donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Qayamuddin
Title :
   Hindustan Mein Urdu Afsana

 

ہندوستان میں اردو افسانہ
 
ڈاکٹرقیام الدین نیردربھنگہ
 
اردو مختصر افسانے کا آغاز ایک صنف کی حیثیت سے بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ہوا، اس سے قبل قصہ اردو داستان گوئی کی روایت تھی جس کی بنیاد پر عربی اور فارسی کلاسیکی ادب یا آسمانی صحیفوں سے ماخوذ روایتوں پرتھی یا پھر ہندو واور یونانی دیومالائی ادب میں ،یوں تو ہر وہ منشور یا منظوم تحریر جس میں قصے کا عنصر غالب ہوتا ہے اسے افسانہ کہہ دیا جاتا ہے جیسے ستر ہویں صدی کی غواصی کی، سیف الملکو، اور بدیع الجمال، تحسین الدین کی، کامردپ کلا، طبعی کی، بہرام وگل اندام، اور وجہی کی ،سب رس، اٹھارہویں صدی میں وجدی کی مثنوی خردنام ، میر حسن کی سحرالبیان، اور نثر کا مشہور قصہ نوطرز مرصع، وغیرہ انیسویں صدی میں انگریزوں کے قائم کردہ فورٹ ولیم کا لج اور دوسرے اداروں کے تحت مروجہ داستانوں کی باقاعدہ ترتیب وترجمہ اور اشاعت کا کام شروع ہوا، اس سلسلے میں میرا من کی ، باغ وبہار ، بہادر علی حسینی کی نثرے نظیرے، حیدر بخش کے قصے، لیلیٰ مجنوں،طوطا کہانی، اور ،آرائش محفل،نہال چند لاہوری کا قصہ، تاج الملوک ،اور بکاڈلی، مظہر علی خاں ولا کے قصے، مادھونل وکام کنڈلا اور بیتال پچیسی ،الف لیلیٰ ،افسانہ عجائب،داستان امیرحمزہ، طلسم ہوش ربا، بوستان خیال،اور ،فسانہ آزاد، قابل ذکر ہیں۔ ان قصے کہانیوں میںجہاں ایک طرف غیر فطری عناصر اور مبالغہ آمیز باتوں کی کثرت ہے وہیں دوسری طرف ندرت خیال، ندرت بیان اور طرزکی رنگینی بھی ہے۔ اپنے وقت کی سماجی زندگی اور کلچر کا اثر بھی ہے مختلف فرقوں اور پیشوں کی اصطلاحیں ،ان کے محاورے شادی بیاہ کی رسمیں، لباس، زیورات، کھانے پینے اور رہن سہن کے طریقے امیروں اور ان کے مصاحبوں کے خیالات ، مردوں اور عورتوں کی زبان کا فرق اور اس طرح کی بہت سی چیزیں ان قصوں کی مختلف لڑیوں میں پروئی ہوئی ہیں لیکن انہیں افسانہ نہیں کہا جا سکتا ، انہیں افسانہ کہنا محض ایک تاریخی ضرورت ہے ایک صنف کی حیثیت سے افسانہ سے مراد مختصر افسانہ ہے اور اس کی حقیقی تاریخ ۱۹۰۰ء؁ کے بعد شروع ہوتی ہے ۔
 
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اردو میں مختصر افسانہ مغرب سے آیا مندرجہ بالا باتوں کی روشنی میں یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی۔ اتنی بات ضرور ہے کہ مغربی افسانوں کے متراجم وطبع زاد تخلیقات نے اردو افسانے کو ایک نئی سمت ور فتار عطا کی اور مختصر افسانہ مغربی افسانوں سے ضرور متاثر ہوا، اسے مغربی افسانے نے حقیقی فن سے ضرور آشنا کیا لیکن اس کے پنپنے ، بڑھنے اور بار آور ہو نے کیلئے ہمارے یہاں زمین پہلے سے ہموار تھی چنانچہ بیسویں صدی کے آغاز میں لوگ پریم چند اور سجاد حیدر لیدرم وغیرہ سے آگاہ ہوگئے اور چند برسوں کے اندر مختصر افسانہ اردو کی مقبول ترین صنف ادب بن گیا اب سوال اٹھا ہے کہ اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے اس کے بارے میں اب تک کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے کچھ دنوں پہلے تک عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ اردو کا پہلا افسانہ نگار پریم چند ہے اور ان کا افسانہ انمول رتن مطبوعہ،زمانہ، کانپور ۱۹۰۷ء؁ اردو کا پہلا افسانہ ہے لیکن جدید تحقیق نے اردو کا پہلا افسانہ نگار سجاد حیدر یلد رم کو قرار دیا ہے اور اس کا پہلا افسانہ ، نشہ کی پہلی ترنگ، کو اردو کا پہلا افسانہ اس لئے خود پریم چند کے بیان کے مطابق ان کا پہلا افسانہ ۱۹۰۷ء میں شائع ہوا ہے لیکن اس سے سات سال قبل سجاد حیدر یلدرم کا افسانہ، معارف، علی گڑھ بابت اکتوبر ۱۹۰۰ء میں موجود ہے۔ بعض ناقدین اردو کا پہلا افسانہ سر سید احمد کی ایک تحریر ،گذرا ہوا زمانہ، کو مانتے ہیں اس مناسبت سے اردو افسانے کا آغاز ۱۸۷۰ء کے آس پاس ہو جاتا ہے ایک اور تحقیق کے مطابق اردو کا پہلا افسانہ نگار علی محمود کو بتایا گیا ہے جس کا تعلق صوبہ بہار سے تھا، ان کے افسانے ۱۹۰۴ء میں ،چھائو، اور، ایک پرانی دیوار، رسالہ، مخزن، میں شائع ہوئے تھے۔ جدید تحقیق شاد عظیم آبادی کو اردو کا اولین افسانہ نگار بتاتی ہے اور ان کے افسانہ، افیون، کو اردو کا پہلا افسانہ قرار دیتی ہے، اردو افسانے کا باد اآدم خواہ کوئی بھی رہا ہو لیکن ڈاکٹر صادق کی بات بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے سر سید احمد خاں کے بعد اور پریم چند سے قبل اس صنف میں طبع آزمائی کرنے والوں میں فیض الحسن ، علی محمود ، عبدالحلیم شرر،سجاد حیدریلدرم ، سلطان حیدر جوش اور راشد الخیری وغیرہ کے نام لئے جاسکتے ہیں تاہم اردو افسانے کو مناسب سمت ورفتار دینے والوں میں پریم چند کا نام سب سے نمایاں ہے۔ 
 
اس اعتبار سے اردو افسانے کی عمر سوسال سے بھی کم معلوم ہوتی ہے لیکن اس کم عمری کے باوجود یہ کئی ارتقائی منزلیں طے کر چکا ہے اس کم عمری میں یہ ضوع اور تکنیک کے اعتبار سے جس قسم کے تجربات سے دو چار ہوا ہے اسے سمجھنے کے لئے ناقدین نے موٹے طور پر اسے چار ادوار میں تقسیم کیا ہے ان دور کی حدبندی میں دو چار سال کا فرق ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے سے کچھ اس طرح منسلک ہیں کہ ایک دور کے اثرات ورجحانات دوسرے دور میں بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود رہے ہیں، کوئی دور ایسا نہیں رہا ہے جس میں دوسرے ادوار کے اثرات ورجحانات نہ پائے جارہے ہوں لیکن یہاں حاوی رجحان کی حیثیت سے ایک کو دوسرے سے الگ اور قابل امتیاز سمجھا گیا ہے۔ 
 
پہلا دور   ۱۹۰۰ ء سے  ۱۹۳۵ تک ہے   یہ دور سب سے زیادہ طویل دور ہے، اس دور کے افسانوں پر روخاص میلانات حاوی تھے ایک اصلاحی دوسرا رومانی اصلاحی میدان کے علمبردار پریم چند تھے ان کا اولین مقصد اصلاح معاشرہ میں پائے جانے والے تضاد سے پیدا ہونے والے روپیوں کو اچھی طرح محسوس کر لیا تھا، انہیں بچپن ہی سے ہندوستان کی دیہی زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا تھا، لہذا حقیقت نگار کی حیثیت سے انہوں نے اپنے گرد پھیلی ہوئی زندگی کو پیش کرنا شروع کیا اور اس طرح افسانے میں حقیقت نگاری کی ابتدا ہوئی ان کے ساتھ چلنے والوں میں سدرشن، سلطان حیدر جوش اور اعظم کر یوں وغیرہ خاص خاص ہیں۔
 
دوسرارجحان رومانی تھا، ان کی نمائندگی سجاد حیدریلدرم نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری اور حجاب امتیاز وغیرہ کر رہے تھے یہ لوگ رومانی میلان کے شیدائی تھے ان کے یہاں مرکز یت اور بنیادی اہمیت حسن ومحبت کو حاصل ہے اور یہ لوگ عام طور پر انہیں خوابوں اور مادر ائی تصورات سے اپنے افسانوں کا تانا بانا تیار کرتے ہیں اول تویہ موضوعات ہی اپنی جگہ بڑے دلکش تھے دوسرے ان کے بیان میں رومانی افسانہ نگاروں کے قلم نے ایسا جادو جگا یا کہ ان کی کشش دو چند ہوگئی چنانچہ رومانی افسانہ زیادہ مقبول ہوا یہ بات الگ ہے کہ افسانے کایہ رومانی میلان ادبی تاریخ کا صرف ایک یاد گار حصہ بن کر رہ گیا۔
 
دوسرا دور ۱۹۳۶ء سے ۱۹۵۷ء تک ہے بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں آزادی کے مطالبے نے زور پکڑ لیا تھاکانگریس اور مسلم لیگ نے عوام میں سیاسی بیداری پیدا کردی تھی نتیجے کے طور پر انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر بیرونی سامراج اور غلامی کے خلاف نفرت کے جذبات رونما ہوئے اور شدت کے ساتھ ادب اور غیر ادب سبھی نے اس کا اثر قبول کیا، کچھ حساس نوجوان مغربی تعلیم سے آراستہ ہو کر ادب کے میدان میں داخل ہوئے تھے یہ لوگ نئی سوچ اور جدید علوم سے بہر ہ ور تھے ان میں بعض کو سیاسی مسائل سے بعض کو سماجی زندگی سے اور بعض کو بڑھتے ہوئے اشتراکی نظام سے دل چسپی تھی چنانچہ ان فن کاروں نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق افسانے لکھے۔پہلے دور کی خیالی اور رومانی دنیا کو چھوڑ کر اپنے ارد گرد کی جیتی جاگتی چلتی پھرتی دنیا کو اہمیت دی جانے لگی اس دنیا میں شہراور دیہات ، امیر غریب کسان اور مزدور سبھی شامل تھے، ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مطابق ،افسانہ نگاروں کا اصل مقصد چونکہ اس دنیا کو بنی نوع انسان کے لئے زیادہ سے زیادہ حیات افروز اور خوش آئند بنانا تھا اس لئے اشتراکیت، جمہوریت ،آزادی، غلامی، آمریت، مذہبی اجارہ داری، طبقاتی تنگ نظری، نسلی برتری، معاشی جبریت، نفسیاتی پیچیدگیاں، جنسی الجھنیں ، معاشرتی ناہمواریاں سبھی زیر بحث آئیں۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اس دور میں نہ صرف اردو افسانہ نگاری کے فن کو آگے بڑھایا بلکہ وقت اور زمانہ کے ساتھ بدلتی ہوئی قدرروں، زندگی کے نئے مسائل اور فن کی نت نئی راہوں کو اپنے فن میں سمو کر ایک نئی روایت قائم کی۔ تیسرا دور ۱۹۵۸ء سے ۱۹۷۵ء تک ہے۔
 
دوسرے دور کے افسانہ نگاروں کے سامنے ملک کو آزاد کرانے، غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے اور گاجی استحصال سے پیچھا چھڑا نے کی زبردست خواہش تھی جب ملک آزاد ہوگیا تو ان کے سامنے کوئی میدان نہ رہا ملک دوحصوں میں تقسیم ہوگیا جس کے زیر اثر نئے فسادات نے ایسا زور دکھا یا کہ تہذیب انسانی شرم سے پانی پانی ہوگئی چنانچہ دوسرے دور میں جس طرح بیرونی ہاتھوں کا جبر مختلف رویوں میں ہمارے افسانہ نگاروں کا خاص موضوع بن گیا اس طرح تیسرے دور میں اپنوں کی بے حسی وبے غیرتی ، بدنظمی وبدعنوانی، فرقہ وارانہ انتشار، لوٹ گھسوٹ، جبر وظلم اور ناانصافی جیسے موضوعات افسانے میں عام ہوگئے، اس دور کے افسانہ نگاروں کو پچھلے ادوار کی سماجی حقیقت نگاری رومانی پروری ، جنسی مسائل اور اشتراکی خیالات سے کوئی سروکار اور لگائو نہ رہا۔ عام طور پر تازہ موضوعات اور نئے تجربے افسانوں میں برتے جانے لگے۔ اس طرح نئے لکھنے والوں کا فنی رویہ پرانے لوگوں سے الگ ہوتا گیا۔ کرداروں کی پیش کش کے بجائے ذہنی کیفیت کو زیادہ قابل توجہ سمجھا جانے لگا افسانے کی تکنیک ،اجزائے ترکیبی اور تاثر وغیرہ جیسے شرائط سے انحراف کر کے افسانے بالکل نئے پیرائے میں مرتب کئے جانے لگے اس طرح افسانہ پرانی روایتوںاور فنی تکنیک کی پابندیوں سے آزاد ہوگیا، اسے عہد حاضر کی پرچیچ، مبہم اور حیران کن زندگی کا ایک ، پرپیچ ، مبہم اور حیران کن استعارہ بنا دیا گیا۔ جو عرف عام میں علامتی، تجریدی، ابہامی اور استعاراتی افسانہ کہلایا۔ ایسے افسانوں میں ذاتی مشاہدے اور تجربے کو داخلیت میں سمو کر لفظی پیکروں اور استعادوں میں اس طرح پیش کیا جانے لگا کہ زندگی کے کئی رنگ ایک ساتھ سامنے آنے لگے۔
 
چوتھا دور ۱۹۷۵ء کے بعد شروع ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں جب اردو افسانہ داخل ہوا تواس نے ایک بار پھر کروٹ لی۔ ۱۹۶۰ء کے بعد کچھ افسانہ نگاروں نے ایسے افسانے لکھے جن میں کہانی پن نام کی کوئی چیز نہ تھی، اس سے افسانے کی فنی روایت اس کی حرمت اور عصمت مجروح ہونے لگی افسانے کا مستقبل خطرے میں پڑگیا ۔ نام نہاد جدید یت نا مانوس علامت نگاری اور تجریدیت کے سیلاب کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگوں نے احتجاج کی صدا بلند کی نتیجے کے طور پر ۱۹۷۵ء کے آس پاس اردو افسانے نے نامانوس علامت نگاری، تجریدیت اور ابہام کے سحر سے خود کو آزاد کرانا شروع کر دیا اور وہی افسانہ نگار جو اس سحر میں ڈوب کر زندگی کی بے معنویت کے حصار میں کھوتے چلے جارہے تھے آہستہ آہستہ کہانی پن کی طرف لوٹ آئے اس طرح اردو افسانہ ایک بار پھر کہانی پن کے ساتھ بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہوگیا آج ایک بار پھر اردو افسانہ اپنے روایتی انداز میں قاری سے داد وتحسین وصول کر رہا ہے، جو لوگ جدیدیت کے نام پر اپنے راستے سے ہٹ گئے تھے انہیں بھی اب اس بات کا احساس ہوگیا ہے، اور وہ لوگ بھی خاصے معنی خیز اور خوبصورت افسانے لکھنے لگے ہیں۔اس طرح اردو افسانہ اپنے ابتدائی دور سے ہی ارتقائی منزلوں اور نئے تجربوں سے گزرتا ہوا ایک بار پھر کہانی پن کی واپسی کی طرف رواں دواں ہوگیا ہے۔ موضوعات کے لحاظ سے اس دور کی حیثیت ایک قوس و قزح کی سی ہے کیونکہ اس دور میں بہت سے نئے اور پرانے رنگ یکجا ہو گئے ہیں پہلے دو اووار کے کچھ لوگ ابھی حیات سے ہیں اور افسانے کی روایت کو محترم بنائے ہوئے ہیں تیسرے دور کے افسانہ نگار کے یہاں قدیم وجدید کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔اس طرح کہانی پن کی طرف واپسی نے افسانے کو ایک بار پھر مقبول ومستحسن بنادیا ہے۔
****************
Comments


Login

You are Visitor Number : 1913