donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : M. Mubin
Title :
   Dr Azim Rahi Aur Urdu Me Afsancha Nigari Ki Aham Rawayet


ڈاکٹر عظیم راہی اور ’’اردو میں افسانچہ نگاری کی روایت

 

از: ایم۔ مبین‘بھیونڈی


 

دنیا کی ہر ترقی یافتہ زبان میں منی افسانے مختصر کہانی یا افسانچہ کی صحت مند روایت موجود ہے۔ لیکن اس کی شکلیں

 مختلف ہیں۔ عربی فارسی زبانوں میں اگر اس کی ابتدائی شکل حکایتوں میں ’بوستان‘ اور ’گلستان‘ کی شکل میں ملتی ہیں تو یونانی زبان میں یہی روایت اسپ کی کہانیوں کے طور پر موجود ہے۔ اس کی ہی ترقی یافتہ شکل آج منی افسانہ، افسانچہ ہے۔اردو میں بھی یہ روایت اس نئی شکل میں پلی بڑھی اور آج اس ترقی یافتہ شکل کو اگر اردو ادب سے روشناس کرانے کا سہرا سعادت حسن منٹو کے سر جاتا ہے تو بے شک اس کو پروان چڑھانے اور آگے بڑھانے کا کام جوگندر پال نے کیا۔ اور ان کے علاوہ دیگر کئی ادیب ہیں جنھوں نے اس پر پوری توجہ دی اور مسلسل اس صنف میں طبع آزمائی کی۔

اردو زبان میں اس صنف ادب کو قارئین نے پسند بھی کیا اور ادیبوں نے اس صنف پر طبع آزمائی کرتے ہوئے تخلیقات کا انبار بھی لگادیا۔ لیکن سب سے افسوسناک بات یہ ہیکہ ناقدوں نے کبھی بھی اس جانب توجہ نہیں دی اور نہ ہی سنجیدگی سے اس کا مطالعہ کرکے اس افادیت، اہمیت سے قارئین کو روشناس کرانے کی کوشش کی بلکہ جس کسی نے بھی اس جانب توجہ دی اس صنف کے بارے میں منفی خیالات کا اظہارکیا‘ اس کے بارے میں گمراہی پھیلانے کی کوشش کی اور اس پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔جیسے یہ سہل پسندوں کا کام ہے۔ لطیفوں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ پند ونصیحت کے لیے ایک صنف ہے وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ کچھ ناقدوں نے تو منی افسانہ کے بارے میں اتنے سخت الفاظ کا استعمال کرکے اپنی ناراضگی ظاہر کی کہ اس صنف میں سنجیدگی سے طبع آزمائی کرنے والے کئی ادیب مارے خوف کے اس راستہ سے راہ فرار اختیار کرگئے۔

دوسرے لفظوں میں اس صنف میں تنقید اور تاریخ اور اس صنف کی تشریح کے لیے کوئی کام ہی نہیں ہوسکا۔ لیکن ڈاکٹر عظیم راہی کی کتاب ’’اردو میں افسانچہ کی روایت تنقیدی مطالعہ‘‘ جیسے اس میدان میں نہ صرف سنگ میل بن گئی ہے بلکہ اردو میں افسانچہ کی روایت کی تنقید اور اس کے مطالعہ کے لیے ایک مضبوط بنیاد کا کام بھی کرگئی ہے جس سے اب یہ امید کی جاسکتی ہے کہ دیگر ناقدین بھی سنجیدگی سے اس صنف پر توجہ دیں گے اور اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ہر زبان میں ایسے کئی ادیب وشاعر موجود ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو خاص طورپر ایک صنف ادب کے لیے مخصوص کردیا تھا اور خصوصی طورپر اس صنف ادب میں طبع آزمائی کرکے اپنا مقام بنایا اور نام پیدا کیا تھا۔ڈاکٹر عظیم راہی نے اسی روایت کو قائم رکھا ہے اور انھوں نے ادب کی دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ افسانچہ نگاری اور افسانچہ کی تنقید کے لیے خود کو وقف کرکے اسی کے متعلق تخلیقات کے انبار لگائے ہیں۔اس کا ثبوت ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’پھول کے آنسو‘‘ اور ’’درد کے درمیاں‘‘ ہیں۔ اور یہ کتاب ’’اردو میں افسانچہ کی روایت ‘‘ افسانچہ کی تنقید اور تحقیق کے سلسلے میں ایک نئی شروعات کی ہے۔ انھوں نے اردو میں ۷۰ء؁ اور ۸۰ء؁ کے درمیان شائع ہوئے افسانچوں کے مجموعوں کی تفصیل بھی اپنی تحقیق کے ذریعہ پیش کی ہے۔ اس طرح سے انھوں نے افسانچہ کے بارے میں تحقیق کی بھی داغ بیل ڈالی ہے۔ ۲۰۸ صفحات کی یہ کتاب ۶ ابواب پر مشتمل ہیں اور ہر باب میں موضوع کے لحاظ سے بھرپور مواد کے ساتھ اور ان پر سیر حاصل بحث کرکے موضوع کو جامع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر چاہے وہ افسانچہ کی ابتدا وارتقاء کا باب ہو یا پھر افسانچہ کی تعریف ودیگر فنی لوازمات سے متعلق باب ہو۔ یا پھر ملک کی دوسری ریاستوں اور دنیا کے دیگر خطوں میں افسانچہ کی روایت اور اس صنف میں لکھنے والے ادیبوں کا تذکرہ ہو یا اس صنف کی شائع شدہ کتابوں کا جائزہ ہو‘ ہر باب میں تنقید کے ساتھ تحقیق کی بھی کامیاب کوشش نظر آتی ہے اورہر صفحہ سے ڈاکٹر عظیم راہی کی عرق ریزی چھلکتی ہے۔ اس کتاب میں شامل جوگندر پال، ڈاکٹر عتیق اﷲ، ڈاکٹر محبوب راہی اور ڈاکٹر مناظر عاشق کے مضامین بھی افسانچہ کے متعلق بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور خاص طورپر خود ڈاکٹر عظیم راہی کا پیش لفظ اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ اس مضمون میں انھوں نے افسانچہ کے بارے میں اپنے جذبات اور احساسات اور اپنے جنون کا تذکرہ کیا ہے اور اس دہشت کی سیاحی و صحرانوردی کے تلخ واقعات اور حقائق کو پیش کرکے اپنے پیروں کے آبلوں کو قارئین سے روشناس کروانے کی کوشش کی ہے۔ڈاکٹر عظیم راہی نے بڑی تفصیل سے منی افسانوں اور منی افسانچہ نگاروں کا نہ صرف تذکرہ کیا ہے بلکہ ان کے نمائندہ افسانچوں کا جائزہ بھی لیا ہے اور اس کتاب میں نمونہ کے طورپر ان افسانچہ نگاروں کے نمائندہ افسانچے بھی تعارف کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں اس طرح اس کتاب کے ذریعے قارئین کے سامنے انھوں نے ان افسانچہ نگاروں کا ایک اجمالی خاکہ ان کی تخلیقات کی روشنی میں پیش کردیا ہے اور ان کے تخلیقی رویے کا جائزہ بھی لیا ہے۔

اس کتاب کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ بھلے ہی ناقدروں اور ادب کے دیگر جغادریوں نے اس صنف پر توجہ نہیں دی ہے لیکن جن لوگوں نے بھی اس صنف میں تخلیقی کام کیا ہے‘ پورے جذبہ شوق اور انہماک سے کیا ہے۔ڈاکٹر عظیم راہی نے ان ادیبوں کا اس کتاب میں جائزہ پیش کرکے ان کی خدمات کا اعتراف کردیا ہے اس کتاب میں عظیم راہی نے افسانچہ کی تکنیک اور تعریف کو اتنے مفصل انداز میں اتنی خوبصورتی سے پیش کیا ہے اس کے مطالعہ سے نئے لکھنے والوں کو اس کی تکنیک سمجھنے کا موقع ملے گا اور جب وہ اس تکنیک اور اس کے لوازمات کو ذہن میں رکھ کر لکھیں گے تو ان کے قلم سے پند ونصیحت، لطائف یا لایعنی خیالات کے اظہار کے بجائے مکمل افسانچے تخلیق ہوں گے وہ ان تمام الزامات سے بری ہوں گے اور ادب عالیہ کے اچھے نمونے ثابت ہوں گے۔

اس کتاب کواپنے طورپر عظیم راہی نے افسانچہ کی روایت کے متعلق ایک مکمل اور جامع کتاب بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔ آخر میں شائع کی گئی جدولیں مستقبل میں‘ اس سلسلے کی تحقیق کے لیے مددگار ثابت ہوں گی۔ کیونکہ ڈاکٹر عظیم راہی نے شائع شدہ زیر ترتیب افسانچوں کے مجموعوں کی فہرست کے ساتھ ساتھ مختلف اوقات میں اس صنف کے متعلق رسائل اور اخبارات کے خاص نمبروں کا بھی تذکرہ کردیا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ ہر اس ادیب کے لیے ضروری ہے جو افسانچہ نگاری میں دلچسپی رکھتا ہے اور ہر اس قارئین کے لیے بھی‘ جو ناقدوں کی پھیلائی من گھڑت باتوں کی وجہ سے اس صنف کے متعلق گمراہی کا شکارہے ‘ یقینا یہ کتاب ان سب کی توجہ کا مرکز بن کر ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرے گی۔


ایم  مبین

303 کلاسک پلازہ
تین بتی
بھیونڈی 
ضلع تھانہ  مہاراشٹر

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 849