donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Hafeez Zafar
Title :
   Urdu Ka Jadeed Afsana Aakhir Hai Kya

اردو کا جدید افسانہ آخر ہے کیا

 

عبدالحفیظ ظفر

1960ء کی دہائی میں اُردو ادب میں غزل اور افسانے کو نئی جہتوں اور نئے زاویوں سے آشنا کرنے کے لیے ادیب اور شاعر میدان میں آ گئے۔ جدید غزل کی یہ تعریف کی گئی کہ غزل کو پہلے سے طے شدہ اور لگے بندھے ضابطوں اور مضامین سے آزاد کیا جائے۔ ایک طرف تو اس بات پر زور دیا گیا کہ غزل کا اسلوب تبدیل کیا جائے تو دوسری طرف ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی گئی جس کا نام تھا جدید طرزِ احساس، یعنی (Modren Sensibility)۔سوال یہ پید اہوتا ہے کہ آخر یہ جدید طرزِ احساس کیا ہے؟ اِس کی تعریف یوں کی گئی کہ وہ رویئے جو سماجی ،سیاسی، معاشی اور ثقافتی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، غزل میں اُن کی بھر پور عکاسی کی جائے۔ ویسے یہ نکتہ نظر ترقی پسند ادیبوں کا تھا۔ اُن کی رائے میں جو ادبی فن پارہ عصری صداقتوں کا امین نہ ہو اُسے مسترد کر دیا جائے۔ ادیبوں کے ایک گروہ نے الزام عائد کیا کہ یہ عناصر غزل کو سیاسی گزٹ بنانا چاہتے ہیں اور اس سے شاعر کی حیثیت ایک نعرے باز کی ہو جائے گی۔ بہرحال یہ بحث تو اب تک جاری ہے۔ اِسی طرح جدید نظم کا شور اٹھا اور پھر جدید افسانہ بھی وجود میں آیا۔ اُردو کے کلاسیک افسانہ نگاروں میں منشی پریم چند کا نام سرفہرست ہے۔ پریم چند جن کا اصلی نام دھنپت رائے تھا ،اُنھوںنے بڑے معرکتہ آلارا افسانے تخلیق کئے۔ ان کے اردو ناولوں کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ ان کے بعد سعادت حسن منٹو ، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، غلام عباس، احمد ندیم قاسمی ،انتظار حسین ،عصمت چغتائی اور خواجہ احمد عباس نے اُردو افسانہ نگاری میں اپنی الگ شناخت بنائی۔اِس کے بعد جب افسانے کا سورج طلوع ہوا توڈاکٹر انورسجاد ،رشید امجد ، سمیع آہوجہ، صغیر ملال ، احمد دائود، مظہر الاسلام اورواعظ حسن صدیقی نے اِس میدان میں اپنے نام کا ڈنکا بجایا۔ اِن افسانوں کو علامتی ،استعاراتی اور تجریدی افسانے کہا گیا۔ ڈاکٹرانور سجاد کے افسانوں کا مجموعہ ہی ’’استعارے‘‘ تھا۔ اُن کے شاہکار افسانوں میں ’’کونپل ‘‘ ’’کیکر‘‘ ،’’کارڈیک دمہ‘‘ اور ’’سنڈریلا‘‘ شامل ہیں۔ رشید امجد کے علامتی افسانوں کو بھی بے حد پذیرائی ملی۔ اُن کا سب سے بڑا کمال لسانی تشکیلات ہے اورانہوں نے کمال خوبصورتی سے سماجی اورسیاسی موضوعات کو اپنے منفرد اسلُوب سے مزین کیا۔ مظہر الاسلام اور احمد دائود نے بھی اعلیٰ درجے کے علامتی افسانے لکھے جو ہر لحاظ سے جدید طرز احساس کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ بعض نقاد حضرات تو سعادت حسن منٹو کی مشہور کتاب ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو بھی جدید افسانہ نگاری کی مثال قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اسے افسانوں نہیں بلکہ افسانچوں کی کتاب کہا جا سکتا ہے اور اِس میں جو کچھ بھی لکھا گیا ،وہ بیانیہ انداز میں لکھا گیا اور یہ سب براہِ راست ابلاغ کی تحریریں ہیں۔’’سیاہ حاشیے‘‘ کو راقم کی رائے میں تاثر یت سے بھر پور نثر پارے کہا جا سکتا ہے۔ اُردو افسانہ نگاری میں علامتی اور تجریدی افسانہ مغرب سے آیا۔ بھارت میں بلراج منیرا اور سریندر پرکاش نے اِس میدان میں بڑا کام کیا۔ اِسی طرح جدید اُردو افسانہ نگاری میں سُریلزم (Surrealism)کی تکنیک کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا گیا۔ انتظار حسین اور سمیع آہوجہ نے سریلزم کی تکنیک کو بڑی مہارت سے اپنے متعدد افسانوں میں استعمال کیا۔ انتظار حسین کے افسانے ’’آخری آدمی‘‘،’’کایا کلپ‘‘، ’’خواب اورتقدیر‘‘، اور سمیع آہوجہ کے افسانے ’’بائی می پلازا‘‘ ، ’’ٹڈی دل آسمان‘‘ اور کشکول بدن‘‘ اِس تکنیک کی بڑی شاندار مثالیں ہیں۔ سریلزم کی تکنیک سے مراد دراصل افسانہ نگار کا وہ اسلُوب نگارش ہے جس کی مدد سے وہ اپنے افسانے کو حقیقی منظر نامے سے شروع کرتا ہے اورپھر آہستہ آہستہ اِسے ایک خواب (Fantacy)کی شکل دے دیتا ہے۔ علامتی اور استعاراتی افسانوں کے مخالفین یہ دلیل دیتے ہیں کہ جب آپ کو ہر شے ایک ٹھوس حقیقت کی شکل میں نظر آ رہی ہے تو پھر آپ اُسے تجرید کی سطح پر کیوں دیکھتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ حقیقت کو حقیقت کی سطح پر دیکھیے۔ ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ آخری قاری کو اتنی مشکل میں کیوں ڈالا جائے۔ افسانہ نگار کو آسان اور سہل اسلوب میں اپنی تحریریں تخلیق کرنی چاہئیںجن کا براہ راست ابلاغ ہو۔ اس سلسلے میں جدید افسانہ نگار اور کئی افسانوی مجموعوں کے خالق سمیع آہوجا کا موقف ہے کہ اُن کا اسلوب نگارش مشکل اور پیچیدہ ہے اور میں نے ایسا شعوری طور پر کیا ہے ، کیونکہ میری رائے میں قاری کو بھی سمجھنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ یہ بہرحال اُن کا اپنا نکتہ نظر ہے۔ اِس ضمن میں ایک اور باکمال علامتی افسانہ نگار کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔ جن کا نام ہے منشا یاد۔ منشا یاد نے اپنے افسانوں میں جن علامتوں کو استعمال کیا ہے، انہیں سمجھنے کے لئے قاری کو کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لگتا یہی ہے کہ منشا یاد نے قاری کا بہت خیال رکھا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں ’’بند مٹھی میں جگنو‘‘ اور ’’خلا اندر خلا‘‘ کے تمام افسانے ان کے اسی اسلوب نگارش کے غماز ہیں۔ ’’کچی پکی قبریں‘‘ ،’’تماشا‘‘ اور ’’مارشل لاء سے مارشل لاء تک ‘‘ ان کے اعلیٰ ترین افسانے ہیں۔ رشید امجد کے اعلیٰ افسانوں کی تعداد کافی زیادہ ہے لیکن اگر ان کے صرف ایک ہی علامتی اور استعاراتی افسانے کا ذکر کرایا جائے تو کافی ہو گا۔ اس افسانے کا عنوان ہے ’’ڈوبتی پہچان‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ ’’ڈوبتی پہچان‘‘ رشید امجد کی پہچان ہے تو شاید یہ مبالغہ نہ ہو گا۔ اس سلسلے میں مظہر الاسلام نے کمال کیا ہے۔ انہوں نے زیادہ طویل افسانے نہیں لکھے بلکہ موضوع کے لحاظ سے اپنے افسانوں کے حجم کا بھی بہت خیال رکھا ہے۔ اس لحاظ سے وہ سعادت حسن منٹو کی اس بات پر عمل کرتے نظر آتے ہیں کہ افسانہ نگار کو لفظوں کی کفایت شعاری کا بھر پور خیال رکھنا چاہئے۔ ان کے افسانوں میں سماجی، معاشی اور سیاسی جبر کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ پسے ہوئے طبقات کی محرومیاں اور ان کے خوف ہراس کی داستانوں کو جس مہارت سے انہوں نے علامتوں کا لباس پہنایا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ اگر دیانت داری سے کام لیا جائے تو اردو کے پہلے جدید افسانہ نگار سعادت حسن منٹو ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے دو افسانوں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ ایک کا نام ہے ’’پھندنے‘‘ اور دوسرے کا نام ہے ’’فرشتہ‘‘ اس کے بعد پھر دیگر افسانہ نگاروں کا نام آتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جدید افسانہ بس وہی ہے جس میں موضوعات کے تنوع کو جدید اسلوب کا لباس پہنا دیا جائے، اس حوالے سے اس پر مزید بحث کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہاں موضوعات کے تنوع سے ہرگز یہ مراد نہ لی جائے کہ ان موضوعات کو کسی خاص سیاسی مکتبہ فکر کے دائرے کے اندر ہی ہونا چاہئے بلکہ اس کا مطلب موضوعات کے انتخاب کی مکمل آزادی ہے۔ وہ نوجوان جو جدید افسانے کے میدان میں خامہ فرسائی کر رہے ہیں، انہیں ان تمام عوامل کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ ٭…٭…٭

*****************************
Comments


Login

You are Visitor Number : 1170