donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Md. Irfan
Title :
   Urdu Mein Khaka Nigari

اردومیں خاکہ نگاری
 
(ڈاکٹر محمد عرفان (نگینہ۔ بجنور
 
ہندوستان کے مشہور عالم اورمحقق مالک رام کا قول ہے کہ:
’’زبانِ اردو دنیا کی مشہور زبانوں میں غالباً سب سے کم عمر ہے، لیکن مختصر زمانہ حیات کے باوجود اپنی ادبی فتوحات کے لحاظ سے ان میں بیشتر کی ہم پلہ اور بعض پر فوقیت رکھتی ہے۔
 
خاکہ نگاری سے متعلق بہت کم مدت میں جتنا ادب اردو میں جمع ہوگیا ہے اس کے ذخیرہ کی ضخامت سے مالک رام کے اس دعویٰ کو بہت کچھ تقویت پہنچتی ہے۔ اور اس کیلئے نہایت مضبوط ثبوت فراہم ہوتے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے اردو ادب میںخاکہ نگاری نے وہ مقام پیدا کرلیا ہے۔ کہ اب اس کے بغیراردوکے سوانحی اورمزاحی ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ آج اردوادب کویہ فخر حاصل ہے کہ اس میں خاکہ نگاری کی صنف بھی ایک خاصی قدیم روایت کی سرمایہ دارہے اور اسی کے ساتھ ساتھ آج خاکہ نگاری کافن ایک روز افزوں ترقی کے راستہ پرگامزن اور ایک نہایت روشن مستقبل کی سمت رواں دواں نظر آرہاہے ہماری خاکہ نگاری نے اردو نثرکوایک نئے گوشے اور ایک نئی جہت سے آشناکیا ہے اور اسے وسعت اور رنگینی کی نت نئی کیفیات سے مالامال کردیاہے۔ ہماری خاکہ نگاری نے سوانح کو ظرافت اورظرافت کوادب بنادینے کاایک عظیم کارنامہ انجام دیاہے۔ لغات اردو میں خاکہ کالفظ تین حیثیتوں کے ساتھ ہمارے سامنے آتاہے پہلے تو صرف خاکہ کالفظ ہے جس کے معنی ہیں، کسی چیز کا عکس، ڈھاچہ یامسودہ انہیں سے ماخوذ ایک محاورہ بنتاہے خاکہ کرنا، جس کا مطلب ہے کسی چیز کانقشہ تیارکرنایاعکس یاتصویراتارنا، چنانچہ خواجہ آتش فرماتے ہیں۔
نہ اس کی زلف کاخاکہ بھی کرسکامانی
ہرایک بال میں کیاکیانہ شاخسانہ ہوا
ایک دوسرمحاورہ ہے خاکہ اڑانا، جس سے دو معنی مراد ہیں پہلےسے مرادہے کسی کو رسوا کرنااور دوسرے سے مراد ہے کسی کے روش وانداز کو اپنے میں پیدا کرنا، اسی معنی میں کسی استاد کاشعرہے۔
پھر تیرے سودے میںسرگشتہ ہرسو
بگولوں کاعاشق نے خاکہ اڑایا
انہیں تین قسم کے محاوروں کودھیان میں رکھ کراہل نقد ونظر نے خاکہ نگاری کی اصطلاح وضع کرلی ہے جس سے مرادوہ صنف ادب ہے جس میں کسی روش وانداز کی قلمی تصویرپیش کی جاتی ہے۔ کچھ ناقدین نے غاکہ نگاری کے ساتھ مرقع نگاری کی اصطلاح کااستعمال بھی کیاہے لیکن مرقع نگاری اور خاکہ نگاری میں یک خاص فرق ضرور مدنظر رکھناچاہئے مرقع نگاری ادب اورخصوصیات سے نظم کی وہ کیفیت ہے جو کسی چیزکی ہوبہوتصویرکشی سے پیداہوتی ہے جب کہ خاکہ نگاری کااطلاق اس ادب پر ہوتاہے جس میں شخصیات کی عکس نگاری کی جاتی ہے اور یہ خصوصیات نظم میں کم لیکن نثری ادب میں زیادہ نمایاں پائی جاتی ہے۔ اگرچہ بہت سے شعراء نے نظم میں بھی خاکہ نگاری کے اچھے جوہردکھلائے ہیں۔حوالہ کیلئے جوش کی نظم ’’مہاجن اور’’مفلس‘‘وغیرہ دیکھی جاسکتی ہیں۔
 
خاکہ نگاری ،سوانح عمری لکھنے سے بھی بالکل مختلف صنف ادب ہے۔ سوانح، جمع ہے، سانحہ کاسوانح عمری، کسی شخص کی زندگی کی ایسی سرگزشت اور روئیدادہوتی ہے جس میں متعلقہ کثیرواقعات وحادثات کوجمع کرکے اس کی زندگی کی ازمہدتالحدایک مکمل تصویرپیش کی گئی ہو۔ سوانح نگارزیادہ سے زیادہ حقائق جمع کرنے اورانہیں ایک زمانی ترتیب کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتاہے جبکہ خاکہ نگار یا مرقع نگارزندگی کے ہرواقعہ کو قابلِ توجہ نہیں گردانتا۔ خاکہ نگاری بلیغ اشاروں اور مرتکزابلاغ کافن اوراختصار وایجاز کاادب ہے یہ سوانح نگاری کی طرح تفصیل کافن نہیںہے۔
 
’’لکھنؤمیں پہونچکر جیسا مسافروں کادستور ہے، ایک سرائے میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے ، رہ نہ سکے اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرہ میں جاکرشامل ہوئے ان کی وضع قدیمانہ کھڑکی دار پگڑی، پچاس گزکے گھیرکا پاجامہ، ایک پورا تھان پستولیہ کا کمرسے بندھا، ایک رومال پٹری دارتہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع کاپاجامہ جس کی عرض کے پائچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب ،جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنؤنئے انداز ،نئی تراشیں ، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کربہت ہنسے۔
 
یہ ہے تذکرہ نگاری میں خاکہ نگاری، کے آغازکی جھلکیاں جابجا نظر آتی جائیں گی مثلاامجدعلی عشری نے میر انیس کی مختصرسوانح میں جابجاان کی شکل وصورت کی قلمی تصویرپیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
میرانیس کاقدلانبا، چھریرا اور تناسب الاعضاء تھا۔ سر کے بال باریک اور ملائم ،چہرہ خوبصورت اور کتابی، رنگ کھلاہوا گندی، آنکھیں بڑی بڑی خوبصورت جن کی خوش آب سفیدی نرگس کالطف دیتی تھی، مونچھیں بڑی بڑی افگندہ موٹے داڑھی صاف گردن صراحی دار، سینہ کشادہ اور عریض ، چال نہایت نستعلیق۔
 
یہ اور اس قسم کی مثالیں خاکہ نگاری کاابتدائی تصورپیش کرتی ہیں۔ اگر چہ انکو مکمل خاکہ نگاری کانام نہیں دیاجاسکتا۔اچھی خاکہ نگاری زبان ومکان کی دوری برداشت نہیں کرسکتی وہ شخصیت کاقرب چاہتی ہے اس لئے ہرادب میں خاکہ نگاری کے بہترین نمونے وہ ہیں جہیںہمعصرمصنفین نے جذباتی رفاقت یاقرب وموانست کے سہارے ابھاراہے چنانچہ مرزافرحت اللہ بیگ کی تصنیف، نذیر احمد کی کہانی، خاکہ نگاری کے ادب میں گویا ایک کلاسیک کادرجہ رکھتی ہے، کیونکہ مرزافرحت اللہ بیگ اور مولوی نذیراحمد کے مابین درس تدریس کاتعلق تھا اور مرزاصاحب نے مولوی نذیراحمد صاحب کوبچشم خود بہت قریب سے دیکھاتھا، اتنے قریب سے کہ وہ مولوی نذیراحمد صاحب کی شخصیت کے باہری اور گھریلودونوں پہلوئوں کے درمیان ایک فاصل قائم کرسکے۔ وہ لکھتے ہیں۔
 
جنہوں نے اسٹیج پر ان کوشالی رومال باندھے، کشمیری جبہ یاایل، ایل ڈی کاگائوں پہنے دیکھا ہے، انہوں نے عالی جناب شمس العلما مولوی حافظ ڈاکٹر نذیراحمدخاں صاحب ایل ایل ڈی۔ مدظلہ العالی کودیکھا ہے، مولوی نذیراحمد کونہیں دیکھا ان کے گھراور باہر کے لباس میںزمین وآسمان کا فرق تھا۔ اگران کوروزانہ باہر نکلنے کاشوق نہ ہوتاتوشاید لباس کی مدان کے اخراجات سے نکل جاتی۔
 
مرزافرحت اللہ بیگ بڑی خوبصورتی ، دلچسپی اور ظرافت کے ساتھ مولوی نذیراحمد کے گھر کے باہر کی زندگی اور گھریلو ونجی زندگی کے چہرے سے پردے اٹھاتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں یہ تو پبلک کے مولوی صاحب ہوئے اب آیئے ہمارے مولوی صاحب کودیکھئے۔ یہ تقرب نزدیکی اور نجی طورپر مولوی صاحب کوجاننے کاہی نتیجہ تھا کہ مرزافرحت اللہ بیگ نے مولوی نذیراحمد کی کہانی لکھ کراپنی لاجواب خاکہ نگاری کے ذریعہ دنیا ادب میں ان کی تصویر کوموت اور وقت دونوں کی دست بردسے ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا۔
 
اعلیٰ خاکہ نگاری، مزاح طباعی، قوت مشاہدہ ،ریاضت اور دیدہ دری کی آفریدہ ہوتی ہے۔ چنانچہ اچھی خاکہ نگاری کیلئے ذہانت کے ساتھ ساتھ ایک حساب طبعیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں خصوصیات کی زدسے خاکہ نگار نہ صرف پر اثر اور دلچسپ اسکیچ پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں بلکہ وہ اشخاص کی ان تصویروں کوہماری نظروں کے سامنے متحرک بھی کردیتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں شوکت تھانوی کی تصنیف ’’شیش محل‘‘ کوایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ شیش محل میں شوکت تھانوی نے ایسی شخصیتوں کومنتخب کیاہے جنہیں انہوں نے قریب سے دیکھا تھا۔ اور جن کی سیرت کے خدوخال انکی نظروں ے سامنے تھے۔ چنانچہ انہوں نے تفصیلی بیانات، جزیات اورشرح وبسط سے دامن بچا کرصرف چنداشاروں اور دوچار ظریفانہ مگر نہایت ہی غمازجملوں پر اکتفا کیاہے۔ گویا کفایت الفاظ انکی خاکہ نگاری کاایک خاص وصف ہے مثلاشوکت تھانوی نے صرف ایک ہی جملہ میں رشیداحمد صدیقی کی تصویرکی نہایت کامیاب کوشش کی ہے کہتے ہیں۔رشیدصاحب صورت سے مزاح نگار تونہیںالبتہ مرثیہ گومعلوم ہوتے ہیں۔آل احمدسرورصاحب نے اس اجمال کی تفصیل اس طرح کی ہے کہ جن لوگوں نے رشیدصاحب کےمضمون مزے لےلے کرپڑھے ہیں ان کے ذہن میں رشیدصاحب کی شخصیت کاجونقش بنتاہے وہ اصل سے بالکل مختلف ہے، آ پ ایک باغ وبہار آدمی کی تلاش میں ہیں اور آپ کودوچار ہوناپڑتاہے۔ ایک خزاں رسیدہ ہستی سے۔ شیش محل میں شوکت تھانوی نے اپنے بعض ، ہمعصروں اور دوست احباب کے جوخاکے پیش کئے ہیں وہ دلچسپ اورپرلطف ضرورہیں لیکن ڈاکٹر سیدہ جعفر کے بقول ظرافت کی بہتات اور قہقہے لگانے کی عادت نے انہیں سنجیدہ غوروخوض سے بڑی حدتک بے نیاز کردیاہے۔ اس لئے شیش محل کے خاکے کہیں کہیں تصویروں کے بجائے کارٹوں بن جاتے ہیں تاہم خاکہ نگاری کے ادب میں شوکت تھانوی کامقام بہت بلندہے۔
 
معیاری خاکہ نگاری کی بہترین مثالیں ہمیں رشیداحمد صدیقی کے تین شاہکاروں یعنی، گنج ہائے گراں مایہ ہم نفسانِ رفتہ، اور ، ذاکرصاحب میں بھی ملتی ہیں۔ رشیدصاحب انسان کوفرشتہ یاشیطان بنانے کے قائل نہیں بلکہ وہ جن افراد کے چہرے پیش کرتے ہیں انہیں ان کی چھوٹی بڑی کمزوریوں کے باوجود تمام حسن کمال کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ گرکردیتے ہیں رشیداحمد صدیقی نے شخصیتوں کے مرتبے اور مقام سے متاثر ہوئے بغیرمحض اپنی وابستگی اور ذاتی تعلقات کی بناپر ان کے مرقعے پیش کئے ہیں۔ جہاں انہوں نے مولانا محمدعلی،ابوالکلام آزاد،اقبال اورذاکر صاحب کے مرقعے پیش کئے ہیں وہیں کالج کے ایک چپراسی کندن، کی شخصیت کوبھی اپنی توجہ کامرکز بنایاہے۔ شخصی تاثرات، سیرت کے ذاتی مطالعے اور منصفانہ وحقیقت پسندانہ نقطہ نظر نے رشیداحمد صدیقی کے مرقعوں کواردونثرکے نگارخانے میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا۔ ہے اپنے ایک محب اورشناسا جناب ایوب صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں۔
سیاہ فام، چیچک، رو،نحیف البحثہ ،پہلے پہل کوئی دیکھے تو منھ پھیرلے ،برتے توغلام بن جائے میں بتانہیں سکتاکہ ایوب صاحب کی خوبیوں نے ان کی بدصورتی کوکس درجہ دل آویزبنادیاتھا۔
رشیداحمدصاحب کی تحریروں میں قول محال کابرجستہ اوربرمحل استعمال ہمیں آسکروائلڈ، برنارڈ شا، اور چیسٹرٹن کی یاددلاتاہے۔ چندجملے ملاحظہ ہوں۔
 
ہمارے محلہ کے چوکیدار کی آوازایسی ہوتی ہے گویا چورکودیکھ کرمارے خوف کے اس کی چیخ نکل گئی ہو۔
اخبارنویس کوبعض حواس کی بالکل ضرورت نہیں مثلآنکھ اسکے ئے زئدہے اسکا۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1729