donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Qayamuddin
Title :
   Nifsiati Afsane

 

نفسیاتی افسانے
 
ڈاکٹرقیام الدین نیردربھنگہ
 
ترقی پسند تحریک سے قبل اردو میں نفسیات بھی داخل ہوچکی تھی، دراصل اردو افسانوں کی ترقی میں دوتحریکات بہت معاون ومدد گار ثابت ہوئی ہیں ایک تو کارل مارکس کی اشتراکی تحریک، دوسری فرائڈ کی نفسیاتی تحریک۔
فرائڈغیر شعوری کیفیات  کا مطالعہ کر کے یہ معلوم کیا کہ جس چیز پر پابندی عائدکر دی جاتی ہے ظاہری طور پر وہ چیز دب جاتی ہے لیکن غیر شعوری گوشہ میں موجود رہتی ہے ، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جس چیز سے انسان خوف کھاتا ہے اس کی خواہش بھی غیر شعور ی طور پر انسان کے اندر موجود رہتی ہے انہوں نے دماغی تغنیات ، مزاحمت، مراجعت اور استعداد (Repressien)کے سلسلے میں بھی روشنی ڈالی ہے آگے چل کے انہوں نے ابتدائی جنسی رجحان ، جنسی قوت، اور ڈیپس کمپلکس اور نرگیست کے مسائل سے لمبی بحث کی ہے مگر ان کا سب سے زیادہ اہم نظر یہ غیر شعور کیفیات سے تعلق رکھتا ہے ،انسان فطری طور پر جذبات کا پیکر ہوتا ہے اس کے اندر بہت سی خواہشات ہوتی ہیں۔
 
ہزاروں خواہش ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
 
مگر اس کی ساری خواہش تکمیل نہیں ہوپاتی ہیں اس لئے وہ ایسی بہت سی خواہشوں کو دباتا ہے مگر یہ خواہشات ہر وقت دمادار چھائی رہتی ہیں اگر چہ ظاہر نہیں ہوتی ہیں۔فرائڈ نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ خواہشات کا ۱۰؍۱حصہ ظاہر ہوتا ہے اور ۹؍۱۰حصہ تحت الشعور ہیں پوشیدہ رہتا ہے، اگرچہ انسان ایسی بہت سی خواہشوں کودباتا ہے جس کی تکمیل نہیں ہوپاتی ہیں لیکن دو طریقوں سے اس کی معمولی خواہشات کا اظہار ہو جاتا ہے ایک تو یہ کہ گفتگو کے دوران اس کے منہ سے راز کی بات نکل جاتی ہے دوسری یہ کہ دوران تحریروہ راز کی بات کہہ جاتاہے انسان کی کچھ سنجیدہ خواہشات بھی ہوتی ہیں جنہیں وہ مصلحتا یا خوف کی وجہ سے ظاہر کرنا نہیں چاہتا ایسی خواہش بھی اصل یا مسلح شدہ حالت میں عال مجنون میں اور نشے کی حالت میں ظاہر ہو جاتی ہیں۔شاعری کے ذریعہ بھی بعض سنجیدہ خواہشات ظاہر ہوجاتی ہیں۔ شاعراپنی خواہشوں کو شعر کے پردے میں تشبیہات واستعارات کنایہ ومجاز مرضی پر لباس میں ظاہر کرتا ہے۔
اردو میں بہت سے افسانہ نگاروں نے نفسیاتی افسانے لکھے ہیں، انہوں نے انسانی فطرت، شعور، لاشعور، مشاہدہ، باطن وغیرہ کو اچھی طرح سمجھا اور اس کے وراثت، ماحول، جنسی رجحان ، جنسی قوت، اور ڈیپلس کمپلکس اور نر گسیت وغیرہ کے زیر اتر ہو نے والی تبدیلیوں کو محسوس کیا اور جب اس کی روشنی میں افسانے لکھے تو قارئین چونک پڑے، اس سلسلے میں جن افسانہ نگار وں کا نام لیا جاتا ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں۔
احمد اکبر آبادی:احمد اکبرآبادی نے اردو افسانے میں سب سے پہلے تحلیل نفسی کا سہارالیا، انہوں نے اردو افسانے کی عام روشن سے ہٹ کر افسانے لکھے ،ان کے افسانے جب منظر عام پر آئے تو قارئین چونک پڑے انہوں نے شعور سے زیادہ لا شعور کی کار فرمانیاں دکھائی ہیں، ان کے نفسیاتی افسانوں کا مجموعہ ’’ملاخطات نفسی‘‘ ہے ان کا ایک افسانہ ’’ایک صحافی کی نفسیات‘‘جو۱۹۲۰ء میں لکھا گیا اور اردو افسانوں میں کافی مقبول ہوا۔
 
محمد مجیب:انہوں نے آزادی سے پہلے ہی بہت سے نفسیاتی افسانے لکھے، انہوں نے فرائڈ کی تحریکات کو سمجھا اور اس کی گہرائی میں جانے کی کوشش کی فرائڈ کی تحریک سے متاثر ہو کر انہوں نے جو افسانے لکھے ان می نفسیاتی گتھیوں کو سلجھا نے کی کوشش کی گئی ہے، ان کے نفسیاتی افسانوں کا مجموعہ ’’کیمیاگر ‘‘ہے، وہ انسانی فطرت اور انسانی نفسیات کی عکاسی کرتے ہیں انہوں نے ہر جگہ باریک بینی سے کام لیا ہے۔
 
سعادت حسین منٹو: منٹو کو کبھی ترقی پسند کہا گیا، کبھی رجعت پسند، کبھی انہیں فحش نفار سے تعبیر کیا گیا اور کبھی زندگی کی گوناگوں حقیقتوں کو جرأت مندی سے پیش کرنے والا سچا فن کار۔
یہ سچ ہے کہ منٹو کے زیادہ تر افسانے ترقی پسندی پر مبنی ہیں لیکن انہیں جو شہرت اور مقبولیت ملی ہے وہ جنسی میلانات کا تجزیہ کرنے میں ملی ہے، جن پر بہت حد تک فرائیڈ کے اثرات ثبت ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر جوان لڑکیوں اور طوائفوں کے حالات کا تجزیہ کیا ہے اور ان کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ منٹو نے کہیں کہیں نفسیاتی تجزیئے میں گندگی بھی پیدا کردی ہے، دراصل منٹو کا آر ٹ سریانی میں مضمر ہے، انہوں نےجنسی افسانوں کو ترقی دی، جنسی حقیقتوں اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو سلجھا نے میں ان کا کوئی ثانی نہیں’’ٹھنڈاگوشت‘‘ بلائوز‘‘ کالی شلوار‘‘ نکہت‘‘ دھواں‘‘ کھول دو‘‘ بو‘‘ وغیرہ ان کی ایسی کہانیاں ہیں جن میں جنسی، ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
 
عصمت چغتائی:اردو ادب میں عصمت چغتائی کے افسانے بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیںانہوں نے شمالی ہندوستان کےمتوسط طبقے کے مسلمان گھرانوں کی زندگی کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا اور فرسودہ رسم ورواج کی مذمت کی عورتوں کے مسائل کو سمجھا اور اسے اپنے افسانوں میں پیش کیا۔عصمت چغتائی کے افسانوں کا موضوع نوجوان لڑکیاں ہیں، جب کوئی لڑکی عنفوان شباب کو پہنچتی ہے تو اس کے دل میں طرح طرح کی امنگیں پیدا ہوتی ہیں اور طرح طرح کے ارمان پیدا ہوتے ہیں، عصمت انہیں امنگوں اور ارمانوں کا ذکر حسین انداز میں کرتی ہیں۔چونکہ نوجوان لڑکیوں کے دل میں طرح طرح کے خیالات، آرزو ئیں اور تمنائیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اس لئے وہ کشمکش میں مبتلا ہوجاتی ہیں، وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتی ہیں کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے ، کون سارا ستہ اختیار کرے، کشمکش کی یہ منزل بہت پیچیدہ ہوتی ہے۔ عصمت نے عورتوں کی انہیں جنسی ونفسیاتی معاملات کو جرأت مندی اور بے باکی سے اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے انہوں نے اپنے بعض افسانوں میں اپنے معاشرے کی ناہمواریوں اور اس کے پردروہ لوگوں کے نفس کی گہرائیوں پر بھی نظر رکھی ہے۔ ’’لحاف‘‘عصمت کا بدنام ترین افسانہ ہے۔
 
واجدہ تبسم:اردو افسانے میں واجدہ تبسم بھی بلند مقام رکھتی ہیں، انہوں نے حیدر آباد کے نوابوں اور زمینداروں کی گھریلو زندگی کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔ ساتھ ہی جوان لڑکیوں کے اندر پیدا ہونے والے جذبات کی عکاسی بھی کی ہے۔ وہ لڑکیوں کی نفسیات پر گہری نظر رکھتی ہیں اور ان کے اندر اٹھنے والے طوفان کو محسوس کرتی ہیں۔ وہ خود بھی عورت ہیں اس لئے جب دوسری نوجوان لڑکیوں کے جذبات پر روشنی ڈالتی ہیں تو وہی جذبات ان کے دل میں بھی موجزن ہوتے ہیں اسی بنا پر ان کے افسانے میں سچائی اور صداقت پیداہوجاتی ہے۔ان کے افسانوں کے بہت سے مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ان کے زیادہ تر افسانوں میں نفسیاتی جھلکیاں ملتی ہیں۔
 
اس طرح اردو میں اور بھی بہت سے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے نفسیاتی افسانے لکھے ہیں یاان کے افسانوں میں نفسیاتی جھلیاں ملتی ہیں۔ جیسے ممتاز مفتی ڈاکٹر رشیدجہاں، بیدی، ڈاکٹرمحمد محسن، حجاب امتیاز علی، اور شکیلہ اختر وغیرہ لیکن یہاں بطور خاص کچھ لوگوں کا ذکر کردیا گیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1041