donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Tahzeeb Ki Mayyat Par Meeras Ka Tanaza Hai


تہذیب  کی میت  پر میراث کا تنازعہ  ہے

 

زبیر حسن شیخ

 

تہذیب جدیدہ میں  مہذب انسان نے  میراث کے ساتھ     انفرادی  اور اجتماعی  دونوں طور سے  نا انصافیاں کیں ہیں ، اور   دنیا میں  چار سو پھیلے  ظلم و جبر  کی کثرت  میراث  کے ضمن میں   کی گئی بے انصافیوں   کا نیتجہ ہے ..کسی  کی میت پر  تنازعات  عام سی بات ہوا کرتی تھی لیکن  جلد ہی  تہذیب کی میت پر  تنازعات  ہونے  کے اندیشے  اب قوی ہوتے جارہے ہیں ..دراصل انسانی   قوانین  میں میراث یا ترکہ  کے تئیں انسان کو  وہ تحفظ حاصل نہیں ہے جو دین فطرت  نے پیش کیے ہیں..بلکہ  انسانی  قوانین   میں   تہذیبی  و تمدنی میراث  کے متعلق  کوئی ذکر  کجا کوئی  فکر و خیال ہی نہیں   ہے ...انفرادی میراث  یا ترکہ کے علاوہ  ایک اجتماعی  میراث  یا  قوم و ملت  کا ترکہ  یا من جملہ  گروہ  انسانی  کا ترکہ  بھی ہے ..جو بطور  تہذیب و تمدن و ثقافت ، آداب و اخلاق ،  علم و ہنر، تعلیم و تدریس و تربیت  ایک نسل اپنی  آنے والی نسل کے  لئے چھوڑ کر جاتی ہے ....اس لئے   انفرادی میراث کے ساتھ  اس اجتما عی  میراث کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے...تہذیب جدیدہ کی میراث پر قلم چلانے سے پہلے دین فطرت میں میراث کے احکامات  کے سامنے قلم کو خم کرنا ضروری ہے تاکہ میراث  کے احکامات میں جو حکمتیں ہیں ان سے  کچھ استفادہ کر لیا  جا ئے...

 دین فطرت میں میراث کے احکامات میں جو حکمتیں پوشیدہ ہیں ان کا نفاذ نہ کرنے کی سزا مہذب انسان بھگت رہا ہے...اور جو تہذیب جدیدہ کی حشر سامانیوں کی صورت دنیا میں انسان کو مل بھی  رہی ہے...... صرف ایک میراث کے احکامات کو نافذ کرکے موجودہ دور میں جاری حصول و لا حاصل کی جنگ پر قابو پایا جاسکتا تھا، لیکن مہذب انسان  مناسب قانون بنانے میں اس سے صرف نظر کرگیا.....دین حق میں میراث کی تعریف یہ ہے کہ میت کا ترکہ یا اسکی چھوڑی ہوئی تمام منقولہ، غیر منقولہ جائیداد اور نقدی جو قرض کی ادائیگی کے بعد باقی بچے اسے میراث کہتے ہیں....اور اس کا تمام حقداروں یعنی  بلا امتیاز مرد و زن،  قریبی رشتہ داروں ، مسکینوں  میں تقسیم کرنا فرض ہے...حقدار   خوشی خوشی اپنے حق سے دستبردار  ہوسکتا ہے ... اب یہ اور بات کہ مہذب انسان نے حقدار کی تعریف ہی بدل کر رکھ دی، میراث کے حقدار کو میراثی  بنا دیا ... اور اجارہ داری کے سامنے حقدار کا سر خم کردیا... اور جس کا شکار کم سن اور یتیم  و بے کس  کو اور خاصکر  صنف نازک کو  بنایا جاتا رہا ...بلآخر جو بغاوت کا باعث بن کر آزادئ نسواں اور اجارہ دار ئ نسواں کی صورت ظاہر ہوئی، جسکی  گردن  میں  پھر "ایمپاورمینٹ" نام کا انگریزی اسکارف بھی  ڈال دیا گیا.....جبکہ خالق حقیقی نے حقداروں کی مکمل فہرست مع تعریف کے جاری کردی تھی اور  ترکہ کے  حصے بھی مقرر کر دئے تھے  ...  اپنی آخری کتاب میں ازل سے ابد تک نظام حیات کے تمام پہلووں پر تو مختلف انداز سے روشنی ڈالی ہی تھی  ساتھ ساتھ میراث کے متعلق گرہ بھی  کھول کھول کر  پیش  کردی ...لیکن  اسی ایک اہم موضوع پر دنیا میں سب سے زیادہ احکامات کی خلاف ورزی ہوتی  چلی آئی.....خالق حقیقی کا اپنے بندوں پر بڑا کرم رہا ہے...  ورنہ  اسکے گناہ و ثواب اور حقوق العباد میں کوتاہیوں کا حساب بھی میراث کے احکامات میں گر شامل ہوتا تو میت کے علاوہ حقداروں کا بھی اللہ ہی حافظ ہوتا.....ویسے تو سب کا الله ہی حافظ ہوتا ہے....لیکن کمبخت بندہ شکر کہاں کرتا ہے.... اور اگر شکر کر بھی لے تو کیا ہوتا ہے......کب کسی سے ترا شکر ادا ہوتا ہے--.مہرباں تو ہی، سب پہ سدا ہوتا ہے.....اپنی  ہر سانس کا محتاج ہے،   بندہ تیرا--حق ترے شکر کا ، کب ا س سے ادا ہوتا ہے..... الغرض دین حق میں میراث کی تعریف اور اسکے گوشواروں اور حقداروں کے علاوہ مصارف کی ترتیب اور میت کی وصیت اور وصیت کے حقوق و فرائض بھی بتا دئے گئے....اور سنت نبوی سے اسکا نفاذ، اسکی اہمیت و افادیت اور حکمت بھی ثابت کر دی گئی... جس میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے اور شہید احد حضرت سعد بن ربیعہ کی بیوہ سے مستند روایات بھی ملتی ہیں ...اور بار دیگر خلفائے راشدین کے دور سے بھی اس کا مکمل نفاذ کر کے دکھا  دیا گیا  ہے.... اور یہ آیات و روایات احکامات کے مکمل  نفاذ کے لئے کافی ہیں..الغرض  مال و دولت جو نظام حیات کے اہم عناصر ہیں اس سے عورت کو مبرا نہ رکھا گیا ہے..اور وہ کارخانہ حیات میں اپنے جائز حقوق کی حقدار ہے ، بلکہ کارخانہ  حیات  کے چلانے میں  برابر کی  حقدار بھی  ... انفرادی میراث کے   معاملہ میں   کوتاہی برتنے پر آج معاشرہ بلکہ ساری دنیا میں حقوق غصب کیے جارہے ہیں اور انسانی قوانین بے دست و پا نظر آتے ہیں....دین میں  میراث کے من جملہ احکامات میں  نصیحتوں کا ایک سمندر پوشیدہ ہے جن میں، تجہیز و تکفین، میراث، وصیت، مال و دولت، نکاح ، حقوق نسواں ، خاندان اور معاشرے  میں توازن،   حرص  و طمع،    استحصال و استبداد اور  غصب   کے متعلق  بے شمار فرمان شامل ہیں... اور ان عناصر و عوامل کے زیر اثر آنے والے بے شمار عناصر وعوامل اور بھی ہیں جو کارخانہ حیات پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں... اور جسے مکمل طور پر سمجھنے کے لئے علم المیراث پر سند یافتہ  ماہرین اور علمائے  دین  کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے...لیکن مہذب انسان پھر وہ چاہے مسلم ہو یا کوئی اور ،  ان احکامات کے سوا ہر اس عمل پرذوق و شوق سے قائم ہے جو غیر ضروری اور ناجائز کے  درجہ میں  آتا ہے.....  میت کا مال غصب کر لیا جائے یا زندگی میں اسکے حقوق ادا نہ کیے جائیں لیکن مرنے کے بعد نئے نئے ڈھکوسلوں سے خود کو بہلایا اور دنیا کو پھسلایا جاتا ہے ...تدفین سے قبل  میت کے  قرض کا  تذکرہ  کرنا  یا میت کو اس عذاب سے بری  کرنا  معیوب سمجھا جاتا ہے، بلکہ   شاید خوفناک بھی  کہ کہیں  قرضداروں کا تانتا ہی نہ بندھ  جائے  اور فی الحقیقت  لینے کے دینے  نہ پڑجائیں . اور   پتہ نہیں  لوگ باگ اور رشتے دار   میت کو دی گئی پائی پائی  بلکہ پانی  پانی  کے جرعہ  کا  حساب  مانگنے لگیں  ... الغرض تہذیب  کی میراث کا موضوع بھی اتنا ہی اہم  ہے جتنا  انفرادی میراث کا... اور جومہذب انسان کی نظر سے  اب تک محو  ہے...جبکہ  الکتاب   تہذیب کی تشکیل  کے رموز و نقاط  سے  مزین کر دی گئی ہے ....

غور کیجیے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہماری پچھلی نسلوں نے اجتماعی طور پر جن جن اچھا ئیوں کی مثالیں قائم کیں تھیں وہ تہذیب جدیدہ کی حشر سامانیوں کی نذر ہوگئیں...اور اس کوتاہی  سے نہ ہی ہماری موجودہ  نسل اور نہ ہی آنے والی نسلیں   فرار حاصل کرسکتی ہیں  ....لیکن کم از کم اتنا تو ضرور کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ نسل اپنی کوتاہیوں کی فہرست جاری کردے تاکہ کوتاہیوں کا کچھ تو ازالہ ہو... اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حشر سامانیوں کو شرم آئے نہ آئے ہماری نسلوں کو ہی آجا ئے  کہ  بقول  علامہ  ..تو اے شرمندۂ ساحل  اچھل کر بیکراں ہوجا  ....یا آنے والی نسلوں کو بھی آسکتی ہے کہ ..یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیر ملت ہے ...یہی  قوت ہے جو صورت گرِ تقدیر ملت ہے ....الغرض تہذیب جدیدہ کی پروردہ نسلوں نے جہاں  علم و ہنر، غور و فکر، تحقیق و تدبر اور  عمل پیہم اپنی میراث میں   چھوڑا  ہے     ونہیں،  یقیں محکم، نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز اور محبت فاتح عالم کا غلط مطلب اخذ کر رکھا ہے...اور اسکی غلط مثال آنے والی نسلوں کے لئے رکھ چھوڑی ہے...انکے علاوہ تن آسانیاں، خودغرضی،  جھوٹی شان و شوکت،  حرص و طمع، بے راہروی، نا فرمانیاں، دین بیزاری جیسے عناصر تہذیب جدیدہ کی میراث میں داخل  کر لئے  گئے ہیں ....رزق حلال  کا شعور جاتا رہا ہے...... پرواز میں کوتاہی آرہی ہے ...موت کے خوف پر رزق کا خوف حاوی ہونے لگا ہے ...اب اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پانے کا یارا نہ رہا....ستاروں سے آگے جہاں کھوج  تولیا گیا لیکن انسانیت کو اپنے قدموں تلے روند دیا  گیا ہے .....مہذب انسان روز و شب میں یوں الجھے کہ اپنے پر ائے سب موبائیل  اور کمپیوٹر  تک سمٹ کر رہ  گئے....رشتوں کا پاس انکی اہمیت و افادیت سب جاتی رہی  ...اور  رشتہ  داری  کی اہمیت مشینوں  سے نکلنے والے  فضلے  سے بھی  کمتر ہوگئی ....خودی کو نہ علم سے محکم کرسکے اور نہ ہی عشق سے... اور رہا بیچارہ حسن تو  وہ   اشتہارات ، فنون لطیفہ اور صارفیت کے بازار میں کوڑیوں   کے دام بکنے لگا .... اب اس  خاکی نسل سے بہت کم   زندہ تر، پایندہ تر، تابندہ  تر نکلتے ہیں ...اب جبینیں  خاک پر رکھنے والے بھی اکسیر  گر نہیں رہے ....آدمی ابھی  تک  صید زبون شہر یاری ہے .... اسکی نظریں تہذیب  حاضر  کی چمک دمک سے خیرہ  ہیں  اور وہ حق کو  دیکھنے سے قاصر نظر آتا ہے ... ...اب ہر کوئی اپنا ایک الگ قافلہ لئے  نظر آتا ہے .. اور پھر بھی قافلے سے جدا.. .اب فتاوے  بھی بن مانگے ہی دئے جانے لگے ہیں....ایثار  و قربانی کے سارے گوشواروں  میں گر کچھ ہے تو صرف  ' میں ہی میں' ... نہ ہی نہایت حسین کے اسباق   اور نہ ہی ابتدائے اسماعیل کے یاد رہے ... درس قرآن سے منہ موڑ کر سب درس فرنگ کے ہورہے .....الله والے آج بھی پکارتے ہیں کہ ....اے بشر یاد کر  وہ بے بسی  جب تو.....بدولت رحم و رحماں  کے نمودار ہوا .... . الغرض تہذیب جدیدہ تکلفات و مکلفات کے سوا آنے والی نسلوں کو میراث میں اور کچھ نہ دے سکے گی.....پھر چاہے وہ تمدنی، علمی، ادبی، تجارتی، صنعتی، معاشرتی، ازدواجی میراث ہو یا عقاید پر مبنی تربیتی  ..ماں بہن بیٹیوں کے حقوق غصب کر لئے گئے ہیں ... جن سے معاشرے میں بیوہ اور مطلقہ، غیر شادی شدہ، بے بس معذور و مجبورخواتین کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ...اولاد تعلیم و روزگار کے میدان میں  سند لئے بے سمت خوف و ہراس میں دوڑ رہی ہے..ضعیف والدین کی زبان درد و الم سے خاموش ہوگئی  ہے .....آنکھیں خون رونے لگی ہیں .... بر سر روزگار اولاد کی بے مروتی دیکھی نہیں جاتی...مغرب کی اقتدا میں بہت کچھ  برا کر لیا  گیا،  ایک برا ئی  "اولڈز ہوم" بنا کر  بھی  کر دیتے تو  کیا برا تھا  ....ازدواجی زندگی میں عیش و آرام کو لے کر چیخ پکار ہونے لگی  ہے جو   اب تھمنے کا نام نہیں لیتی ..وفا شعاری  اور کفایت شعاری  اپنے معنی کھو تی جارہی ہیں ... اعتبار کا رشتہ ختم ہوتا جارہا ہے.. عہد و پیماں، وفا اور مروت جیسے الفاظ قصے کہانیوں کے ہو کر رہ گئے.. شادی اور طلاق  کی حیثیت   مغرب میں گر  "فاسٹ فوڈ" کی سی ہوگئی ہے   تو   مشرق میں  یہ  گڑے  گڑیوں  کا کھیل  بن گئی  ہیں  ....گھریلو تنازعات  حل کرنے کے لئے خاندان و معاشرہ میں  معتبر بزرگ نہیں رہے  یا   پھر نئی  نسل کو  انسانی قوانین کی فراہم کردہ  مراعات  راس  آگئیں......تہذیبی ارتقا  جوان نسلوں کو لے کر تیز رفتار ہواؤں کے دوش پر اڑنے لگی ہے ....اوراب  انہیں  گرنے کا خوف بھی نہیں رہا.....پچھلی نسلوں  نے کم از کم  میراث  میں  سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا تھا ... ایک چھت اور چار دیواری  رکھ  چھوڑی  تھی ...جس میں  اگر ہنسنے مسکرانے کے مواقع  نہ بھی  آئیں لیکن  انسان ضرورتا ً جی بھر کر  عزت سے رو سکتا تھا ...آنے والی نسلیں  اب  نہ ہی نئی  چھت   خرید سکتی ہے  اور نہ ہی  لپٹ کر رونے کے لئے  دیواریں ...انہوں نے تو ویسے بھی  خود کو  ایسی ضرورتوں سے مبرا کر رکھا ہے..اور نئی نئی  ضرروتیں  تلاش کر لی ہیں..جب زندگی  ہی ادھار کی  ہوگی تو     لوازمات زندگی کہاں نقد دے کر خریدے  جاسکتے ہیں ..  اور ترکہ میں  کیا مال و دولت اور کیا تہذیب  و تمدن  چھوڑ سکتے  ہیں ...ان بیچاروں  کی زندگی تو  تہذیب  جدیدہ  کی پیدا کردہ طویل  کشمکش  کی نذرہوگئی جس کا انہوں نے عارضی  آسائیشوں میں  حل تلاش کر لیا  ہے....موجودہ نسل ہی جب نفسا  نفسی اور افرا تفری  میں جی رہی ہے تو آنے والی نسلوں کو ترکہ میں کیا ملنا ہے ... آنے والے دنوں میں موت بھی ادھار کی ہوگی....مغرب میں تو اب میتیں ہفتہ واری تعطیل  کے دن   تدفین کے  انتظار میں رہتی  ہیں ..مشرق میں بھی   والدین کی اموات پر  اولاد  کاندھے دینے وقت پر  کہاں آپاتی  ہیں....والدین  بھی خاموشی سے بغیر شکا یت  مر جانا پسند کرتے ہیں.... کیونکہ انہوں نے  میراث  میں  مال و دولت  اگر نہ چھوڑا تو نہ سہی  لیکن توکل و قنا  عت کے اسباق بھی تو نہیں چھوڑے .. .مغرب کی اپنی تہذیب  ہے  اور انکے اپنے  اصول میراث .....وہ تو حقدار کو دنیا میں آنے  سے پہلے ہی  ختم کردیتے ہیں ، اور مشیت الہی  کے تحت  جو آجاتے ہیں    وہ  اپنی  دولت و جائیداد  پالتو  کتوں کے   لئے  یا حکومت  کے لئے چھوڑ جاتے ہیں ... یا  جوانی  میں کی گئی  نسل کشی کا ازالہ  کرنے بڑھا پے     میں   اپنا ترکہ  یتیموں اور محتاجوں کو دان کر جاتے ہیں ....مشرق میں   یہ سخاوتیں اب اتنی  عام نہیں ہوئی ہیں... اب رہی  فرمانبرادری تو اس  کا   ذکر ہی کیا  کہ وہ   جب   والدین کی  زندگی  میں ہی ناپید  ہوگی تو ترکہ  میں  کہاں شمار ہونگی.....نئی  نسلوں کو اب   اپنی آنے والی عمر کی فکر نہیں رہی، اب بزرگوں کو دیکھ کر انہیں خیال نہیں آتا کہ انکے   اپنے آگے کیا ہونا ہے،   اور کیا کچھ آنا ہے ..... ہر کوئی آج میں جینا چاہتا ہے..لیکن جب کل نمودار ہوتا ہے تو ہر کوئی ہونے والی  تہذیب  کی  میت پر اندر ہی اندر روتا ہے ....لیکن   مستقبل بعید  میں  نسلیں بڑھاپے میں رو بھی نہیں پائے گی...مغرب کی طرح  انسانی زندگی حکومتوں کی خیرات کی محتاج ہوگی.... سرمایہ داروں اور بھانڈوں کی سخاوتوں پر مریض و ضعیف افراد کی زندگیاں منحصر ہوکر رہ جائینگی ...طالب علم و اساتذہ تعلیم کے نور کو دیکھنے ترس جائینگے   .اورعلم  سے پھیلتی  تاریکی میں ایکدوسرے  کی شناخت  کھو بیٹھیں  گے  ....اعلی ظرفی، عزت و احترام ، تکریم و شفقت، شرم و حیا، خود داری و   غیرت و حمیت جیسے الفاظ لغات میں ڈھوندنے سے ملیں گے... یا شاید  تب  ادب بھی مروت نا آشنا ہو کر انہیں  اپنی فہرست  سے خارج کردے....الله تعالی اپنے بندوں پر رحم فرمائے اور موجودہ اور آنے والی  نسلوں کو  انفرادی و اجتماعی میراث  کے احکامات  پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرما ئے ....

******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1038