donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ayesha Sultana
Title :
   Beech Ka Aadmi

 

بیچ کا آد می 
 
 عائشہ سلطانہ 
 
علی امام نے بھی فسادات کے موضوع پر افسانے لکھے ہیں ۔انہوں نے سنہ 1970الخ سے 1981الخ تک کے درمیانی عرصے میں رونما ہونے والے فسادات کی من و عن تصویر پیش کی ہے۔  جس میں انہوں نے سماجی اور سیاسی حالات کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایاہے۔اس ضمن میںان کا افسانہ ’’بیچ کا آدمی‘‘ قابل ذکر ہے ۔اس میں انہوں نے رونما ہونے والے فسادات کے سماجی و سیاسی نیز اقتصادی اسباب و حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔
اس افسانے میں علی امام نے فسادات کا ذکر کرتے ہوئے نہایت خوبصورتی سے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ فسادات او ر ہنگاموں میں ان لوگوں کا زیادہ ہاتھ ہوتا ہے جو مفاد پرست ہوتے ہیں یا پھر وہ سیاسی لوگ ہوتے ہیں۔جو اپنے مالی نقصان کی وجہ سے اس شخص کو مارتے ہیں اور جب وہ ان کی زدوکوب کو برداشت نہ کرتے ہوئے مرجاتا ہے تو اس کی موت کو کوئی اور رنگ دے دیتے ہیں تاکہ اس کی موت کا الزام ان کے سر نہ آئے اور اسے نیا رُخ دے کر لوگوں کو آپس میںلڑادیتے ہیں اور خود محفوظ اور محظوظ ہوتے ہیں ۔گویا اپنی ذاتی دشمنیوں کا بدلہ لے لینے کے بعد اسے مار پیٹ کر دوسرا رخ دے دیتے ہیںاور وہ دوسرا رخ’’فرقہ وارانہ فساد ‘‘ ہے جو آج کل سیاسی کارکنوں کے لئے بیش قیمت حربہ ثابت ہوتا ہے ۔اس افسانے میں یہیچیز واقعاتی انداز میں پیش کی گئی ہے ۔
 
اس میں علی امام نے اس شخص کے خیالات اور ان سے رونما ہونے والے حالات کو پیش کیاہے جو اس کی موت اور فساد کا باعث بنے ہیں ۔افسانے کا ’’وہ‘‘ (اہم کردار )روزروز کے ان ہنگاموں سے تنگ آگیا ہے جوہندئوں او رمسلمانوں کے بیچ روز بروز پھیلتے جارہے ہیں او ران ہنگاموں سے نجات پانے کے لئے وہ ہندوئوں کی دکانوں اور گھروں میں آگ لگا دیتا ہے ۔اس لئے کہ وہ خود ہندو ہے لیکن وہ اس تعصب سے بری ہے اور چاہتا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ فسادات بند ہوجائیں۔
 
رات اندھیری ہے اور اس کا اپنا داہنا ہاتھ بھی دکھائی نہیں پڑ رہا ہے ۔اس نے اپنے ہاتھ میں مٹی کا تیل کا بھرا ہوا کنستر لے رکھا ہے اور ہر سوکھی ہوئی چیز پر تیل ڈال رہا ہے ۔وہ ہر گوشے اور ہر حصے میں مٹی کا تیل چھڑک چکا ہے ۔صرف گیتا کے بوسیدہ مکان کو اس نے مائنس کر دیا ہے اور وہ اب اپنی بنائی ہوئی مشعل کو مٹی کے تیل میں ڈبودیتا ہے ۔لاٹر پر اس کی انگلیاں پھسلتی ہیں۔مشعل شعلہ اسور ہواٹھتی ہے وہ مشعل کو اپنے بنائے ہوئے ٹریک میں لے کر کود جاتا ہے کہ عظیم کھیل کا افتتاح اس طرح ہوتا ہے ۔وہ مشعل سے ان تمام جگہوں پر ٹچ کرتا جاتا ہے جس کو اس نے پہلے سے نشانہ بنایا تھا ۔وہ بالکل عربی گھوڑے کی طرح چھلانگ لگاتا ہوا اپنا کام کر گذرا ۔گائوں میںایک ہلچل مچ گئی ۔خوف اور دہشت بگل بجانے لگی لوگ اپنی اپنی خان لے کر اپنے گھروں میں بھاگ رہے ہیں ۔
 
لیکن اس آگ کی لپیٹ میں خود اس کے پڑوسی ’’گیتا اور اس کا باپ ‘‘ (جنہیں اس نے مائنس کردیاتھا)بھی آجاتے ہیں اور وہ ان کو بچانے کے خاطر اس جلتی ہوئی آگ میں چلاجاتا ہے ۔جب وہ گیتا کو لئے ہوئے واپس آتاہے تو دونوں بہت جل چکے ہوتے ہیں ۔اور گیتا دم توڑ چکی ہے ۔لوگوں کا ہجوم جس میں اس کی ماں بھی کھڑی ہے اسے اس حالت میں ریکھ کر پریشان ہوجاتی ہے ۔
 
کچھ دیر بعد وہ جلا بھنا ہوا آگ سے باہرنکلا ۔گیتا اس کے بازو سے بندھی ہوئی تھی۔آگ سے نکل کر وہ بالکل ایک جیسے معلوم پڑ رہے تھے ۔گیتا بری طرح جل چکی تھی ۔وہ چند لمحے بعد اس کے بازو میں کسی کسی ہوئی ڈھیلی ہوگئی وہ چیخنے لگا نہیں ماں ۔نہیں گیتا۔
 
حالانکہ اس نے گیتا کو بچانے کی حتی الامکان کوشش کی تاہم اس کے ایثار کو کوئی نہیں سراہتا او روہ لوگ اس کے ہاتھ پائوں باندھ دیتے ہیں ۔اس گائوں کا مکھیا جب اس سے باز پرس کرتا ہے تو وہ اعتراف کرتا ہے آگ اسی نے لگائی اس کے لئے کوئی اور ذمہ دار نہیں۔
 
مکھیا جی اپنی کرسی پر بیٹھے چیخ رہے ہیں ۔آگ تونے لگائی ۔
ہاں مکھیا جی آگ میں نے لگائی ہے۔صرف میں نے لگائی ہے ۔کسی دوسرے کو اس میں شامل مت کیجئے گااور یہ مت پوچھئے کہ آگ میں نے کیوں لگائی ۔
 
مکھیاجی اس کے اس اقرار سے تلملا اٹھے ہیں اور انہوںنے حکم دیا کہ اسے سوکوڑے لگائی جائے اس حکم کے پیچھے بظاہر تو یہ ہمدردی نظر آتی ہے کہ اس کے اس اقدام سے پانچ سومکانات جل گئے ہیں اور دو جانیں ضائع ہوئی ہیں ۔لیکن درپردہ انتقامی جذبہ کارفرما ہے کیونکہ ا س آگ کی وجہ سے ان کی قیمتی بندوق کا کندہ جل گیا ہے ۔ابھی اس شخص کے سوکوڑے ختم بھی نہیں ہوئے تھے کہ کسی آدمی نے آکر ان کے کان میں کچھ کہا او روہ اپنی کرسی پر سرپنچ کو بٹھاکر چلے گئے ۔انہوںنے بھی اسے سوکوڑے لگانے کے لئے ایک شخص کو کہا۔کیونکہ اس کی لگائی ہوئی آگ سے ان کا شدید نقصان ہوا تھا۔
۔۔۔۔اب سرپنچ صاحب کرسی پر براجمان ہیں۔ان کا کوئی غصہ اس بات کا ہے کہ انہوںنے جو ووٹر لسٹ کی تیاری ماسٹر صاحب کی مدد سے کروائی تھی اور جس میں انہوںنے اپنے کتے بکری ،گھوڑا ، بلی اور مرغی کا پکارو نام درج کروایا تھا وہ سرکاری تحویل میں پہنچے سے پہلے ہی جل گئی چنانچہ سرپنچ چیخ اٹھتے ہیں کہ اب میں کرسی پر ہوں او رمیرا فیصلہ ہے کہ میری طرف سے سو بید لگائے جائیں۔
 
اور ذاتی مفاد کی خاطر ان مفاد پرستوں نے اس شخص کے خوف کی ہولی کھیل کر اپنے جذبات کی تسکین کی ۔ابھی سرپنچ کے سوکوڑے پورے ہی ہوئے تھے کہ وہ بھی کسی شخص کے کان میں کچھ کہنے پر وہاں سے اٹھ کر چل دئے او راپنی جگہ پر اول نمبر کے ممبر کو بٹھادیا۔اس شخص نے ’’چین سے سو چین ‘‘ مارنے کا حکم دیا۔ابھی اسے چین سے پیٹا ہی جارہاہ تھا کہ مکھیا اور سرپنچ دوڑتے ہوئے اور چلاتے ہوئے واپس آئے کہ اسے چھوڑ دو لیکن اول نمبر کا آدمی چین لے کر خود مارتا ہی جارہا ہے کہ مکھیا اور سرپنچ اسے ایک طرف دھکا دے کر ہٹاتے ہیں ۔پھر بھی اب بہت دیر ہوچکی ہے اور وہ شخص مرچکا ہے او راس کی ماں اس کی مردہ لہو لہان جسم سے چمٹی ہوئی ہے ۔تب اس کے مردہ جسم پر احتراماً جلے ہوئے مکانات کی مٹی ڈالی جارہی ہے ۔
 
افسانے کا اختتام یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ اس شخص کی موت کو کوئی اور رنگ یعنی فرقہ واریت کا رنگ دیاجانے والا ہے کہ اس کی موت اس کے ہم مذہبوں کے ہاتھ سے نہیں ہوئی ہے بلکہ اسے مارا گیا ہے اور وہ دوسرے مذہب کی قوم کے ہاتھوں شہید ہوا ہے ۔کیونکہ وہی لوگ جنہوںنے اسے مارا ہے وہ اس کے مردہ جسم پر احتراماً راکھ ڈال رہے ہیں ۔یہ عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کی موت ان کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ دوسرے مذہب کے لوگوں کی وجہ سے ہوئی ہے ۔جنہوں نے آگ لگائی ہے ۔(جب کہ آگ بھی اسی مرنے والے شخص نے لگائی تھی)او راب اس کی موت کا انتقام وہ ان کے گھر جلاکر لیں گے۔کسی کے کان میں کچھ کہنے پر مکھیا اور سرپنچ کا اٹھ کر جانا ،تھوڑی دیر بعد واپس آکر اس کی موت کا افسوس کرنا اور اس کے مردہ جسم پر احتراماً جلے ہوئے مکانات کی راکھ ڈالنا یہ سب اس سیاسی صورت حال کو پیش کرتا ہے جو فسادات کا سبب بنتے ہیں۔
 
آخری واقعہ کے بعد کا واقعہ گائوں کے لوگ اپنے جلے ہوئے مکانات کی راکھ اٹھاکر اس کے مردہ جسم پر احتراماً ڈال گئے ہیں ۔عورتوں نے اس کی ماں کو اس کے گھر تک پہنچا دیا ہے ۔وہ جلے ہوئے مکانات کی راکھ کے ڈھیر سے تلے سوچکا ہے سناگیا ہے جب کبھی ہریالی پر کسی قسم کی آنچ آتی ہے تو اس کے اوپر کی راکھ کا ڈھیر مفید ثابت ہوتا ہے ۔
علی امام نے حقیقت نگاری کو اپنا کر فساداور اس سے رونما ہونے والے سیاسی حالات کو پیش کیا ہے اور فسادات کے جو حقیقی اسباب ہوتے ہیں ان پر روشنی ڈالی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
بیچ کا آدمی 
وہ کیاکچھ کرنا نہیں چاہتا تھا، مگر اب وہ صرف ایک ہی بات کرنا چاہتا ہے اور روز روز کے حادثے اسے ایسا کرنے کے لئے تقویت بھی عطا کر تے ہیں۔
اگر اس کے لئے کوئی شک و شبہہ کی چیز ہے تو وہ گیتا ہے ،جو اپنے کینسر زردہ باپ کے جمدان میں بند رہتی ہے ۔
وہ جیسے ہی گیس لائٹر سے اپنی انگلیاں مس کرنا چاہتا ہے ، گیتا کے پتے آندھی کے جھکڑسے پھڑ پھڑا نے لگتے ہیں اور اس بیچارے کی انگلیاں بے جان ہو اٹھتی ہیں۔
واقعہ نمبر 1: اس گائوں کے سورج ونشی اور چندر ونشی گھرانوں کے چند اصحاب پیشاب چاندی کے ڈھیر پر کرتے ہیں اورپاخانہ سونے کے برتن میں-ہیرے جواہرات کے اندھے سوداگر ہیں یعنی وہ لوگ جہاں تک دیکھ پاتے ہیں وہاں تک بس موتی مونگا اور نیلم ہی نظر آتے ہیں۔اپنے دنش کے علاوہ سارے لوگ رلو ، گدھا، ٹماٹر ، بیگن کی صورت دکھائی پڑتے ہیں۔
واقعہ نمبر 2: اس گائوں کی اکثریت مٹی پسند ہے -مٹی کھانا ، مٹی پہننا اور آسمان اوڑھنا-
چاند اور سورج کی پرستش کرنا -بم بم بھولے شنکر کا سنکھ بجانا اور خوب ناچنا گانا-جیون کی صرف ایک علامت -بھوک -کو اولیت دینا۔
واقعہ نمبر 3۔وہ بیچارا بیچ کا ا ٓدمی ہے اور گائوں میں اپنے اندر کی کائنات کا پرتو دیکھ نہیں پاتا ہے تو اس کے اندر بہت ہلچل مچتی ہے ۔اس کے اندر کی کائنات روز بروز ٹوٹ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوتی جارہی ہے ۔وہ گائوں کی چہل پہل میں بھی خود کو بالکل تنہا، بالکل الگ اور کھڑا ہوا محسوس کرتا ہے -او رایک مدت سے اس زندگی کو بھوگ رہا ہے-گیتا کا لمس اس کے لئے مقدم ہے کیونکہ گیتا جو ان تو ضرور ہے لیکن چیچک زدہ بالکل کالی اور ہونٹ پھولے پھولے بالکل بھدے-اکیلی ، باپ کوئی دوماہ کا مہمان ہے ۔وہ باپ کے سرہانے بیٹھ کر صرف باپ کو سوچتی ہے ، اپنے آپ کو بالکل نہیں ، کیونکہ اس کااپنا آپ تو صرف اس کا باپ ہے ۔
واقعہ نمبر 4۔اس کے ادر بڑی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی اور اس بے چینی میں اس نے گائوں کی پچھمی جانب پیال کی مچان سے اپنے گیس لائٹر کو ٹچ کردیا۔آگ کی لپٹوں نے مچان کو آناً فاناً اپنے حصار میں لے لیا۔اطراف متاثر ہونے ہی والے تھے کہ کئی طرف سے چٹاک چٹاک پان کی پیک گری اور آگ بجھ گئی۔
واقعہ نمبر 5: اس کو عظیم شرمندگی سے دوچار ہونا پڑا ۔گوشرمندگی اس کے جیسے لوگوں کے لئے ہی پیدا ہوئی ہے ۔وہ کئی ماہ تک اپنے گھر کے سیلن زدہ کمرے میںبند رہا ۔بیوہ ماںاکثر اپنے آنچل سے ہوا دے جاتی تو وہ سکون کی چند گھڑیاں سولیتا ورنہ وہ خود کی شناخت میں مضطرب رہا کرتا ہے ،اپنے اندر کی کائنات کو ترتیب دیتا اپنی آزادی کا مفہوم تلاش کرتا ۔مگر ہر چیز ہوچ پوچ نظر آتی۔ایک طرف سمیٹتاتو دوسری طرف ادھڑ جانا اور دوسری طرف سمیٹتا تو پھر تیسری طرف ......
غرض نئے نئے گوشے کھلتے رہے اور اس کے بے چینیاں بڑھتی رہیں-
کبھی کبھی تو وہ یہ بھی بھول جاتا کہ آخر تلاش کیا کرنا چاہتا ہے اور کبھی کبھی اس بات پر تعجب کرتا کہ وہ سانسوں کی کمزور دوڑ پریہاں تک کیسے پہنچ آیا ہے ۔کبھی بالکل بے سود غیر متاثر حالت میں پڑا رہتا ۔
واقعہ نمبر 6:آج وہ بہت منظم نظر آرہا ہے ۔اپنے کمرے سے باہر نکل آیاہے اور ہر علاقے ہر گلی اور ہر موڑ کا جائزہ لے رہا ہے ۔رات اندھیری ہے اس کا اپنا ہاتھ بھی دکھائی نہیں پڑ رہا ہے ۔اس نے اپنے ہاتھ میں مٹی کا تیل کا ایک بھرا ہوا کنستر لے رکھا ہے اورہر سوکھی ہوئی چیز پر تیل ڈال رہا ہے ۔وہ ہر گوشے اور ہر حصے میں مٹی کا تیل چھڑک چکا ہے ۔صرف گیتا کے بوسیدہ مکان کو اس نے مائنس کر دیا ہے ۔اب وہ اپنی بنائی ہوئی مشعل کو مٹی کے تیل میں ڈبودیتا ہے ۔لائٹر پر اس کی انگلیاں پھیلتی ہیں ۔مشعل شعلہ آور ہوا ٹھتی ہے ۔وہ مشعل کو اپنے بنائے ہوئے ٹریک میں لے کر کود جاتا ہے کہ عظیم کھیل کا افتتاح شاید اسی طرح ہوتا ہے ۔وہ مشعل سے ان تمام جگہوں پرٹچ کرتا جارہا ہے ،جس کو اس نے پہلے سے نشانہ بنایا تھا ۔وہ بالکل عربی گھوڑے کی طرح چھلانگ لگاتا ہوا اپنا کام کر گذرا ۔گائوں میں ایک ہلچل مچ گئی ۔خوف اور دہشت بگل بجانے لگی ۔لوگ اپنی اپنی جان لے کر اپنے گھروں سے بھاگ رہے ہیں۔
 
افراتفری زندگی کا تعاقب کر رہی ہے ۔وہ گیتا کو چاروں طرف تلاش کر رہا ہے ۔گیتا اپنے گھر میں نہیں ہے ۔گیتا ادھر ادھر کہیں نظر نہیں آتی ۔پوچھ تاچھ پر معلوم ہوتا ہے کہ گیتا او راس کا باپ اس طرف جاتے ہوئے دکھائی پڑے ہیں جس طرف اشارہ کیاگیا۔ادھر سمنٹ بالو اور لوہے پلائے ہوئے مکانات تھے۔آگ آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔وہ اس طرف دوڑ پڑا۔آگ میں کود گیا۔لوگ حیران تھے ، سب لوگ اپنی اپنی جان بچانا چاہتے تھے ۔مگر وہ جس کے اندر کی کائنات بکھر چکی ہے اب اس کے اندر ایک سجاوٹ سی معلوم پڑرہی ہے ،کچھ دیر بعد وہ جلابھنا ہوا آگ سے باہر نکلا۔گیتا اس کے بازو سے بندھی ہوئی تھی ، آگ سے نکل کر گیتا اور وہ بالکل ایک جیسے معلوم پڑ رہے تھے ۔گیتا بری طرح جل چکی تھی ۔وہ چند لمحے بعد اس کے بازو میں کسی کسی ہوئی ڈھیلی ہوگئی ۔وہ چیخنے لگا۔نہیںماں۔نہیں گیتا ۔تمہیں ثبوت کے طور پر زندہ رہنا چاہئے تھا-میں تو اس گائوں کو تباہ کرنا چاہتا تھا ۔مگر یہ کیاہوگیا، ایسا نہیں ہونا چائے تھا۔مگر اکثر جو نہیں ہوناچاہئے وہی ہمارے ساتھ ہوتا ہے ، کیونکہ ہم تو اپنے اندر ایک دنیار کھتے ہیں ۔جہاں تفریق کا چراغ جلنے نہیں دیاجاتا ہے۔
 
واقعہ نمبر 7: گائوں کے لوگوں نے اس کے ہاتھ پائوں باندھ دیئے ہیں اورزمین پر اسے پٹک دیاہے۔مکھیا جی اپنی کرسی پر بیٹھے چیخ رہے ہیں ۔آگ تونے لگائی -ہاں مکھیا جی آگ میں نے لگائی ہے ۔صرف میں نے لگائی ہے ۔کسی دوسرے کو اس میں شامل مت کیجئے گا-اور یہ مت پوچھیے کہ آگ میں نے کیوں لگائی -میرے جسم پر جوآبلے ہیں ،میرے چہرے پر جو کالک ہے وہ اگرکچھ آپ سے کہہ رہی ہے تو اس کی بات سن لیجئے مجھے سے مت پوچھیے صرف یہ جان لیجئے کہ آگ میںنے لگائی ہے -اپنی ماں کی قسم -گیتا کی قسم اپنی بستی اور مٹی کی قسم -آگ میں نے لگائی ہے -مکھیاجی کا حکم ہوا سالے کو سوکوڑے لگائے جائیں -پنچو!تمہاری کیارائے ہے ؟ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں مکھیا جی مگر اس میں تھوڑا سا جوڑ لیجئے کہ پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیاجائے گا۔پانچ سو مکانات جل کر راکھ ہوگئے یں اور دوجانیں اس کی وجہ سے گئی ہیں او راس پر فلسفہ بگھاررہا ہے ۔اس کے جسم پر کوڑے برسنے لگے وہ کراہتا ہوا بھی مسکرانے کی جدوجہد کررہا ہے ،جیسے کسی عظیم فتح کا اعلان کرنا چاہتا ہے ۔
 
مکھیاجی چیخ رہے ہیں ، مارے جائو بالکل رکو مت -ان کو اس بات کا غصہ ہے کہ ان کی قیمتی بندوق کا کندہ جل گیا ہے -چنانچہ وہ چیخ رہے ہیں مارے جائو...اس کی بیوہ ماں مچھلی کی طرح زمین پر تڑپ رہی ہے ۔حالانکہ چھٹک کر بھی ایک کوڑا اس پر نہیں پڑا ہے -مکھیا جی مونچھ پر تائو پھیر رہے ہیں۔کہ کسی نے ان کے کان میںکچھ کہا اور وہ بھاگتے ہوئے اپنی حویلی کی طرف چل پڑے ۔اب سرپنچ صاحب کرسی پر براجمان ہیں ان کو غصہ اس بات کا ہے کہ انہوںنے جو ووٹرلسٹ کی تیاری ماسٹر صاحب کی مدد سے کروائی تھی اور جس میںانہوںنے اپنے کتے ،بکری ،گھوڑا ،بلی اور مرغا ،مرغی کا پکارو نام درج کروایا تھا۔وہ سرکاری تحویل میںپہنچنے سے پہلے ہی جل گئی -چنانچہ سرپنچ صاحب چیخ اٹھتے ہیں کہ اب میں کرسی پر ہوں اور میرا فیصلہ ہے کہ میری طرف سے سو بید لگائے جائیں ۔پہلے جو کچھ ہوا وہ مکھیا جی کا تھا۔
سٹ سٹ بیدیں پڑنے لگیں -چمڑیاں ادھڑ گئیں -خون کا فوارہ دور دور تک پھیلتا رہا۔گائوں کے لوگ اس کے خون سے سیراب ہوتے رہے ۔جگہ جگہ سے اس کی ہڈیاں ٹوٹ رہی ہیں ۔آنکھیں باہر کی طرف نکلی چلی آرہی ہیں -زبان دھرتی پھر پھیل چکی ہے ۔مگر سرپنچ صاحب چیخ رہے ہیں مارے جائو ۔کہ اسی وقت ان کے کان میںکوئی کچھ آکر کہتا ہے اور وہ اول نمبر کے ممبر کو کرسی پر بٹھاکر بھاگ جاتے ہیں ۔یہ اول نمب رکا آدمی چلاتا ہے او راپنی کمر سے سائیکل کی چین نکال کر براہل جی کو دیتا ہے -اس چین سے سوچین سالے کو اُلٹ پلٹ کر مارو۔جیسے چق گوشت کو الٹ پلٹ کر قیمہ بناتا ہے ۔ان کو صدمہ اس بات کا ہے کہ پچاسوں گانجے کی ٹوکری اور زمین دوز نوٹوں کی چھپائی کا کارخانہ اس سالے کی وجہ سے جل کر بھسم ہوگیا۔مارے جائو بالکل روکو مت ۔لیکن اس کے زخمی ہونٹ اب بھی پتہ نہیں کس فتح کے اعلان کے لیے مسکرانا چاہتے ہیں۔
 
آخری واقعہ : مکھیا جی اور سرپنچ صاحب دونوں اپنی اپنی آتش زدہ حویلی کی طرف سے بے تحاشہ دوڑے چلے آرہے ہیں اور چیخ رہے ہیں ۔چھوڑدو چھوڑ دو -ادھر اول نمبر کا آدمی براہل سے چین چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے او ربے تحاشا اس کے جسم پر وار کیے جارہا ہے۔اس کی ماں عورتوں کے گروہ کو توڑ کر باہر آچکی ہے ۔اپنے لال کے جسم کے ٹکڑے سے لپٹ لپٹ کر اپنی پیاسبجھارہی ہے ۔مکھیا جی اور سرپنچ بے تحاشہ چیختے ہوئے اول نمبر کے ممبر کو دھکا دے کر ہٹاتے ہیں -چھوڑدو ۔مگر وہ تو دھرتی کو اپنے دونوں ٹوٹے ہوئے بازوئوں سے جکڑے ہوئے ہے اور اس کی ماںاپنے لال کے سرخ سرخ خون سے اپنے چہرے کو رنگ رہی ہے ۔
 
آخری واقعہ کے بعد کا واقعہ :گائوں کے لوگ اپنے جلے ہوئے مکانات کی راکھ اٹھاکر اس کے مردہ جسم پر احتراماً ڈال گئے ہیں ۔عورتوں نے اس کی ماں کو اسکے گھرتک پہنچا دیا ہے ۔وہ جلے ہوئے مکانات کی راکھ کے ڈھیر تلے سوچکا ہے ۔
سناگیا ہے جب کبھی ہریالی پرکسی قسم کی آنچ آتی ہے تو اس کے اوپر کی راکھ کا ڈھیر مفید ثابت ہوتا ہے ۔
 
 
********************
 
 
نام : علی امام 
یوم    پیدائش :   20دسمبر 1947
مقام آبائو اجداد  : مسیاں ۔بند بلاک ۔بہار شریف ،نالندہ 
جائے پرورش طفلی   : دسنہ ۔استھانواں بلاک ،بہار شریف 
رہائش : بڑی درگاہ بہار شریف ،فی الحال سبزی باغ ،پٹنہ 
والدین : مرحوم سید عبدانوحید و بی بی رسول باندی
بردران   :   مرحوم سید غلامصطفیٰ ،مرحوم سید فاروق اعظم و ڈاکٹر سید نثار مصطفیٰ
بہنیں  :   مرحومہ بی بی نور جہاں زوجہ مولانا سی دکاظم و سلطانہ رضیہ زوجہ سید اسلم الدین
شریک حیات : سعیدہ فردوسی بنت سید شاہ نور الدین احمد فردوسی 
اولاد : سارہ زوجہ سید اقبال حیدر ،یا سرعلی وحید وسعدیہ 
تعلیم : سوشل سائنس میں ڈاکٹریٹ 
ملازمت :   پرنسپل ۔ڈسٹرکٹ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ ،پٹنہ 
رکن : مرکزی حکومت ،بی آر سی ،شعبہ تعلیم میں کنسٹلئنٹ ۔این سی ٹی آئی بھونیشور نے نامزد کیا
ادبی زندگی کا آغاز:
1968میں ’’بزم خلیل پٹنہ ‘‘ کے زیراہتمام شائع رسالہ ’’صدآہنگ ‘‘ سے جس میںمیری پہلی کہانی ’’پرانے کمرے میں تنہا آدمی ‘‘چھپی ۔اس میں رضوان احمد ،عبید قمر اور شوکت حیات شامل تھے ۔
قدر شناس :
٭میری ادبی زندگی کی ابتدا میں یا’’بہار آہنگ ،گیا‘‘ نے میری کہانیوں کے سلسلے سے خصوصی مطالعہ شائع کیا(شمارہ ’’14‘‘۔1971)
٭ بہار اردو اکادمی نے میرے افسانوی مجموعہ ’’نہیں ‘‘ اور’’مت بھید‘‘ پر باری باری سے اوارڈ دیا
٭درس و تدریس اور تحقیق کے میدان میں خدمات
تصانیت :
٭افسانوی مجموعہ ’’نہیں ‘‘(2985
٭افسانوی مجموعہ ’’مت بھید ‘‘(1995)
٭چند تنقیدی مضامین 
٭ سوشل سائنس کے موضوع پر تحقیق (کتابی شکل)
٭بہار میں مسلم بچوں کی تعلیمی صورت حال (کتابی شکل)
رابطہ :علی امام ، اکبرہائوس ۔دریاپور روڈ، سبزی باغ۔پٹنہ 800004(ہندستان)
9835293066, 0612-2302114
Email: aliimam.imam@gmail.com
+++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 925