donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Qayamuddin
Title :
   Khwateen Ke Afsane

 

خواتین کے افسانے
 
ڈاکٹرقیام الدین نیردربھنگہ
 
ہندوستان کی اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں ترقی پسند تحریک سے پہلے تک خاتون افسانہ نگاروں کی بہت کمی رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مسلم معاشرے کی مذہبی سخت گیری تھی، عورتوں کو گھریلو اور دینی تعلیم کے علاوہ دوسری قسم کی تعلیم دلوانا مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا، پردے کی پابندیوں کی وجہ سے عورتوں کے لئے گھر کی چاردیواری سے باہر کی دنیا شجر ممنوعہ تھی عورتو ں کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ساری زندگی گھر کے ایک ہی کھونٹے سے بندھی رہتی ہیں، لیکن نئی تہذیب اور نئی روشنی کی رہنمائی میں کچھ خواتین نے گھر سے باہر قدم نکالا اور اپنے ارد گرد کی دنیا کو دیکھا، اس کے بارے میں غور وفکر کیا، اونچی تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ دنیا کی تاریخ ، دنیا کے جغرافیائی حالات، دنیا کی مختلف تہذیب وتمدن اور معاشرے کو سمجھا اور آج یہ حال ہے کہ صرف بہار میں بیسوں خواتین افسانہ نگار اپنے فن کا جو ہر دکھا رہی ہیں خاتون افسانہ نگاروں میں عصمت چغتائی ،واجدہ تبسم اور شکیلہ اختر وغیرہ نے کافی شہرت حاصل کر لی ہے۔ ان کا ذکر کیا جاچکا ہے اب کچھ ایسی خاتون افسانہ نگار وں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جنہوں نے افسانہ نگاری کے میدان میں اپنے قدم اچھی طرح جمالئے ہیں اور خاصی مقبولیت حاصل کرلی ہے۔
 
رشید جہاں: رشید جہاں سےپہلے بھی بہت سی خاتون افسانہ نگارشہرت ومقبولیت حاصل کر چکی تھیں لیکن وہ سب زیادہ تو رومان کی ٹھنڈی چھائوں میں اپنے قلم دوڑاتی تھیں، رشید جہاں جب افسانہ نگاری کے میدان میں آئیں تو انہوں نے اپنے پیش روافسانہ نگاروں کی طرح رومان کو اپنا موضوع بنایا لیکن رومان کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی کا راستہ اختیار کر کے انہوں نے آنے والی نسل کیلئے راستہ ہموار کیا۔ ۱۹۳۷ء میں انہوں نے اپنا پہلا مجموعہ شائع کرایا، اس افسانوی مجموعے کی بیشتر کہانیوں میں عورتوں کے مسائل کو پیش کیا گیا ہے ان کے افسانوں میں عورتوں کا جو کردار ابھر تا ہے وہ بہت قوی ہے ان کے افسانوں کی عورت مرد کی محتاج اور غلامی قبول کرلینے والی کمزور اور بے بس عورت نہیں ہے۔ بلکہ ایک سمجھ دار اور باعمل عورت ہے جو مرد کی استحصال فطرت سے اچھی طرح واقف ہے اور جسے اپنے آپ پر پورا بھروسہ اور اعتماد ہے رشید جہاں نے مسلمانوں کے متوسط طبقے کی عورتوں کے دکھ درد بے بسی مظلومیت اور محرومی کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے زبان واسلوب سادہ ہے، ان سے پہلے بھی کچھ خاتون افسانہ نگاروں نے اپنے قلم کا جادو جگا یا ہے ان میں نذر سجاد حمید، مسر عبدالقادر حجاب امتیاز علی اور طاہرہ دیوی شیرازی وغیرہ اہم ہیں لیکن ان لوگوں نے رشید جہاں کی طرح عورتوں کی گھریلو زبان کا استعمال نہیں کیا تھا۔
 
خدیجہ مستور: ان کے ابتدائی افسانوں پر عصمت چغتائی کے فکر وفن کی چھاپ نظر آتی ہے لیکن آگے چل کر انہوں نے اپنی الگ شناخت بنالی انہوں نے زیادہ نہیں لکھا لیکن جو کچھ لکھا بہت سوچ سمجھ کر لکھا ان کے افسانوں میں متوسط طبقوں کی عورتوں کی زندگی کے خدوخالی نمایاں ہیں انہوں نےکچھ جنسی افسانے بھی لکھے ہیں مان کے یہاں طنز کے تیرھی ہیں جو زیادہ تر اہل دل کو مجروح کرتے ہیں، چند روزاور‘‘بوچھار‘‘اور کھیل‘‘ ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔
 
ہاجرہ مسرور:یہ خدیجہ مسرور کی بہن ہیں ان کے یہاں خدیجہ مسرور کی طرح گہری سنجیدگی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک شوخ وطرار افسانہ نگار ہیں ،زندگی کے بہت سے مضحک پہلوئوں کو وہ نہایت بے باکی سے اپنے طنز کا نشانہ بناتی ہیں،انہوں نے اپنے افسانوں میں ادنیٰ اور متوسط طبقوں کے مسلمانوں کی جنسی اور معاشرتی زندگی کو پیش کیا ہے۔ ان کے نزدیک جنس کی اہمیت ہے جنس کی اہمیت اور اس کی پیچیدگیوں کو وہ اچھی طرح سمجھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں جنس کبھی سطحی انداز اختیار نہیں کرتی ،’’چھپے چوری‘‘ ہائے اللہ‘‘ چرکے‘‘ اور ‘‘ اندھیرے اجالے‘‘ ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔
 
صدیقہ بیگم: صدیقہ بیگم پس ماندہ طبقوں کی زندگی کی تصویر میں پیش کرتی ہیں خاتون افسانہ نگاروں میں ان کا نام بھی بہت اہم ہے انہوں نے بہت سے افسانے لکھے ہیں اور اردو افسانہ نگاری میں ایک گراں قدراضافہ کیا ہے، ان کے کئی افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ’’آبادی سے دور‘‘ دودھ اور خون‘‘ ہچکیاں‘‘ پلکوں میں آنسو‘‘ اور ٹھیکرے کی مانگ‘‘ بہت اہم ہیں۔
 
قرۃ العین حیدر:صدیقہ بیگم کی طرح یہ صرف پس ماندہ طبقوں کی زندگی کی تصویریں پیش نہیں کرتی ہیں در اصل قرۃ العین حیدر مغربی ادب سے اچھی طرح واقف ہیں اس لئے معاشرتی ماحول میں مغربی شعاعوں کو نہایت قرینے سے جلوہ ریز کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں ایک نیا پن پایا جاتا ہے ان کے افسانوں میں صداقت اور حقیقت کی چاندنی نظر آتی ہے ان کے بعض افسانوں میں بلا کی کشش اور تازہ کاری ہے جزئیات نگاری پر انہیں فن کارانہ دسترس حاصل ہے تقسیم وطن کے سانحے نے قرۃ العین کے افسانوں میں ایک تہذیبی المیے کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ ان کے افسانوں کا کینوس بہت وسیع ہے بنیادی طور پر وہ رومانی ذہن رکھتی ہیں ان کے کئی افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔
 
جیلا نی بانو: خاتون افسانہ نگاروں میں یہ نام بھی کافی شہرت حاصل کر چکا ہے انہوں نے اپنی پیش روخاتون افسانہ نگاروں کے اثرات سے خود کو شعوری طور پر بچانے کی کوشش کی ہے اور بہت حد تک کامیاب بھی ہوئی ہیں، ان کوشش میں انہیں مختلف تجربات سے گزرنا پڑاہے۔ مندرجہ بالا افسانہ نگاروں کے علاوہ اور بھی بہت سی خاتون افسانہ نگار ہیں جنہوں نے افسانوی ادب کو مستحکم کرنے میں ہاتھ بٹایا ہے اور بٹارہی ہیں ان میں رضیہ سجاد ظہیر، لیلیٰ لکھنوی ، بانو قدسیہ ، قیصر جہاں وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1007