donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Naseem Mohammad Jaan
Title :
   Kuchh Afsanche Ke Bare Mein


 

کچھ افسانچے کے بارے میں


نسیم محمد جان


افسانچے کے نام پر ہرقسم کی چیزیں لکھی جارہی ہیں۔ ایک سطرسے لے کرایک صفحہ تک کی، کیا ایسی تمام تخلیقات کوافسانچہ کہا جاسکتاہے؟


جس طرح داستان کے بطن سے ناول ، ناول سے افسانہ پیدا ہوا اسی طرح افسانے سے افسانچہ وجود میں آیامگر یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ داستان، ناول افسانہ اور افسانچہ الگ الگ اصناف ہیں، ایک دوسرے سے مختلف۔ ماں بچے کوضرورجنم دیتی ہے مگر بچے کاسب کچھ اپنا ہوتاہے، ماں سے ملتاجلتاہوسکتا ہے مگر اس کی شخصیت اپنی ہوتی ہے، اس کاوجود اپناہوتاہے۔ اس طرح’افسانچہ‘ افسانے سے الگ صنف ہے، افسانے کا’’بونزائی‘‘ نہیں ۔ اس کے تقاضے اپنے ہیں ورنہ افسانہ ناول کابونزائی ہوجائے گا۔ اور ناول داستان کا۔ آگرہ شہرکاناول مان لیاجائے توتاج محل افسانہ ہے کیوںکہ آگرہ میں بہت ساری تواریخی عمارتیں ہیں، اگرصرف تاج محل کو دیکھاجائے تویہ افسانہ ہے۔ اس سے الگ قطب مینارافسانچہ جوکم جگہ لینے کے باوجودآسمان چھوتاہوانظرآتاہے۔ ایک چیزسب میں مشترک ہے وہ پتھرہے۔ اسی طرح ناول ، افسانہ اور افسانچے میں کہانی موجودہوتی ہے۔ تاج محل میں چارمینارہیں، بیچ میں ایک بڑا گنبد ہے، چاروں مینارگبند کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ فوارے، پتلی سی نہر، باغ وغیرہ غیراہم ہونے پر بھی بیچ کے گنبدکواور خوبصورت بناتے ہیں۔ جب کہ افسانچہ قطب مینارکی طرح ہے جسے اپنے وجود اور حسن کو آشکارہ کرنے کیلئے دیگر ذیلی چیزوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ افسانچے میں ذیلی چیزیں نہیں ہوتی ہیں اور نہ ذیلی واقعات کی گنجائش ہوتی ہے۔ رباعی کی طرح افسانچہ بھی مختصر ہوتاہے۔رباعی کاآخری مصرع اہم ہوتاہے افسانچے میں بھی آخری جملہ غوروفکر کرنے کی دعوت دیتاہے۔ رباعی میںبھی صرف ایک بات کہی جاتی ہے۔ افسانچے میں بھی صرف ایک بات لکھی جاتی ہے۔ کم سے کم الفاظ میں۔ صرف اور صرف ایک واقعہ کاذکر افسانچہ ہے۔ یہ کمان سے نکلا ہواایک ایسا تیرہے جوسیدھے نشانے پر جالگتاہے۔ہرصنف ضرورتا پیداہوتی ہے۔ دراصل جب کشتیوں پر سفر کرنے کازمانہ تھا توداستان اور ناول کی ضرورت محسوس ہوئی، ریل کازمانہ آیاتو افسانہ پیداہوا، ہوائی جہاز کی طرح جب وقت تیز گام ہوگیا تو افسانچے کی ضرورت محسوس ہوئی، اصناف وقت کی دین ہیں۔ ضرورتاوجود میں آئی ہیں، گزرتاہوازمانہ کچھ لے جاتاہے تو کچھ دیتا بھی ہے۔عام طورپر افسانے میں کسی زمانے، وقت یاعہد کی جھلک دکھائی دیتی ہے مگر افسانچے، زیادہ تروقت اور زمانے کے حصارسے آزادہوتے ہیں۔ غزل کے اچھے شعر کی طرح افسانچہ بھی خضرکی زندگی رکھتاہے۔ مثال کے طورپرایک افسانچہ کچھ اس طرح ہے:


’’مچھلیاں مارنے والی تین عورتیں شام کوگھرلوٹ رہی تھیں۔راستے میں طوفان آگیا۔ پناہ لینے کیلئے گرجاگھرمیں داخل ہوگئیں،جہاں خوشبوہی خوشبوتھی۔کافی رات ہوگئی ،عورتوںکونیندنہیں آرہی تھی۔ کوششوں کے باوجودوہ عورتیں دیر رات تک جاگتی رہیں۔ ایک نے کہاایسا کرتے ہیں مچھلیاں پکڑنے والے جال کواپنی اپنی ناک پررکھ لیتے ہیں۔ سب نے ایساہی کیا اور تینوں کونیندآگئی۔کیایہ افسانچہ وقت اورزمانے کی قیدسے آزادنہیں ہے؟اس افسانچے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ آدمی جس ماحول میں رہنے کاعادی ہوتاہے اسے وہیں اطمینان محسوس ہوتاہے۔ اگرماحول بہتربھی ملے تو راس نہیں آتا۔ جب تک آدمی، آدمی رہے گااس کی یہ فطرت باقی رہے گی۔ اسی لیے یہ افسانچہ وقت کی گرفت سے باہر ہے۔ منٹوکاایک افسانچہ ہے جواسی طرح کاہے:  


’’بلوائی مکان مالک کوبڑی مشکلوں سے گھسیٹ کرگھرسے باہر لے گئے۔ کپڑے جھاڑکر وہ اٹھ کھڑاہوا، کہنے لگاتم مجھے مارڈالو، لیکن خبردارجومیرے روپے پیسے کوہاتھ لگایا۔


کیاگزرتاہواوقت اس افسانچے پر گردڈال سکے گا۔مگرضروری نہیں کہ یہ صفت ہرافسانچے میں پائی جائے۔ ایسے افسانچے بھی قابل قدرہوسکتے ہیں جن میں وقت اورزمانے کی جھلک پائی جاتی ہوبلکہ ایسے افسانچے اچھے، بہت اچھے بھی ہوسکتے ہیں۔ 


ہماری زندگی ناول یاافسانے کی طرح تسلسل سے نہیں گزرتی بلکہ کبھی ناہموارراستے پرہچکولے کھاتی ہے توکبھی چلتی سڑک پر سرپٹ بھاگتی ہے۔افسانچہ چندمنٹوں میںہونے والے واقعہ کوگرفت میںلیتاہے۔ یہ صنف پھیلی ہوئی زندگی کی عکاسی کرنے کادعویٰ بھی نہیں کرتی۔ افسانچہ ’’پل دوپل ‘کی کہانی ہے جوہماری زندگی کاحصہ ہے۔


بڑے بڑے واقعات ’پل دوپل‘میںہوجاتے ہیں۔اہم سے اہم فیصلے’پل دو پل‘ کی دین ہوتے ہیں۔ عام طورپر ہرپل، گزرے ہوئے پل سے مختلف ہوتاہے۔ افسانچے کااختصارہی اس کی پہچان ہے جسے ہیئت کہہ لیجے۔ افسانے اور افسانچے میں اگرکوئی چیز مشترک ہے تو وہ ہے کہانی پن ، جوافسانچے کابھی لازمی جزوہے۔ اگر کہانی نہیں ہے تو افسانہچہ افسانچہ کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ اس لیے کسی ایک سطری تخلیق کو افسانچہ نہیںکہا جاسکتا۔ ایک سطری تخلیق پروقار، اہم فکری اور بے حد خوبصورت ہوسکتی ہے پر افسانچہ نہیں کوئی اور چیز ہوگی۔اسی طرح اختصار میں لکھا گیا ہر تخلیق افسانچہ نہیں ہوتا اگر اس میں کہانی پن نہیں، کہانی پن افسانچے ک روح ہے۔


افسانچہ پر الزام ہے کہ اردو میں اس کی روایت نہیں ہے۔ بہت سی ایسی چیزیں لکھی جارہی ہیں جن کی روایت اردو میں نہیں۔ خود افسانے کی روایت کتنی پرانی ہے۔ 


اگریہ مان بھی لیا جائے کہ اس کی روایت نہیں تو بھی اس بنیاد پر اس کی اہمیت سے انکار کرنا غلط ہوگا۔ویسے اردو کی والدہ محترمہ فارسی میں حکایات موجودہیں۔یہ افسانچے ہی تو ہیں۔ یاافسانچے کی ابتدائی شکل ۔ اگر افسانچے نہیں تو افسانچے سے قریب ضرور ہیں۔ حکایت میں بھی صرف ایک بات کہی جاتی ہے، مولانا روم کا، شیراور خرگوش، کی حکایت میں صرف ایک بات کہی گئی ہے، اگر دشمن مضبوط ہوتوعقل سے کام لیناچاہیے۔ خرگوش نے عقل سے کام لے کر شیرکوکوئیں میں گرادیا۔ اسی طرح سعدی کی حکایت ،غلام اور کشتی میں بھی ایک بات کہی گئی ہے اگر آدمی کے سامنے زیادہ تکلیف آجائے تو کم تر کوغنیمت جانتاہے۔حکایت افسانچے سے بہت قریب ہے۔
غزل مقبول ترین صنف ہے۔ اس کاہر شعر الگ الگ معنی رکھتاہے۔ صرف وزن، قافیہ اور ردیف کی زنجیرسے باندھ دیاجاتاہے۔ الگ الگ شعرافسانچہ کی طرح ہے۔مختلف معنی کاہونا اس کی خوبی ہے خامی نہیں۔ اس وجہ سے اشعار کو یاد رکھنا آسان ہوجاتاہے۔ نظم کویادرکھنا مشکل ہوتاہے۔ اسی طرح افسانچے کی طرح صرف ایک بات کہی جاتی ہے۔ شعر کو قبول کرنا اور افسانچہ کی اہمیت سے انکار کرناکہاں تک درست ہے؟ میری کتاب گھڑی کی سوئیاں میں افسانوں کے علاوہ چوبیس افسانچے ہیں۔ مجن لوگوں کے پاس کتاب گئی سب سے پہلے افسانچوں کوپڑھا۔ مولاناروم کی حکایت شیر اور خرگوش والی، دنیا کی ہرزبان میں پائی جاتی ہے۔ جوگندرپال اور منٹواپنی حیثیت افسانہ نگار کے طورپر منواچکے تھے پھر بھی ان کو افسانچے لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی اس سے افسانچے کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 872