donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abid Anwar
Title :
   Awami Masayel Uthana Laqanuniyat Nahi Jamhuri Haq Hai


عوامی مسائل اٹھانا لاقانونیت نہیں جمہوری حق ہے

 

تیشہ فکر عابد انور


ہندوستان میں جس طرح جمہوریت کی عمر بڑھ رہی ہے کچھ مخصوص طبقے کے ساتھ ناانصافی میں اضافہ ہورہاہے۔ ملک آج 65ویں یوم جمہوریہ منا رہاہے ۔ ملک کی شان و شوکت، جاہ و حشمت، قوت و طاقت، وقار و عظمت اور جنگی صلاحیت کامظاہرہ انڈیا گیٹ کے راج پتھ پر کیا گیا۔ جس میںیہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان نے کتنی ترقی کی ہے۔ درون ہند تیار جنگی طیارہ تیجس لوگوں کی توجہ کامرکز رہا۔ وہیں دیگر میزائل کے ساتھ ہندوستانی ضرب کی صلاحیت کااظہار کیاگیا ۔ لیکن کیا اسی کانام جمہوریت ہے ۔جمہوریت کیا چیز ہے۔ جمہوریت کے معنی عوامی حکومت کے ہیں ریاست اور سماج کی سیاسی تنظیم کی ایک شکل جس کے تحت قانونی طور پر اقتدار اعلیٰ اور ادنیٰ عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور قانون کی نظر میں تمام شہری مساوی اور برابر ہو تے ہیں ،انہیں ریاست کے معاملات میں حصہ لینے اور فیصلہ کرنے سمیت تمام سیاسی ،سماجی ، معاشرتی حقوق اور انتخابات میں حصہ لینے کی آزادیاں حاصل ہوتی ہیں اور تمام شہریوں کے مذاہب محفوظ ہوتے ہیں اس سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جا تا ہے ان کی جان ومال کی حفاظت کی ضمانت دی جاتی ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے ۔حقیقی جمہوریت سوشلسٹ جمہوریت ہے ، سوشلسٹ ملکوں کے آئین میں افراد کو بھر پور سیاسی حقوق ، اور آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہے تقریر و تحریر کی آزادی ، اکٹھا ہوکر ریلی اور مظاہرے کرنے کی اجازت ، اپنے مطالبات حکومت کے سامنے پیش کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے ، نیزمذہبی آزادی ، فرد اور گھر کا احترام حکومت کا فریضہ ہوتا ہے ، سوشلسٹ جمہوریت شہریوں کے لئے کام ، آرام ،تفریح ، تعلیم گاہوں، مدرسوں اور کالجوں کا اہتمام کرتی ہے،بوڑھے کو پینشن ، معذوروں کی دیکھ بھال کا نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ اس کی ضمانت بھی دیتی ہے ، اس کے ساتھ سوشلسٹ جمہوریت ریاست، سیاسی آزادیوں کو محنت کش عوام کے مفادات کے مغائر کے استعمال پر روک لگا تی ہے ، او رپابندی عائد کرنے والا قانون منظور کرتی ہے۔لیکن ہندوستانی جموریت کا جائزہ لیا جائے توایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت محض اکثریتی طبقہ کے حکومت کرنے کانام ہے۔ جمہوریت اس چیز کا نام ہے جس پا س پیسہ، طاقت، عہدہ اورقوت بازو ہے وہی سب سے بڑا ہے۔ اس کے سات خون معاف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کبھی حقیقی رنگ و روپ نہیں لے سکی۔ہندوستان کی موجودہ طرز جمہوریت جو سب سے زیادہ مہلک اور نقصاندہ تصور کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی بنیادطبقاتی اور ذاتی احساسات پر ہے ۔ملک میں ایک سے زائدسیکڑوں پارٹیاں ہیں اور ہر پارٹی ایک خاص طبقے کا ترجمان ہوتی ہے اور سبھوں کے مفادات نہ صرف جدا گانہ ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے متصادم بھی ۔ ہر ایک پارٹی کا بنیادی اصول ‘دوسری پارٹی کے بنیادی اصول سے ہٹ کر الگ الگ ہوتے ہیں۔ ایک پارٹی دوسری پارٹی کے مفاد کا کھلے عام مخالفت کرتی ہے چاہے وہ مفاد صحیح ہویا غلط۔ عوامی مفاد ذاتی مفاد کے محدود دائرے میں سمٹ کر رہ جاتاہے ،آج ہر پارٹی دوسری پارٹی سے محاذ آرائی کرتی ہے اوراپنے مفاد کے لئے عوامی مفادکا قتل کرتی ہے ۔ہندوستان کی آزادی کے بعد جوجمہوریت کا نظام قائم ہوا وہ کبھی بھی حقیقی معنوں میں عوامی نہ بن سکا اور نہ کبھی عوامی رائے کا صحیح استعمال کیاگیا۔ جلد ہی سرمایہ داروں میں منتقل ہوگیا اور سرمایہ دار اپنی طاقت وقوت کے بل بوتے پراس نظام کا اغوا کرکے عوام کے نمائندہ بن گئے‘ الیکشن میں جس طرح دھاندلیاں ہوتی رہی ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔جب وہ منتخب ہوکر آتے ہیں ان کی ساری توجہ عوامی مفادات کی تکمیل اور عوامی مسائل کرنے کے بجائے سرمایہ داروں کی حفاظت پر صرف ہوتی ہے۔ اس کااندازہ کارپوریٹ سیکٹروں کو دی جانے والی سبسڈی سے ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق قومی ترقی پسند اتحاد حکومت اپنی میعاد کے دوران سرمایہ داروں کو سامان کوکم قیمت پرفروخت کرنے اور دیگرچیزوں کیلئے تقریباً پچاس لاکھ کروڑ روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔


اس مضمون میںیو م جمہوریہ کے موقع پر صدر پرنب مکھرجی کی تقریر اور یوم جمہوریہ سے دودن قبل کشمیرمیں فرضی انکاؤنٹر میں فوج کے اپنے اہلکاروں کو کلین چٹ دینے پر بات کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کے تعلق سے فوجی حکام نے یہ بات بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تحقیقات کروائی اور کوئی ثبوت نہیں ملا۔ایک بار جب فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ سے کشمیر میں متعدد خواتین کی آبروریزی اور فرضی تصادم میں کشمیری نوجوانوں کے قتل کے سلسلے سوال کیا گیا تھا انہوں نے انتہائی ڈھتائی سے کہہ دیا تھاکہ فوج کی انکوائری میں یہ الزامات غلط پائے گئے تھے۔ ظاہرسی بات ہے کہ فوج جب فوج کے خلاف انکوائری کرے گی تو نتیجہ کیا آئے گا یہ بتانے ضرورت نہیں ہے۔ سیکڑوں نتیجے سامنے ہیں۔ پتھری بل کے سلسلے میں بھی یہی ہوا۔ جس کیس میں سی بی آئی نے فوجیوں کو ملزم گرداناتھا فوج نے انکوائری کرکے اپنے اہلکاروں کو صاف بچالیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق مارچ 2000 میں امریکہ کے صدر بل کلنٹن کے دورہ دہلی کے دوران چھٹی سنگھ پورہ میں 35 سکھوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے پانچ دن بعد فوج نے پتھری بل میں پانچ افراد کو ایک انکاؤنٹر میں ہلاک کر دیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ سب دہشت گرد تھے اور یہی پانچوں افراد سکھوں کے قتل عام میں ملوث تھے۔مقامی لوگوں کے احتجاج اور مظاہروں کے بعد اس معاملے کی تفتیش کی گئی تھی اور پانچوں لاشوں کا جب دوبارہ جائزہ لیا گیا تو وہ سب مقامی باشندے نکلے تھے جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ 2003 میں اس واقعے کو سی بی آئی کے حوالے کیاگیا تھا۔سی بی آئی نے اس معاملے کی گہرائی سے تفتیش کرنے کے بعد سیون راشٹریہ رائفلز کے بریگیڈیئر اجے سکسینہ، لیفٹیننٹ کرنل برھیندر پرتاپ سنگھ ، میجر سوربھ شرما، میجر امیت سکینہ اور صوبیدار ادریس خان کے خلاف فرضی انکاؤنٹر میں عام شہریوں کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔جب مقامی باشندوں نے ایک ہفتے بعد اس واقعے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تو پولیس نے مظاہرین پر گولی چلا کر نو مظاہرین کو وہیں ہلاک کر دیا تھا۔ درجنوں افراد گولی لگنے سے ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے تھے۔ زبردست عوامی دباؤ کے نتیجے میں حکومت کو پانچوں مقتول باشندوں کی لاشیں قبر سے نکالنی پڑیں اور ان کی شناخت کے لیے ان کے ڈی این کے نمونے لیے گئے۔ لیکن شناخت کے عمل کو سبوتاژکرنے کے لیے ڈی این اے کے نمونوں کو بھی سرکاری ڈاکٹروں نے تبدیل کردیا۔ ملزموں کے خلاف سرینگر میں جوڈیشیل مجسریٹ کی عدالت میں میں مقدمہ شروع ہوا لیکن 2012 میں سپریم کورٹ کے ایک حکم کے تحت فوج نے اس معاملے کو جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت سے لے لیا اور خود کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی اور اب ایک برس بعد یہ بتایا گیا ہے کہ سی بی آئی نے جو ثبوت جمع کیے تھے ان کی بنیاد پر ملزموں کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔سی بی آئی نے ملزموں کے خلاف جو فرد جرم داخل کی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ سکھوں کی ہلاکت کے بعد اس خطے میں تعینات فوجی یونٹ پر مجرموں کو پکڑنے کے لیے زبردست دباؤ تھا جس کے نتیجے میں ملزموں نے پتھری بل کے فرضی انکاؤنٹر کا ارتکاب کیا تھا۔پہلی بار فوجیوں کے ہاتھوں حقوق انسانی کی سنگین پامالیوں کے معاملے میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمے کی سماعت رکھی گئی تھی ۔ فوج نے کارروائی سے استثنیٰ کے ا سپیشل پاور ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر سویلین عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ’’ قومی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت حکومت ہند حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی تیز رفتار، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش کرانے کی پابند ہے۔حکام حقوق انسانی کی سنگین پامالیوں کا ارتکاب کرنے والے فوجی اہلکاروں کے خلاف فوج کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کرنے کا نوٹس لے‘‘۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے فوج کے فیصلے پر ’شدید مایوسی‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس طرح کا کیس نہیں ہے جسے بند کیا جا سکے۔’اس معاملے کی تفتیش مرکزی تفتیشی بیورو نے کی تھی۔ فوج کس طرح ان کی تفتیش کو نظر انداز کر سکتی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ وہ محکمہ قانون اور ایڈوکیٹ جنرل سے صلاح و مشورے کریں گے کہ اس سلسلے میں کیا قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں اسپیشل پاور ایکٹ کے تحت فوج کو لا محدود اختیارات حاصل ہیں۔


صدر پرنپ مکھرجی نے یوم جمہوریہ کے موقع پر اپنے خطاب میں ملک میں موجودہ صورت حال پر روشنی ڈالی۔ کئی پارٹیوں کو اپنے خطاب میں نشانہ بنایا۔آئندہ پیش ہونے والی صورت حال سے روشناس کرایا۔ صدر نے اپنے خطاب میں کہاکہ ’’دنیا کے ایک ایسے ہنگامہ خیزخطے میں رہتے ہیں جہاں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران عدم استحکام پیدا کرنے والے عناصر میں اضافہ ہوا ہے ۔ فرقہ پرست طاقتیں اوردہشت گرداب بھی ہمارے عوام کے مابین خیرسگالی اورہمارے ملک کی سا لمیت کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ہماری سیکورٹی اور مسلح افواج نے عوام کی مضبوط تائید سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اندر کے دشمنوں کو بھی اسی سختی سے کچل سکتی ہیں جیسے وہ ہماری سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں... ہندوستان کی حقیقی قوت پنہا ں ہے اس کی جمہوریت میں،اس کے قول و قرار کی جرأت میں ، اس کے آئین کی وسعت میں اور اس کے عوام کی حب الوطنی میں۔ 1950میں ہماری جمہوریت کا جنم ہوا تھا مجھے امید ہے کہ2014 اس کے احیاء نو کا سال ہوگا۔...ہندوستان صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں ہے ،یہ نظریات ،فلسفہ ، دانشوری ،صنعتی ،عبقریت ،دستکاری ،اختراعات اور تجربات کا ایک تاریخ بھی ہے۔...سال 2014 ہماری تاریخ میں ایک آزمائش کا لمحہ ہے۔ ہمیں قومی مقاصد اورحب الوطنی کے اس جذبے کو پھر سے بیدار کرنے کی ضرورت ہے جو ملک کو جمودسے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرسکے۔نوجوان کو روزگار دیں ، جو گاوں اور شہروں کو 21 ویں صدی کی سطح پر لے آئیں گے۔ انہیں ایک موقع دیں اور آپ اس ہندوستان کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے جس کی تعمیر کرنے کے صلاحیت ان نوجوانوں میں ہے۔...کچھ منفی سوچ رکھنے والے جمہوریت کے تئیں ہماری وابستگی کا بھلے ہی مضحکہ اڑاتے ہیں لیکن عوام نے کبھی بھی ہماری جمہوریت سے وشواس گھات نہیں کیا ہے ۔ اگر کہیں کوئی خامی نظر آتی ہے تو یہ ان کی حرکت ہے جنہوں نے اقتدار کو اپنی حرص کی تکمیل کا ذریعہ بنالیا ہے۔جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے جمہوری اداروں کو خود غرض اور نااہل لوگ کمزور کررہے ہیں تو ہمیں غصہ آتا ہے اور یہ فطری ہے ۔ جب ہم کبھی سڑکوں پر مایوسی کی آوازیں سنتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کاجو مقدس اعتماد تھا اسے توڑا جا رہاہے۔ ...بدعنوانی ایک ایسا کینسر ہے جو جمہوریت کو کمزور کرتا ہے اور ہمارے مملکت کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا ہے۔ اگر ہندوستان کے عوام برہم ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ انہیں بدعنوانی اور قومی وسائل کی بربادی نظر آرہی ہے۔ اگر حکومتیں ان خامیوں کو دور نہیں کرتیں تو رائے دہندگان حکومتوں کو اکھاڑ پھینکیں گے...۔ حکومت کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے۔ایک ایسی نراجیت جو محض عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کیلئے ہو ‘ حکمرانی کا متبادل نہیں بن سکتی۔جھوٹے وعدوں کا بھرم بہت جلد کھل جاتا ہے، جس سے اشتعال پیدا ہوتا ہے اور ا س کا ایک ہی نشانہ ہوتا ہے ۔


صدر جموریہ نے لاقانونیت کی بھی بات کی۔ ہم صدر جمہوریہ کی اسی قول پر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کا اشارہ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کے دھرنے کی طرف ہوسکتا ہے۔ اروند کیجریوال نے ایک عوامی موضوع اور دہلی سے پولیس راج ختم کرنے کیلئے مجبوری میں یہ طریقہ اپنایا۔ اگر پولیس والوں پر یہ کارروائی کی گئی ہوتی تو یہ نوبت نہیں آتی۔ جہاں تک لاقانونیت کی بات ہے کہ لاقانونیت کا بول بالا کب نہیں رہاہے۔مظفرنگر، میرٹھ، ملیانہ، مرادآباد، فاربس گنج، گوپال گڑھ، فیض آباد، رانچی، بھاگلپور، جمشیدپور، ممبئی، گجرات اور دیگر مقامات پر برپا کئے جانے فسادات اوران میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیااور قاتلوں کو سزا نہیں دی گئی یہ لاقانونیت نہیں تھی۔ 1992میں سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے بابری مسجد کی حفاظت کی یقین دہانی کرنے والی پارٹی کے وزیراعلی کو صرف کچھ گھنٹے کی علامتی سزا ۔یہ لاقانویت نہیں تھی ؟۔ کیا اس کے جرم میں اس پارٹی کی منظوری ختم نہیں کی جانی چاہئے تھی؟۔ ہندوشدت پسند تنظیم جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں اور جس پر چاہتے ہیں حملہ کردیتے ہیں اور یہ سب پولیس کی نگرانی میں ہوتا ہے لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی ہے کیا یہ لاقانونیت نہیں ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد پورے ملک کو آگ کے حوالے کرنے اور فسادات برپا کرنے والے کیا لاقانویت پیدا کرنے والے نہیں تھے۔ کسی عدالت نے ان کے خلاف اب تک کون سی کارروائی کی۔ گجرات قتل کا ہیرو عام نریندر مودی کوکس طرح وہاں کے افسران لیکر عدلیہ تک کلین چٹ دینے کی کوشش کی اسے کیا کہیں گے۔ ان کے خلاف گواہی دینے والے تمام افسران اور ذکیہ جعفری کی شہادت کو نظر انداز کرتے ہوئے ایس آئی ٹی کے افسران جس طرح کلین چٹ دی ہے یہ لاقانونیت نہیں ہے۔ ہندوستان میں جب کوئی قانون کی بات کرتا ہے تو ہنسی آتی ہے۔ قانون کے نفاذ کیلئے صرف مسلمان ہیں۔ کوئی مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزام میں پکڑا جاتاہے تو اس کی پیروی کرنے والوں کوجان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور کھلم کھلا کہتا ہے کہ ہم فلاں فلاں کو مارا تم کو بھی مار ڈالیں گے لیکن عدلیہ، وزارت داخلہ اور پولیس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کیا اسی کا نام جمہوریت ہے۔ بار کونسل ان کے مقدمے کی پیروی نہیں کرنے دیتی۔ کیا یہ لاقانونیت نہیں ہے۔ مسلم نوجوانوں کی پیروی کرنے والے وکیلوں کو ہندو وکیل پولیس کے سامنے زدوکوب کرتے ہیں یہ کونسا قانون ہے۔ حصول انصاف کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنا یہ لاقانونیت نہیں ہے اس میں مرکزی حکومت سمیت تمام ریاستی حکومتیں شانہ بشانہ چل رہی ہیں۔ داؤد ابراہیم کو پکڑنے حد سے زیادہ چاہت اورچھوٹا راجن سمیت تمام ہندو غنڈوں اور دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرنا یہ قانونی امتیاز نہیں ہے؟۔ پھربھی ہم انصاف پسند ملک ہونے دعوی کرتے ہیں۔ اروند کیجریوال وزیر اعلی رہتے ہوئے عوام کے حق میں سخت سردی بارش میں رات میں روڈ پر سوکر ایک مثال قائم کی ہے جس پر کانگریس اور بی جے پی بوکھلائی ہوئی ہے۔ آج ہر جگہ قانون کی بات ہورہی ہے۔ پہلے بی جے پی کو قانون کا احترام سیکھنا ہوگا اس کے بعد ہی دوسروں کو سبق دینے کا حقدار ہوگی۔ جمہوریت، قانون کا مذاق اڑانا بی جے پی کی شرشت میں شامل ہیں۔ سماج تفرقہ پھیلانا ان کی تاریخ رہی ہے پھر یونٹی کی بات کرتی ہے۔یہی ہے ہندوستان کی طرز جمہوریت۔ہندوستان میں جمہوریت کا مطلب کمزوروں ،مسلمانوں اور دلتوں کا حق مارنا،ستانا،قتل کرنا، ان کی خواتین کی عزت تار تار کرنااور ان کی جائداد پر قبضہ کرنا سمجھا جاتاہے۔


ڈی۔64، فلیٹ نمبر10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔25


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 676