کانگریس کب کرے گی خود احتسابی
عبداللہ ناصر
گذشتہ دنوں کانگریس کی سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر جینتی نٹراجن نے پارٹی سے استعفا دیتے ہوئے پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی پر کئی الزام لگائے ۔ ان کا الزام ہے کہ راہل گاندھی کے سفارشی خطوں پر انہوں نے وزیر ماحولیات کے طورپر کئی پروجیکٹوں کو منظوری نہیں دی تھی لیکن صنعت کاروں کی تنظیم Ficciکے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے منظوری نہ ملنے یا منظوری میں تاخیر کا سارا ٹھیکرا ان کے سر پرپھوڑدیا ۔ یہی نہیں انہوں نے جب اس سلسلہ میں ان سے ملاقات کرکے اپنا موقف پیش کرنا چاہا تو انہیں ملاقات کا بھی موقع نہیں دیا گیا ۔ جینتی کی یہ بغاوت بی جے پی اور مرکزی حکومت دونوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی ۔ فوراً ہی مرکزی وزیر مالیات ارن جیٹلی نے پریس کانفرنس کرکے سابق منموہن حکومت پر ہندوستان کی ترقی صنعت کاری اور سر مایہ کاری سے کھلواڑ کرنے کا الزام جڑ دیا جبکہ وزیر ماحولیات پر کاش جاؤڈیکر نے کہا کہ جینتی نٹراجن کے زمانہ میں جن پروجیکٹوں کو منظوری نہیں دی گئی تھی ان سب کی از سر نو جانچ ہوگی ۔ اطلاعات کے مطابق ان میں وزیر اعظم نریندر مودی کے منظور نظر و صنعت کار اڈانی کے بھی کئی پروجیکٹ شامل ہیں یعنی اب ان کی منظوری کا راستہ کھولا جارہا ہے ۔
جینتی نٹراجن کی شکایت کے دو پہلو ہیں جہاںتک پروجیکٹوں کی منظوری وغیرہ کی بات ہے تو ممبر پارلیمنٹ ہی نہیں ایک عام شہری کی حیثیت سے بھی راہل گاندھی کوکسی بھی وزارت کو کسی بھی مسئلہ پر اپنی سفارشات شکایات اور مشورے بھیجنے کا حق ہے ۔ اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا متعلقہ وزارت اور وزیر کے فیصلے پر منحصر کرتاہے ۔ جینتی نے اڈیشہ میں ویدانت کے ایک پروجیکٹ کو منظوری نہ دینے کا جو ذکر کیاہے اس میں ہزاروں قبائلیوں کے اجڑنے اور ماحولیاتی بربادی کاخطرہ تھا راہل گاندھی ان سے ملنے بھی گئے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ وہ دہلی میں ان کے سپاہی کے طور پر کام کریں گے اور انہوں نے یہی کیا بھی اب کار پوریٹ گھرانے اور ان سے وابستہ چینل والے ناراض ہیں تو اس میں راہل کا کوئی قصور نہیں ماحولیات کاتحفظ غریبوں کے مفاد کی لڑائی اور ان کے اجڑنے وغیرہ کے خطروں کو کوئی بھی انسان کیسے نظراندازکر سکتاہے۔
جینتی نٹراجن کی باتوں سے صاف ظاہرتھاکہ وہ بی جے پی سے قربت چاہتی ہیں شائد اس میں شامل بھی ہوجائیں کیونکہ وہ پارٹی کے صدر امت شاہ سے پہلے ہی ملاقات کر چکی تھیں انہوںنے یہ کہہ کر بلی تھیلے سے باہر کردی کہ انہوں نے نہ چاہتے ہوئے مودی پر کانگریس کے ترجمان کے طور پر حملے کئے تھے۔ یہ صورت حال ہندوستانی سیاست کے بہت ہی شرمناک چہرے کو اجاگر کرتی ہے اور وہ ہے خود غرضی اور موقع پرستی ۔ جینتی نٹراجن سے پہلے ایک اورمرکزی وزیر کرشنا تیرتھ نے بھی پارٹی سے استعفا دیا تھا اور انہوںنے بھی کئی الزام لگائے تھے ۔ دونوں خواتین کو کانگریس سے بہت کچھ ملالیکن آج جب پارٹی کے برے دن آئے ہیں تو وہ اس سے کنارہ کشی کررہی ہیں ۔ انکی یہ شکایت درست ہے کہ کانگریس اعلا کمان خصوصاً سونیا گاندھی اور راہل گاندھی وغیرہ سے ملاقات کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے اورپارٹی میں اٹھ کھڑے ہونے کاجذبہ نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو پارٹی کے کارکنوں کی اس شکایت پر سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی ورنہ ابھی اور نہ جانے کتنے سینئر اور جو نیئر لیڈران پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔دونوں کو یہ احساس کرنا ہوگاکہ ہرالیکشن میں شکست کے بعد نہ صرف ان کی مقبولیت کم ہوتی جارہی ہے بلکہ پارٹی پر ان کی گرفت بھی کمزور ہوتی جارہی ہے کیونکہ کوئی بھی فوج صرف شکست دلانے والے کمانڈر کو اپنے اوپر مسلط نہیں رکھتی ۔ کسی بھی پارٹی کو انتخابی میدان میں ہمیشہ کامیابی ہی نہیں ملتی شکست اور فتح جمہوری سکے کے دو پہلو ہیں لیکن شکست کے بعد اٹھ کھڑے ہونے اور کھوئی ہوئی زمین واپس لینے کی جدو جہد ہی لیڈر کی صلاحیت کا امتحان ہے اور گذشتہ ایک سال میں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے اندازہ ہو کہ وہ پارٹی میں نئی جان پھونکنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اب گھسے پٹے راستہ پر چل کر کانگریس منزل مقصود نہیں پاسکتی نئی منزل ہے تو راستے بھی نئے ہونا چاہئیں۔ مودی حکومت کی خامیاں اور کمزوریاں اسے اقتدار دلادیں گی یہ سوچنا حقیقت سے منھ چرانے کے مترادف ہے کیونکہ دوسری پارٹیاں اس کا فائدہ اٹھانے کی جدو جہد شروع کر چکی ہیں۔
کانگریس کو اس سے قبل حکومتوں کی کمزوریوں اور غلطیوں کا فائدہ بھی ملا ہے لیکن اس نے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کا بھی مظاہرہ کیا تھا چاہے 1977میں اندرا جی اور سنجے گاندھی کی قیادت میں رہا ہو یا2004میں سونیا جی کی قیادت میں لیکن اس بار مقابلہ مودی جیسے لیڈر جوش اور ولولہ سے بھری ہوئی بی جے پی ہندو تو کے ابال کارپوریٹ گھرانوں اور ان کی میڈیا سے ہے دوسری جانب کانگریس لیڈر شپ میں بھی جوش اور پلٹ کر وار کرنے کے جذبہ کا فقدان بالکل ظاہر ہے ایک مردنی سے چھائی ہوئی ہے۔ راہل گاندھی اور ان کے سپہ سالاروں کو بدلتے ہوئے ہندوستان اور اس کے نوجوانوں کے جذبات اور احساسات کا ادراک کرنا پڑے گا اب خاندانی وفاداری اور ماضی میں زندہ رہنے کا دور ختم ہوچکا ہے کانگریس کو مودی اور کیجری وال جیسے شاطر سیاستدانوں سے نپٹنے کی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی کیونکہ یہی دونوں اس کی راہ کا سب سے بڑا پتھر ہیں۔(یو این این
*********************
|