگا جب وہ بازار میں سر عام عریانیت کا نظارہ دیکھ کر سوچتی ہونگی کہ انکے لڑکے، ، بھائی اور شوہر کس فتنہ کے دور سے گزر رہے ہونگے.  معزز خاندانوں کی بزرگ خواتین یہی نصیحت کرتی ہیں کہ ....اللہ کی بندیوں اپنے خاوندوں کے صحیح سلامت گھر لوٹنے کی دعائیں مانگتے رہو کہ دور حاضر میں جان و مال کا اتنا خدشہ نہیں ہے جتنا مردوں کے گمراہ ہونے کا خدشہ ہے.  ایسے حالات اب صرف مغرب کا ہی خاصہ نہیں رہے بلکہ مشرق اور خاصکر 
برصغیر بھی اب اس سے محفوظ نہیں رہا .
 
مغربی حکمران جمہوریت  کا چغہ پہنے اور تعلیم و تہذیب کی پگڑی سر پہ سجائے،  ادب و آداب  کی شیرینی سے دھلے لب لئے وہ تمام کام بہ آسانی کر لیتے ہیں جو  وحشی حکمران بھی نہیں کر پائے.  فرانس کے سرکوزی، روس کے پوتین  اور اٹلی کے برلسکونی کی بد اعمالیاں انکے ہموطنوں کے لئے شرم کا باعث اب نہیں رہی،   بلکہ وہ اسے انسان کی اور خاصکر عورت کی  آزادی اور اسکی کامیابی پر محمول کرتے ہیں. اسکے علاوہ جعلی جمہوریت کی چھری سے کسی کا قتل کرنا اب مغرب میں ایک عام بات ہو گئی ہے.  اور اب انکی نسلیں اس سے متاثر ہوکر  اپنے ہی ملک میں قتل عام کر رہی ہیں . سرکوزی کا اپنے ہم پیالہ و ہم نوالہ کرنل قذافی سے انتقام کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی. اسی طرح بش جونیئر کا اپنے باپ کا انتقام لینا بھی منظر عام پر آگیا  تھا جب اس نے صدام کے قتل کو جعلی جمہوریت کی چھری سے انجام دیا.  اور اسی طرح اسامہ کے قتل کو  بھی.  کچھ اسی طرح سعودی حکمران شاہ فیصل کا قتل بھی امریکی سی آئی اے کے ذریعہ انجام دی گئی سازش کا نتیجہ تھا.  اس کے علاوہ اور بھی ممالک کے حکمرانوں کے قتل جمہوریت کے زیر علم ہی انجام دیے گئے ہیں.  یہی نہیں بلکہ اسی جعلی جمہوریت کے نام پر  کئی ملکوں کو  نیست و نا بود کر دیا گیا اور معصوم  عوام کا قتل عام کچھ اس طرح انجام دیا گیا کہ دنیا کو بیوقوف سمجھ لیا گیا.  اور نئی نسل بھی اپنی جائز اور نا جائز  ضرورتوں اور خواہشوں سے مجبور ہوکر  بیوقوف بن بیٹھی...... بلکہ انکے اپنے مطابق انہوں نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا جو انہوں نے کچھ نہ سجمھنے کا ڈھونگ رچایا ہے  اور صرف اپنا مالی مفاد مدنظر رکھا ہے.
 
موجودہ دور میں مذکورہ تمام برائیاں انہیں انجام دینے والے وحشی مجرموں کی وجہ سے اتنا نہیں پھیل رہی ہیں جتنا تہذیب یافتہ روشن خیال انسانوں کی مجرمانہ خاموشی سے پھیل رہی ہیں. اور جب یہ روشن خیال تہذیب یافتہ انسان احتجاجا شر  کے خلاف بولتا ہے تو کپڑے پھاڑ کر دیوانہ وار بولتا ہے،  اور قبل از وقت کجا وقت پر بھی نہیں بولتا، اور وہ بات نہیں بولتا جو اسکا ضمیر اسے صحیح بتا رہا ہوتا ہے جسے  بولنا  اس پر فرض ہے.  اسکی روشن خیالی کی شدت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اسکا ضمیر روشن ہی نہیں ہو پاتا اور ٹمٹماتا رہتا ہے. اسی ٹمٹماتے ضمیر کی روشنی میں وہ کبھی اچھا ئی کی تعلیم تو دیتا اور لیتا ہے  لیکن برا ئی کے خلاف بولنے کو احتیاط کرنا سمجھتا ہے. ایسا ہر طرز فکر و عمل اب روشن خیالی سمجھا جاتا ہے جو روشن ضمیری سے عاری ہے. خالق حقیقی نے اپنے احکامات میں جہاں امر بالمعروف کا حکم دیا ونہیں نہی عن المنکر کا بھی دیا،  بلکہ قرآن میں ایک جگہ نہی عن المنکر پر  زیادہ زور دیا گیا ہے.   
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 832