donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Subia Saleem
Title :
   Teen Kahaniyan - Aik Khayal

تین کہانیاں۔۔۔ایک خیال
 
صوبیہ سلیم’’پاکستان‘‘
 
One of the qualities of literature is universality. The writer of the following article has related three short stories each representing three different eras and culture and expresses in three different languages, Punjabi, Enlish and Urdu but share the same central idea  i,e. the misery of sensitive women boung to obey the traditions but actually desire to fulfil their natural desires..
روٹی کپڑا اورمکان انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ ان جسمانی ضروریات کیلئے ہرشخص تگ ودو میں مصروف ہے۔ان کے ساتھ ساتھ کچھ جذباتی، نفسیاتی، روحانی ضروریات بھی انسان سے وابستہ ہیں، جن کی تکمیل جسمانی ضروریات کی طرح ضروری اور ناگزیرہے۔ ان ضروریات میں سے ایک محبت ہے۔ ہرشخص چاہنااورچاہے جاناچاہتاہے۔ لیکن عورت کیلئے محبت اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ سانس لینا۔ مرد اس کی خواہ تمام ضرورتیں پوری کرے۔ اس کو ہر آسائش مہیا کرے لیکن اگر محبت کاخلاباقی ہے تو ہرچیز بے معنی ہو جاتی ہے اور وہ اس ایک کمی کواپنی جان کاروگ بنالیتی ہے۔ اپنے من پسندشخص کی محبت پانا، اس کو چاہنا اور اس کی محبت میں خود کوفنا کرنا اس کا جنون ہے اور کبھی کبھی تو یہ جنون بدلے میں محبت کا طلب گار بھی ہیں ہوتا۔ مگربدقسمتی یہ ہے کہ محبت کایہ حق نہ معاشرہ سے دیتا ہے اور نہ مذہب وہ معاشرے اور مذہب کے مقررکردہ اصولوں کو مد نظررکھ کر ایک شخص کا انتخاب کرنے پر مجبور ہے اورکبھی کبھی تویہ انتخاب کاحق بھی اسے نہیں ملتا۔ اسی انتخاب میں محبت کاحصہ کہیں نہیں ہے۔
 
مردکیلئے دوسری، تیسری اور چوتھی شادی کا جواز موجودہے مگر عورت کیا کرے۔ اگر وہ شادی کے بعد کسی کی محبت میں گرفتار ہوجائے اگر اس کا روحانی جوڑا اس کی محبت، اسے شادی کے مقدس بندھن میں بندھنے کے بعد ملے تو وہ کیا کرے، اس کاآسان سا جواب تو ہوسکتا ہے کہ وہ آزاد ہے کہ اپنے شوہر کوچھوڑ کر اپنے من پسند مرد کی جانب رغبت کااظہارکرے مگریہ کہنا جتنا آسان ہے، معاشرتی سطح پر اتناہی معیوب اورقابل مذمت عمل بات کسی اخلاقی قدر اور مذہبی اصولوں کی نہیں۔ ایک جذبے اور ضروریات کی ہے جن کی تین زبانوں کے ادیبوں نے عام سطح سے بلند ہوکر محسوس کیا اور یوں تین کہانیاں تخلیق ہو کر اردو، انگریزی اور پنجابی ادب کاحصہ بنیں۔ امرتاپریتم، پنجابی ادب کاایک مانا ہوانام ۔ ان کاناولٹ ، اک سی انیتا، ایک تھی انیتا ٹامس ہارڈی کی کہانیIn iagnative women ایک تخیل پرست عورت، اور مظہرالسلام کا مختصرافسانہ، جاگے سمندر کے کنارے سوئی ہوئی کشتیاں،تینوں کہانیوں کامرکزعورت کی محبت ہے۔ عورت جنس کیلئے محبت سے اہم کچھ نہیں مگر شادی شدہ عورت کے لئے محبت شجرممنوع ہے۔ وہ سماج کے لگے بندھے اصولوں کے سامنے سرتسلیم خم کر نے پر مجبور ہے۔ جہاں رشے اس کادامن پکڑتے ہیں اور عورت کے وجود سے وابستہ قربانی اور داکااعلیٰ معیاراس کے دل کی آواز کودبا دیتا ہے، ایک تھی انیتا، ایک شادی شدہ عورت ہے۔ جو اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ ایک لگی بندھی زندگی گزاررہی ہے۔ اس کاشوہر ایک اوسط ذہنیت کاایک شریف آدمی ہے، جوانیتاکا شوہر، صرف شوہر ہے مگر محبوب نہیں۔ انیتا کی ذات دوحصوں میں بٹی ہوئی ہے ایک طرف وہ عورت ہے جوجسمانی طورپر اپنے شوہر کے ساتھ زندگی بسرکرتی ہے جب کہ اس کی ذات کادوسرا حصہ اس جسم سے کہیں دومحبت کامتلاشی اپنے محبوب کی بانہوں میں جھولتاہے اور ایک دن خوابوں کاشہزادہ حقیقت کا روپ دھار کر ساگر کی صورت میں اس سے آن ملا۔ مگر اس ملاقات سے انیتا کے جسم اور دل کی کشمکش بڑھ گئی۔ حالات ، معاشرہ سماج دھرم ، شوہر کارویہ ہرچیز اس کی محبت کے آرے آنے لگی۔ اس کاراستہ روکتی ذہنی طور پر وہ ہروقت ساگر کے چرنوں میںبیٹھی رہتی جب کہ جسم حقیقت کی دنیا میں چلتاپھرتا۔ اس کشمکش نے انیتا کو بے وفائی کے حساسِ جرم میں مبتلا کردیا اوراس نے ساگر کوخوداپنے ہاتھوں کنوادیا۔ سماج اور دھرم کی جنگ میں انیتا کی محبت ہارگئی، جسم وجاں ایک نہ ہوسکے، قلب وجسم کی کشمکش ایک بارپھر عودآئی وہ واپس حقیقت کی دنیا میں خود کوگھسیٹنے لگی۔ مگر بے وفائی کے احساس جر م نے اسے مجبور کیا کہ وہ اپنے شوہر سے اس کااعتراف کرے۔ وہ خود کومزیداس دوہری زندگی کے عذاب میں مبتلاکرنے کیلئے تیارنہ تھی۔ سواس نے اپنے شوہر کوچھوڑدیا۔ کشمکش توختم ہوئی مگر کھوئی ہوئی محبت کی تلاش ایک بار پھراس کوبھٹکانے لگی۔ ساگرسے دوبارہ ملاقات ہوئی مگر جب جسم وجاں کے ایک ہونے کا وقت آیا تو اخلاقایت اوردھرم نے وصال کاولمحہ چھین لیا۔ جوشاید اس کی زندگی کونئی ڈگر پرلے جاتا مگر وہ لمحہ آیا اور گزرگیا وہ ایک بار پھر محروم محبت رہ گئی۔ ذہنی مطابقت نے اسے اقبال نامی شخص سے قریب کیا گوکہ وہ ساگر تھا اور نہ ہی اس کا محبوب مگر وہ اپنی کھوئی ہوئی محبت کا کفارہ چاہتی تھی۔ وہ محبت پانا چاہتی تھی:
 
ساگر، اپنی زندگی کی راہ میں چلتے چلتے اس جگہ آگئی ہوں جہاں سے کئی پگڈنڈیاں کئی جگہوں کوجاتی ہیں مجھے محسوس ہوتاہے کہ سبھی پگڈنڈیاں تمہاری طرف جاتی ہیں۔
 
انیتاان عورتوں میں سے ہے جن کی زندگی محبت کے دائرے میں گھومتی ہے محبت ہی اس کا سرمایہ حیات اور محبوب اس کی منزل وہ اپنے عقیدہ محبت کے بارے میں سوچتی ہے۔
 
’’میں مذہبی خیال کی عورت نہیں ہوں لیکن سوچتی ہوں کہ ہرانسان کاایک مذہب ہوتاہے۔ ایک عقیدہ ہوتاہے۔ ایک خداہوتاہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ مذہب یہ عقیدہ یہ خدا ہر کسی الگ الگ ہوتاہے اس لئے کسی کا مذہب میر امذہب نہیں ، کسی کا عقیدہ میرا عقیدہ نہیں اور کسی کا خدا میرا خدانہیں ۔ کسی کیلئے محبت مذہب ہوسکتی ہے ،تلاش عقیدہ ہوسکتا ہے اور ایک انسان خدا ہوسکتا ہے اور کسی کامجھے علم نہیں۔ لیکن میرے لئے اسی طرح ہے تم یرے خداہو، تمہاری محبت میرا مذہب ہے اور تمہاری تلاش میر اعقیدہ ایک انسان کی طرح تمہارا وجود ہے اور میرے لئے ایک خدا کی طرح تم مستور بھی ہو۔
 
اس عقیدت مندانہ محبت کاجنون اس کے بیٹے کی صورت میں ظاہر ہوا جو اس کے محبوب کی شکل وصورت سے مشابہہ تھی۔ اس بیٹے نے انیتا کی زندگی کو ایک سمت عطا کردی مگر عشق لاحاصل کی تڑپ کم نہ ہوئی اور آخرکاریہی عشق اس کی موت کاسبب بنا اور یوں ایک عورت کی بھٹکی اور پیاسی زندگی کی کہانی، ایک تھی انیتا سمبندھ ہوئی۔
 
In Imagnative Women تخیل پرست عورت بارڈی کی مختصر کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کہانی کامرکزی کردار بھی ایک عورت ایلاہے وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ روایتی اور خوشحال زندگی گزاررہی ہے مگر اس کی زندگی میں کوئی کمی کوئی تشنگی باقی ہے جو اسے بے چین رکھتی ہے۔ اس شوہر ایک کاروباری ذہنیت کاعام ساآدمی ہے مگر ایلا کا محبو ب نہیں۔ وہ اس کی اچھی ساتھی ہے، اس کی عزت کرتی ہے۔اس کو شوہر کا درجہ دیتی ہے مگر محبت کرنے اور اپنی محبت کے تقاضے سمجھانے سے قاصر ہے وہ شاعری میں اپنے جذبات ڈھالتی اور فرضی مردانہ نام سے اسے چھاپتی ہے۔ اس کے شاعرانہ خیالات شاعر رابرٹ سے بہت مماثلت رکھتے ہیں وہ اس کے بارے میں غیرمعمولی جذبات رکھتی ہے۔ یہ بے نام تعلق اس وقت محبت کے رنگ میں ڈھلتا ہے جب ایلا کو عارضی طور پر اس گھر میںرہنے کاموقع ملتا ہے جہاں رابرٹ رہائش پذیر تھا۔ رابرٹ نے رضا کارانہ طور پر یہ گھر ان کی رہائشی کیلئے خالی کیا تھا۔ یہ جانے بغیر کہ جو عورت اس گھر میں رہنے جارہی ہے وہ اس کی پرستار ہے۔ ایلا کو اس وقتی قیام نے رابرٹ سے قلبی اور ذہنی طور پر اس طرح قریب کردیا کہ محبت نے جنون کارنگ اختیار کرلیا۔ رابرٹ سے تمام ترکوششوں کے باوجود وہ نہ مل پائی اور واپس اپنے شہر آگئی۔ کچھ عرصے بعد اس نے اخبار میں پڑھا کہ قنوطیت کے شکار رابرٹ نے خودکشی کر لی۔ ایلا کوشدید ذہنی صدمہ پہنچا وہ دن رات برابرٹ کی تصویر میں اپنی کھوئی ہوئی محبت تلاشتی، اس تمام عرصے میں جب وہ امید سے تھی وہ رابرٹ کے متعلق ہی سوچتی رہتی۔ جوں جوں اس کی زچگی کاوقت قریب آتا وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوتی جاتی اس نے رابرٹ سے اپنی محبت کااعتراف اپنے شوہر سے کیا۔ اس نے قبول کیا کہ وہ ذہنی بے وفائی کی مرتکب ہوئی ہے۔ اور رابرٹ کے ہم شکل بیٹے کو جنم دیتے ہوئی اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئی رابرٹ یقینااس کا کوئی اپنا تھا اس کے شوہرسے زیادہ اپنا وہ سوچتی ہے۔
 
She thought how wicked she was. a woman having a husband and three children to let her mind stray to a stranger in this not a strangerl She knew his thoughts and feelings as well as she knew her own.
 
ایک تھی انیتا اور ایک تخیل پرست عورت درحقیقت ایسی عورتوں کی کہانی ہے جن کی زندگی اور محبت کے متعلق رویہ رسمی تصور سے بہت مختلف ہے جنہیں بظاہر ایک اچھی خوشحالی ازدواجی زندگی گزارنے کاموقع ملا۔ مگر جن کی روح پیاسی تھی مگر ان کے شوہر ان کی جذباتی اور روحانی ضروریات کو سمجھنے سے قاصرتھے اور شاید اگر وہ جان بھی لیتے تو سمجھ نہ پاتے اور سمجھ سکتے بھی تو شاید ان کی نظر میں اس کی وقعت نہ ہوتی۔ محبت کی ایک کہانی کا ایک ایساہی خیال مظہرالسلام کے ایک افسانے جاگتے سمندر کے کنارے سوئی ہوئی کشتیاں ،میں ملتاہے۔ اس کہانی میں دوبوڑھی عورتیں محفل سے الگ تھلگ بیٹھی ایک دوسرے کو اپنی زندگی کی کہانی سناتی ہیں دونوں کی زندگیوں میں فرق صرف یہ ہے کہ ایک کی زندگی میں محبت کا کوئی رنگ نہیں، جبکہ دوسری عمر کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود اس محبت میں ڈوبی ہوئی ہے جو اسے کئی برس پہلے ہوئی تھی۔ مگر شادی شدہ زندگی بچوں اور عمر کی دیوار نے اسے اس محبت کے اظہار کی اجازت نہ دی۔
 
’’مگر آدھی زندگی کے بعد جب وہ شخص مجھ سے ملا جو عمر میں مجھ سے چھوٹاتھا تو مجھ محبت کااحساس ہوا۔ وہ ساری رات میرے دل کی سنسان گلیوں میں صدا لگا تارہتا تھا جاگتے رہو۔ اور میں یہ سوچ کر کہ لوگ کیا کہیں کے سوتی رہتی تھی۔ اس وقت میری آدھی سے زیادہ زندگی گزرگئی تھی میں ڈرگئی مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اچانک میرے ساتھ کیا ہوگیا ہے میں نے سوچا لوگ کیا کہیں گے یہ کوئی عمر ہے میں نے ۴۵سال کی عمر میں پہلا خوبصورت خواب دیکھا تھا۔ مگر مجھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ زندگی کو پھر سے کیسے شروع کروں۔
 
اب خود مجھے احساس ہوتاہے کہ میں نے بہت کچھ کھودیا۔ لوگوں کے خوف سے باتوں کے ڈرسے وہ مجھے سمندر کی طرح بلاتارہا مگر میں ڈری اور سہمی ہوئی کسی کشتی کی طرح کنارے سے لگتی جارہی تھی، وہ مجھے آوازیں دیتا رہا۔ میں لوگوں کی باتوں کے خوف سے اٹھارہ سال کا موڑ مڑ کر پھر ۴۵سال کی سڑک پر آگئی جہاں وہ بہت دور رہ گیا۔
 
ان تینوں کہانیوں میں زمانے ، معاشرے ور تہذیب وتمدن کا فرق نمایاں ہے انگریزی کی کہانی ویلز کی مثالی دنیا سے اخذکی گئی۔ کئی برس پہلے کی بات ہے جہاں عورت اپنے نام کے ساتھ اظہار کی کسی بھی صورت کو اپنا نے سے قاصر تھی خواہ وہ شاعری ہو یا نثر۔ ایک تھی انتیا کا زمانہ پچھلی صدی کا زمانہ جہاں ہندو معاشرے کے اپنے قواعد واصول ہیں۔ عورت کی جگہ زمین پر اور مرد کا مقام عرش پر ہے۔ مظہر السلام کاافسانہ دور حاضر کا شاہکار ہے جہاں سائنس اور تعلیم نے دنیا کی کایاپلٹ دی۔ مگر ان تمام کہانیوں میں زمانے اور معاشرے کے فرق کے باوجود عورت کا وجود اس کی محبت، اس کی حدودایک ہی ہیں، وہ لوگوں زمانے اور دھرم کے ہاتھوں بے بس ہے اس کیلئے جیون ساتھی زندگی کے انتخاب میں اولین ترجیحی محبت ہے۔ مگر کہیں بھی اس بنیاد پر اس کو انتخاب کا حق نہیں ملا۔ شادی شدہ عورت کے جذبات میں بھٹکنے اور بہکنے کی کوئی گنجائش نہیں تین بڑے ادیبوں نے اس حساس موضوع پر نہایت خوبصورتی سے اظہار خیال کیا۔ تینوں کہانیوں کومختصر اور طویل افسانے ناولٹ کی شکل میں لکھاگیا ہے۔ جس سے موضوع کی اہمیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے کہ تینوں ادیبوں کے نزدیک کردار نگاری، جزئیات نگاری وغیرہ کی اہمیت نہ تھی بلکہ اس موضوع کی پیشکش تھی کہ جس کے بارے میں لکھا اور سوچا نہ گیا۔ عام آدمی یا عام ادیب ایسی باتوں کو موضوع نہیں بناتے اور یہی فرق ان ادیبوں کے حساس ذہنوں کاغمازہے۔ ان تینوں ادیبوں میں ایک عورت اور دومرد ہیں سب نے یکساں انداز میں سوچا اور عورت کو موضوع بنایا کہ ہرعورت روایتی انداز کی زندگی گزارنے کاحوصلہ انہیں رکھتی ان کہانیوں میں ایسی ہی عورتوں کومرکز بنایاگیاہے جواپنے دل کی آوازسنتی ہیں مگر معاشرے کے طے کردہ اصول ان کو احساس جرم میں مبتلاکرتے ہیں وہ ان قواعدپرسمجھوتہ تو کرلیتی ہیں مگر خود کوفنکاکرلیتی ہیں یہ کہانیاں عورت کے ان جذبات کی عکاسی کرتی ہیں جن کاذکر بھی ممنوع ہے اور عورت کے دل کی آواز کوسناتی ہیں جس کو خود عورت نے بھی دیا ہے۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 939