donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Qayamuddin
Title :
   Afsane ki Tareef

 

افسانے کی تعریف
 
 
ڈاکٹرقیام الدین
 
یوں تو کہانی انسان کے لئے کوئی نئی چیز نہیں اپنی اجتماعی زندگی کے بالکل ابتدائی دور سے کہانی سننا انسان کا محبوب مشغلہ رہا ہے اس کی مختلف شکلیں جیسے داستان، حکایت، روایت ،قصہ وغیرہ ہمارے سامنے آتی رہی  ہیں ان کے مفہوم میں تھوڑا بہت اور بعض صورتوں میں بہت نازک سا فرق رہا ہے یہی فرق کہا نی کی دوسری قسموں اور مختصر افسانے (SHORT STORY)میں موجود ہے ۔ اس فرق کو BRANDER MOTHEWS نے بڑے اچھے اندا ز میں واضح کیا ہے۔
 
’’مختصر افسانہ ان کہانیوں سے بالکل مختلف اور امتیازی صنف ہے جو اتفاق سے کہانی ہونے کے علاوہ مختصر بھی ہوتی ہیں۔یہ کہانی ایک واضح فنی صورت ہے اور ایجاز واختصار، جدت فنی اور تخیل کی چاشنی اس کی امتیازی خصوصیات ہیں۔
 
ویسے تو کہانی کی بہت ساری تعریفیں کی گئی ہیں لیکن اس کی کوئی ایسی تعریف ممکن نہیں جو تمام طرح کے افسانوں کا احاطہ کر لے وہاب اشرفی صاحب نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے۔
’’مختصر افسانہ ایک مبہم لفظ ہے اس کی وسعت کا یہ حال ہے کہ وہ ہر منشور یا منظوم تحریر جس پر قصہ کا عنصر غالب ہو تا ہے اسے افسانہ کہہ دیا جاتا ہے اس طرح داستان ،ناول اور مختصر افسانہ کے علاوہ وہ منظوم قصے بھی افسانہ کے حدود میں آتے ہیں لیکن ایک صنفی حیثیت سے افسانہ سے مراد مختصر افسانہ ہوتا ہے۔ انگریزی چلڈرنزڈ کشنری میں یہ کہا گیا ہے کہ افسانہ قصہ کی ایک مخصوص صورت ہے جس میں چند ہزار یا چند سو الفاظ ہوتے ہیں، اس کا اپنے موضوع کے کل سے علاقہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس کی محض ایک قاش سے ہے۔ صرف اس کی ایک ادا سے، بس اس کے ایک پہلو سے ہے زندگی تو ایک بحر بیکراں ہے اس کی موجوں کا شمار نہیں افسانہ نگار کسی ایک موج سے متاثر ہو جاتا ہے اور اسے اس طرح اپنی تحریر میں منعکس کر لیتا ہے کہ یہی ایک موج مرکز نظر بن جاتا ہے اور دوسری تمام موجیں نظروں سےیکسراو جھل ہو جاتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ واقعات کی ترتیب کے وقت حصول کے تاثر کا پہلو ہر لمحہ افسانہ نگار کے سامنے ہوتا ہے چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وحدت تاثر کے سوا دوسری تمام وحدتیں جو افسانے کی بحث میں گنائی گئی ہیں، بیکار محض ہیں‘‘۔
 
عبدالمغنی صاحب نے افسانے کی تعریف کی ہے انہوں نے لکھا ہے ۔
 
’’افسانہ ایک وسیع لفظ اور اس کے مختلف معانی مختلف سطحوں پر ہوتے ہیں یہ محاورہ زبان کی بات ہے جب کہ اصطلاحی طور پر اردو تنقید میں افسانہ ایک خاص صنف ادب کا نام ہے جسے پورے طور پر افسانہ کہا جا سکتا ہے یہ در اصل انگریزی لفظ SHORT STORY  کا ترجمہ ہے چھوٹی یا بڑی کہانی کے مفہوم میں چند دوسرے الفاظ بھی اردو میں مشتمل ہیں۔‘‘
 
آزاد گلاٹی صاحب اس سلسلے میں فرماتے ہیں۔
 
’’افسانہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں غالباً ا س لئے کہ افسانے کا موضوع انسانی رشتوں کے انگنت ابعاد ہیں اور اس کی ہیئت اور بیان کے اتنے پیرائے ہیں کہ سبھی کو ایک تعریف میں سمیٹنا اتناہی مشکل ہے جتنا زندگی ،در اصل افسانہ کوئی حامد صنفِ ادب تو ہے نہیں کہ اس کی کوئی متفقی یا جامع تعریف ہو سکے جب حسن عسکری صاحب نے افسانے کو ادب کی سب سے آزاد صنف کہا تو اس کامطلب ہی تھا کہ افسانے کی کوئی مقررہ اور متعین تعریف ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس کے کوئی قطعی اصول یا ضابطے طے کئے جا سکتے ہیں۔ہر عہد کی ضرورتوں ہر نئی فضا کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ افسانے کی ساخت میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔
 
وقار عظیم نے ایک جگہ افسانے کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے۔
 
’’انسان کو اپنے تفریحی مشاغل میں کتر بیونت اور کاٹ چھانٹ کر نا پڑی تو اس کا مزاج جسے کہا نی سننے کا چسکا ہمیشہ سے ہے افسانے کی ایک صنف کا طلب گار ہوا جو زندگی اور فن کو اس طرح سموئے کہ انسان کو اس سے ذہنی سرور ومسرت کا سرمایہ بھی ہاتھ لگے اور زندگی کے مسائل کو حل کر نے اور اپنے ماحول کو حسین تر بنانے کی آرزو بھی پوری ہو اور اس کے باوجود اتنی مختصر ہو کہ وقت پر اس کی گرفت مضبوط رہے اور اپنے بے شمار مشا غل میں سے بھی کہا نی پڑھنے کا وقت نکال سکے زمانے کے یہ سبب تقاضے اور انسانی کی یہ سب ضرورتیں مختصر افسانے کی تخلیقی بنیاد ہیں‘‘۔
 
اس طرح بہت سارے نقادوں نے اردو افسانے کی تعریف اپنے اپنے طور پر مختلف طریقے سے کی ہے ملکی وغیر ملکی نقادوں اور مصنفوں نے اس کی بہت سی تعریفیں کی ہیں جنہیں وقار عظیم صاحب نے تفصیل سے پیش کیا ہے لیکن یہاں بطور تمہید خاص خاص لوگوں کی رائے پیش کی جارہی ہیں۔
ROTCLIFF مختصر افسانہ سیدھی سادی کہانی نہیں بلکہ ایک ایسی فنی تخلیق ہے جس میں فنکار کے اراد ے  اور حکمت کو دخل ہوتاہے۔
 
E.J.D.BRIEN مختصر افسانے کی پہلی شناخت یہ ہے کہ افسانہ نگار نے اپنے منتخب کئے ہوئے حقائق اور واقعات کوحددرجہ موثر بنایا ہو۔
H.G.WELL یہ قصے کی ایک ایسی قسم ہے جسے آدھ گھنٹہ میں پڑھا جاسکتاہے۔
J.B.ESLIMULIM  مختصر افسانہ ایک تخیلی تخلیق ہے جس سے کسی ایک مخصوص واقعہ یا ایک مخصوص کردار کانقش پلاٹ کے ذریعہ اس طرح ابھار اجاتا ہے کہ پلاٹ کی ترتیب وتنظیم سے ایک مخصوص تاثر پیدا ہو سکے۔
C.HEMILLION  مختصر افسانہ وہ ہے جو کم سے کم لفظوں میںاور زیادہ سے زیادہ موثر انداز میںپڑھنے والے کے ذہن میں ایک درد تاثر پیدا کرے۔اس طرح اردو کے کچھ نقادوں نے بھی مختصر افسانے کی تعریف کی ہے جسے آزاد گلاٹی نے اس طرح پیش کیا ہے۔
 
امیر اللہ شاہین:افسانہ گر فتاری لمحہ کا فن ہوتا ہے شعلہ مستجل بھڑکا بجھا اتنی دیر میں افسانہ ہو جاتا ہے۔ 
اختر اور نیوی: افسانہ ایک اچھے ترشے ہوئے نگینہ کی طرح ہوتا ہے اور ناول ایک ہار کی مانند ناول تو بس شاہراہ حیات کا ایک مرقع پیش کرتا ہے اور افسانہ نویسی گزر گاہ ہستی کے کسی ایک حصہ کی جھلک۔
جمیل جالبی: مختصر افسانہ میں ایک واقعہ ہو ایک ہی کردار آئے ، قصہ کارخ اور موڑ بھی ایک ہی ہو اور جہاں ایک سے زیادہ کردار، واقعات آئیں تو بس بنیادی طور پر مرکزی کر دار کا حصہ بن جائیں اس طرح افسانے کی بہت ساری تعریفیں کی گئی ہیں لیکن اس کی منطقی تعریف دشوارہے۔ اس لئے کہ یہ مختلف ادبی اصناف کی ایک مجموعی اور فنی شکل ہے اس کے وجود میں آنے سے سینکڑوں سال پہلے انگریزی فرانسیسی سنسکرت اور فارسی میں بہت سی ایسی چیزیں رائج تھیں جن میں اور افسانوں میں بعض حیثیتوں سے مماثلت موجود ہے۔
 
مختصر افسانہ ناول سے بہت بعد کی چیز ہے اس کی پیدا وار میں موجود ہ عہد کی پیچیدگیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے اس مشینی دور میں انسان بہت ساری پریشانیوں اور الجھنوں میں گرفتار ہوگیا۔ ان پریشانیوں اور الجھنوں کو دور کرنے کیلئے انسان نے جسمانی اور دماغی کا وش کرنا شرو ع کردیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا سکون درہم برہم ہوگیا عدیم الفرصسی کی بنا پر اس کے پاس اتنا وقت نہیں رہا کہ وہ ضخیم کتب کا مطالعہ کر سکے انہیں حالات کے زیر اثر مختصر افسانہ کی ایجاد ہوئی اور اس میں مختصر طور پر ان ساری چیزوں کے عناصر ڈال دئے گئے جنہیں صدیوں تفریحی اخلاقی اور تنقیدی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتاتھا۔ اس لئے اس کی کوئی قطعی تعریف ممکن نہیںدوسرے افسانہ فن کی حیثیت سے ہمیشہ ہی آگے بڑھتا رہا ہے۔ ۱۹۶۰ کے بعد بہت سے علامتی تمثیلی تجریدی اور ابہامی افسانے لکھے گئے بہت سے افسانے شعور کی روپر ہی لکھے جانے لگے۔ خارجی حالات کے بجائے اندرونی حالات کا تجزیہ کیا جانے لگا۔ اس لئے افسانے کی جو تعریفیں کی جاتی رہی ہیں ان کے سامنے ساری تعریفیں بے کار ہو کر رہ گئیں۔ لیکن ۱۹۸۰تک پہنچتے پہنچتے ایک بار پھر پرانی چیزیں دہرائی جانے لگیں اور وقار عظیم کا یہ کہنا تقریباً درست ہوگیا۔
 
’’مختصر افسانہ ایک ایسی مختصر فکری داستان ہے جس میں کسی ایک خاص واقعہ کسی ایک خاص کردار پر روشنی ڈالی گئی ہو اس میں پلاٹ ہو اور اس پلاٹ کے واقعات کی تفصیلیں اس طرح گھٹی ہوئی اور اس کا بیان اس قدر منظم ہو کہ وہ ایک دردو تاثر پیدا کر سکے۔
 
جدید افسانے کے سلسلے میں سلام بن رزاق نے بھی ٹھیک ہی کہا ہے کہ افسانے میں تکنیکی طور پر ایک ہزار تجربے کئے جائیں مگر افسانہ افسانویت کے بغیر اس خوشنما پھول کی مانند ہے جس کی خوشبو چھین لی گئی ہو۔
 
اس طرح مندر جہ بالا اقوال اور مصنف کے خیالات کی روشنی میں افسانے کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اور اس کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔
 
خصوصیت:
 
دور حاضر میں وقت اور فرصت کی کمی کا اثر زندگی کے ہر شعبہ پر پڑا ہے ادب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا نتیجہ کے طور پر نئے فن پیدا ہوئے اور پرانے فن میں بھی تبدیلی آئی ادب میں زمانے کے اس نئے مزاج کا مظہر افسانہ بنایہ زمانےکے مزاج کا مظہر بھی ہے اور انسان کی جذباتی اور نفسیاتی ضرورتوں اور تقاضوں کی تسکین کا وسیلہ بھی۔
یوں تو افسانے کی بہت ساری تعریفیں کی گئی ہیں اس کی بہت ساری خصوصیات بھی ہیں لیکن یہاں سب کا تفصیلی بیان ممکن نہیں ، اس کی چند اہم خصوصیات یہ ہیں۔
 
اختصار:
 
افسانے کی پہلی خصوصیت اس کا اختصار ہے اس مشینی دور میں ضخیم کتابوں کے مطالعہ کا وقت انسان کو نہیںپاتا ہے۔ اور افسانے کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ مختصر ہوتا ہے اسے قارئین ایک ہی نشست میں پڑھ کر ختم کر ڈالٹے ہیں آج کا مصروف انسان ایک پروگرام اور دوسرے پروگرام کے درمیان آسانی سے ایک افسانہ پڑھ کر اپنے ذہن کیلئے تسکین وسرور دانبساط کا سامان فراہم کر لیتا ہے افسانے کی یہ پہیلی خصوصیت ہے کہ یہ بے جا طور پریہ طول نہیں ہوتے۔
 
مختصر افسانہ کہانی کے اختصار اور ارتکاز کا فن ہے یہ قطرہ میں وجلہ یا جز میں کل کا مشاہدہ ہے زندگی کا ایک جلوہ معاملات کا کوئی ایک پہلو ماحول کا کوئی ایک منظر، شخصیت کی کوئی ایک ادا مختصر افسانے کا موضوع ہے، اس کے ذریعہ کثرت میں وحدت کا سراغ لگا یا جاتا ہے۔ کسی ایک خیال یا مقصد کا اظہار ایک کہانی میں واضح اور درست طریقے پر کردیا جاتا ہے۔
 
لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ افسانہ کہ مختصر کر نے کیلئے صرف ایک ہی واقعہ کی عکاسی کی جاتی ہے۔ اس میں کئی واقعات ہوسکتے ہیں اور یہ واقعات کئی سالوں کے عرصہ پر پھیلے ہوئے بھی ہوسکتے ہیں اور ان واقعات میں زندگی کے مختلف پہلوئوں کی تصویر کشی بھی کی جاسکتی ہے۔ مگر اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے پھیلائو کے درمیان بے کار کی باتیں، بے کار مباحثے اور بے سود نظر یا کا ذکر نہیں کیا جاسکتا۔
ربط
افسانہ کی دوسری خصوصیت اس کا ربط ہے افسانہ کے واقعات ایک مربوط انداز میںپیش کئے جاتے ہیں ایک کڑی دوسری کڑی کے اس طرح سے ملی ہوئی ہوتی ہے کہ کہیں بھی خلاء کا احساس نہیں ہوتا واقعات اگر منتشر اور بکھرے ہوئے ہوں گے تو افسانے میں جابجا کھا نچے پیدا ہو جائیں گے۔ مختصر یہ کہ افسانے کی دوسری خصوصیت اسی کا ربط ہے افسانہ نگار واقعات کی کڑیوں کو اس طرح اکٹھا کر دیتے ہیں کہ وہ ایک زنجیر بن جاتی ہے اور قارئین کو کہیں بھی بے ربطی کا احساس نہیں ہوتا۔
 
لہجے اور انداز کی ہم آہنگی:
 
ایک اچھے افسانہ کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ افسانہ نگار شروع سے آخرتک اس میں لہجے اور انداز کی ہم آہنگی قائم رکھتا ہے وہ کسی نہ کسی کے تحت افسانے لکھتا ہے اور اس مقصد میں اتنی گہری تاثیر پیدا کر دیتا ہے کہ افسانہ پڑھنے والا اس کا ہم خیال بن جاتا ہے افسانہ نگار کا اندازہ اس کے موضوع اور مقصد سے ہوتا ہے کبھی وہ شگفتہ بیانی سے کام لیتا ہے کبھی اس کے لہجے میں سنجیدگی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کبھی طنزیہ انداز استعمال کرتا ہے کبھی اعظانہ انداز سے افسانے کو بامقصد بنا تاہے گویا ہر نئے موضوع کا اندازا ور لہجہ نیا ہوتا ہے اور اپنے مقصد کو وہ کسی نہ کسی پر دے میں چھپا کر دو سروں کے سامنے پیش کرتا ہے اور انداز اور لہجے کا فرق افسانے میں فنون لطیفہ کی سی نزاکت پیدا کر دیتا ہے وہ شروع سے آخر تک اپنے فیصلہ پر قائم رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ افسانے میں لہجے اور یکسانیت کو افسانے کی جان کہا جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ افسانہ نگار لہجے اور ہم آہنگی کیلئے تنوع اور رنگینی کو ختم کر دیتا ہے بلکہ وہ فنی توازن کا پورا پورا خیال رکھتا ہے یہی افسانے کی خصوصیت ہے۔
اتحاد وزماں، اتحاد مکاں اور اتحاد عمل:
 
افسانے کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ اس میں اتحاد زماں موجود ہوتا ہے یعنی افسانے کے واقعات اور وقت میں مناسبت ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو افسانے کی اہمیت نہیں رہے گی۔ واقعات اور وقت میں تطابق نہ ہوگا تو افسانہ میں تضاد پیدا ہو جائے گا ایسے واقعات جو کسی خاص وقت یا موسم میں ظہور پذیر نہ ہوتے ہوں افسانہ میں وکھانا اتحاد زماں کے خلاف ہے۔ ایک اچھے افسانہ میں اتحاد وزماں موجود ہوتا ہے۔ 
اتحاد زماں کی طرح افسانے میں اتحاد مکاں بھی ہوتا ہے ایک کردار ایک وقت میں ایک ہی مقام پ ردکھا یا جاسکتا ہے۔وہ ایک ہی وقت میں مختلف ملکوں کی سیر نہیں کر سکتا ہے، اگر افسانہ نگار اس بات کا خیال نہیں رکھتا ہے تو افسانہ میں تضاد پیدا ہو جاتا ہے، اس طرح افسانے کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں اتحاد مکاں ہوتا ہے۔
 
اتحاد زماں اور اتحاد مکاں کی طرح افسانے کی خصوصیت میں اتحاد عمل بھی شامل ہے کردار کے مختلف افعال میں مطابقت ہوتی ہے کوئی کردار بیک وقت ایماندار اور بے ایمان یا ہمدرد اور ظالم نہیں ہو سکتا اس طرح افسانے کی ایک خصوصیت اتحاد عمل بھی ہے۔ لیکن عصر حاضر میں وحدت زماں اور وحدت مکاں کا لحاظ دشوار ہو گیا ہے۔ آج کی ترقی یافتہ اور برق رفتار زندگی میں مواصلات کی ترقی اور نقل وحرکت کی کثرت کے سبب کردار کا ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا بہت آسان ہوگیا ہے، یہ سچ ہے کہ وقت کا پیمانہ مختصر ہوگیا ہے مگر اس میں توسیع کسی بھی وقت ممکن ہے لہذا واقعات بین الاقوامی سطح پر مختلف لمحات میں واقع ہوتے رہتے ہیں اور اس کے زیر اثر دلچسپ اور خیال انگیز افسانے لکھے جاسکتے ہیں، وحدت عمل کے سلسلے میں بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے زندگی میں یکسوئی باقی نہیں رہی، حالات پیچیدہ ہو گئے ہیں، ہر مسئلہ کے کئی پہلو ہوسکتے ہیں لہذا افراد بیک وقت متعدد اشغال میں مصروف ہو سکتا ہے اور وقت حالات کے تقاضوں کا جواب دینے کیلئے بعض اوقات یہ کئی سطحوں پر کام کرسکتے ہیں۔ لیکن سارے حقائق کے باوجود افسانے کے سانچے کو مختصر ہی رہنا چاہئے اچھی کہانی کی ایک خصوصیت اس کا صحیح تناسب ہے فنی ترتیب کا تناسب افسانے کو حسین وجمیل بناتا ہے اس کے علاوہ اس کی وجہ سے افسانے میں مجموعی تاثیر بھی قائم رہتی ہے۔ اس کے علاوہ مشاہدہ فکر، احساس اور افسانہ نگار کے ایسے اوصاف ہیں جن سے افسانہ زندگی کی ایک ایسی تصویر اس کی ایک ایسی تفسیر، اس کی ایک ایسی تنقید بنتی ہے جس سے پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا یہ سب مل کر ایک ایسی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں جس میں ایک ایسا نیا پن اور ایک ایسی دلکشی ہوتی ہے جو پڑھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔ وہ افسانہ نگار کے احساسات وجذبات سے ہم آہنگ ہو کر اس کے فرمان پر روتا ہنستا اور مسرور مغموم ہوتا ہے، خوشی وغم اور رنج والم کی ان کیفیتوں کو سینے سے لگا تاہے، یہی افسانے کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
 
افسانے کے پلاٹ :
 
کہانی کی ترتیب میں کردار سے ان عمل اور مکالموں سے منظر کشی سے اور افسانہ نگار کے نقطہ نظر سے جو رنگ بھرا جاتا ہے یہی کہانی کاڈھانچہ اس کا پلاٹ کہلاتا ہے یعنی تمام مواد کی فراہمی کے بعد افسانہ نگارکردار مکالمہ اور مناظر سے ایک ڈھانچہ تیار کرتا ہے، اس ڈھانچہ کو پلاٹ کہتے ہیں، لیکن پلاٹ بجائے خود یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ کہانی ہے ای ۔ایم فاسٹر( E.M.FASTER) نے کہا نی کے پلاٹ اور کہانی کا فرق ظاہر کر نے کیلئے ایک اچھی مثال دی ہے۔ 
’’اگر یہ کہا جائے کہ بادشاہ مرگیا اور اس صدمہ سے ملکہ مرگئی تو یہ ایک پلاٹ ہے کیونکہ بادشاہ مرگیا اور پھر ملکہ مرگئی کے دو الگ الگ واقعات کے مابین صدمہ ہی ایک ایسا تجربہ ہے جو انہوں مربو ط اور منضبط کر دیتا ہے۔
 
جس طرح پلاٹ بجائے خود یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ کہا نی ہے اس طرح پلاٹ کے بغیر بھی ایک اچھی کہانی وجود میںنہیں آسکتی، افسانے اور پلاٹ کو نقادوں نے لازم وملزم قرار دیا ہے پلاٹ دراصل کہانی یا مختلف واقعات کا نظم وضبط دے کر روئیداد یا ماجرا بنا تا ہے۔
 
پلاٹ کسی حادثہ وقوعہ یا منظر کا نام نہیں بلکہ ان میں ربط پیدا کر نے والی ایک کڑی ہے۔ پلاٹ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ زندگی سے قریب ہوتا ہے عام طور پر وہ واقعات جو ہماری زندگی میں آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں انہیں کو افسانے کا پلاٹ بنایا جاتا ہے۔ 
 
افسانے کے پلاٹ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے واقعے میں کہیں نہ کہیں کوئی رکاوٹ ضرور پیدا ہو افسانے میں ہیجان اور شش وپنج کی کیفیت پیدا کرنے کیلئے اس میں کچھ مسائل کو سامنے لایا جا تا ہے در اصل کشمکش ہی کی منزل میں افسانے کے کرواروں کو دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملتا ہے کہ انہوں نے ان حالات وکیفیات میں اپنے آپ کو کس طرح سچا اور وفا دار ثابت کیا یا کس طرح وہ ریا کار اور بدنیت بن گئے۔ کشمکش کی منزل طے ہونے کے بعد کہا نی نقطہ عروج یا منتہا (CLIMEX )تک پہنچ جاتی ہے۔ ہر اچھے پلاٹ میں اس کا ہونا ضروری ہے۔ 
 
واقعات کا ابتدا سے لے کر نقطہ عروج تک پہنچنا اور اس کے بعد موزوں اور موثر نتیجے پر ختم ہونا، اسی ترتیب وتنظیم کا نام پلاٹ ہے۔
 
اچھے پلاٹ کی عام طور پر پانچ خصوصیات ہیں ساد گی، صداقت ،جدت ،منتہا کی تیزی اور دلچسپی۔
پلاٹ کی قسمیں:
 
افسانے میں پلاٹ سے زیادہ اہمیت اس چیز کی ہے جس کی وجہ سے پلاٹ وجود میں آتے ہیں زیادہ تر افسانوں کا تعلق واقعات سے ہوتا ہے واقعات ہر آدمی کی زندگی میں آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیںلیکن عام طور پر اس کا احساس انہیں نہیں ہو پاتا ہے جب تک ان میں کوئی خاص بات نہ ہو افسانہ نگار انسان کی اس فطرت سے واقف ہو تا ہے اس لئے اس طرح کے سینکڑوں افسانے لکھ ڈالتا ہے ایسے افسانوں کو واقعاتی افسانے کہے جاتے ہیں۔
 
دوسری قسم کے افسانے وہ ہیں جو کسی حسن کی مصوری کرتے ہیں افسانہ نگار کے دل میں کوئی خیال پیدا ہوتا ہے اور وہ اس خیال کو اپنے تخیل کے ذریعہ پھیلا کر اتنا بڑا کر دیتا ہے کہ افسانہ بن جا تاہے ایسے افسانہ نگار وہی لوگ ہوتے ہیں جس میں احساس کی شدت ہوتی ہے۔
 
تیسرے قسم کے افسانے کسی نفسیاتی اثر کے تحت لکھے جاتے ہیں ایسے افسانوں کے پلاٹ کی بنیاد کسی نفسیاتی مطالعے پر ہوتی ہے اس طرح کے افسانے لکھنے والے عام طور پر تحلیل نفسی سےاچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ وہ افسانہ نگاروں کے فن اور اس کی نزاکتوں کے جاننے کے علاوہ فطرت شناس ہوتے ہیں وہ غیرہ شعوری کیفیت سے بھی واقف ہوتے ہیں اور اس کی روشنی میں افسانے لکھتے ہیں وہ جنسی رجحان اوڈیپس کمپلکس اور نرگیسیت کے مسائل سے واقف ہوتے ہیں وہ وراثت اور ماحول کا اثر شعور اور لاشعور کے فرق کو بہت حد تک پہنچا نتے ہیں۔
 
ان کے علاوہ اور بھی بہت طرح کے افسانے لکھے جاتے  ہیں کسی کا تعلق کسی ذہنی کیفیت سے ہوتا ہے کسی افسانے کاموضوع وہ تعلقات ہیں جو دنیا کی دو چیزوں کے درمیان ہوسکتے ہیں جیسے عشق ومحبت دوستی، دشمنی حسد، بغض وعداوت ،خلوص وغیرہ کبھی صرف تضاد کو افسانے کا موضوع بنایا جاتا ہے جسے در آدمی کے جذبات میں تضاد ا ن کے افعال میں تضاد ،فطرت انسانی اور مناظر فطرت میں تضادکبھی افسانے کا پلاٹ اخلاقی سماجی اصلاحی اور اسلامی حالات سے حاصل کئے جاتے ہیں، کبھی افسانہ نگار صرف ایک ذہنی خیال یا شاعرانہ جذبے کو پیش کر دیتا ہے۔ اس طرح پلاٹ کی ان گنت قسمیں ہوسکتی ہیں لیکن ان کی کوئی باقاعدہ تقسیم ممکن نہیں۔
 
پلاٹ میں قصے گوئی کے طریقے:
 
عام طور پر پلاٹ میں قصہ گوئی کے تین طریقے رائج ہیں۔ پہلا طریقے براہِ راست طریقہ ہے اس طریقہ میں افسانہ نگار ایک مورخ کی حیثیت سے واقعات کو پیش کرتا ہے یہ طریقہ بہت آسان ہے اور سب سے زیادہ مقبول ہے اس میں افسانہ نگار کو ہر طرح کی آزادی بھی حاصل ہوتی ہے۔ ہوش میں آنے پر دونوں نے ایک دوسرے کو بغور دیکھا پھر آنکھوں آنکھوں میں کچھ سوالات ہوئے نظریں اٹھا کر آس پاس کا جائزہ لیا۔ 
ذرا ٹھہر کر پہلا بولا
کچھ بھی سلامت نہیں ہے یار، سب کچھ برباد ہوگیا، ہش، دوسرے نے منہہ پر انگلی رکھی، آہستہ بول خیریت ابھی بھی نہیں ہے۔
پھر اس نے اپنے آپ کو چھوڑ کر اطمینان کر لیا۔
دوسرا طریقہ خود نوشت قسم کا ہوتا ہے ایسی صورت میں افسانہ نگارصیغہ متکلم میں واقعات بیان کرتا ہے افسانہ نگار خودہی کردار کارول ادا کرتا ہے یہ طریقہ بھی بہت دلچسپ ہے، تم نے مجھے جو کچھ بتایا اسے سن کر میں حیرت میںپڑ گیا میری سانسوں کی رفتار غیر معمولی طور پر بڑھ گئی دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں، میرے چہرے پر پسینے کی بوندیں نمودار ہوگئیں۔ کیا ایسا بھی ممکن ہے ،طرح طرح کے سوالات میرے ذہن میں ابھر رہے تھے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اتنے دنوں تک مجھے دھوکہ دیتا رہا۔ قصہ گوئی کا تیسرا طریقہ خطوط اور ڈائریوں کے اور اق کے ذریعہ ہوتا ہے یہ طریقہ کچھ مشکل ہے کیونکہ خط اور ڈائری کے اوراق کے ذریعہ افسانہ تیارکرنا اور اس میں حسن وخوبی پیدا کرنا معمولی بات نہیں ہے اردو میں کم ہی افسانہ نگاروں نے اس طریقے کو اپنایا ہے اور کامیاب ہوئے ہیں۔
 
شبنم! میں تمہارے خط کا جواب لکھنے بیٹھا ہوں لیکن جواب دینے سے پہلے ایک بار پھر تمہارا خط پڑھ لینا چاہتا ہوں تاکہ تمہاری ہر کات کا جواب دے سکوں تم نے لکھا ہے۔ 
میرے ہمدم وہمراز ارشد!
 
آپ کو یہ جان کر سخت حیرت ہوگی کہ میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے گھر آنگن کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اب میں اپنے وطن سے دور آ پ ہی کے ایک رشتے دار کے یہاں ہوں۔
 
 
انٹی پلاٹ افسانے:
 
پلاٹ کے سلسلے میں اوپر جو باتیں کہی گئیں ا ن سے افسانے میں پلاٹ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے لیکن ۱۹۶۰ء کے بعد کچھ افسانہ نگار اسے غیر ضروری چیز سمجھ کر اس سے انحراف کر نے لگے ان کا خیال ہے کہ سائنسی ایجادات اور زندگی کے معاشی نظام کے درہم برہم ہونے کی وجہ سے انسانی زندگی کی خارجی حقیقتیں ایک بے معنی سی چیز ہو کر رہ گئی ہیں، اس لئے وہ زندگی کے خارجی حقائق کے بجائے انسانی جذبات اس کی ذہنی کیفیت اور اس کے شعور کو اپنے افسانے کا موضوع بنانے لگے چونکہ انسان کے شعور میں ترتیب وتنظیم اور نظم وضبط کلی طور پر ممکن نہیں اس لئے نئے افسانوں میں پلاٹ کی اہمیت رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی نفسیات کے اس نظریئے کو شعور کی روکہا جاتا ہے۔ چونکہ شعور ایک سیال مادے کی طرح غیر مقررہ راستوں پر چلتا ہے اس لئے اس قسم کی چیز کا ذکر کرنے کیلئے کسی فنی ترتیب کی ضرورت باقی نہیں رہی، اس شعور کی رونے افسانہ نگار کی دنیا میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا اور انٹی پلاٹ اسٹوری بہت تیزی سے لکھی جانے لگی۔ 
 
دیکھتے ہی دیکھتے شیشے کا گھر بھیڑیوں بکریوں، ریچھوں اور کتوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔ اب تو ایسا ہوگیا کہ جس طرف نگاہ پڑتی بھیڑیئے اور رسیچھ ہی رسیچھ اور کتے ہی کتے نظر آتے صرف شیشے کے گھر ہی میں کیوں؟اب تو پہاڑ ،جنگل، گائوں میں بھی اس گوشت کے گھنائو نے اور غضب ناک پرندے نے اپنا پنکھ پھیلا نا شروع کر دیا تھا۔
 
کردار نگاری:
 
کردار نگاری افسانے کا ایک اہم جز ہے افسانہ کردار کے ذریعہ ہی آگےبڑھتا ہے اور انجام تک پہنچتا ہے افسانہ میں سب سے اہم کردار ہیر ویا ہیروئن کا ہوتا ہے در اصل افسانہ ان ہی کے گروگھومتا ہے مرکزی کردار کی کامیابی پر افسانہ کی بقا کا دارو مدار ہوتا ہے اس لئے مرکزی کردار زندگی کے عین مطابق ہوتے ہیں، مرکزی کردار کے علاوہ کچھ ذیلی کردار بھی ہوتے ہیں جو واقعات کی تکمیل میں مدد دیتے ہیں، انہیں کے ذریعہ مرکزی کردار اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے ان ذیلی کرداروں کو تفصیل کے ساتھ نہیں پیش کیا جاتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے مرکزی کردار دب کر رہ جائیں گے ذیلی کردار مرکزی کردار کے تابع ہوتے ہیں۔
 
اچھے افسانوں میں کردار خوبی اور خامی دونوں صفات کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ افسانوی کردار انسان ہی کے عکس ہوتے ہیں اس لئے اس میںاچھائی اور برائی دونوں ہوتی ہے۔ بغیر کسی خاص سبب کے افسانوی کردار کو نہ بہت زیادہ بلند رکھا جا سکتا ہے اور نہ بہت زیادہ پست ایک افسانہ کے مختلف کردار کو ایک جیسا بھی نہیں دکھایا جاسکتا ہے کیونکہ افسانوں میں یکسانیت نہیں ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ افسانوی کردار ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ جدا ہوتے ہیں کرداروں میں تصنع اور بناوٹ بھی نہیں ہونی چاہئے ورنہ قارئین متاثر نہیں ہوپائیں گے مردوں اور عورتوں کے کرداروں کو پیش کرتے وقت افسانہ نگار ان کے جذبات کا خاص خیال رکھتا ہے مثلا مردوں کو بلند حوصلہ کا مالک ہونا شجاع اور بہادری سے کام لینا، لباس اور زبان کا خیال رکھنا اور عورتوں کو باحیا ہونا ہمدردی اور رحم دلی سے پیش آنا، نازک دل اور کمزور فطرت کی ہونا، لباس اور سنگار کا خیال رکھنا لازمی ہے۔ کردار کو جاندار اور حقیقی بنانے کیلئے افسانہ نگاروں کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں، اسے مشاہدے کی ضرورت پڑتی ہے ساتھ ہی اسے حساس ہونا پڑتا ہے کردار عام طور پر دوطرح کے ہوتے ہیں ایک وہ کردار جس میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے، ایسے کردار میں جو باتیں ابتدا میں ہوتی ہیں وہ آخرمیں نہیں لیکن ایسا کرنے کیلئے پہلی اور آخری شکل کے درمیان مختلف منزلیں بھی ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ غیر فطری نہیں معلوم ہوتے رفتہ رفتہ تبدیلی ہونے والے اس کردار کو کردار کا ارتقا کہتے ہیں۔ 
 
دوسری طرح کے کردار وہ ہوتے ہیں جس میں تبدیلی نہیںہوتی ہے اس قسم کے کردار میں شروع سے آخر تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے وہ شروع سے جیسے ہوتے ہیں اخیر تک ویسے ہی رہتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ افسانہ نگار ہمارے سامنے ایسی صورت حال پیش کر دیتا ہے جب انقلاب ان پر اثر کر چکا ہوتا ہے جب کردار اپنی زندگی شروع کردیتے ہیں۔ ایسی صورت میں نئی زندگی شروع کر نے کی وجوہات بیان کردی جاتی ہیں اور افسانہ یہیں پر ختم ہوجاتا ہے۔
 
عام طور پر افسانہ نگا ر اپنے کر داروں کو قاری کے سامنے بیانیہ انداز سے پیش کرتے ہیںلیکن یہی ایک طریقہ رائج نہیں ہے کئی طریقوں سے کرداروں کو پڑھنے والوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، کبھی مکالمے سے کبھی عمل سے کبھی تحریکات سے اور کبھی اضطراب سے ۔چونکہ افسانہ اختصار کا معجزہ ہے اس لئے یہاں کردار اس طرح مشخص نہیں ہوسکتے جیسے ناول میں اور نہ اس کی شخصیت کے سبھی الجاد پوری طرح ابھارےجاسکتے  ہیں افسانہ نگار کے فن کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ کس طرح افسانے کے موضوع ،ماحول اور ضرورتوں کے مطابق کسی کردار کی شخصیت کے ایک یا چند ایک خاص پہلوئوں کو بروے کارلاتا ہے ایسا کرنے کیلئے اس کے پاس بہت سے وسیلے ہوتے ہیں کبھی وہ کردار کے اوصاف بیان کرکے اور کبھی مکالموں کے توسط سے اس کی ظاہری اور باطنی دنیا کو بے نقاب کرسکتاہے اختراور نیوی نے ٹھیک ہی کہا ہے۔
 
صاحب نظر افسانہ نویس زندگی کی خاکستر میں چنگاریاں تلاش کرتے ہیں اور سنگریزوں میں گہر کی جستجو وہ اپنی قوت نفوظ وصلاحیت تعمیر سے انہیں سنگ وسغال سے فن کے شاہکار کی تشکیل کرتے ہیں۔
 
کردار نگاری کیلئے ایک اور چیز بہت اہمیت رکھتی ہے وہ ہے افسانے کے کردار کانام کرداروں کے نام ایسے ہونے چاہئیں جس قسم کے واقعات اور افعال سے کرداروں کو مخصوص کیا جائے اس کا اندازہ ان کے ناموں سے بھی ہوجائے رومانی افسانوں کے لئے جو نام استعمال کئے جاتے ہیں وہی نام اگر ترقی پسند افسانے یا پر اسرار افسانوں کے لئے استعمال کئے جائیں تو زیادہ کامیابی نہیں ملے گی۔ ہر نام اپنے اندر کچھ خصوصیت رکھتا ہے اس کی آواز میں ایک اثر ہو تا ہے اور یہ اثر اس وقت زیادہ موزوں ہوسکتا ہے جب اس نام کی آواز کے ساتھ اس قسم کی بازگشت سنائی دے۔مختصر یہ کہ مندرجہ بالا باتیں کردار نگاری کیلئے بہت ہی اہم ہیں لیکن ۱۹۶۰ء کے بعد افسانوں نے اس کردار نگاری کے نہج کو بہت حد تک محدود کردیا ہے جدید افسانے لکھنے والوں نے اپنی کہانی کی حدود کو صر ف ایک فرد کی ذات تک محدود کر لیا ہے۔کہانی کی بنیاد اسی ایک فرد کے ذہن کی شعوری کیفیت پر رکھی جاتی ہے شعور کی رواسی ایک کردار کی ذہنی کیفیت کا خاکہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔
 
مکالمہ:
 
افسانے میںمکالمہ کی ایک خاص اہمیت ہے کردار مکالموں کے ذریعہ آگے بڑھتے ہیں کرداروں کے عادات وخصائل پر مکالمہ کے ذریعہ ہی روشنی پڑتی ہے واقعات کو آگے بڑھانے میں مکالمہ ایک اہم رول ادا کرتے ہیں مختصر یہ کہ کرداروں کی خصوصیات اور ان کی حقیقت کو نمایاں کرنے کیلئے مکالموں کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ ایک اچھے افسانہ نگار اپنے افسانوں میں مکالموں کے لب ولہجہ کو بالکل فطری انداز میں پیش کرتے ہیں مکالمے اگر بالکل فطری انداز میں ادا کئے جائیں تو ہمارے دل ودماغ پر اس کے اچھے اثر پڑتے ہیں۔ سادگی اور برجستگی مکالمہ کی جان ہوتی ہے۔ مکالمے کو بے ربط نہیں ہونا چاہئے بات سے بات اس طرح پیدا کی جائے کہ مختلف کڑیاں آپس میں ملی ہوئی معلوم ہوں پڑھنے اورسننے والا سمجھے کہ بس اس کا یہی جواب ہونا چاہئے مکالموں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ موقع محل کے مطابق ہوں۔
 
مکالموں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ موقع محل کے مطابق ہوں۔یعنی خوشی کے وقت پرمسرت الفاظ منہ سے نکلیں غم کے وقت لب ولہجہ غمگین ہو، غصہ کے وقت غیض وغضب میں ڈوبے ہوئے کلمے نکلے مکالمے کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ جن لوگوں کی زبان سے ارا ہو وہ اس طبقہ کے مطابق ہو امیئر غریب ،جاہل پڑھا لکھا، عورت، مرد، بچہ، بوڑھا جس کی زبان سے مکالمہ ادا کیا جائے وہ اس کے مطابق ہو، بچوں کی زبان سے معصوم اور نامکمل الفاظ بوڑھے کی زبان سے مناسب اور معقول جملے، عورتوں کی زبان سے نسوانی خصوصیات مردوں کا لب ولہجہ موقع اور محل کی مناسبت سے کرحت اور ہمدردانہ ،جاہل اور اجڈ لوگوں کی زبان سے گنوارپن الفاظ اور جملے اداکئے جائیں، شہر کے لوگوں کی زبان صاف اور درست ہونی چاہئے گائوں میں رہنے والے کسان اور مزدوروں کی زبان عین اس کے مطابق ہو، اس میں مقامی زبان کے اثرات کی جھلک نمایا ہو۔مختصر یہ کہ جو کردار جس مخصوص جماعت سے تعلق رکھتا ہو اس جماعت یا گروہ کے لوگ عموماً جس قسم کی گفتگو کے عادی ہوں اس کی ترجمانی مکالمے میں ہونی چاہئے ورنہ مکالمہ بے جان ہوجائے گا۔
 
افسانے کا مقصد اصلاحی ہوتا ہے اس لئے اس کے مکالمے شرافت کے وائدے میں ہونے چاہئیں تاکہ پڑھنے والے ان سے اچھا اثر قبول کرسکیں رکیک اور گنوارپن الفاظ سے حتی الا مکان گریز کرنا چاہئے مکالمہ میں ظرافت اور شگفتگی جان ڈال دیتی ہے اس لئے موقع اور محل کا لحاظ رکھتے ہوئے ظرافت اور شوخی سے کام لینا چاہئے۔ 
 
ابھی زنجیر کھینچ کر اگر میں آپ کو پولیس کے حوالے کردوں تو کیسارہے گا۔لڑکی ایک ہاتھ سے اوپر والی برتھ کو پکڑ کر بولی۔
کچھ اچھا نہیں رہے گا کیونکہ آپ کے بیگ سے مفت میںپچاس روپئے نکل جائیں گے وہ مسکرا کر بولا۔
توپھر آزماہی لوں،وہ دروازہ کی طرف بڑھی جد ھر گاڑی روکنے کی زنجیر لٹک رہی تھی۔
لیکن آپ کیوں گاڑی روکنا چاہتی ہیں؟وہ کچھ پریشان ہوا۔
اس لئے کہ زنانہ کمپارٹمنٹ میں کوئی بد معاش گھس آیا ہے۔ وہ زنجیر کے پاس جا کر رک گئی۔
معاف کیجئے میںبدمعاش نہیں ہوں ،وہ بولا۔
تو پھر لیڈیز کمپارٹمنٹ میں سوار ہونا شرارت نہیں تو اور کیا ہے؟
لڑکی نے سوال کیا۔
جلد بازی میں ڈبہ کو نہ دیکھ سکا ،وہ کہنے لگا۔
مکالمے کو طویل بھی نہ ہونا چاہئے، اتنے ہی مکالمے ہوں جس سے واقعات آگے بڑھ سکیں۔ بے جا طویل اور بے کار مکالمے سے افسانے بھدے اورکمزور ہوجاتے ہیں۔ اس لئے مکالمے ایسے ہوں جو حقیقی معلوم ہوں۔ اس کے ایک ایک لفظ سے حقیقت اور اصلیت کی بو آئے طویل مکالمے پسند نہیں کئے جاتے ہیں اس لئے مکالموں میں ہمیشہ انتخاب کی ضرورت ہے کس بات کا کہنا ضروری ہے کس بات کے کہنے سے دلچسپی بڑھے گی کس بات کو کس موقع پر کہی جائے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔
 
کسی بھی کردار کے مکالمے میں انفرادی اور امتیازی شان اسی طرح ہونی چاہئے کہ اس کردار کی ہستی اور حقیقت دوسرے سے الگ معلوم ہو۔ ایک بار جو اس کی گفتگو سن لے وہ دوبارہ اس کی بات چیت سن کر سمجھ لے کہ یہ وہی شخص ہے چونکہ عام گفتگو ہمارے لئے دلچسپی پیدا نہیں کرسکے گی اس لئے ایسے ہی مکالمے لکھے جائیں جو جذبات کے اضطراب اور دل ودماغ کی امتیازی حالتوں میں کردار کی زبان سے نکلے۔
 
منظرنگاری:
 
مناظر فطرت اور مقامی رنگ کے افسانے اردو افسانہ نگاری کے ہردور میں لکھے گئے اور ہر دور میں یہ رجحان افسانے کی معنوی اور ترقی کا ضامن بناہے کیونکہ اس کے بغیر افسانہ آگے نہیں بڑھ سکتا منظرنگاری نے افسانوں میں فن کی ایک ایسی خصوصیت پیدا کی ہے جس کی وجہ سے یہ قاری کیلئے دلکش اور تاثیر کا سبب بن گیا ہے۔
 
افسانہ نگار کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ مناظر فطرت کو خود دیکھےاس کے بعد اسے اپنے افسانے میںجگہ دے بغیر دیکھے ہوئے سنی سنائی باتوں پر یا کتابی مطالعہ کی بنیاد پر منظر کی عکاسی کرنے میں خامیاں رہ جاتی ہیں ،دوسرے ممالک کے مناظر پیش کرنے میں افسانہ نگار سے لغزش ہوسکتی ہے لیکن بعض ہوشیار افسانہ نگار کتابوں کا مطالعہ کر کے یادو سرے لوگوں سے پوچھ کر منظر کشی کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں بہرحال افسانہ نگار کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس جگہ کی منظر نگاری کرے جسے اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اس لئے کہا جاتا ہے کہ افسانہ نگار کو اپنے افسانے میں مقامی رنگ کو زیادہ پیش کرنا چاہئے کیونکہ اس سے اس کو پوری واقفیت ہوتی ہے سہیل عظیم آبادی اور اختر اور نیوی نے بہارکے دیہات کی عکاسی اپنے افسانوں میں کی ہے اور وہ پوری طرح سے کامیاب ہوئے ہیں وجہ یہی ہے کہ انہوں نے بہار کے دیہاتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے مختصر یہ کہ افسانہ نگار کو چاہئے کہ وہ اپنے افسانوں میں ان مناظر فطرت اور ان جذبات کا اظہار کرے جن سے نظروں کے سامنے ان کی مکمل تصویر آجائے مناظر فطرت اور مقامی رنگ کے استعمال نے اردو افسانے کو بے شمار موضوعات عطا کیا ہے۔ اس کے زیر اثر افسانہ نگاروں نے زندگی کے محدود اور مخصوص گوشوں کو اپنا موضوع بنایا تو زندگی کے ایسے بے شمار پہلو انسان کی نظروں کے سامنے آئے جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئے تھے افسانہ نگاروں نے جب ایک محدود اور مخصوص زندگی کو اپنا موضوع بنایا تو اس کا مشاہدہ اور مطالعہ پوری توجہ سے کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی معلومات میں اضافہ ہوا اور اس کے ایک خاص طرح کا جذباتی تعلق بھی پیدا ہوگیا اور اس نے اسے جب افسانوں میں پیش کیا تو اس نے قارئین کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور اس میں ایک عالمگیری کیفیت پیدا ہوگئی۔
 
پریم چند اور علی عباس حسینی وغیرہ نے دیہات کے سیدھے سادے مزدور اور کسان کی جھونپڑیوں، دیہات کی سنسان اور خاموش گلیوں ،دیہات کے ہرے بھرے کھیتوں، وہاں کے ننگ دھڑنگ بچوں، آم کے باغات ندی نالے اور اس میںبہتےہوئے پانی نیلے نیلے آسمان اور اس کے نیچے اڑتے ہوئے پرندوں کے غول کی منظر کشی بڑے ہی حسین انداز سے کی ہے۔ سہیل اور اختر نے بہار کے دیہات اور دیہاتیوںکے پھوس کے بنے ہوئے گھر ان گھروں میں رہنے والے مرد، عورتیں بچے بوڑھے اور نوجوان ، ان کے معمولات ، معاشرت آرزوئیں مایوسیاں،الجھنیں، بھوک، شادی، بیاہ ،رسم ورواج اور ان گھروں میںبولے جانے والی زبان کو پیش کرکے دکھایا کہ افسانہ نگار زندگی کی معمولی سے معمولی بات کو ایک نئے انداز سے دیکھنے کی عادت ڈالے تو زندگی کا معمولی سے معمولی رخ اور اسکا چھوٹا سا واقعہ بھی ایک اچھا افسانہ نگار اور قلم سے کسی منظر کا عکس اس طرح اتار دیتا ہے جیسے کوئی ماہر مصور اپنے برش اور رنگ سے ایسا کرنے کیلئے مشاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جس کا جتنا تیز مشاہدہ ہوگا وہ منظر کشی میں اتنا ہی کامیاب ہوگا۔ اتناہی کامیاب کے پڑھنے والا یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں کہ وہ وہیں پر کھڑا ہے جہاں کی منظر نگاری کی گئی ہے۔
 
اسلوب:
 
افسانے میں اسلوب کی بہت اہمیت ہے اسلوب کی کسی بھی ادب سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے ادب کے مطالعہ کا ایک اہم پہلو ادب کے اسلوب کے مطالعہ اور جائزے سے تعلق رکھتا ہے کار لائل نے اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مصنف کی جلدہے یہ بہت صحیح تعریف ہے کیونکہ جس طرح جلد کو جسم سے الگ نہیںکیا جاسکتا ہے اسی طرح ادب سے اسلوب کو الگ نہیں کیا جاسکتاہے۔
 
ادیب وفن کار کی شخصیت سے اسلوب کا گہرا تعلق ہوتا ہے بعض ناقدین نے تو اسلوب کو ہی مصنف کی شخصیت قرار دیا ہے۔ اسلوب سایہ کی طرح مصنف کے ساتھ رہتا ہے جس طرح ہر مصنف کے احساسات اور خیالات الگ الگ ہوتے ہیں اسی طرح اس کی زبان بھی الگ الگ ہوتی ہے یہی اس کا اسلوب ہے۔
 
عام طور پر مصنف اپنے عہدکی زبان استعمال کرتا ہے بعض ذہین مصنف ضرورت کے مطابق زبان میں زورپیدا کرنے کیلئے اور گزشتہ عہد کی سچی تصویر کھینچنے کیلئے اپنے خاص انداز میں قدیم زبان کا استعمال بھی کرتا ہے۔ اسلوب کے ذریعہ مصنف کے بارے میں بہت کچھ جانا جاسکتا ہے اسلوب کے ذریعہ مصنف کے تعلیمی معیار اس کے ماحول اس کے نظریات اور اس کے مزاج کی تبدیلی کو بہت حد تک سمجھا جا سکتا ہے اسلوب کے ذریعہ مصنف کا بھی پتہ لگا یا جاسکتا ہے۔ لفظوں کا انتخاب فقروں کی چستی اور جملوں کی ساخت سے صاف اندازہ لگ سکتا ہے کہ یہ عبارت کس مصنف کی ہے۔اسلوب پر دور اور عہد کا بھی اثر پڑسکتا ہے اس لئے کہا گیا ہے کہ اسلوب شخصیت کا آئینہ ہے اور ماحول کا پرتو بھی رجب علی بیگ سرور کی نثرسے ان کی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر ان کی نثر میں تکلیف اور تصنع ماحول کے اثر سے پیدا ہوتا ہے اس طرح افسانہ نگاری کے ہردور میں اسلوب پر ماحول کا اثر پڑتا ہے۔ اسلوب کا مطالعہ شخصی اور تاریخی ہونے کے علاوہ تکنیکی بھی ہوتا ہے تکنیکی مطالعہ میں اسلوب کو صرف فن کی حیثیت سے دیکھا جاتاہے۔ فنکار اپنے فنی وسائل کو استعمال کر کے اپنی تخلیقی فن کی دشواریوں کو سہل بناتا ہے دراصل کسی فن کار کی انفرادیت کا انحصار بہت حدتک انہیں فنی وسائل کے کامیاب استعمال پر ہے 
 
اچھے افسانہ نگار موضوع اور ہئیت کو ایک دوسرے کے اندر اس طرح سمادیتے ہیں کہ دونوں میں کہیں تضاد نہیںہوتا۔ اس کیلئے انہیں لفظوں کے انتخاب اور ان کے استعمال میں باریک بینی سے کام لینا پڑتا ہے۔ وہ ہر لفظ کو تول کر استعمال کرتا ہے۔ اسے ہر لفظ کی تاثیر کاپورا پورا خیال رکھنا پڑتا ہے اس کے لفظ اور فقرے راستہ دکھا نے والے مینار کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لئے افسانہ نگار کو اس معاملہ میں زیادہ محتاط رہنا پڑتاہے وہ جس طرح الفاظ کو برتنا تشبیہات واستعارات استعمال کرتا اور جملوں اور فقروں کو ترتیب دیتا ہے اس کا اس کے احساسات مشاہدات اور تجربات سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ 
 
مختصر یہ کہ افسانے میں اسلوب کی بہت اہمیت ہے بعض مصنف فقروں اور جملوں کو چست بناتے ہیں بعض استعاروں ، تشبیہوں اور کنایوں سے کام لیتے ہیں بعض کے کہنے میں صفائی سادگی اور روانی ہوتی ہے بعض ادیب رنگین بیانی کا سہارا لیتے ہیں بعض کے یہاں بوجھل، پیچیدہ اور ثقیل الفاظ ملتے ہیں کسی کی تحریروں میں شوخی ہوتی ہے، مختصر یہ کہ افسانہ میں اسلوب کی بہت اہمیت ہے۔
 
فنی ترتیب :
 
افسانہ کی فنی ترتیب کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ افسانے کے مختلف اجزا کے درمیان ایک خاص قسم کا ربط ہوتا ہے افسانہ نگار اس ربط کو قائم رکھ کر اپنی کہانی کو موثر بناتا ہے اس کیلئے اسے تمہید سے لے کر منظر نگاری تک ایک ترتیب اور تنظیم قائم رکھنا پڑتا ہے فنی ترتیب کے چار نام دیئے گئے ہیں پہلی چیز واقعہ کا وجود ہے دوسرا جز واقعے میں پیچید گی کا ہونا ہے تیسرا حصہ اس کی پیچیدگی کی زیادہ اضطراب انگیز صورت ہے اور چوتھا جز نقطہ عروج ہے کہانی کے ان چاروں حصے میں فطری ربط ہوتا ہے۔ کہانی ابتدا ہوتی ہے تو اس میں کشمکش یا تصادم کا آغاز ہوتا ہے پھر اس میں الجھن اور پیچیدگی پیدا ہوتی ہے اس الجھن اور پیچیدگی میں برابر اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی انتہائی بلندی تک پہنچ جاتا ہے افسانہ نگار ان چاروں اجزا کی فنی اہمیت کا اندازہ رکھتا ہے اور انہیں صحیح طریقے سے اس طرح استعمال کرتا ہے کہ کہانی دلچسپ اور موثر بن جاتی ہے۔
 
افسانے کی فنی ترتیب میں ایک بات اور قابل ذکر ہے اور وہ ہے حسن اسلوب اچھا اسلوب بھی افسانے کی فنی ترتیب کو بلند کرتا ہے لطیف زبان اور شاعرانہ انداز بیان افسانہ میں جادو کا کام کرتا ہے اور پڑھنے والے کے اندر تجسس اوردلچسپی کو برقرار رکھتا ہے ۔اس کے علاوہ فضا بندی بھی افسانے کی دلچسپی قائم رکھنے میں جادو کا کام کرتی ہے قاری کو متاثر کرنے کیلئے افسانہ نگار ایک خاص قسم کی فضا تیار کرتا ہے ایسی فضا پڑھنے والے کے ذہن کو شک وشبہ سے محفوظ رکھتی ہے ۔ اسے کہانی کے خیال اور بنیادی تصور سے ہم آہنگ کرتی ہے اور غور کرنے کا موقع دیتی ہے قاری کہانی کے کردار کا ہم سفر بن جاتا ہے قدم قدم پر اس سے کچھ سیکھتا ہے لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہے جب افسانہ نگار فضا بندی کا ایک ایسا طلسم باندھ دے کہ قاری ذہنی اور جذباتی طور پر کہانی کے ماحول کے ساتھ  ہم آہنگ ہو جائے۔ اس طرح افسانے میں فنی ترتیب کے لئے افسانے کےمختلف اجزا کے درمیان فطری ربط فضا بندی مقامی رنگ وماحول کی نشاندہی اور حسن واسلوب کا ہونا ضروری ہے اس لئے کہ افسانے کی فنی ترتیب ہی افسانے کی روح ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ک ہ افسانے میں فنی ترتیب کی نزاکتوں کو پیدا کرنے کیلئے اصل مقصد ہی نظروں سے اوجھل ہوجائے چونکہ افسانہ سماج کی اصلاح کا آلہ ہوتا ہے اس لئے اسے مقصدیت سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔
 
مختصر یہ کہ افسانے میں فنی ترتیب کا ہونا ضروری ہے اس کے بغیر افسانے میں وہ روح پیدا نہیں ہوسکے گی جو قارئین کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرسکے۔
سرخی:
 
قاری عام طور پر پہلی نظر افسانے کی سرخی پر ڈالتے ہیں اگر سرخی دلکش معلوم ہوئی تو وہ افسانہ پڑھنا شروع کردیتے ہیں خواہ ان کی امیدیں پوری ہوں یانہ ہوں عام طور پر سرخی کا یہی مطلب رہا ہے کہ وہ پہلی نظر میں قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچ لے۔ بعض اچھے افسانہ نگار سرخیاں قائم کرنے سے پہلے افسانے کی روح اور اس کے مرکزی خیال پر نظر ڈالتے ہیں اور ا کے مجموعی اثر سے متاثر ہونے کے بعد سرخی قائم کرتے ہیں بہر حال افسانے میں سرخی کی بہت اہمیت ہے۔ افسانے میں سرخی قائم کرنے کے کئی طریقے ہیں ک چھ افسانہ نگار افسانوں کی سرخی جذبات کے اعتبار سے قائم کرتے ہیں یعنی افسانے میں جس جذبے کی عکاسی ہوتی ہے اس جذبے کے نام سے افسانے کا عنوان رکھ دیاجاتا ہے مثلاً کہیں محبت کا جذبہ دکھا یا گیا ہے تو محبت گو ہر محبت ہی محبت ،محبت کی قربانی وغیرہ افسانے میں اگر ایثار کا جذبہ ہے تو افسانے کا نام ایثار رکھ دیا جاتا ہے اسی طرح خوشی غم نفرت حقارت، حسدا ور اسی قسم کے مختلف جذبات پر افسانے کے پلاٹ کی بنیاد ہوتی ہے اور اسی لحاظ سے اس کی سرخی رکھ دی جاتی ہے۔
افسانے کی سرخی قائم کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ افسانہ نگار افسانہ کی خاتون مرکزی کردار کے نام سے افسانے کا عنوان رکھ دیتا ہے یہ طریقہ خاصا موثر ہے اور دلچسپ بھی مرکزی کردار یعنی ہیروئن کانام اگر دلکش ہے تو اس کانام افسانے کی سرخی میں بہت جاذبیت پیدا کردیتا ہے مثلاً لاجونتی، نرملا، غزالہ، کلوپطرہ ثریا، نسرین غزالہ وغیرہ۔
سرخی قائم کرنے کا ایک اور طریقہ افسانے کا مخصوص واقعہ ہے کچھ افسانہ نگار افسانے کی سرخی قائم کرنے میں افسانے کے مخصوص واقعے کا خیال رکھتے ہیں جس سے پڑھنے والا سمجھ لیتا ہے کہ اس افسانے میں کیا ہے۔جیسے بڑے گھر کی بیٹی،رومال کی چوری، قسمت کے کھیل وغیرہ۔
سرخی قائم کرنے کیلئے بعض افسانہ نگار افسانے کے انجام کو مد نظر رکھتے ہیں اس طرح ہیرو کو اگر فتح حاصل ہوتی تو فتح کے اعتبار سے اور اگر شکست ہوئی تو شکست کے اعتبار سے سرخی قائم کرلیتے ہیں جیسے موت، خودکشی، قتل، خون، شکست، ایک اور شکست، جیت، ہار، ہار کی جیت، فتح، جیتی ہوئی بازی وغیرہ۔
موسم اور وقت کے لحاظ سے بھی سرخی قائم کی ج اتی ہے یہ طریقہ بھی بہت کامیاب ہے جیسے رات کے قہقہے ،رات کی بات، صبح کا بھولا موسم خزاں بہار وخزاں ، برسات کی رات وغیرہ۔
بعض افسانہ نگار افسانے کا عنوان قائم کرنے کیلئے رومانی فضا کا سہارا لیتے ہیں۔ ایساکرنے کیلئے شاعرانہ تخیل سے کام لینا پڑتا ہے ایسا عنوان قاری کے دل میں ایک نئی شدت پیدا کردیتا ہے جیسے گل بدن، گل فروش، صحرا کا گلاب محبت کی شام وغیرہ۔
 
افسانے کی  سرخی قائم کرنے کا ایک اور طریقہ رائج ہے جو کامیاب بھی ہے اور رہ ہے کسی شعر کا ایک مصرعہ جیسے دل بھی یارب کئی دئے ہوتے ، یہ نہ تھی ہماری قسمت،ہم جیسے برباد دلوں کا جینا کیا، ہم تو ڈوبے ہیں صنم وغیرہ بعض افسانہ نگار اپنے افسانے کی سرخی متضاد یا مہمل قسم کی رکھ دیتے ہیں جن کی طرف قارئین کی توجہ یکبارگی مرکوز ہوجاتی ہے جیسے پانی کا درخت، برف کی آگ، دھوپ کا سایہ وغیرہ۔
 
سرخی قائم کرنے کے اور بھی طریقے ہوسکتے ہیں چاہے طریقے جتنے بھی ہوں لیکن سرخی کو ایسی ہونی چاہئے جو قارئین کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرے افسانے کا پہلا قدم سرخی ہے اس لئے افسانہ نگار کو یہ پہلا قد م پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ اٹھانا چاہئے مختصر یہ کہ افسانے کی سرخی میںپورے افسانے کی جھلک ہونی چاہئے۔
 
تمہید:
 
ایک اچھا افسانہ نگار شروع ہی سے پڑھنے والوں کے لئے دلچسپی کا سامان پیدا کر دیتا ہے جس طرح وہ افسانے کی سرخی کو دلکش بناتا ہے اسی طرح افسانے کی تمہید کو بھی دل فریبی عطا کر تاہے ۔ در اصل افسانے کے پہلے ہی جملے میں جادو کا اثر ہونا چاہئے تاکہ قارئین کی توجہ اس طرف کھینچ جائے تمہید کا پہلا جملہ سادہ اور سلیس بھی ہوسکتا ہے اور رنگین بھی یہ افسانہ نگار پر منحصر ہے کہ وہ جس طرح چاہے تمہید کو دلکش بنائے تمہید ہی اگر پڑھنے والے کو دلچسپ معلوم ہوگی تو اس کے دل میں پوری کہانی پڑھنے کا شوق خود بخود ابھرے گا اس لئے تمہید کو دلکش بنا نے کے لئے اس میں اختصار تاثیرا ور جدت کا ہونا ضروری ہے۔ 
 
یوں تو افسانے کی تمہید کا کوئی مخصوص یا مقررہ طریقہ نہیں ہے لیکن چند طریقے ایسے ہیں جنمیں بیشتر افسانہ نگاروں نے اپنا کر تمہید میں دلکشی پیدا کی ہے پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ کسی درمیانی واقعہ سے افسانہ شروع کیا جاتا ہے یہ طریقہ بہت رائج ہے، یہ طریقہ خاصا مقبول بھی رہا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کبھی کبھی افسانے کی تمہید انجام سے کی جاتی ہے، یہ طریقہ بھی دلکش ہے کیونکہ اس طریقہ سے پڑھنے والے کے دلوں میں تفتیش کاایک جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ریگ زار میں پانی کے لئے سرابوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہرن کی آنکھوں کی طرح زینت بیگم کی نگاہیں ایک بار شوہر کے چہرے پر امیدکی جھلک دیکھنے کیلئے بیتا بانہ اٹھیں لیکن دوسرے ہی لمحہ مایوس ہو کر لوٹ آئیں کچھ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی پوچھتی بھی کیا پوچھنے کو وہاں رکھا ہی کیا تھا۔ کچھ افسانہ نگار تمہید میں بیانیہ انداز پیش کرتے ہیں حکایت اور قصہ کہنے کے جو طریقے ہیں اسی طریقے کو افسانے میں استعمال کر کے افسانے میں قصہ پن کی روایت کو برقرار رکھتے ہیں یہ طریقے بھی خاصا مقبول رہا ہے۔
 
سڑک پر جم غفیر تھا۔ اس کارکشہ جب وہاں پر پہنچا تو اس کا دل چاہا کہ وہ رکشہ روک کر اس مجمع کا سبب دریافت کرے لیکن اسی لمحہ اس نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی اور رکشہ والے کو حکم دیا کہ وہ تیزی سے رکشہ نکالے۔ کچھ افسانہ نگار افسانہ کی تمہید مکالمے سے کرتے ہیں یہ طریقہ بھی مستحسن سمجھا جاتا ہے کیونکہ اگر مکالمے دلچسپ ہوتے ہیں تو قارئین کے دل پر فوراًہی اثر کرتے ہیں اور قارئین پورا افسانہ پڑھنے کیلئے مجبور ہوتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا انجم تمہارا بیٹا اس گھر کو رہنے بھی دے گا یا نہیں، آفتاب نے بیوی سے مخاطب ہو کر کہا،تم بھی کیسی باتیں کرتی ہو ، کیا کرڈالا ہے میرے بیٹے نے؟ کیا تمہاری جائیداد لٹادی ہے؟انجم تیوری بدل کر بولی ۔
جائیداد تو نہیں لٹاد ی ہے ،تو پھر کیا کیا ہے؟
اس طرح بعض فنکار تمہید میں منظر نگاری کو پیش کرتے ہیں بعض افسانہ نگار افسانہ کی تمہید کردار کے تعارف سے شروع کرتے  ہیں اور بعض وصف نگاری سے مختصر یہ کہ افسانے کی تمہید کا طریقہ چاہئے جیسا بھی ہو لیکن تمہید کو اس قدر دلکش اور دل فریب ہونی چاہئے کہ قارئین افسانہ ختم کرنے کیلئے مجبور ہوجائے تمہید کو بہت طویل نہیں ہونا چاہئے ورنہ ہی اس میں تخیل کی بہت زیادہ بلند پروازی ہونی چاہئے تمہید کا پہلا رازیہی ہونا چاہئے کہ افسانہ نگار قاری کے ذہن اور جذبات پر اچھی طرح قبضہ کر سکے۔
 
تحریک:
 
افسانے میں تحریک کی بہت اہمیت ہے تمہید کے بعد افسانے کے واقعات میں تحریک شروع ہو جاتی ہے اور واقعات مختلف انداز میں رونما ہونے لگتے ہیں اس وقت افسانہ نگار کو بہت ہوشیار اور محتاط رہنا پڑتا ہے۔ افسانہ نگار اگر اس وقت غافل رہا تو واقعات ڈراما ئی انداز میںپیش نہیں ہوسکیں گے اور افسانہ کمزور پڑ جائے گا جب واقعات کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا جاتا ہے تو قاری کے دل میں ایک قسم کا اضطراب اور ہیجان پیدا ہو جاتا ہے اور یہی اضطراق حالت قارئین کو آگے کے واقعات پڑھنے اور آگے کے حالات جاننے کیلئے مجبور کرتی رہتی ہے اس لئے افسانے میں سرخی اور تمہید کے بعد تحریک کی ضرورت پڑتی ہے تحریک کو بھی سرخی اور تمہید ہی کی طرح دل دلکش اور دل چسپ ہونا چاہئے تاکہ قصے کے اصل واقعات منتہا تک اسی حسن وخوبی سے پہنچ جائیں اور قاری درمیان میںکہیں بھی اکتاہٹ محسوس نہ کرے۔ افسانہ میں سب سے زیادہ قابل مطالعہ چیز پلٹ ہے اس لئے اسے بالکل فطری انداز میںہونا چاہئے اس کے بعد کردار پر توجہ دینی چاہئے کردار جارحانہ اور حقیقی ہوں تاکہ کہیں بھی شک وشبہات کی گنجائش نہ ہو مکالمے نیچرل ہوں اس کے ساتھ ہی افسانہ کی سٹنگ اور منظر کشی کا خیال رکھنا چاہئے تاکہ قاری تمہید کے بعد منتہا تک افسانہ پوری دل چسپی کے ساتھ پڑھتا جائے اسے درمیان میں کہیںبھی کسی طرح کی اکتاہٹ محسوس نہ ہو۔
 
مختصر یہ کہ افسانے میں تحریک کو دل چسپ بنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ واقعات قارئین کے سامنے ڈرامائی انداز سے پیش ہوں اور قارئین پورا افسانہ پڑھنے کیلئے مجبور ہوجائیں۔
 
خاتمہ:
 
افسانہ کو ہر لحاظ سے دل چسپ اور دل کش ہونا چاہئے اس کا بنیادی مقصد ہی دل چسپی ہے اس لئے اس کے ہر حصے میں دلچسپی ہونا ضروری ہے سرخی تمہید اور تحریک کی طرح خاتمے کو بھی دلچسپ ہونا چاہئے تاکہ افسانے کی دلکشی جو سرخی سے تحریک تک قائم رہی ہے اس میں کمی نہ آجائے عام طور پر منتہا اور خاتمہ بالکل قریب قریب ہوتاہے اگر منتہا اور خاتمہ کے درمیان زیادہ فاصلہ ہوگا تو افسانے کی دلچسپی ختم ہوجائے گی۔ بعض افسانہ منتہا تک پہنچ کر بھی قارئین کے اشتیاق کو نہیں بڑھا پاتا ہے ایسے افسانے منتہا کے کچھ دیر بعد خاتمے کو لانا چاہئے تاکہ قارئین کو پوری طرح تشفی اور اطمینان ہوجائے پریم چند نے اپنے بعض افسانوں میں ایسا ہی کیا ہے اس لئے ان کے کچھ افسانے بے اثرہونے کے باوجود قارئین کو پوری طرح مایوس نہیں کرتے افسانے کے خاتمے کی سب سے بڑی خوبی یہی ہونی چاہئے کہ اس کو منتہا کے بعد ذرا بھی طویل بنانے کی کوشش نہ کی جائے اگر ایسا ہوگا تو اس کے اثر میں بہت حدتک کمی آجائے گی۔ بعض مصنف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ افسانے کا انجام مختصر اور سادہ ہونا چاہئے لیکن بعض مصنف اس بات کے خلاف اپنی رائے دیتے ہیں۔
 
افسانے کو بیانیہ بھی نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی افسانے کا خاتمہ فرسودہ اور رسمی ہو،خاتمے میں کچھ نہ کچھ جدت ضروری ہے۔ افسانوں کے انجام عام طور پر طربیہ اور خزنیہ ہوتے ہیں، خزنیہ انجام قاری کو اپنی طرف کھینچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، طربیہ انجام بھی ایسے ہوسکتے ہیں جو دلکشی اور دلچسپی پیدا کر سکتے ہیں لیکن ان کو برتنے میں مہارت کی ضرورت ہے۔
 
موضوع کی تلاش اور مواد کی فراہمی:
 
افسانہ کے خام مواد اور موضوع کی تلاش کے لئے افسانہ نگار کے سامنے کائنات کی ہر چیز موجود ہے اس عالم پنہا ئی میں موضوعات کی کمی نہیں ہے کائنات کے چپے چپے میں اس کے بے شمار موضوع بکھرے ہوئے ہیں صرف دیکھنے والوں کی کمی ہے افسانہ نگار کے پاس ذوق تحسس دور میں نگاہ اور ایک چیز سے مطمئن نہ ہونے والا مضطرب دل ہوتو اسے افسانے کیلئے سینکڑوں موضوع مل سکتے ہیں۔ جس نے اپنی نظر کو موجودات کائنات کیلئے وقف کردیا ہے جس کا دل ہر وقت کسی نئے جذبے سے معمور نظر آتاہے اور جس کے ذہن میںدیکھی اور محسوس کی ہوئی باتوں پر غور وفکر کر نے کی صلاحیت موجود ہے اسے افسانے کے موضوع ہر وقت نظر آسکتے ہیں۔
 
ایک اچھا افسانہ نگار مناظر قدرت سے اپنا خام موادحاصل کر سکتاہے سمندر، دریا جھیل ،پہاڑ ، جنگل، صحرا اور وادی وغیرہ سے اسے موضوعات مل جاتے ہیں۔ جائدار اور بے جان اشیا بھی افسانہ نگار کو موضوعات فراہم کردیتے ہیںجیسے ہاتھی، گھوڑا، طوطا، مینا، اونٹ، کتا، بکری ، پتھر، اینٹ لکڑی ، سونا، چاندی وغیرہ، پھربھی ان پر حکمرانی کرنے والا اشرف المخلوقات اس کی بوقلموں زندگی، اس بوقلموں زندگی نئے نئے مسائل۔ دنیا کے بے شمارانسانوں کے اپنے اپنے عادات ، کردار اپنے اپنے جذبات واحساسات اور ان کے اندر چھپی ہوئی بے شمارنفسیاتی پیچیدگیاں اور نہ جانے کتنی ہی چیزیں افسانہ نگار کو موضوع عات فراہم کر سکتی ہیں۔ چونکہ انسان مختلف جذبات کا مجموعہ ہوتا ہے اس لئے افسانوی موضوع کیلئے بے شمار بذبات کا خزانہ افسانوں میںہی مل جاتا ہے ا فسانہ نگار صفات انسانی کے کسی بھی پہلو کو اجا گر کر سکتا ہے جیسے خوشی غم، محبت نفرت، رنج وغصہ ، جوش وولولہ، اتحاد وانتظام وغیرہ پھر اس کے بھی کئی پہلو ہو سکتے ہیں۔
 
اس کے علاوہ افسانہ نگار انسان کی سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی، اقتصادی ، تہذیبی ، معاشرتی اور فنی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو اپنے افسانے کا موضوع بنا سکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان کا ذہن بیدار ہوتو اسے ہر جگہ، ہر قدم پر موضوعات مل سکتے ہیں، دوستوں اور رشتہ داروں سے باتیں کرتے وقت سڑک پر چلتے ہوئے انسانوں کی کوئی حرکت، کوئی حادثہ، آئے دن ہونے والے واقعات کسی کتاب یا رسالے کی کوئی تصویر، اخبار کی کوئی سرخی ، کوئی خبر ، آسمانی اور زمینی آفات کی مختلف شکلیں، سمندری طوفان کی زد میں آنے والی جاندار اور بے جان چیزیں، قومی اور بین الاقوامی حادثات وواقعات افسانے کے موضوع بن سکتے ہیں۔
 
موضوع کی تلاش کیلئے مشاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔افسانہ نگار کو سب سے زیادہ قیمتی خزانہ مشاہدہ کی مدد سے ملتا ہے افسانہ نگار کو ہر وقت اپنی آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں اسے اپنی ظاہری آنکھوں کے ساتھ ساتھ دل ودماغ اور ذہن واحساس کی آنکھوں کو بھی کھلی رکھنا پڑتا ہے یہ آنکھیں زندگی کے بے یایاں مواد سے اپنے کام کی باتیں چن لیتی ہیں۔ لیکن سب کچھ دیکھ کر ہی نہیں جانا جاسکتا کیونکہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ساری زندگی گھومتے ہی رہتے ہیں لیکن وہ تجربے اور مشاہدے کے خزانے سے یک گو ہر آب دار بھی اپنے دامن آگہی میں جمع نہیں کرسکتے۔ انسان کو تجربہ حاصل کرنے کیلئے کاوش کرنی پڑتی ہے زندگی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا پڑتا ہے۔ زندگی کے بہت سے نشیب وفراز سے گزر نا پڑتا ہے بہت کچھ کھونے کے بعد تجربہ اپنا بنتا ہے اور مشاہدے پر اپنی گرفت قائم ہوتی ہے۔
اس طرح مشاہدہ اور تجربہ افسانہ نگار کے لئے بے حد ضروری ہے اس کے علاوہ موضوعات کی تلاش میں کتب بینی کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے کتابوں کے مطالعہ کے دوران بعض نکات اس قسم کے نظر کے سامنے آجاتے ہیں جو افسانے کا موضوع بن سکتے ہیں۔ بعض اوقات ایک کہانی کو پڑھ کر کئی کہانیوں کے نکات نگاہوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں ایک ہوشیار افسانہ نگار ایسے موقعوں کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ہے۔وہ فوراً اس سے فائدہ اٹھا لیتا ہے اخبارات کی بہت سی خبریں بھی افسانے کا موضوع بن جاتی ہیں بعض اوقات تو اخبار کی بعض خبریں افسانے کی مینو فکچرنگ کرنے لگتی ہیں۔ جیسے حال ہی میں کستی کے رواج کے خلاف اور اس کی حمایت میں اخبار کی خبریں پڑھ کر افسانے کی مینوفکچرنگ ہونے لگی تھی۔ ہوشیار اور ذہین افسانہ نگار تلاش وجستجو کی بنا پر ایسے معتبر لوگوں سے جنہیں خاص خاص موضوعات کے متعلق علم ہے، گفتگو کرکے بھی معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مواء کی فراہمی کے سلسلے میں ذاتی مطالعہ اور محاسبہ کو بھی اہم قرار دیا گیا ہے۔ افسانہ نگار اپنی ذات سے بھی بہت کچھ حاصل کر لیتا ہے۔ ہر انسان ایک سربستہ راز ہے افسانہ نگار اپنےجذبات واحساسات اور شعور کی تہوں کو ٹٹولتا ہے، اپنے ہر عمل کے پیچھے کسی نفسیاتی تحریک کی جستجو کو دیکھتا ہے اور اسے اپنے اندر ہی کئی افسانوں کے موضوعات مل جاتے ہیں، ہر انسان کی زندگی میں کئی کہانیوں کا مواد چھپا ہوتا ہے افسانہ نگار جب اپنی ذات کا مطالعہ اور محاسبہ کرنا جان جاتاہے تو دھیرے دھیرے اسے دوسروں کے اندر چھپے ہوئے رازوں کا بھی پتہ چل جاتاہے اور اس طرح وہا پنی تجرباتی دنیا میں بہت سارے رازاور بھیدوں کا اضافہ کر لیتا ہے اپنی ذات کے آئینہ میں دیگر افراد کے خدو خال کا مشاہدہ کر کے ان کی عکاسی اپنے افسانے میں کردیتا ہے۔موضوع کی تلاش اور مواد کی فراہمی کے سلسلے میں ایک بات اور قابل غور ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایک اچھا افسانہ نگار موضوع کے انتخاب کے بعد لکھنے میں جل ہی نہیں کرتا ہے بلکہ وہ موضوع کے تمام پہلوئوں پر غور کرتا ہے تب قلم اٹھا تا ہے بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس موضوع کو وہ اپنے اندر مہینوں بلکہ برسوں پالتا ہے تب جا کر وہ افسانہ بننے کے قابل ہوتا ہے۔ 
افسانہ نگار کو ایک اور بات پر دھیان رکھنا چاہئے وہ یہ کہ وہ صرف انہیں موضوعات پر قلم اٹھائے جن سے بذات خود وہ اچھی طرح واقف ہو، اسے اپنے موضوع سے سچی دل چسپی اور سچا لگا ئو ہو اس کی گہرائی میں ڈوب کر اسے دیکھا ہو تب وہ اپنے افسانے میں روح پیدا کر سکے گامثال کے طور پر جس نے مناظر قدرت نہیں دیکھا جسے مناظر قدرت کے کوئی دلچسپی نہیں وہ منظر نگاری کیا کرسکے گا۔مختصر یہ کہ افسانہ کے خام مواد اور موضوع کی تلاش کے لئے اس عالم پنہائی میں کوئی کمی نہیں ہے افسانہ نگار کے سامنے کائنات کی ہر چیز موجود ہے۔ صرف ذوق تجسس اور دور میں نگاہ کی ضرورت ہے۔
 
افسانہ نگاری کے انواع:
 
افسانہ کیا ہے اس کے متعلق پہلے ہی تفصیلی گفتگو کی جاچکی ہے یہاں افسانہ نگاری کے انواع کا ذکر کیا جارہا ہے اردو افسانہ نگاری کی انواع طویل افسانے مختصر افسانے اور مختصر مختصر افسانے یا منی کہانیاں ہیں مختصر افسانے پر شروع میں بات کی جاچکی ہے اب یہاں اس کا ذکر کرنا ضروری نہیں اس لئے صرف طویل افسانے اور منی کہانیوں کا ذکر کیا جارہا ہے۔
 
طویل افسانے:
 
ناول زندگی کی وسعتوں اور پیچیدگیوں پر محیط ہوتا ہے افسانے کی طرح اس میں کسی ایک واقعہ کسی ایک موقع کسی ایک محل کی ترجمانی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی افسانے میں بھی بعض پیچیدگیوں کے اظہار کیلئے کسی قدر رنگینی اور گہرے پس منظر کی ضرورت ہوتی ہے اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے طویل افسانے کی ابتدا ہوئی، یہ ناول اور افسانے کے درمیان کی چیز ہے بعض ناقداسے نادلٹ بھی کہتے ہیں لیکن طویل افسانے اور ناولٹ میں بھی بنیادی فرق ہے فنی اعتبار سے جس طرح ناول اور افسانہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اسی طرح طویل افسانے اور ناولٹ میں بھی بعض بنیادی فرق ہے۔ 
 
طویل افسانے میں ناول کا گہراپس منظر افسانے کا وحدت اثر ایک ساتھ موجود ہوتا ہے طویل افسانے میں ناول کی طرح پلاٹ کی پیچیدگی اور گہرائی نہیں ہوتی ہے لیکن یہ کسی ایک خاص واقعہ کسی ایک خاص محل اور ذہنی کیفیت کی پیچیدگیوں کی وضاحت کر سکتا ہے، اس میں مناظر فطرت کو بھی تفصیلی انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے، اردو میں نیاز، مجنوں اور احمد شجاع وغیرہ نے کچھ طویل افسانے لکھے ان کے بعد کرشن چندر، حیات اللہ انصاری ، احمدقاسمی، اختر اور نیوی، سہیل عظیم آبادی وغیرہ نے بعض طویل افسانے لکھے لیکن آج تک طویل افسانوں کو وہ مقبولیت حاصل نہ ہوئی جو مختصر افسانے کو ملی ہے یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں طویل افسانے بہت کم لکھے جارہے ہیں۔
 
منی کہانیاں:
 
 افسانے میں ہمیشہ تجربے ہوتے رہتے ہیں اس کے خدو خال میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے اسی طرح افسانے کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ تین ہی صفحوں میںلکھا جائے یاد س منٹ میں سناجائے صحیح نہیں رہا عصر حاضر میں جہاں داستانی افسانے کو مقبولیت حاصل ہوتی جارہی ہے وہیں منی کہانیوں کو بھی دلچسپی سے پڑھا جارہا ہے تاثر کے اعتبار سے بھی طویل افسانے کے مقابلے میں منی کہانیاں زیادہ کامیاب ہورہی ہیں طویل افسانے کے مقابلے میں یہ کہیں زیادہ قابل فہم بھی ہیں لیکن افسانے کی جواہم خصوصیات، پلاٹ، کردار، مکالمہ ، منظر نگاری، مقامی رنگ وغیرہ ہیں اس سے منی افسانہ بہت حد تک انحراف کرتا ہے۔ مختصر ترین ہونے کی وجہ سے اس میں نہ پلاٹ کو پیش کیا جا سکتا ہے نہ کرداروں کو اور نہ ہی منظر نگاری کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے کچھ لوگ اسے پسند نہیں کرتے افسانہ کا مقصد تفریحی بھی ہوتا ہے افسانہ پڑھتےوقت کچھ دیر کیلئے قاری اس کے حسن میں کھو کر رہ جاتا ہے اور اپنے دکھ درد کو بھول جاتا ہے لیکن منی کہانی اتنی مختصر ہوتی ہے کہ پڑھنے والے کو ایک نیا درس تو دیتی ہے لیکن اس کیلئے تفریح کا سامان فراہم نہیں کرسکتی بہر حال دور حاضر میں منی کہانیاں بھی لکھی جارہی ہیں اور قارئین اسے پسند بھی کررہے ہیں لیکن جو مقبولیت مختصرافسانے کو حاصل ہے وہ مقبولیت مختصر مختصر افسانے یا منی کہانیوں کو حاصل نہیں ہے۔
 
ہم ادب میں نہ صرف تجربوں کے بلکہ کہانی کو مختصر بنانے کے بھی قائل ہیں لیکن یہ اختصار فطری ہونا چاہئے، آج منی کہانی کا یہ حال ہے کہ یہ صرف چند جملوں میں بھی مکمل کی جارہی ہے چند جملوں سے لے کر ایک ڈیڑھ صفحات تک میں یہ پھیل سکتی ہے اس سے زیادہ پھیلا ئو اس کے اندر نہیں ہو سکتا ۔
دیگر اصناف قصہ گوئی اور اردو افسانہ:
 
افسانہ اور دیگر اصناف قصہ گوئی میں بہت حد تک فرق ہے اوربہت حد تک مماثلت بھی لیکن بعض لوگ اس فرق کو نہیں سمجھتے ہیں اور قصہ گوئی کے تمام اصناف کو ایک دوسر ے کی بدلی ہوئی شکل سمجھتے ہیں افسانہ ،ناول اور ڈرامہ وغیرہ سے کس حد تک الگ ہے اسے مندرجہ ذیل باتوں سے سمجھا جا سکتا ہے بعض لوگ افسانہ اور ناول کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ افسانہ ناول کی ایک مختصر شکل ہے لیکن ایسی بات نہیں ہے ناول اور افسانے کا بنیادی فرق اس کا فنی مقصد پس منظر، پلاٹ اور کردار کے بجائے وحدت تاثر ہے مختصرافسانہ اور ناول دوبالکل مختلف چیزیں ہیں اگر ایسی بات نہیں ہوتی تو بہت سے اچھے ناول نگار اچھے افسانہ نگار ضرور ہے کہ افسانہ اپنی ابتدائی منزلوں میں ناول کا مر ہون منت ضروررہا ہے لیکن اب دونوں اصناف ادب میں زمین وآسمان کا فرق ہے ، طوالت اور اختصار کا فرق بھی ایک نمایاں فرق ہے افسانہ ایک ہی نشست میںپڑھ لیا جا تا ہے اس لئے قارئین کے ذہن پر ایک ہی اثر قائم رہتا ہے لیکن ناول ایک ہی نشست میں نہیںپڑھا جاسکتا اس لئے اس میں وحدت تاثر قائم نہیں ہوسکتا چونکہ افسانہ ایک ہی نشست میں پڑھ لیا جاتا ہے اس لئے افسانہ نگار اس میں موضوع فن  ترتیب سرخی ،تمہید، منتہا اور خاتمہ وغیرہ کو ایک دوسرے سے اس طرح پیوست کردیتا ہے کہ پڑھنے والا اس سے فرار حاصل نہیں کر سکتا اس کے برعکس ناول کا پھیلائو بہت بڑا ہوتا ہے اس لئے ناول نگار کو اپنے اوپر اتنے ضبط اور قابو رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ناول نگار کو وسعتوں پر نظر رکھنی پڑتی ہے ایک بات سے دوسری بات اور دوسری بات سے تیسری بات پدا ہوتی رہتی ہے اس طرح ناول کی زنجیر میں مختلف کڑیاں جڑتی چلی جاتی ہیں، یہاں تک کہ ایک طویل زنجیربن جاتی ہے ایسی طویل اور الجھی ہوئی جیسی طویل اور پیچیدہ انسان کی زندگی ہوتی ہے لیکن افسانہ ناول کی طرح زندگی کی زنجیر نہیں ہے اس میں کسی ایک شخص ،کسی ایک واقعہ، کسی ایک تجربہ اور کسی ایک خیال کو پیش کیا جاتا ہے ناول نگار کا دائرہ عمل وسیع ہے برعکس اس کے افسانہ نگار کے عمل اور اس کے فکر کا دائرہ محدود ہے۔
دور حاضرین تحلیل نفسی کے زیر اثر لکھے جانے والے افسانے نے شعور کی روکی اہمیت بڑھا دی ہے اور اب بہت سے افسانے کسی خاص واقعہ کے بیان کرنے کے بجائے انسانی شعور کی سچی تصویر بھی پیش کرتا ہے، لیکن یہاں بھی افسانہ نگار کی ذمے داری ناول نگار سے کہیں زیادہ ہے۔
 
افسانہ مختصر ہو کر بھی فنی دشوار یاں پیدا کرتا ہے ناول میں کردار کو مختلف شکل اور مختلف حالتوں میںدیکھا جا سکتا ہے لیکن افسانے میں یہ سب چیزیں ایک ساتھ نہیں دکھائی جاسکتیں کردار کے علاوہ اس کے انجام ،تحریک ،عمل اور اس کے مقصد کو دکھانے کیلئے بھی افسانہ نگار کو ناول نگار سے زیادہ فن کی پابندیاں کرنی پڑتی ہیں۔
 
مختصر یہ کہ افسانہ ہر لحاظ سے ناول سے الگ ہے ان کا فن ان کا موضوع ان کی ترتیب ان کا مقصد کوئی چیز ایک دوسرے سے نہیں ملتی، ایک دوسرے میںبہت سی ایسی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر ایک کو دوسرے پر ممیز کیا جا سکتا ہے لیکن بعض حیثیتوں سے افسانہ ناول کے قریب ہے افسانے میں بھی ناول کی طرح پلاٹ، کردار، مکالمہ، منظر نگاری وغیرہ سبھی ہوتے ہیںیہ بھی ناول کی طرح زندگی کی عکاسی کرتا ہے اس کے ذریعہ بھی ناول کی طرح سماج کی جڑوں میں پوشیدہ برائیوں کو اجا گر کیا جاتا ہے۔
افسانہ اور ڈرامہ:
 
فنی اعتبار سے افسانہ ڈرامے سے قریب ہے افسانے کی طرح ڈرامے میں بھی وحدت تاثر کو بڑی اہمیت حاصل ہے افسانے کی طرح ڈرامے میں بھی بیان کو متعین حدود میں رکھا جاتا ہے اس کا میلان بھی اختصار اور ایجاز کی طرف ہوتا ہے۔ ڈرامے کی فنی خصوصیات بہت حد تک افسانے نے اپنے اندر سمویا ہے جس طرح ڈرامہ نگاری کا فن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ غیر ضروری باتوں میں پڑ کر مرکزی خیال کو چھوڑ دے اسی طرح افسانہ لکھنے والے کی پابندیاں بھی اسے مرکزی خیال چھوڑ نے کی اجازت نہیں دیتیں دونوں کافنی مقصد بھی ایک خاص تاثیر کی جستجو ہے اور اس تاثیر کی حصولیابی کیلئے دونوں کو ایک دوسرے سے فنی وسیلوں کی مددلینی پڑتی ہے دونوں وقت اور مقام کی قیدوں میں گھرے ہوتے ہیں دونوں ادھر ادھر دیکھے بغیر تیزی سے اپنا راستہ طے کر کے منزل مقصود پر پہنچنا چاہتے ہیں اس طرح فنی لحاظ سے دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں لیکن بعض حیثیتوں سے ڈرامہ اور افسانہ میں بہت فرق ہے ڈرامہ اسٹیج اور اس کے لوازم کی فنی ترتیب کے ذریعہ تماشائی کو زیادہ ذہنی آسودگی اور انبساط کا موقع فراہم کرتا ہے اس میں زبان ومکان کے واضح تصور سے زمان و مکاں کے علاوہ عمل کی وحدت سے وحدت تاثیر پیدا کیا جا سکتا ہے جو ناظرین کو دلچسپی کا زیادہ سامان مہیا کرتا ہے۔
 
’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 3113