donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Saood Siddiqui
Title :
   Woh Kaise Mara

مرسلہ : سعود صدیقی   


وہ کیسے مرا؟


 
وہ ایک بھکاری تھا جو ایک ایک سے وقت اور تنہائی کی بھیک مانگتا ہوا مرگیا۔ اِس جنسِ حقیر کی قیمت کوئی نہیں جانتا تھا۔ اس لئے کسی نے اس پر رحم نہیں کھایا۔ وقت اسکے لئے بیش بہا خزانہ تھا، تنہائی اسکے لئے محل تھی، لیکن اسکے خزانوں اور محلوں پر اپنوں اور بیگانوں نے اسقدر جائز اور ناجائز قبضے کر رکھے تھے کہ خود اُسے کہیں پاؤں پھیلا کربے فکری سے  لیٹنے کی کبھی کوئی جگہ نہیں ملی۔ کبھی جگہ مل بھی گئی تو کسی نہ کسی نے ٹھوکر مار کر اُسے اٹھا دیا۔ وہ اپنے عزائم اور منصوبوں کے جنازے اٹھائے پھرتا رہا۔ سب کیلئے اُس کا ساتھ شامِ عید تھا اور اُس کے لئے شامِ غریباں۔ وہ اس دنیا میں جیتا تھاجسمیں اسکے اصول، اسکی سوچیں اور اسکے ارادے ایک غیر ملکی اجنبی زبان کی طرح تھے جسے لوگ بہت کچھ سمجھتے ہوئے بھی کچھ سمجھنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ لوگ صرف اپنی زبان سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں ۔ اُس نے ترجمہ کرنے کی جب بھی کوشش کی بےوقوف کہلایا۔ کسی نے شاعر کہا، کسی نے فلسفی، کسی نے لیڈر کہا تو کسی نے باغی۔ اس نے جب بھی اپنی اصلی حیثیت پیش کرنے کی کوشش کی اُسے ذلّت اٹھانی پڑی۔ باہر والوں نے کہا مرنے سے پہلے کسی کی قدر نہیں ہوتی، ہماری طرح ایک عام آدمی بن کر رہو۔ گھر کے  کسی کونے سے آواز آئی ‘‘تم صرف ایک شوہر ہو، اسی طرح رہو، تم کو سماج میں بیوی کی آن اور بچوں کی شان بڑھانے کمائی کرتے کرتے مرجانا ہے’’۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ایک مرد ہے جس کا سماج میں رول ایک بے مقصد شوہر، باپ، چچا، خالو پھوپھا ماموں بن کر  رسم و رواج کی بارات میں ناچتے ہوئے تھکتے رہنا ہے۔ بچے پیدا کرنے ہیں واور ان کو پڑھانے لکھانے اور شادیاں کرنے کے علاوہ زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں ہے ۔ پھر وہ  بچے کیا کرتے ہیں؟   وہ بھی بڑے ہوکر اپنے بچے پیدا کرتے ہیں ، پھر وہ بچے بھی اپنے بچے پیدا کرتے ہیں۔ جس طرح گائے بیل، کتّے، بلّی اور چھپکلی وغیرہ ساری زندگی صرف کھانے پینے کی 
مصروفیت کے بعد بچے پیدا کرتے کرتے مرجاتے ہیں، تم بھی کائنات کی ایسی بے شمار بے مقصد مخلوق کی طرح زندگی گزارو اور مرجاو، زندگی اسی کا نام ہے۔
 
اگر یہ زندگی ہے تو اُسے اس زندگی سے نفرت تھی۔ شوہر یا باپ یا داماد یا خسر بننا اُسکے نزدیک ایک اضافی ذمہ داری تھی لیکن دوسروں کے نزدیک یہی  اولّین فرض تھا، انہی 
رشتوں کو نبھانا، اس میں نام اور مقام پیدا کرنا ان کے لئے حاصلِ زندگی تھا۔ وہ اس دوڑ کا کھلاڑی نہیں تھا۔ لیکن اُسے دھکیل دھکیل کر اِس دوڑ میں دوڑایا گیا۔ وہ نہیں دوڑ سکا۔ وہ مخالف سمت ایک بھی قدم اٹھاتا تو سماج اور رواج کا ہجوم اتنا طاقتور تھا کہ دھکّہ مار کر اسے دس قدم پیچھے کردیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بے مقصد تہذیب کے اندوہناک ریلے میں اسٹامپیڈ ہوگیا۔ کون نہیں تھا جو اس کو روندتا ہوا نہیں گیا۔ رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ ساتھ ان بے شعورانسانوں کی وہ بھیڑ بھی تھی جنہیں وہ ایک مقصدِ حیات کی طرف لانے کی جستجو کرتا رہا۔ لیکن وہ اُسے اپنے اغراض و مقاصد کیلئے استعمال کرتے رہے اور اس کے وقت اور تنہائی کی دولت کو لوٹتے رہے۔ اُن دو کوڑی کے دانشوروں کا بھی ریلہ تھا جو کہیں صحافی و ایڈیٹر بن کر اسکی تحریروں کو دباتے رہے۔ تو کہیں خود ساختہ لیڈرتھے جو اُس کے کندھوں پر چڑھ کر اپنا قد بلند کرتے رہے۔ وہ جماعتیں اور انجمنیں بھی تھیں جن کے اکابرین کو محض والینٹیروں کی ضرورت تھی۔ اگر وہ اس کو اس کا مقام دیتے تو اپنی کرسیوں سے دھڑام سے گِر پڑتے اور ان کا قد چھوٹا ہوجاتا۔ ہر کسی نے  اس کی صلاحیتوں کو یرغمال بنا کر اپنا نام اونچا کرنا چاہا ۔ وہ چیختا رہا، چِلّاتا رہا، وہ فائر برانڈ انسان تو تھا ہی، اورکرتا بھی کیا۔ لوگوں کے کان اور دماغ مکمل برف کے تھے۔ اس برف کو پگھلانے چائے خانہ ہو کہ دیوان خانہ، محفل ہو کہ اسٹیج وہ ہر جگہ آگ لگاتا رہا لیکن  ناکام  رہا۔ کوئی پتھر نہ پگھلا  وہ خود بری طرح جھلس گیا۔ سب نے منہ پر اُسکی تعریفیں کرکے ‘‘معاف کرو بابا’’ کہا۔ کسی نے اُسے بہترین مقرِّر کہا تو کسی نے جذباتی ادیب، کسی نے لیڈر کہا تو کسی نے مفکر،اور جناب اقبال نے کہا: 

 ذاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا      اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
 

ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ اپنی موت آپ مرا یا اُس کا قتل ہوا۔ کوئی گواہی کےلئے منہ کھولنے تیار نہ تھا۔ ہر ایک نے اس کی زندگی پر احسان کرنے کا دعویٰ کیا لیکن اس کی موت کی ذمہ داری قبول کرنے کوئی تیار نہ تھا۔ اگر کوئی گواہ تھا وہ اپنی موت کا خود آپ گواہ تھا۔ لیکن زبان کھولتا کیسے؟  اسکی شرافت اور مروّت خود اسکے سب سے بڑے دشمن تھے جو زبان کھولتے ہی اُسے قتل کردینے کے درپہ ہوجاتے۔ اگر وہ ایک بار مرا ہوتا تو شائد بول بھی دیتا، وہ تو کئی بار مرا تھا، اس کا قتل تو کئی بار ہوا تھا۔ کبھی منہ کے بل گر کر، کبھی پیٹھ میں چُھرا کھا کر، کبھی صبر کا زہر پی کر تو کبھی تہمت و الزام کے پتھر کھا کر۔ کم بخت کو قدرت نے شکل بھی ایسی عطا کی تھی کہ وہ کوشش بھی کرتا تو کسی کے بڑے سے بڑے کمینے پن پر بھی  ردّعمل ظاہر نہیں کرسکتا تھا۔ وہ پیدائشی بزدل تھا۔ ناگواری کا اظہار کرنا یا لڑنا تو درکنار احتجاج کرنا بھی اس کے بس میں نہیں تھا۔

 وہ بہت غریب تھا لیکن افسوس وہ غربت کے ہاتھوں نہیں مرا۔ اسکی موت اسکی دولت کے ہاتھوں ہوئی جس پرخود اسکی نظر کبھی نہیں رہی لیکن اِس پر کس کس کی نظرتھی اُسے خبر نہ ہوئی۔ کتنے سانپ اسکی دولت کی حفاظت کے بہانے اسکے اطراف رینگ رہے تھے اس سے وہ لاعلم تھا۔ اپنوں اور بیگانوں سبھی کو اس نے حق دیا لیکن سب کی ‘‘مزید’’ کی خواہش پوری نہ کرسکا۔ اس لئے کسی کو بھی خوش نہ رکھ سکا بالآخر سب کی ملامت نے اسے ماردیا۔ غیروں کو اپنا بناتا رہا اور آخر میں سارے اپنوں ہی کے ہاتھوں تہہِ تیغ ہوا۔ دشمنوں سے بہت ڈرتا تھا لیکن دوستوں نے اس کا کام تمام کردیا۔  اوروں کو چراغ دِکھاتا رہا، روشنی سے جل گیا۔ 
 
بخدا وہ نہ طبعی موت مرا نہ اس کا قتل ہوا۔شائد اس نے خودکشی کی تھی۔ اس کی خودکشی کے گواہ بے شمار ہیں کیونکہ خودکشی بھی اس نے ایک بار نہیں کئی بار کی تھی۔ اسلئے کہ دوستی اور وفا کی خوش گمانی میں حد پار کرجانا اسکی فطرت تھی۔ پرائی آگ میں ہاتھ جلانا اسکا مزاج تھا۔ سانپوں کے بِل سے ڈسے جانے کے باوجود پھر ہاتھ ڈالنے کی حماقت کرنا اسکی کمزوری تھی۔ اور پھر بھی مسکرانا اسکی عادت تھی۔ احمد فراز نے اُس سے  بارہا کہا کہ
                                               عیسیٰ نہ بن کہ اُ س کا مقدر صلیب تھا               انجیلِ آگہی کے ورق عمر بھر نہ کھول

لیکن وہ نہیں مانا۔  شائد خودکشی کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا۔ ایسے شخص کی تو نمازِ جنازہ بھی نہیں ہوتی۔ صرف تبصرے ہوتے ہیں۔  ’’اگر وہ یوں کرتا تو آج ہماری طرح زندہ رہتا‘‘ اور ’’یوں نہ کرتا تو بچ جاتا‘‘ ۔ 
 
وراثت میں چھوڑنے اس کے پاس بہت کچھ تھا ۔اسی لئے سب اس سے محبت کرتے تھے مگر وہ کس سے محبت کرتا تھا یہ معلوم نہ ہوسکا۔ شائد وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔  وارثوں اور دوستوں نے اس کی مدد سے اپنے قرض چکتا کرنے میں کبھی تاخیر نہیں کی لیکن خود اس پر کئی قرض اور کئی ذمہ داریاں تھیں جنہیں ادا کرنے کوئی آگے نہ بڑھا۔ اسکے قرض نوشتۂ دیوار تھے لیکن کوئی پڑھنا نہیں چاہتا تھا۔ ۔ اس پر ریاستِ حیدرآباد 

کے سقوط کا قرض تھا، اس پر 1857  کا قرض تھا۔ اس پر وندے ماترم کو بے نقاب کرنے کی ذمہ داری تھی۔ گجرات میں بہنوں کی عصمت ریزیوں کا اُسے  حساب چکتا کرنا تھا۔ مصر، فلسطین، شیشان اور کشمیر کے سینکڑوں معصوم نوجوانوں کا قرض تھا جودہشت گردی کے الزام میں اصلی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ وہ کچھ نہ کرسکا۔ اپنی نسلوں کو مقروض کرگیا۔ بابری مسجد منہدم کردی گئی، وہ دیکھتا رہا، پھر بھی زندہ رہا بس تبصرے ہی کرسکا۔ یہ خودکشی نہیں تو اور کیا تھی؟ کوئی نہ تھا جو اس کے قرض اتارنے میں اسکی مدد کرتا۔ وہ جتنے انسانوں کو آواز دیتا رہا وہ بہت پہلے مرچکے تھے۔ کچھ زندہ بھی تھے تووہ انسان کہاں تھے۔ وہ تو باپ تھے، شوہر تھے، ملازم پیشہ یا کاروباری تھے، کچھ شاعر یا ادیب تھے جو صرف مرثییے لکھ سکتے تھے، یا کچھ دوست تھے جو دوچار قدم چل کر تھک جاتے تھے، ان کی سانسیں پھولنے لگتی تھیں۔ بجائے جیبون کو ہلکا کرنے کے مشوروں کے پہاڑ کھڑے کردینے والے بے شمار مدبّر، مفکّر اور خودساختہ مصلح تھے۔ کوئی تبصرے لکھ لکھ کر خوش تھا تو کوئی اخبارات میں اپنی خبریں اور تصویریں چھپوا کر خوش تھا۔  سارے سوسائٹی کے تقاضوں کی دوڑ میں مصروف تھے۔ مضمون یا کتاب خرید کر پڑھنا تو درکنار، مفت میں بھی مل جائے تو پڑھنے کے روادار نہیں تھے۔ کوئی کسی مسلک کا پابند تھا تو کوئی کسی شخصیت کا غلام، کوئی اپنے دماغ اور اپنے اصول کے بُتوں کی پوجا کررہا تھا تو کوئی  کسی مہدی یا ابابیلوں کے لشکر یا معجزات کی آرزو میں فقط دعائیں یا وظیفے پڑھ رہا تھا۔ خوف ان کا خدا تھا۔  بچوں کے مستقبل کا خوف، بیوی  کی ناراضگی کا خوف، قانون، سماج، اور مذہبی جاگیرداروں کا خوف۔ وہ انقلاب تو چاہتے تھے لیکن بغیر جان جوکھم میں ڈالے۔ مصلحت ان کا اسلام تھی اور منافقت ان کی انسانیت۔
          
پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ اس کی موت دم گھٹنے سے ہوئی ہے۔ رشتوں کے یکطرفہ بوجھ کو اٹھاتے اٹھاتے اس کی ریڑھ کی ہڈّی ٹوٹ چکی تھی۔ سماج کے گُھپ اندھیرے میں  تہذیبی اقدار کی لاشوں کے تعفّن سے وہ چکرارہا تھا۔ قدم قدم پر اہلِ مذہب و سیاست کے دوہرے معیارات کی رسیّوں سے وہ ایسے جکڑا گیا تھا کہ اس کے دل اور دماغ کی ایک ایک نس سے خون رِس رہا تھا۔ کاش وہ ان سب سے سمجھوتہ کرلیتا لیکن اس کا ضمیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ضمیر ہی اس کا قاتل تھا۔  

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 731