donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Qurratul Ain Haider : Urdu afsane Ki Mohtaram Khatoon


قرۃ العین حیدر :اردو افسانے کی محترم خاتون


احسان عالم

ریسرچ اسکالر

(اردو)

ایل۔این۔ایم۔یو، دربھنگہ


    قرۃ العین حیدر کی پیدائش ۲۰؍ جنوری ۱۹۲۷ء کو علی گڑھ میں ہوئی۔ صرف گیارہ برس کی عمر میں انہوں نے لکھنا شروع کردیا۔ کم و بیش ساٹھ برسوں تک اروو ادب کی خدمت کرتی رہیں۔ ان کے یہاں آپ بیتی سے لے کر جگ بیتی، تاریخ اور تاریخ علوم انسانی، ہندوستان، پاکستان، ایران، وسطی ایشیا اور یوروپ کی تہذیبی معاشرتی زندگی کی بہت سی حقیقتوں اور انسانی رشتوں کی نفسیاتی الجھنوں اور پیچیدگیوں کا اظہار اور شعور اور لاشعور کی رو کی کامیاب اور خوبصورت آمیزش ہے۔انہوں نے ایک ایسے خاندان، ماحول اور فضا میں پرورش پائی تھی جو زیادہ تر لوگوں کے لئے اجنبی ہے پھر جاگیردارانہ سماج کے اس طبقے کی زندگی کو بیان کرنے کے لئے انہوں نے خود کو مغربیت میں ڈھال لیا تھا۔ انہوں نے بیان کرنے کا جو ادبی اسلوب اختیار کیا وہ مغرب ہی کا وضع کیا ہوا ہے۔ علامتوں سے پر، معنی کی کئی سطحوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے، لیکن یہ طرز تحریر ان کی تخلیقی قوت کے علاوہ مطالعے اورمشاہدے کی وسعت اور تنقیدی بصیرت کی بھی رہین منت ہے۔ اس کے بغیر تاریخ کے کئی عہد کو اپنے فن میں سمیٹ لینا ممکن نہ تھا۔ ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی فرماتے ہیں:

’’قرۃ العین حیدر کا ذہن انتہائی تیز، یادداشت مضبوط، تخیلات بلند اور طرز اسلوب جداگانہ ہے ۔ وہ اپنے دور کے ہندوستان کی شاید سب سے جینئس خاتون ادیب رہی ہیں۔ انہوں نے اردو افسانہ نگاری، ناول نویسی، رپورتاژ اور ترجمہ نگاری میں نمایاں خدمات انجام دے کر اردو زبان و ادب کے علمی ادبی سرمائے میں جو بیش بہا اضافے کئے ہیں وہ قابل تحسین و ستائش ہیں۔ ان کے قلم کی بے پناہ روانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب چلنا شروع ہوا تو لگاتار ساٹھ سالوں تک بے تکان چلتا رہا۔ ‘‘    

    (قرۃ العین حیدر کی ناول نگاری اور شعور کی رو کی تکنیک ۔ ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی، ’’ایوان اردو‘‘ جنوری ۲۰۰۸، ص:۱۴)

    کچھ لوگوں نے ان کے فن کو ہندوپاک میں بیتے دنوں کی یاد سے پیداہونے والی کسک قرار دیا ہے۔ کچھ حد تک یہ درست ہے لیکن وطن اور یاد وطن کا وسیع تر تصور کسے نہیں ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے ایک نئی حقیقت نگاری کی روایت قائم کی جسے تاریخی حقیقت نگاری کہا جاسکتا ہے۔ یہ ان کی خامی نہیں بلکہ ان کا مخصوص ذہنی رویہ ہے۔ اس دور کے زیادہ تر ادیب ماضی کی انتہا پسند اور غلط تہذیبی اور معاشرتی قدروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے زندگی کی نئی قدروں کے داعی نظر آتے ہیں۔ اس رویے کو پورے طور پر مغرب کا اثر نہیں کہاجاسکتا ہے بلکہ برصغیر میں اس وقت کی سیاسی اور معاشر تی فضا ایسی تھی جس میں ایک انتشار کی کیفیت موجود تھی۔ شمیم طارق صاحب رقم طراز ہیں:

’’ایک زمانے تک ان کے فن پاروں کو Family Memoirsسوانحی خاندانی البم اور Saga of a familyکہنے پر ہی اکتفا کیا جاتا رہا۔ حالانکہ یہ تعریف جس میں تنقید کا رنگ ہے سرسری اور یک رخی ہی نہیں غیر حقیقی بھی ہے کیونکہ وہ عمر بھر جو کچھ لکھتی رہیں وہ صر ف واقعات کی کھتونی یا سوانحی یا یاداشت نہیں ہے۔ ‘‘

        (قرۃ العین حیدر کا تنقیدی شعور۔۔۔۔شمیم طارق ’’آج کل‘‘ دہلی، نومبر ۲۰۰۷، ص:۳۲)

     قرۃ العین حیدر کا تعلق ایک خاص عہد کے علاوہ ایک خاص طبقے سے بھی تھا۔ جس نے ہندوستان میں مغربیت کو سب سے پہلے اپنایا تھا۔ انہوں نے اس خوش حال اور آزاد خیال طبقے میں پرورش پاکر اس کی نا آسودگیوں کو محسو س کیا۔ ان کی نظر ایک طرف ان نعمتوں پر تھی جو اس طبقے کو حاصل تھیں تو دوسری طرف اس کھوکھلے پن پر بھی تھی جس میں مبتلا ہوکر وہ تہذیبی بے یقینی اور روحانی ناآسودگی کا شکار ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اپنے ماحول، معاشرے اور خاندان کے بارے میں کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھی بلکہ ہر موقعوں پر انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اپنے جاگیردارانہ مغربی انداز کے رویے کے بارے میں لکھا ہے۔۱۹۴۷ء کی آزادی اور ملک کی تقسیم نے تہذیبی قدروں کی شکست و ریخت کی رفتار کو تیز تر کردیا۔ قرۃ العین حیدر نے اس تہذیبی زوال کو اپنے افسانوں اور ناولوں کا خاص موضوع بنایا ۔ نیلم فرزانہ فرماتی ہیں:

’’قرۃ العین حیدر کا داستان طراز ذہن اس تہذیبی زوال کو اپنا موضوع قرار دیتا ہے۔ جو بات قرۃ العین حیدر کو اپنے ماقبل اور ہم عصر فکشن نگاروں سے ممتاز و منفرد کرتی ہے وہ یہ کہ دوسرے ادیبوں سے جس طرح ماضی سے قطع نظر کرکے صرف حال کو اپنا مطمح نظر قرار دیا وہاں قرۃ العین حیدر نے ماضی کو ایک حقیقت تسلیم کیا اور اسے حال اورمستقبل سے اس طرح مربوط کیا کہ ان کی یہ کوشش اردو فکشن میں ایک اجتہاد کی کوشش بن گئی۔‘‘

        (اردو کی اہم خواتین ناول نگار۔ نیلم فرزانہ۔ ص:۱۲۳)

    اردو فکشن میں قرۃ العین حیدر کا نام نہایت ہی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی ادبی شخصیت ایک ایسے تناور درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں کافی دو ر تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے اپنی راہ خود بنائی ہے جس کی وجہ سے وہ اردو فکشن میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکی ہیں۔ کسی مکتبۂ فکر سے منسلک ہوئے بغیرانہوں نے اتنا بلند و بالا مقام حاصل کرلیا جس کی مثال اردو ادب میں نہیں ملتی۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع اور مشاہدہ بہت گہراتھا۔ تاریخ اور عمرانیات پر اچھی دسترس تھی۔ زبان و بیان سے بھی اچھی طرح واقف تھیں۔ قدرت نے انہیں حساس دل اور باریک بین نظریں عطا کی تھیں اس میں مزید پختگی علم و استدلال کی قوت او راپنے باطن سے ہم رشتہ ہونے کے روحانی شغف سے آئی تھی۔ انہوں نے طرز تحریر، سیاسی نظریئے اور مذہبی عقیدے پر بے لاگ رائے دی ہے۔ جس سے کچھ اختلاف تو کیا جاسکتا ہے لیکن صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ مذہبی عقیدے اور پردے کے متعلق ان کا نقطۂ نظر اعتدال پسند تھا۔ بہت کچھ انہیں وراثت میں ملا تھا۔ اپنی والدہ کے عقیدے کے بارے میں ایک جگہ لکھتی ہیں:

’’مذہب کے بارے میں وہ بہت ہی اعتدال پسند تھیں اور منطقی تھیں، پیر، فقیر، درگاہیں، تعزیئے کی زیارت، نذر و نیاز، منتیں ، مرادیں ، گلوآمیز عزاداری کے خلاف تھیں۔ لڑکپن سے انہوں نے اور ان کی پھوپھی اکبری بیگم نے توہمات کے خلاف جہاد بول رکھا تھا ۔ ایک بار وہ کرن پور، دہرہ دون میں اپنے پرانے دوستوں کے یہاں گئیں تو ان بیویوں کو جانماز پر اس طرح بیٹھے دیکھا کہ انہوں نے قرآن شریف اپنے سروں پر رکھ لیے تھے۔ اماں نے پوچھا یہ تم لوگوں نے کون سی نماز ایجاد کی ہے۔۔۔‘‘

    بحوالہ قرۃ العین حیدر کا تنقیدی شعور، شمیم طارق، مطبوعہ ماہنامہ ’’آج کل‘‘ نومبر ۲۰۰۷ئ، ص:۴۵

     قرۃ العین حیدر کے والدین مذہب اسلام کو معقول اور اعتدال پسند دین کی حیثیت سے جانتی تھیں۔ انہوں نے علمی و ادبی گھرانے میں پرورش پائی تھی۔ ماں باپ دونوں بلند پایہ ادیب تھے ۔ گھر کا ہر فرد تعلیم یافتہ تھا۔ مختلف زبانوں کے اخبار و رسائل گھر میں آتے تھے ۔ ان سب چیزوں سے وہ بھی کافی متاثر ہوئیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی ایک عظیم فکشن نگار کی حیثیت سے اردو دنیا میں شہرت حاصل کی۔یوں تو انہوں نے کہانی کہنے کا فن اپنی وراثت سے حاصل کیا تھا لیکن وسیع مطالعہ ، گہرا مشاہدہ اور مختلف جگہوں پر قیام نے ان کے فن کو جلا بخشی۔ انہوں نے صوفی ازم، داستان، فلسفہ اورنفسیات وغیرہ کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ تہذیب و تمدن اور ثقافتی پہلو پر وہ خاص نظر رکھتی تھیں۔

     قرۃ العین حیدر کے افسانوں کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو روشن کرتی ہیں کہ قوموں کا تہذیبی تشخص ان کی تاریخ میں اور افراد کا تشخص ان کے ماضی میں پنہاں ہوتا ہے۔ ان کے یہاں وقت ایک اکائی ہے اور وہ حال کو ماضی کے اثرات سے الگ نہیں کرتیں۔ انہوں نے ماضی اور حال دونوں کا تجربہ ایک ساتھ کیا ہے۔ وہ گزرے ہوئے دنوں کی یاد اور حال کے تجربے میں تعلق کی ایسی کڑیاں تلاش کر لیتی ہیں جو یاد اور تجربے اور امکان یا اندیشے کا ایک سلسلہ بنادیتی ہیں۔ ان کڑیوں کے بغیر جو وقت گزر گیا اور جو وقت موجود ہے اور جو وقت آئے گا ان سب کی ایک ملی جلی، ہمہ گیر تصویر مرتب ہوہی نہیں سکتی تھی۔ شمیم حنفی فرماتے ہیں:

’’ماضی کی یاد معاصر تاریخ کے آشوب میں گھرے ہوئے انسان کے لئے ایک اخلاقی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ان یادوں سے رشتہ صرف جذباتی اور نفسیاتی نہیں ہوتا نہ ہی یہ کہ یادوں سے وابستگی محض کسی داخلی مجبوری کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ وابستگی ایک طرح کی ذہنی اور فکری احتیاج ہے۔

ایک سوچا سمجھا انتخاب‘‘

        (قرۃ العین حیدر ۔۔۔شمیم حنفی ، مطبوعہ ماہنامہ ’’آج کل‘‘ دہلی، اگست ۱۹۹۰ء ص:۸)

    قرۃ العین حیدر تاریخ تہذیب وتمدن پر مضبوط گرفت رکھتی ہیں۔ ہندوستانی اساطیر کی روایات اور تہذیبی رسوم سے ان کی خاصی دلچسپی رہی ہے جبکہ وہ خود جدید تہذیب و روایات کی پروردہ آزاد خیال خاتون تھیں۔ انہوں نے مغربی تہذیب اور روایات اور علوم و فنون سے بھی بہت حدتک استفادہ کیا تھا ۔ وہ ہند، ایرانی تہذیب و ثقافت کی ایک بے مثل وقائع نگار تھیں۔ اس سلسلے میں نامی انصاری لکھتے ہیں:

’’ان کی نگاہ عہد آفریں، اس تہذیب و ثقافت پر مرتکز تھی جو کولونیل دور کی تہذیب و ثقافت تھی جس میں اودھ کے نوابوں ، راجوں، تعلق داروں اور زمینداروں کا خاص کردار تھا۔ ان کی پرورش ایک ارسٹو کریٹ خاندان میں ہوئی تھی۔ جو اب معدوم ہوچکی ہے لیکن ان کی سوچ کے نگار خانے میں وہ تہذیب آج بھی اس طرح جگمگا رہی ہے جیسے وہ خاتمۂ زمینداری کے قبل کے دور میں موجود تھی۔ اس خاص تہذیب کے نقوش کی بازیافت کا عمل ان کے افسانوں، ناولوں اور خود نوشت میں بار بار در آتا ہے۔ ‘‘  

        (دریائے نور، نامی انصاری، ماہنامہ ’’ایوان اردو‘‘ دہلی ، جنوری ۲۰۰۸ء ، ص:۷۴)

    قرۃ العین حیدر کے افسانوں کی سب سے بڑی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے تقسیم ملک اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو اپنے افسانوں میں اس طرح پیش کیا ہے کہ اس وقت کی سچی تصویر نگاہوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ وہ ملک کے تقسیم کے سخت خلاف تھیں۔ اس بات کا اظہار ان کے افسانوں میں ملتا ہے۔ انہوں نے ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کا ایسا نقشہ اپنے افسانوں میں کھینچا ہے کہ پڑھنے والے نہ صرف متاثر ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کاش آج بھی ایسا ہوتا۔

    پروفیسر محمد حسن کے مطابق:

’’ان کے افسانے پڑھتے وقت بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ اچانک کسی غیر مرئی طاقت نے اس حسین اور خوبصورت تہذیب کے شیرازے کو تقسیم ہند کے وقت درہم برہم کردیا جس کی تعمیر میں صدیاں صرف ہوئی تھیں۔ تاریخ صرف سنہرے دھاگوں سے نہیں بنتی۔ اس کے حسن و قبح، تاریک و روشن دونوں پہلو پر نظر رکھنی چاہئے۔ ہماری تاریخ میں تقسیم ہند کے عناصر موجود تھے، جس سے وہ اگر لازمی نہیں تھی تو کم از کم ممکن ضرور تھی۔۔۔۔ وہ ایسے ہندوستانی سماج کا نقشہ کھینچتی ہیں جہاں ہندو مسلمان سب سچ مچ  شیروشکر نظر آتے ہیں۔ ‘‘    

        (جدید اردو ادب، ڈاکٹر حسن، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی، ۱۹۷۵ء ، ص:۵۳)

    ہندوستان کی تقسیم اور اس کے بعد کے کربناک مسائل کے درد کو قرۃ العین حیدر نے بڑی فنکاری سے اجاگر کیا ہے۔ تقسیم کے بعد بہت سارے لوگ پاکستان چلے گئے اور بہت سارے لوگ وہاں سے یہاں چلے آئے لیکن لامکانی کاکرب انہیں ستاتارہا۔ اپنی جڑوں سے کٹ جانے ، اپنی تہذیب و ثقافت، زبان، کھیت کھلیان سے جدائی اپنے رسم و رواج اور اپنے پڑوسیوں سے کٹ جانے کا دکھ درد اور مہاجرت کا احساس ان کے بہت سے افسانوں میں پایا جاتا ہے:

’’وقت گزرنا اس حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ ہم قبر سے زیادہ نزدیک پہنچ گئے۔ اور کیسی زندگی گزار کے؟ کتنی بے انصافیاں اور ذلیل ہوکے؟ زندگی یا قدرت یا قسمت کی کتنی ستم ظریفیوں کا نشانہ بن کے؟‘‘                              

 (جلا وطنی)

’’آفتاب بہادر تم کو پتہ ہے میری کیسی جلاوطنی کی زندگی ہے، ذہنی طمانت اورمکمل مسرت کی دنیا جو ہوسکتی ہے اس سے دیس نکالا جو مجھے ملا ہے اسے بھی اتنا عرصہ ہوگیا کہ اب میں اپنے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی‘‘۔  

 (جلاوطنی)

    قرۃ العین حیدر کے افسانوں میں زمیندار اور اعلیٰ عہدے دار طبقے کی نمائندگی شروع ہی سے ملتی ہے۔ بعد میں وہ گزشتہ تہذیب کی اچھائیوں کے ساتھ ساتھ اس کے انحطاط کے اسباب کو سمجھ گئیں تھیں۔ اس لئے وہ بعد کے افسانوں میں واقعات اور کرداروں کے عمل کے وسیلے سے ایک تہذیب کا زوال اور دوسری کی پیدائش اور اس کی ترقی کو فنکارانہ انداز میں پیش کرتی ہیں۔ وہ تاریخ اور معاشرے کی تبدیلی کی جدلیات سے اچھی طرح واقف تھیں۔ یہ صحیح ہے کہ انہوں نے نچلے طبقے کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے ۔ نچلے اور پس ماندہ طبقے کو انہوں نے اپنے افسانوں کا موضوع نہیں بنایا ہے لیکن ان کی ہمدردریاں اس طبقے کے ساتھ بہت واضح ہیں۔ سرحد کے دونوں طرف دھکیلے جانے والے مزدور، ڈرائیور ، رکشہ چلانے والے اوراینگلو انڈین طبقے کے غریب اور مفلوک الحال افراد میں انہیں قدروں کا احساس، محبت و وفا کا لحاظ اور انسانی رشتوں کا جو پاس ملتا ہے وہ ان طبقوں میں مفقود ہے جس کے عروج و زوال کی وہ کہانیاں بیان کرتی ہیں۔

    قرۃ العین حیدر کے افسانوں کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے بیشتر افسانوں میں عورت کے المیے کو پیش کیا ہے ۔ وہ خود ایک ذہین عورت ہیں اس لیے عورتوں کے مسائل کو اچھی طرح سمجھتی اور محسوس کرتی ہیں۔

’’رات کو جس دعائے شب کے بعد خانقاہ کی روشنیاں بجھا دی جاتی ہیں اور مدر انجیلینا ڈور مٹری کا چکر لگاکر اپنے حجرے کی طرف چلی جاتی ہیں تو ازابلا اپنے چھوٹے سے سفید بستر کے پاس دو زانو جھک کر زیر لب سوتے وقت کی دعا دہراتی۔ ’’مقدس مریم، خداوند کی ماں، ہر گنہگاروں کے لئے دعا کیجئے اور پلیز میری راحیل کے لئے بھی دعا کیجئے‘‘۔ پھر وہ سوجاتی اور سوتے میں ایسالگتا ہے اس کے پلنگ کے آس پاس خوب تیز روشنی ہورہی ہے اور ورجن میری نے راحیل کو معاف کردیا ہے۔‘‘

(جب طوفان گزر چکا)

    قرۃ الیعن حیدر کے افسانوں کے نسوانی کردار نہ تو مردانہ زوروستم کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں اور نہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کا رونا روتے ہیں۔ پھر بھی اس نوع کے کرداروں کی فنکارانہ پیش کش نسوانی طرز احساس اور نسائی صورت حال کو زیادہ موثر انداز میں قاری پر منکشف کردیتی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے فکشن میں قدیم دور سے لے کر جدید عہد تک عورت کی مختلف شکلوں کو دیکھنے اور دکھانے کی کوشش تحریک نسواں کا وہ خام مواد ہے جس کے شعور کے بغیر یہ تحریک جنسی تفریق اور استحصال کا تاریخی سیاق و سباق حاصل نہیں کرسکتی۔ان کے افسانوں کے نسوانی کردار کے متعلق ابوالکلام قاسمی فرماتے ہیں:

’’قرۃ العین حیدر کے فکشن میں تحریک نسواں کے جو عناصر ملتے ہیں انہیں اکثر مشرقی اقدار کے حوالے کے بغیر محض عورتوں کی کامیاب کردار نگاری کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ جب کہ اس قسم کی کردار نگاری جنسی تفریق کی بنیاد پر مدتوں سے نظر انداز کی جانے والی صنف نسواں کی پسماندگی کے گہرے شعور کا نتیجہ رہی ہے۔‘‘

قرۃ العین حیدر۔ ابوالکلام قاسمی، مطبوعہ ماہنامہ ’’آج کل‘‘ نئی دہلی، اگست، ۱۹۹۰ء ، ص:۱۵

    قرۃ العین حیدر کے پاس خیالات کی کمی نہیں تھی اور انہیں مشاہدوں سے پورا پورا کام لینا آتا تھا۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنی ان دیکھی چیزوں کو بھی بڑی خوبصورتی سے فن کی لڑیوں میں پروسکتی تھیں۔ انداز بیان کی جدت اور شگفتگی ان کے افسانوں میں ایک نئی چمک پیدا کردیتی ہے۔ قیصر تمکین کے مطابق:

’’قرۃ العین حیدر بہت ہی شگفتہ اور صحیح معیاری زبان لکھتی ہیں۔ یہ خوبی اب پوری دنیا میں ایک آدھ ہی ادیب و شاعر کے پاس رہ گئی ہے۔ ہمارے ادب میں پہلے پچاس ساٹھ برسوں میں جو چند صاحب طرز ادیب ہوئے ہیں ان میں قرۃ العین حیدر سب سے آگے ہیں۔ ‘‘

(قرۃ العین حیدر اور نوبل انعام، قیصر تمکین ، مطبوعہ ماہنامہ، کتاب نما، نئی دہلی جون ۲۰۰۱، ص:۷)

    قرۃ العین حیدر نے جو افسانے شعور کی روپر لکھے ہیں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ شعور کی روپر ان سے پہلے اور ان کے بعد بھی کئی افسانہ نگار نے قلم اٹھایا ہے ان میں سے کچھ نے کافی شہرت بھی حاصل کرلی ہے۔ سعادت حسن منٹو، راجند سنگھ بیدی، انتظار حسین، احمد ہمیشہ، دیوند راسر اور بلراج کومل کے علاوہ انور عظیم ، کلام حیدری، شمیم سیفی، ظفر اوگانوی ، منظر کاظمی ، سلام بن رزاق اور شفق وغیرہ ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے جدید افسانے لکھ کر افسانوی ادب میں پہلی بار اس ریاضیاتی یا Cartesianمنطق کو توڑتے ہیں جو واقعات اور کرداروں کو خط مستقیم میں سفر کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ جس کا مقصد بیانیہ طرز کا احوال تھا۔ محمود ہاشمی نے کتنا درست فرمایا ہے:

    ’’قرۃ العین حیدر نے اپنے افسانوں کو ان سوالات کا محور بنادیا اور اس تخلیقی رویے کی تشکیل کی جو حقائق کے اثبات کی بجائے باطنی صداقتوں کی جستجو کا سرچشمہ ہے ۔ نئے سوالات اور نیا تخلیقی رویہ، اظہار کی نئی جہتوں کا باعث بنا وہ اسالیب وجود میں آئے جو جدید افسانے کی سب سے پہلی شناخت کہے جاسکتے ہیں۔ ‘‘

(قرۃ العین حیدر، جدید افسانے کا نقطۂ آغاز، محمود ہاشمی، اردو افسانہ روایت اورمسائل ص:۴۳۶)

    مختصر یہ کہ قرۃ العین حیدر اردو کی ایک ایسی ادیب اور فنکار تھیں جنہوں نے نہ صرف اردو میں لکھا بلکہ وہ اردو کی ترقی کے لئے بھی برابر کوشاں رہیں۔ اردو رسم الخط مٹانے یاا سے ختم کرنے کی کسی پرفریب تحریک کی حمایت نہیں کی۔ وہ بہترین انگریزی داں ہونے کے باوجود اپنے آپ کو اردو ادیب کہتے شرماتی نہیں تھیں۔ وہ اردو ادیب کی حیثیت سے ہمیشہ جہد پیکاررہیں۔ ان کے ہم عصروں میں ایک سے بڑ ھ کر ایک ادیب و فنکار موجود تھے لیکن ان کی انفرادیت پہلے بھی برقرار تھی او رآج ان کے انتقال کے بعد بھی برقرار ہے۔ تاریخی ادراک کا جو شعور ان کے یہاں ہے وہ دور دور کسی اور کے یہاں نظر نہیں آتا۔ وہ جس طرح چھوٹے چھوٹے جملوں میں تاریخ اور ثقافت کو سموتی ہیں وہ انہیں کا حصہ ہے۔ ان کی تحریر کا کوئی جملہ اکہرا نہیں ہوتا، اس کے آگے اور پیچھے ایک داستاں چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو انہیں ودیعت ہوئی تھیں۔ دوسرے کئی لوگوں نے ان کی طرز تحریر کو اپنانے کی کوشش کی لیکن انہیں پانا تو دور کی بات تھی ان کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے۔ پروفیسر قدوس جاوید فرماتے ہیں:

’’قرۃ العین حیدر کے یہاں ایسے افسانے ملتے ہیں جن میں انحراف و اجتہاد اور افتراق و انفراد کے باوجود روایت کو ممکنہ حد تک ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ تو ملتا ہی ہے تخلیقی خود روی، آزادانہ اظہار، ماحول کی رنگا رنگی، کرداروں کی تعمیر، واقعات کے بیان اور خالص طور پر مختلف سماجی، ثقافتی اور تاریخی تناظرات میں زبان کے منفرد لسانی برتائو کے سبب ان کے افسانوں میں وہ مخصوص افسانوی آہنگ بھی نظر آتا ہے جو کسی بھی افسانہ کو صرف اچھا ہی نہیں بڑا افسانہ بنانے کا بھی ضامن ہوتا ہے۔‘‘

    قرۃ العین حیدر ۔ سفر تمام ہوا، پروفیسر قدوس جاوید، مطبوعہ ماہنامہ ’’ایوان اردو‘‘ نئی دہلی

، اکتوبر ۲۰۰۷ء ، ص:۵۵

    اس طرح قرۃ العین حیدر نے اپنے افسانوں میں فنون لطیفہ ، مذاہب، سماجی اقدار اور معاشرتی تاریخ کو نئے زاویوں سے ، نئے مکالموں اور نئے زمان و مکان میں پیش کیا ہے ۔یہی ان کے افسانوں کی انفرادیت ہے۔ ان کی تحریروں میں بر صغیر کی تہذیب پوری طرح منعکس نظر آتی ہے۔ انہوں نے اردو والوں کے لئے خاص طور سے نئی نسل کے لئے ایک بڑا ادبی سرمایہ چھوڑا ہے۔ ان کی انفرادیت پہلے بھی قائم تھی اور آج بھی قائم ہے۔


(مطبوعہ ’’عالمی سہارا‘‘ ۳۰؍ مئی ۲۰۱۵ئ)


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 848