donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Qayamuddin
Title :
   Bihar Mein Urdu Afsana

 

بہار میں اردو افسانہ
 
(ماضی حال اور مستقبل)
 
ڈاکٹرقیام الدین نیردربھنگہ
 
بہار میں ادب ودانشوری کی تاریخ بہت قدیم ہے یہ صدیوں سے مفکروں اور دانشوروں صوفیوں ، سنتوں ،مہاتمائوں ،ادیبوں اور شاعروں کی سرزمین رہی ہے، یہاں گوتم بدھ کو عرفان نصیب ہوا، بھگوان مہابیر نے جین دھرم کی توسیع وتبلیغ کے لئے یہاں سالہا سال تک سکونت اختیار کی۔ اشوک نے کارہائے نمایاں انجام دیا نالندہ جیسی قدیم یونیورسٹی اور ان کے کارنامے کو کون بھلا سکتا ہے۔ عہد قدیم کے بعد عہد وسطیٰ میں بھی مسلمانوں کی علمی ادبی ،ثقافتی اور تہذیبی کا وشوں نے بہار کی تاریخ کو روشن کیا ہے اردو تنقید میں امام اثر کے علاوہ کلیم الدین احمد، اختر اورینوی ، عبدالمغنی، شکیل الرحمٰن ، وہاب اشرفی، احمد سجاد اور ابوذر عثمانی وغیرہ کی خدمات کو بھلا یا نہیں جاسکتا ، تحقیق کے میدان میں ناقابل فراموش ہیں شاعری اور نثرنگاری میں بھی بہار کے فنکاروں نے نمایاں کام انجام دیا ہے لیکن ان حقائق کے باوجود بہار کے فنکاروں ناقد کو ہمیشہ فراموش کیا جاتا رہا ہے۔ خود اپنے لوگوں نے بھی قدرافزائی میں بہت حدتک بخل سے کام لیا ہے حالانکہ جن دنوں ملک کی دوسری ریاستوں کے ادیب وفنکار اردو شعر وادب کو سج سنوار رہے تھے انہیں دنوں بہار میں بھی اردو زبان وادب کی تزئین وآرائش ہورہی تھی۔ ایک طرف اگر حالی نے تنقید کی بنیاد ڈالی تو دوسری طرف بہار میں امداد اثر نے اس کی بنیاد یں مضبوط ومستحکم کیں، نذیر احمد نے ناول نگاری کی ابتدا کی تو شاد عظیم آبادی نے اسے ایک قدم اور آگے بڑھایا ایک طرف اگر ملککے صوفی شعراء اپنی شاعری میں تصوف کو پیش کررہے تھے تو دوسری طرف بہار میں بھی صوفیانہ شاعری کابول بالا تھا، مختصر یہ کہ آتش وناسخ کے ساتھ ساتھ راسخ عظیم آبادی اور انیس ودبیر کے ساتھ ساتھ شاد عظیم آبادی تھے جدید غزل میں اگر مخدوم محی الدین جوش اور فیض احمد فیض آگے بڑھ رہے تھے تو یہاں بہار میں بھی پرویز شاہدی اور جمیل مظہری جدید غزل کی جڑیں مضبوط کررہے تھے اس طرح شاعری کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری کے میدان میں بھی بہار کے افسانہ نگار کسی دور میں دوسرے خطے کے افسانہ نگاروں سے پیچھے نہیں رہے بہار کے افسانہ نگاروں کے تذکرے اور ان کی خدمات کے اعتراف کے بغیر اردو افسانہ کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی ، جس وقت سجاد حیدر یلدرم ، سلطان حیدر جوش اور پریم چند وغیرہ اصلاحی اور رومانی افسانے لکھ رہے تھے اس وقت بھی بہار کے کئی افسانہ نگار ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے ان میں علی محمود ، مسلم عظیم آبادی افسانہ نگار ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے ان میں علی محمود، مسلم عظیم آبادی، نورالہدیٰ ندوی علی اکبر کاظمی، جمیل مظہری اور حنیف فائز عظیم آبادی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔یہ سچ ہے کہ بہار میں افسانہ نگاری کی ایک مربوط ارتقاپذیر تاریخ رہی ہے الپنچ ،کی اشاعت ۱۹۸۵ء سے شروع ہوئی اس سے مختصر نویسی کی ابتدا ہوئی طویل قصہ گوئی کی جگہ مختصر قصہ نگاری کی داغ بیل پڑی جس سے افسانہ نگاری کیلئے راستہ ہموار ہوگیا۔ بلکہ اس میں کچھ ایسے نثری قصے لکھے گئے جو افسانے کی ابتدائی صورت کہے جاسکتے ہیں۔
علی محمود نے سب سے پہلاافسانہ ۱۹۰۴ء میں لکھا ان کے افسانے روایتی قسم کے ہیں لیکن اردو افسانے کی جڑ کو داستانی رنگ سے الگ کرنے کی کوشش میں علی محمود بہت حدتک کامیاب ہوئے ہیں انہوں نے پہلی بار افسانے کے ذریعہ یہ دکھانا چاہا کہ بظاہر غیر اہم اور معمولی مشاہدات کے پیچھے تہذیب واخلاق اور سیاست ومعیثت کے حقائق پوشیدہ ہوتے ہیں، یہ سچ ہے کہ انہوں نے بہت کم لکھا اور جو کچھ لکھا انہیں ادب لطیف کے زمرے میں ہی رکھا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ بہار میں انہوں نے اردو افسانے کی روایت قائم کی اس طرح بہار میں افسانہ نگاری کی روایت ۱۹۰۴ء سے ملتی ہے علی محمود نہ صرف بہار کے بلکہ اردو کے پہلے افسانہ نگار کہے جاسکتے ہیں۔علی محمود کے بعد بہار کی اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں مسلم عظیم آبادی کا نام آتا ہے ان کا پہلا افسانہ ۱۹۱۶ء میں چھپا تھا، اس کے بعد ایک عرصہ تک وہ خاموش رہے ان کا دوسرا افسانہ ۱۹۳۷ء میں ساقی دہلی میں حسن وطلب کے عنوان سے شائع ہوا، اس کے بعد ماہنامہ ساقی دہلی میں ان کا افسانہ برابر شائع ہوتا رہا اور یہ سلسلہ ۱۹۴۳ء تک چلتا رہا۔ مسلم عظیم آبادی نے اپنے افسانوں کے ذریعہ سماجی کمزوریوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے سماج کے اندر پائی جانے والی برائیوں کو طنز آمیز مزاج کاسہارا لے کر سامنے لانا چاہا ہے۔ چونکہ علی محمود کے افسانوں کا مزاح ادب لطیف جیسا ہے اور انہوں نے بہت کم لکھا اس لئے بہت سے تحقیق نگار اور ناقد نے مسلم عظیم آبادی کو ہی بہار کا پہلا باضابطہ افسانہ نگار کہنا مناسب سمجھا ہے نورالہدیٰ ندوی بہار شریف کے آس پاس کے رہنے والے تھے کلکتہ سے نکلنے والے رسالہ حور، کے مدیر تھے، انہوں نے ۱۹۲۳ء سے لکھنا شروع کیا تھا، امید تھی کہ وہ افسانوی دنیا کو بہت کچھ دیتے لیکن بی اے کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔
 
تیسری دہائی میں لکھنے والے ایک اور افسانہ نگار علی اکبر کاظمی بھی ہیں ان کے افسانے نگار، اور دوسرے ادبی رسائل میں چھپ رہے تھے چندراوتی اور، پروفیسر منصور، کاشمار اچھی کہانیوں میں ہوتا ہے انہوں نے اپنے افسانوں میں المیہ اور طربیہ عناصر کا خوبصورت امتزاج پیش کیا ہے فنی رموز سے بھی آگاہ تھے اور انداز بیان بھی دلکش تھا، اس لئے انہیں افسانہ نگاری کے ابتدائی دور کا انفرادی حیثیت رکھنے والا افسانہ نگار کہا جاتا ہے۔پہلے دور کے افسانہ نگاروں میں ایک نمایاں نام آفتاب حسن کا ہے وہ انجمن ترقی اردو کے رسالہ، سائنس، کے مدیر تھے ۱۹۶۶ء سے افسانہ لکھنے لگے تھے ان کے زیادہ تر افسانے ماہنامہ، ندیم گیا میں چھپے تھے، تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے، ان کی دوا چھی کہانیاں، چچا، اور، شادی، ۱۹۳۲ء اور ۱۹۰ء کے ،ندیم، بہار نمبر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اسی دور میں آل حسن معصومی نے، کشتہ انفعال ، اور حنیف فائز عظیم آبادی نے رفیق دانیس ، جیسے مشہور ومعروف افسانے لکھے اردو افسانہ نگاری کے پہلے دور ۱۹۰۴ تا ۱۹۳۵ء، میں جمیل مظہری، اختر اور ینوی اور سہیل عظیم آبادی کے نام بھی شامل کئے جاسکتے ہیں، ان لوگوں پر الگ سے روشنی ڈالی گئی ہے اس لئے یہاں ان کا ذکر ضروری نہیں ، البتہ اتنا تو ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس دور میں جمیل مظہری کا افسانہ، فرض کی قربان گاہ پر بہت مشہور ہوا، اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ محبت کرنے والے کس طرح فرض کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھ جاتے ہیں یہ دوقسطوں میں شائع ہوا، پہلا حصہ ۱۹۳۵ء میں رسالہ، ندیم گیا میں اور دوسرا حصہ، ندیم، گیا کے بہار نمبر میں اس افسانے سے متاثر ہو کر زبیر احمد تمنائی نے ایک افسانہ شمیم ، پٹنہ ۱۹۳۶ء میں سماج گاہ کی قربان گاہ پر شائع کروایا حبیب اللہ جھٹکیاوی نے ندیم، ۱۹۳۷ء میں قربان گاہ ایک بھینٹ کے عنوان سے ایک افسانہ لکھا منظر الحق قادری کا ایک افسانہ ۱۹۳۷ء میں ہی اسی رسالہ میں سوسائٹی کی قربان گاہ پر کے نام سے چھپا اظہر القادری نے سہیل گیا، ۱۹۳۹ء میں ایک افسانہ قربان گاہ محبت کے عنوان سے چھپوایا، بہار میں افسانہ نگاری کے پہلے دور میں کچھ ترجمہ شدہ افسانے بھی شائع ہوئے نوید کے مدیر عبدالباری ساقی عظیم آبادی نے چارلس ریڈ کے ایک انگریزی افسانے کا آزادترجمہ، تصویر محبت، کے نام سے نوید، ۱۹۲۴ء میں شائع کیا اس میں ہندوستانی ماحول کو اسی طرح پیش کیا گیا ہے کہ یہ ایک طبع زاد افسانہ معلوم ہوتا ہے اس افسانہ کی اشاعت کے بعد نصرت آروی کا طویل افسانہ نیرنگ عشق رسالہ فطرت راجگیر میں چھپا بعد میں سہیل گیا نے۱۹۴۱ء میں اسے قسطوں میں شائع کیا، یہ بھی انگریزی افسانے کا ترجمہ ہے نصرت آروی کا ایک اور جاسوسی افسانہ دغابازشکاری، ندیم، گیا۱۹۳۲ء میں شائع ہوا، اس کے ٹوپو گرافی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی کسی انگریزی افسانےسے ماخوذہے اس طرح بہار میں افسانہ نگاری کے پہلے دور میں ترجمے کئے ہوئے افسانے کی تعداد بھی کم نہیں ہے طبع زادافسانوں میں زیادہ ترعشق ومحبت پر مبنی افسانے لکھے گئے جن کے کردار یک رخ ہیں اور ان میں خارجی عوامل کی بھی کمی ہے زبان شاعرانہ رہی اور فن پر بھی افسانہ نگاروں کی گرفت کمزور رہی۔
 
پہلے دور میں طویل افسانے عشق ومحبت سے ذراہٹ کر بھی لکھے گئے جن میں صبر رضوی، صابر ہ بانو ،سعیدالحق اور رضا آروی کانام لیا جاسکتا ہے لیکن ان لوگوں نے اپنی کوئی انفرادی حیثیت نہیں بنائی، اردو افسانے کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب ترقی پسند تحریک کی ابتداہوئی اور یہ تحریک لکھنوسے ہوئے سارے ملک میں پہنچ گئی ترقی پسند تحریک کی اتبدائی دور ہی سے بہار کے افسانہ نگار اس میں حصہ لینے لگے اس تحریک کو بہار کے ادیبوں نے دل وجان سے لبیک کہا سہیل عظیم آبادی ، اختر اورینوی شکیلہ اختر اور انور عظیم وغیرہ نے ترقی پسند تحریک کے نظریات کی پاسداری کی اس دور کے افسانوں میں ترقی پسند خیالات کو پیش کیا گیا ہے  یہ دور سماجی سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے بیداری کا زمانہ تھا، برصغیرمیں ہر آدمی کے دل میں آرزو کی لہر دوڑ رہی تھی، ادیب وشاعراس تغیر اور انقلاب کی دستک کو واضح طور پر سن رہے تھے، مغربی ادیبوں کا ایک گروہ مغربی تعلیم سے آراستہ تھا جن کے دل غلامی اور بیرونی سامراج کے خلاف نفرت وحقارت سے بھرے ہوئے تھے، ان لوگوںنے اپنے قلم کو خاص مقصد کی تکمیل کیلئے وقف کردیا تھا، یہ لوگ اپنے قلم کے ذریعہ ملک کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کی کوشش کررہے تھے، ان لوگوں نے سرمایہ داروں اور زمینداروں کے ظلم وستم سے نفرت کا اظہار ،طبقاتی کشمکش اور بھوک افلاس کے موضوعات کوزبان دینے کی کوشش کی تھی۔
 
بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی میں ان ناموں کے علاوہ اور بھی بہت سے نام آتے ہیں جنہوں نے افسانے لکھے لیکن ان میں باضابطگی نہ تھی بعد میں ان لوگوں میں سے بیشتر نے شہرت حاصل کرلی اور اپنا اپنا مقام بنایا آزادی کے بعد بہار کے افق ادب سے ابھر نے والے افسانہ نگاروں م یں شین مظفر پوری ، زکی انور، انورعظیم، گربچن سنگھ، غیاث احمد گدی، کلام حیدری احمد یوسف، وہاب اشرفی ، شکیل الرحمن ،الیاس احمدگدی، معین شاہد،شفیع جاوید ،شفیع مشہدی، ،قمرالتوحید وغیرہ کے علاوہ تیسرے باب ،بہار کے نمائندہ افسانہ نگار، میں شامل زیادہ تر افسانہ نگار قابل ذکر ہیں، ان لوگوں نے اردو افسانہ نگاری کی روایت کو آگے ہی نہیں بڑھایا بلکہ افسانوی ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا چونکہ ترقی پسند تحریک کا بنیادی مقصد ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانا تھا، جب ۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوگیا تو افسانہ نگاروں کے سامنے ترقی پسندتحریک بے مقصد ہوکر رہ گئی اس لئے انہوں نے ترقی پسند خیالات اور رجحانات سے خود کو باہر نکالنے کی کوشش کی نتیجے کے طور پر آزادی کے بعد بہار میں ابھرنے والے مندرجہ بالا افسانہ نگاروں نے مختلف موضوعات اور خیالات کواپنے افسانوں میں پیش کیا یہ لوگ کسی ایک خیال یاکسی ایک رجحان کے پابند نہیں رہے ان لوگوں نے شہروں کی رنگینیاں شہروں میں رہنے والے غریب طبقے ،زمینداروں اور سرمایہ داروں کی ٹوٹی اوربکھرتی ہوئی زندگیاں ، بہار کے کسان اور مزدوراور ان کے مسائل، عورتوں کی زبوں حالی، جہیز، ذات پات کے بھید بھائو، قدامت پرستی، غلط رسم ورواج، نئی تعلیم وغیرہ جیسے موضوعات کو اپنے افسانوں میں پیش کر کے افسانوں کے معیار کو بلند کیا۔ 
۱۹۶۰ء کے بعد تجریدی کہانیاں لکھی جانے لگیں، ایسی کہانیوں کی ضرورت کیوں پڑی یہ ایک لمبی بحث ہے دوسرے باب میں جدید افسانہ کے عنوان سے اس سلسلے میں مختصر بحث کی گئی ہے اس سلسلے میں مختلف مصنفوں کی آراء ہیں ایک طبقہ کا خیال ہے کہ روایت پرستی اور فارمولہ پسندی کے رد عمل میں یہ رجحان پیدا ہوا، قدیم روایتی افسانوں میں نئی با ت کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی اس لئے کے خلاف شدید رد عمل ظاہر ہوا اور جدید افسانہ نگاروں نے افسانے کی قدیم روایات سے بغاوت کرتے ہوئے افسانے کی ہئیت واسلوب میں نئے تجربات شروع کردیئے چونکہ آزادی کے بعد کوئی خاص موضوع افسانہ نگاروں کے سامنے نہیں رہ گیا تھا اس لئے مختلف خیالات اور موضوعات افسانوں میں پیش کئے جانے لگے بعض لوگوں کے یہاں بھٹکائو پیدا ہونے لگا اور اس کے نتیجے میں تجریدی کہانیاں لکھی جانے لگیں ادب میں تجریدکوئی نئی چیز نہیں ہے مگر شرط ہے کہ تجربہ صحت مند ہو، پریم چند سے انتظار حسین تک اردو کہانیوں میں نئے نئے تجربات ہوتے رہے ہیں مگر اس میں کہانی پن ضرور باقی رہا ہے، لیکن ۱۹۶۰ء کے آس پاس نئے تجربات اور نئی لہر کے نام پر جوافسانے لکھے گئے ان میں کہانی پن نہ رہا جس سے افسانے کی حرمت کو ٹھیس پہنچی اگر اس میں تجریدیت فطری انداز سے ارتقائی مدارج طے کر کے آتی تو شاید قارئین اور ناقدین اسے ارتقائی عمل کے طور پر قبول کرلیتے لیکن ایسا نہیں ہوا، مغرب کی تقلیدیا فیشن کے طور پر لوگوں نے اس کا استعمال اس تیزی سے شروع کردیا کہ اس کا تعلق اردو افسانوی ادب کی روایت سے نہیں رہا، کچھ لوگوں نے محض سہل نگاری کے تحت اس کا استعمال شروع کردیا حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے تجریدی افسانے لکھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ افسانے کے اجرائے ترکیبی میں تجدید ہر افسانہ نگار کے لئے ممکن ہے شہزاد منظر نے کتنا درست فرمایا ہے کہ روایتی افسانے میں تجدید صرف وہی افسانہ نگار کر سکتا ہے جسے کلاسیکی طرز کے افسانے لکھنے پر بھی دسترس ہو اور جو بالکل جدید طرز کے افسانے لکھنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہو، بہرحال اس رجحان کے تحت بھی بہت سارے افسانہ نگاروں نے اپنی ساکھ بنائے رکھی بہار میں علامتی اور تجریدی افسانے دوسری ریاست کی نسبت کچھ زیادہ ہی لکھے گئے ان میں ظفر اوگانوی ، حسین الحق ، شوکت حیات، اختر یوسف شفق ، م ن خاں، انیس رفیع ، علی امام ، عبیدقمر، نزہت نوری اور نورالہدی وغیرہ خاص ہیں ان میں سے کچھ افسانہ نگاروں نے بعض اعتبار سے اپنے آپ کو روایت سے منسلک رکھا،۔
 
۱۹۷۵ء کے بعد اردو افسانے ایک بار پھر کروٹ لی، جب علامتی تجریدی اور جدید افسانوں نے اردو افسانہ نگاری کی روایت اور اپنی حرمت اور صفت کو مجروح کر دیا تو بعض افسانہ نگاروں کو اس بات کا احساس ہوا اور انہوں نے اردو افسانے کو پھر سے سنبھال لیا، اس طرح ۱۹۷۵ء کے آس پاس اردو افسانے جدیدیت کے سحر سے خود کو آزاد کرنا شروع کردیا اور ایک بار پھر وہی افسانہ نگار جو جدیدیت کے سحر میں ڈوب کر  Anty Story تحریر کررہے تھے آہستہ آہستہ کہانی پن کی طرف لوٹ آئے انہوں نے پھر سے سماج اور انسان کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بناشروع کردیا ، ان میں کلام حیدری ،احمد یوسف ،حسین الحق، الیاس احمد گدی وغیرہ ایسے ہی ہیں جنہوں نے پچھلی دہائی میں اور اب نویں دہائی میں بھی افسانہ نگاری کو ایک نئی سمت رفتار عطا کی ہے ان لوگوں کے ساتھ ساتھ نویں دہائی کے نئے منظر نامے پر شمیم سیفی نسیم محمد جان ذکیہ مشہدی ، قمر جہاں، مشرف عالم ذوقی، قاسم خورشید، سید احمد قادری، رحمن حمیدی، فخرالدین، عارفی، مناظر عاشق ہرگانوی اور دوسرے کئی افسانہ نگار ایسے افسانے لکھ رہے ہیں جو نہ تو بالکل سپاٹ بیانیہ اور نہ اتنے علامتی ہیں کہ ذہن نقاد کی بھی گرفت سے باہر ہوں، ان فنکاروں نے نئے عہد کے قومی اور بین الاقومی مسائل کو اپنے موضوعات میں داخل کیا جس کے نتیجے میں ایک بار پھر اردو افسانہ بہتر مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔
۱۹۸۰
ء کے بعد بہار میں ابھر نے والے افسانہ نگاروں کی فہرست کافی طویل ہے ان میں صبوحی طارق۰
، قاسم خورشید ، مشرف عالم ذوقی، عبید قمر ، ارتضی کریم، اختر واصف، ابوالکلام، عزیزی، رحمان شاہی، سلطان احمد ساحل، ابواللیث جاوید، ابن منیرصدیقی، سید احمد قادری، رحمن حمیدی، ظفر حبیب فخرالدین عارفی، بشیر احمد، قیام نیر، رضوان رضوی وغیرہ کے علاوہ چوتھے باب وبہار کے ابھرتے ہوئے افسانہ نگار میں شامل زیادہ تر افسانہ نگار قابل ذکر ہیں ان لوگوں نے ۱۹۸۰ء کے بعد ہی اپنی شناخت قائم کی ہے یہ لوگ اصلاحی رومانی، سماجی، معاشرتی، اشتراکی، تجریدی، علامتی پر اسرار اور مزاحیہ ہر طرح کے افسانے لکھ رہے ہیں۔اس طرح جب ہم اردو افسانے کے ابتدائی دور سے لے کر آخری دور تک کاجائزہ لیتے ہیں تو بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہردور میں اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی پیدا ہوتی رہی ہے چاہے وہ نظرئے میں ہو، رجحان میں یا اسالیب میں ٹھیک اسی طرح ہردور میں اس کی تحریروں میں بھی کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوتی رہی ہے۔
 
ابتدائی دور کی تحریروں میں داستانی رنگ غالب تھا اس میں قصے اور حکایت کا اندازہ نمایاں ہوتا تھا، چونکہ داستانوں سے افسانوں نے بہت حد تک استفادہ کیا ہے داستانوں کی زبان رنگین اور پلاٹ رومانی ہوتاتھا اس لئے اردو کے ابتدائی افسانوں میں رنگین زبان کا استعمال اور رومانی پلاٹ ناگز پر تھا اس دور کے لوگ رومانی میلان کے شیدائی تھے ان کی تحریروں میں مرکزیت حسن ومحبت اور زلف ورخسار کو حاصل تھا، وہ لوگ عام طور پر ماورائی تصورات سے اپنے افسانوں کا تانا بانا تیار کرتے تھے اس وقت کے افسانہ نگاروں نے اپنی تحریرکا ایسا جادو جگایا کہ افسانے کی کشش میں بہت حدتک اضافہ ہوگیا، لیکن پریم چند کی اصلاح سے بہت سے افسانہ نگار جلد ہی متاثر ہوگئے اور زندگی کی حقیقت کو حقیقی رنگ میں پیش کیا جانے لگا، اس طرح رومانی افسانوں کے ساتھ ساتھ اصلاح معاشرت اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کی ترجمانی ہوتی رہی، جہاں تک پہلے دور کے افسانوں کی رفتار کا سوال ہے تواس دور کے افسانوں کی تعداد بہت دھیمی رہی اس دور میں صرف چھ سات افسانہ نگاروں کے نام لئے جاسکتے ہیں اور ان کے افسانوں کی تعداد انگلی پرگنائی جاسکتی ہے اس دور میں کوئی افسانوی مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا۔ دوسرے دور کی تحریروں میںپہلے دور کی تحریروں کے مقابلے کافی فرق پیداہوگیا دوسرے دور میں نوجوانوں کا ایک حساس اور ذہن گروہ مغربی تعلیم سے آراستہ ہو کر افسانوی ادب میں داخل ہوا، وہ لوگ نئی سوچ تازہ فکر اور جدیدتعلیم سے اچھی طرح واقف تھے، ان میں سے بعض کو سماجی مسائل اور بعض کو سیاسی مسائل سے شغف تھا اور بعض اشتراکی اور کارل مار کس کے خیالات کے شیدائی تھے ان لوگو ں نے اپنے اپنے نقطہ نگاہ کے مطابق افسانے لکھے اس لئے ان کی تحریروں میں ترقی پسند تحریک کی حمایت، ادب کو عوام سے قریب لانے کی کوشش، زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا اظہار اور زندگی کے بنیادی مسائل کو موضوع بنانے کا خیال پایا جاتاہے یوں تو اس وقت بھی فنی اظہار کیلئے الگ الگ راہیں اختیار کی گئیں لیکن سب کا ایک ہی مشترک نصب العین تھا اس وقت کے افسانہ نگار ادب اور فن کو اجتماعی زندگی کا ترجمان بنانا چاہتے تھے، ان کا مقصد انسان دوستی، درد مندی اور آزادی کے جذبات کو ابھارنا تھا وہ ادب کے ذریعہ ملک میں ایک سیاسی، سماجی اور اقتصادی انقلاب لانا چاہتے تھے اور بہت حدتک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے اتناہی نہیں اس وقت کے افسانہ نگاروں نے عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ آفاتی اور بین الاقوامی مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اردو افسانہ قومی اور ملکی حدود سے نکل کر عالمی دھارے سے جڑ گیا اس وقت کے افسانوں میں ہم بیسویں صدی کی درمیانی ہنگامہ خیز دہائیوں کا مکمل عکس دیکھ سکتے ہیں۔ دوسرے دور کے افسانہ نگار وں کے یہاں فن اور تکنیک کے ساتھ ساتھ تنوع بھی ہے اور عصری تقاضوں کا احترام بھی اس دور کے افسانہ نگاروں کے زیادہ تر متوسط طبقوں کی زندگی کی تصویر کھینچی ہیں، دیہات اور دیہاتی زندگی کسان، مزدور، کھیت کھلیان، مہاجن اور پٹواری وغیرہ کو موضوع بنایا ہے زمینداروں اور سرمایہ داروں کی ٹوٹتی ہوئی زندگیوں کی عکاسی کی ہے۔ اس دور کے افسانوں میں بہار کے مجبور اور بے بس لوگوں کی زندگی کی سچی عکاسی اور بہار کے متوسط مسلم گھرانوں کی زندہ تصویر یں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔دوسرے دور میں افسانہ نگاروں اور افسانوں میں پہلے دور کی بہ نسبت بہت اضافہ ہوا سہیل عظیم آبادی ، اختر اورینوی ، شکیل اختر ،شین مظفرپوری، ڈاکٹر محمد محسن اور ڈاکٹر وہاب اشرفی وغیرہ ایسے باکمال افسانہ نگار سامنے آئے جنہوں نے آگے چل کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی پھر بھی یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس دور میں ہندوستان کی دوسری کئی ریاست کے مقابلے بہت کم افسانے لکھے گئے اس دور میں صرف ایک درجن افسانوی مجموعے سامنے آئے اس میں تقریبا سو اسو افسانے شامل ہیں، لیکن رسائل وغیرہ میں شائع ہونے والے افسانوں کی تعداد تقریبا پانچ سو ہے۔آزادی کے بعد ہندوستان دوملکوں میں تقسیم ہوگیا، نتیجہ کے طور پر افسانہ نگاروں کی جغرافیائی اور نظریاتی وفاداریاں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں غلامی کی زنجیریں ٹوٹ چکی تھیں ، آزادی کے بعد ترقی پسند مصنفین کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ ہمارا جو مقصد اور ہمارا جو نصب العین آزادی حاصل کرنا تھا وہ ہوگیا اس کے بعد کیا کریں، دوسری بات یہ ہوئی کہ کچھ افسانہ نگاروں نے آزادی سے پہلے اپنے ارادوں اور آرزوئوں کی جولانیاں دکھانے میں کہیں کہیں ضبط کی حدود کو بھی توڑ دیا تھا جس کی وجہ سے اردو افسانہ خطابت اور پروپگنڈے کی شکل اختیار کرنے لگا تھا، نتیجے کے طور پر ایسے افسانوں سے قاری کے دل ودماغ کی ادبی سیرابی نہیں کر پارہا تھا، دوسرے اب ان افسانہ نگاروں کے پاس کہنے کیلئے زیادہ کچھ رہ بھی نہیں گیا تھا۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تھے اس طرح ۱۹۵۵ء تک پہنچتے پہنچتے افسانوں میں تازہ موضوعات اور نئے تجربے برتے جانے لگے اس دور کے افسانہ نگاروں کو پچھلے دور کے اشتراکی خیالات کی تشہیر اور انقلابی نعروں سے کوئی سروکار نہ رہا ،نئے تجربےاور نئے برتائومیں لکھنے والوں کافنی رویہ پر انوں سے الگ ہوتا گیا کرداروں کی پیش کش اور ان کے عمل رد عمل کے بجائے ان کے نفسیاتی عوامل اور ذہنی کیفیات کو زیادہ قابل توجہ سمجھا جانے لگا، چونکہ انسان کی داخلی کیفیات، ہی افسانہ نگاروں کامرکزبن گیا اس لئے باہر کی دنیا اور سماجی مسائل سے اس کا ہٹ کر فرد کی باطنی دنیا پر آگیا، اندرونی کائنات کا احاطہ کرنے کیلئے افسانہ نگار کو مابعد الطبقرات انداز اپنانا پڑا اور ایسا کرنے کیلئے علامت ،تمثیل اور تجربہ کا سہارا لینا پڑا بعض نے قصہ، حکایت ، تمثیل اور داستانی شکل میں کہانی کہنے کے مختلف پیرائے کو اپنا یار، اس دور میں افسانہ نگاروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور ان کی تعداد اتنی ہوگئی کہ ہندوستان کی کسی ریاست کے افسانہ نگاروں کی تعداد سے کم نہ رہی، اس دور میں قریب پچاس افسانہ نگار اپنے قلم کی جو لانیاں دکھانے لگے ، اس دور میں تقریبا ًبیس افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے جن میں قریب ڈھائی سو افسانے شامل ہیں، اس دور میں ہندو پاک کے مختلف رسائل میں شائع ہونے والے افسانوں کی تعداد تقریبا دوہزار ہے اس دور کی افسانوں کی تعداد اور بھی زیادہ ہوتی لیکن آزادی کے بعد کچھ افسانہ نگار پاکستان چلے گئے اور کچھ افسانہ نگاری چھوڑ کر تحقیق وتنقید کو اپنا لیا۔ چونکہ افسانہ نگاری کے تیسرے دور میں حد سے زیادہ جدیدیت نے اردو افسانے کی حرمت کو ٹھیس پہنچائی کہانی کے نام پر معمے اور پہیلیاں سجھائی جانے لگیں اس لئے افسانے کا قاری کم ہونے لگا اور کہانی کا قالب کہانی پن کی روح سے خالی ہوتا چلاگیا، کہانی کی اس عدم مقبولیت کو دیکھ کر کچھ جنبیں افسانہ نگاروں کے یہاں جدیدیت کے خلاف رد عمل شروع ہوگیا اور ۱۹۷۰ء کے آس پاس اردو افسانہ نگار علامت نگاری اور جدیت کے سحر سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کرنے لگے انہیں دیکھ کر بعض ایسے افسانہ نگار جو لکھ رہے تھے آہستہ آہستہ پہنچتے پہنچتے اردو افسانے نے ایک بار پھر کروٹ لی لوگ کردار، پلاٹ اور تاثیروغیرہ کی ضرورت محسوس کرنے لگے اور ایک بار پھر کہانی کہانی پن کی طرف لوٹ آئی اور اردو افسانہ بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہوگیا یہ دورافسانہ نگاریی کیلئے بہ لحاظ موضوعات ایک قوس قزح کی حیثیت رکھتا ہے اس دور میں ہر طرح کی تحریریں ملتی ہیں افسانے کی فنی تکنیک کو ایک بار پھر بروئے کارلایا جانے لگا ہے افسانے کی تحریر میں ایک بار پھر دلکشی، شیرینی اور تاثیر پیداہوگئی ہے آج جو اسلوب استعمال ہورہے ہیں اس میں روانی بھی ہے رنگینی بھی ہے سادگی بھی ہے پرکاری بھی ہے یہی وجہ ہے کہ افسانے کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا اور اسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد ابھر کر سامنے آئی اس دور میں ایک سوسے زیادہ افسانہ نگار اپنے قلم کا جوہر دکھانے لگے ان لوگوں کے علاوہ تیسرے دور سے جن کا تعلق تھا وہ بھی اس دور میں تیزی سے لکھ رہے ہیں اس دور حاضر یعنی ۱۹۷۰ءتا۱۹۸۷ء میں کم وبیش اسی افسانوی مجموعے شائع ہوئے ان میں تقریبا ایک ہزار اسانے شامل ہیں، ان افسانوی مجموعوں میں رومانی نفسیاتی ،معاشرتی ، تاریخی ،حقیقت پسند، تاثراتی علامتی تجریدی وغیرہ ہرطرح کے افسانے شامل ہیں جو اس بات کی علامت ہیں کہ بہار کے افسانہ نگار اب ہر طرح کے افسانے لکھ رہے ہیں اس دور میں اخباررسائل میں شائع ہونے والے افسانوں کی تعداد میں حیرت انگیز حدتک اضافہ ہوگیا اور ۱۹۸۷ء تک اس کی تعداد کم وبیش پانچ ہزار تک پہنچ گئی ایک اندازے کےمطابق اس دور میں اتنے افسانے ہندوستان کی کسی ریاست میں نہیں لکھے گئے اس طرح دور حاضر کے افسانوں اور افسانہ نگاروں کی رفتار کو دیکھ کر خوشی سے ہم اپنا سر بلند کرلیتے ہیں اور بڑی آسانی سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ بہار کے افسانہ نگاروں کا مستقبل بہت ہی روشن اور تابناک ہے۔ چونکہ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اس صنف کا آغاز ہوا اور تقریبا ہر دہائی میں اس میں خاطر خواہ ترقی ہوتی گئی نویں دہائی میں اس کی ترقی اس تیزی سے ہوئی کہ صرف سات برسوں میں تقریبا پچاس افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے جو بہار کی افسانہ نگاری کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ ہے اتنے افسانوی مجموعے گزشتہ ساری دہائیوں میں مل کر بھی شائع نہیں ہوئے اس لئے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ بہار میں افسانہ نگاری کا مستقبل روشن ہے دور حاضر میں افسانوں کی تعداد اور افسانہ نگاروں کے جم غیفر کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بہار کی افسانہ نگاری کی تاریخ میں یہ لوگ اپنا نام اور بھی روشن کر سکیں گے، ابھی حالات بھی ساز گار ہیں حکومت ہند نے زیادہ تر ریاستوں میں اردو اکادمیاں قائم کردی ہیں بہت سے ادارے کو نشر واشاعت کے لئے حکومت گرانٹ بھی دے رہی ہے۔ اردو کی نشر واشاعت کیلئے ذاتی اداروں میں بھی بہت حدتک اضافہ ہوگیا ہے کتابوں کی اشاعت کیلئے مالی معاونت اور شائع شدہ کتابوں پر انعامات اور اعزازات بھی دئے جارہے ہیں افسانوی ادب کی نشر واشاعت میں ریڈیو اسٹیشنوں میں اضافہ اور اس کے پروگرام میں افسانوی ادب کو شامل کیا جانا بھی ایک اہم رول ادا کررہا ہے ان ساری باتوں کے دیکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ بہار میں اردو افسانہ نگاری کا مستقبل بہت ہی روشن ہے۔ نئے افسانہ نگاروں کے اندر صلاحیتوں کی بھی کمی نہیں ہے وہ افسانے کی فنی تککنیک سے بھی اچھی طرح واقف ہیں ان کے یہاں مطالعہ ،مشاہدہ اور براہ راست تجربہ کا عکس بھی موجود ہے اس لئے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بہارکے افسانہ نگاروں کا مستقبل پوری طرح روشن ہے شرط ہے کہ وہ گروہ بندی کے شکار نہ ہوں اور دوسری طرف دیکھنے کے بجائے اپنے اندر پوشیدہ جوہر کو دیکھنے کی کوشش کریں ادب کے سامنے طرح طرح کی دیواریں کھڑی نہ کریں اور احتساب نفس کو اپنا رہبر اور رہنما بتائیں ، مختصر یہ کہ بہار میں اردو افسانہ نگاری کی تاریخ کا مطالعہ کر نے کے بعد یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بہار کے افسانہ نگاروں کا مستقبل پوری طرح روشن اور تابناک ہے مستقبل میں وہ افسانوی ادب میں حیرت انگیز حدتک اضافہ کریں گے اور بہار میں اردو افسانہ نگاری پورے آب وتاب کے ساتھ آگے بڑھتی رہے گی جو نہ صرف بہار کے لئے بلکہ پورے اردو ادب کیلئے ایک فخر کی بات ہوگی۔
 
’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم ۱۹۹۶ء‘‘
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1774